سنن کبریٰ
امام نسائی ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب بن علی نے اپنی کتاب السنن الکبری کی تصنیف کی اور اس میں صحیح اور معلول (علت والی) روایات کو بھی شامل فرمایا۔ تکمیل کے بعد امیر رملہ (فلسطین ) کے سامنے اس کتاب کو پیش کیا، امیر نے پوچھا کیا آپ کی اس کتاب میں تمام احادیث صحیح ہیں؟آپ نے فرمایا : نہیں ،اس میں صحیح اور حسن دونوں قسم کی احادیث ہیں،اس پر امیر نے عرض کیا : آپ میرے لیے ان احادیث کو منتخب فرمادیں جوتمام تر صحیح ہوں، لہذا امیر کی فرمائش پر آپ نے سنن کبری سے احادیث صحیحہ کا اختصار فرمایا اوراسکا نام المجتبی رکھا۔ اسی کو سنن صغری بھی کہتے ہیں،عرف عام میں ’’السنن الصغری‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ محدثین جب مطلقا رواہ النسائی کہیں تو یہی کتاب مراد ہوتی ہے اور کتب ستہ میں اسی کا اعتبا رہے ۔[1]
- (یہ بات یاد رہے کہ) جب بھی یوں کہا جاتا ہے کہ فلاں روایت کو النسائی نے روایت کیا تو اس سے مراد یہی الصغری ہوتی ہے۔ (البتہ اگر نسائی نے روایت کیا سنن الکبری میں تو پھر الکبری کی قید لگانا ضروری ہوتا ہے)۔
السنن الکبریٰ بیہقی بھی ہے لیکن صرف السنن الکبریٰ نسائی ہی کہلاتی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ لمحات فی المكتبہ والبحث والمصادر مؤلف: محمد عجاج بن محمد تميم