سورہ التغابن

قرآن مجید کی 64 ویں سورت

قرآن مجید کی 64 ویں سورت جس کے دو رکوع میں 18 آیات ہیں۔

التغابن
دور نزولمدنی
اعداد و شمار
عددِ سورت64
عددِ پارہ28
تعداد آیات18

نام

آیت نمبر 9 کے فقرے ذٰلک یوم التغابن سے ماخوذ ہے۔ یعنی وہ سورت جس میں لفظ تَغابُن آیا ہے۔

زمانۂ نزول

مقاتل اور کلبی کہتے ہیں کہ اس کا کچھ حصہ مکی ہے اور کچھ مدنی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابتدا سے آیت 13 تک مکی ہے اور آیت 14 سے آخر سورت تک مدنی مگر مفسرین کی اکثریت پوری سورت کو مدنی قرار دیتی ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی اشارہ ایسا نہیں پایا جاتا جس سے اس کا زمانۂ نزول متعین کیا جا سکتا ہو، لیکن مضمونِ کلام پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی۔ اسی وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا سا اور کچھ مدنی سورتوں کا سا پایا جاتا ہے۔

موضوع اور مضمون

اس سورت کا موضوع ایمان اور طاعت کی دعوت اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ کلام کی ترتیب یہ ہے کہ پہلی چار آیتوں کا خطاب تمام انسانوں سے ہے، پھر آیت 5 سے 10 تک ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے جو قرآن کی دعوت کو نہیں مانتے اور اس کے بعد نمبر 11 سے آخر تک کی آیات کا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس دعوت کو مانتے ہیں۔

تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انھیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گيا ہے :

  1. اول یہ کہ یہ کائنات جس میں تم رہتے ہو، بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادرِ مطلق ہے جس کے کامل اور بے عیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔
  2. دوسرے یہ کہ یہ کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے اسے سراسر برحق پیدا کیا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو عبث ہی شروع ہوا اور عبث ہی ختم ہو جائے گا۔
  3. تیسرے یہ کہ تمھیں جس بہتر صورت کے ساتھ خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر جس طرح کفر و ایمان کا اختیار تم پر چھوڑ دیا ہے، یہ کوئی لاحاصل اور لایعنی کام نہیں ہے کہ تم خواہ کفر اختیار کرو یا ایمان دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ دراصل خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو۔
  4. چوتھے یہ کہ تم غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں ہو۔ آخر کار تمھیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور اس ہستی سے تمھیں سابقہ پیش آنا ہے جو کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے، جس سے تمھاری کوئی بات پوشیدہ نہیں، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔

کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں یہ چار بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد کلام کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑتا ہے جنھوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور انھیں تاریخ کے اسی منظر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں مسلسل نظر آتا ہے کہ قوموں پر قومیں اٹھتی ہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی عقل سے اس منظر کی ہزار توجیہیں کرتا رہا ہے، مگر اللہ تعالٰی اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے :

  1. ایک یہ کہ اس نے جن رسولوں کو اُن کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، ان کی بات ماننے سے انھوں نے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔
  2. دوسرے یہ کہ انھوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کر دیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے جس میں ہمیں اپنے خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہو۔ اس چیز نے ان کے پورے رویۂ زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ آخر کار خدا کے عذاب ہی نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔

تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرینِ حق کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور اگر پچھلی قوموں کا سا انجام نہیں دیکھنا چاہتے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نورِ ہدایت پر ایمان لے آئیں جو اللہ نے قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائے گا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی قسمت کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا کہ ایمان و عمل صالح کی راہ کس نے اختیار کی تھی اور کفر و تکذیب کی راہ پر کون چلا تھا۔ پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہوگا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔

اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انھیں دی جاتی ہیں :

  1. ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے حالات میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، ورنہ گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔
  2. دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اطاعت سے اگر وہ روگردانی اختیار کرے گا تو اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حق پہنچا کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔
  3. تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔
  4. چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسانوں کو ایمان و طاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے اہل و عیال سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے حق میں راہ خدا کے رہزن نہ بننے پائیں اور انھیں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ ان کا نفس زر پرستی کے فتنوں سے محفوظ رہے۔
  5. پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالٰی کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اس کی گفتار، کردار اور معاملات اس کی اپنی کوتاہی کے باعث حدود اللہ سے متجاوز نہ ہو جائیں۔