میانوالی و دیگر جگہوں پر آباد یہ ایک قبیلہ ہے جو دراصل نیازی پٹھانوں کی ایک شاخ ہے مگر جداگانہ شناخت رکھتا ہے.. قدیمی شجرہ کے مطابق لودھی کی تین شاخیں تھیں اول نیازی، دوم دوتانی اور سوم سیانڑی نیازی کی آگے تین شاخیں تھی اول جمال دوسرا باہی تیسرا خاکو.. سنبل قبیلہ کا تعلق اسی جمال شاخ سے ہے.. تاریخ میں دیکھا جائے تو ہمارے خیال میں نیازیوں میں سے یہ اولین قبیلہ ہے جو ہندوستان میں داخل ہوا جس کے بعد یا پھر ساتھ عیسٰی خیل نیازی بھی آئے. ماضی کی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ بہت طاقتور اور خود سر قبیلہ تھا جس نے شاہان وقت سے ٹکر لی. جس کی وجہ سے تاریخ تو رہ گئی لیکن وجود بکھر کر گیا۔ موجودہ زمانے میں اپنا مقام بھی کھو چکے ہیں۔ سنبلوں کا سب سے پرانا ذکر اس واقعہ سے ملتا ہے جس کو افسانہ شاہان کے مصنف یحییٰ کبیر حزیانی نے لکھا ہے جس کے مطابق سنبلوں نے بہلول لودھی کے باپ کو دشمنی کے سبب قتل کیا. جس کے سبب بہلول لودھی کے اعصاب پر نیازی ایسے سوار ہوئے کہ نہ تو اس نے کبھی کسی نیازی سردار کو بڑا عہدہ دیا بلکہ اپنے بیٹے سکندر لودھی کو بھی وصیت کی کہ نیازیوں سے محتاط رہنا. ہاں البتہ سرہنگ خیلوں نے لودھی کے ساتھ ہوشیاری دکھا کر اعلیٰ مراتب پائے. جب بابر بادشاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اس کا چونکہ درہ تنگ کے پاس عیسٰی خیل نیازیوں سے ہی مڈبھیڑ ہو گئی اور نیچے جنوب کی طرف چلا گیا۔ تبھی اس نے فقط یی لکھا کہ یہاں پر عیسٰی خیل اور دیگر نیازی قبائل موجود ہیں۔ ان دیگر سے مراد دریائے سندھ کے طرف آباد سنبل ہی تھے جو دھنکوٹ (کالاباغ) پر قابض تھے۔ اس کے بعد ہمیں تاریخ میں یہ جری قبیلہ پشتونوں کی تاریخ میں ایسا روشن باب رقم کرتے نظر آتا ہے جو پشتون تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا. واقعہ پر تفصیلی آرٹیکل فیس بک اور ویب گاہ پر شائع ہو چکا ہے۔ البتہ مختصر روداد یہ ہے کہ شیر شاہ سوری کے ایک ہندی نژاد بھتیجے مبارز خان نے سنبلوں سے اپنے چچا کی بادشاہت کے زعم میں مبتلا ہو زور زبردستی رشتہ لینا چاہا جس پر سنبلوں نے مزاحمت کی جس پر مبارز خان نے سنبل نیازیوں کے جرگہ کو نہتے سمجھ کر قتل کرنا چاہا لیکن سنبل نیازیوں نے اس کو باوجود نہتے اسلحہ سے لیس مبارز خان اور اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا جس پر شیر شاہ سوری پریشان ہو گیا اور گورنر پنجاب و سندھ ہیبت خان نیازی کو حکم دیا کہ اگر نیازی یونہی سوریوں کو چن چن کر مارتے رہے تو سوری دنیا سے ختم ہوجائیں گے اپنے قبیلہ والوں کو کچھ سمجھاؤ. لیکن ہیبت خان نیازی جو ایک جابر اور سخت گیر طبیعت کا مالک تھا اس نے سنبل نیازیوں کو دھوکا سے بلا کر قتل کروا دیا جن کی تعداد مؤرخین کے مطابق نو سو افراد تھی. جب شیر شاہ سوری کو اس مرگ انبوہ کا پتہ چلا تو اس نے ہیبت خان نیازی کو برا بھلا کہا کہ یہ ظالم تو نے کیا کر ڈالا. باقی ماندہ سنبل نیازی وہاں سے نکل کر اپنے علاقے مکھڈ کی طرف نکل گئے۔ وقت گذر گیا ان سنبلوں نے ہمایوں کے ساتھ ملکر سوری سلطنت کے خاتمہ میں کردار ادا کیا. اکبر بادشاہ کے زمانے کا ایک درباری اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ سنبلوں کی اپنی ایک نیم خود مختار ریاست ہے جس کی حدود مشرق میں دینکوٹ جنوب میں دریائے سندھ اور شمال میں بنگشات اور مغرب میں کوہ سفید تک ہے۔ مزید اس ریاست کی تفصیلات کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی کہ یہ ریاست کب اور کس نے قائم کی اور کب اختتام کو پہنچی. بہرحال سنبلوں کی طاقت کا شہرہ تھا جس کا ذکر اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کا مصنف سجان رائے بھی کرتا ہے کہ دریائے سندھ پر سنبل نیازیوں کی آبادی ہے. اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں سنبلوں نے دینکوٹ میں تعینات ہونے والے مغل قلعدار کو کسی تنازع پر قتل کر ڈالا. غالباً سنبلوں نے خوش حال خان خټک کی تحریک میں انکا ساتھ دیا یی بالکل وہی زمانہ تھا جب پشتون علاقوں میں ایمل خان مہمند، دریا خان آفریدی اور خوش حال خان خټک مغلوں کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ حسن ابدال سے اورنگزیب عالمگیر غصہ میں بھرا ہوا دینکوٹ آیا اور یہاں پر سنبلوں کو تباہ و برباد کر ڈالا جس کے بعد نہ صرف سنبلوں کی دینکوٹ سے اجارہ داری ختم ہو گئی بلکہ سنبلوں نے حکومتی جارحانہ رویہ کے سبب اپنی شناخت کو چھپا لیا اور جس کا جدھر سینگ سمایا چلے. کوئی بنوں چلا گیا کوئی اٹک کوئی شاہپور (سرگودھا) تو کوئی ساہیوال و فیصل آباد کے اس وقت کے گمنام علاقوں میں.. جہاں یہ لوگ پٹھان کی بجائے خود کو ظاہری طور جاٹ کہلوانے لگ گئے.. روزگار تک ان سے چھن گئے جس کو پیٹ پالنے کے لیے جو پیشہ نظر آیا اختیار کر لیا. وقت گذر گیا صدیاں بیت گئیں ان کی تاریخ شناخت مٹ گئی۔ حتیٰ کہ میانوالی کے نیازی انھیں دوسرے درجہ کا پٹھان سمجھنے لگ گئے.. لیکن جب میانوالی کے دیگر نیازیوں نے تعلیم حاصل کی اور انھوں نے تاریخ دیکھی تو پتہ چلا کہ سنبل نیازیوں کی وہ پہلی نسل تھی جو ہندوستان آئی اور یہاں پر عروج کے بعد زوال کو پہنچی بہرحال اتنے کڑے امتحان کے باوجود کندیاں میں آباد سنبلوں نے اپنی شناخت کا بھرپور دفاع کیا. جب سرہنگ نیازی قبائل آئے تو ان کے ساتھ بھی ان کے تنازعات ہوئے لیکن بدستور اپنی جگہ قائم دائم رہے. بھچروں نے کمزور جان کر مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو انھیں بھی بتلا دیا ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن میدان کارزار کے آموزدہ جنگجو ہیں.. جس کے بعد وہ پھر انھوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا. .. بہرحال آج بھی سنبل خود کو سنبل سے شناخت کرواتے ہیں سنبل قبیلہ پاکستان کے شہر میانوالی کندیاں گھنڈی قائدآباد داؤدخیل پائی خیل ٹھٹی شریف علی والی ڈھیر امید علی شاہ ہڈالی بھکر آصف والی پلی فتح جنگ نور پور تھل پپلاں پکی نہر اور سندھ کہ علاقہ باندی میں بھی کافی تعداد میں سنبل قبیلہ موجود ہے برگیڈئیر مہر گل خان سنبل کا تعلق بھی باندی سندھ کے سنبل قبیلہ سے ہے قائدآباد میں موجود سنبل قبیلہ کے سردار مشہور و معروف ٹرانسپورٹر سید خان سنبل کا شمار سنبل قبیلہ کی مشہور شخصیات میں ہوتا ہے کندیاں کے طرف آباد سنبل مالی طور مستحکم ہیں۔ اور انھوں نے اپنے قبیلہ کا نام روشن کیا ہے جس میں برگیڈیر عطاء اللہ خان سنبل، آئی جی اقبال خان سنبل، سابق چیف سیکرٹری پنجاب حیات اللہ خان سنبل، ڈی آئی جی کوئٹہ فیاض سنبل شہید، سابقہ کمشنر لاہور و حال سیکرٹری پنجاب عبد اللہ خان سنبل، کیپٹن حمید اللہ خان سنبل، باچا خان کا ساتھی روغتے ماما بنوں بھی سنبل قبیلہ کے نامور شخصیات ہیں.. [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. تحقیق و تحریر؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج..