سورہ التکاثر
اعداد و شمار | |
---|---|
عددِ سورت | 102 |
عددِ پارہ | 30 |
تعداد آیات | 30 |
گذشتہ | القارعہ |
آئندہ | العصر |
نام
پہلی آیت کے لفظ التکاثر کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
ابو حیان اور شوکانی کہتے ہیں کہ یہ تمام مفسرین کے نزدیک مکی ہے اور امام سیوطی کا قول ہے کہ مشہور ترین بات یہی ہے کہ یہ مکی ہے، لیکن بعض روایات ایسی ہیں جن کی بنا پر اسے مدنی کہا گیا ہے اور وہ یہ ہیں : ابن ابی حتم نے ابو بریدہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت انصار کے دو قبیلوں بنی حارثہ اوربنی الحرث کے بارے میں نازل ہوئی۔ دونوں قبیلوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں پہلے اپنے زندہ آدمیوں کے مفاخر بیان کیے، پھر قبرستان جا کر اپنے اپنے مرے ہوئے لوگوں کے مفاخر پیش کیے۔ اس پر یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا کہ "الھٰکم التکاثر لیکن شانِ نزول کے بارے میں صحابہ و تابعین کا جو طریقہ تھا، اس کو اگر نگاہ میں رکھا جائے تو یہ روایت اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ سورۂ تکاثر اسی موقع پر نازل ہوئی تھی، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں قبیلوں کے اس فعل پر یہ سورت چسپاں ہوتی ہے۔ امام بخاری اور ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس ارشاد کو کہ "اگر آدم زاد کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا، قرآن میں سے سمجھتے تھے یہاں تک کہ "الھٰکم التکاثر نازل ہوئی"۔ اس حدیث کو سورۂ تکاثر کے مدنی ہونے کی دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ حضرت ابی مدینے میں مسلمان ہوئے تھے۔ مگر حضرت ابی کے اس بیان سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ صحابہ کرام کس معنی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کو قرآن میں سے سمجھتے تھے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ اسے قرآن کی آیت سمجھتے تھے تو یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے، کیونکہ صحابہ کی عظیم اکثریت ان اصحاب پر مشتمل تھی جو قرآن کے حرف حرف سے واقف تھے، ان کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت ہے اور اگر قرآن میں سے ہونے کا مطلب قرآن سے ماخوذ ہونا لیا جائے تو اس روایت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینۂ طیبہ میں جو اصحاب داخل اسلام ہوئے تھے انھوں نے جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ سورت سنی تو انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مذکورۂ بالا ارشاد کے متعلق ان کو یہ خیال ہوا کہ وہ اسی سورت سے ماخوذ ہے۔ ابن جریر، ترمذی اور ابن المنذر وغیرہ محدثین نے حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں پڑے رہے ہیں یہاں تک کہ "الھٰکم التکاثر نازل ہوئی" اس کو سورۂ تکاثر کے مدنی ہونے کی دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ عذابِ قبر کا ذکر مدینے میں ہی ہوا تھا، مکہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔ مگر یہ بات غلط ہے۔ قرآن کی مکی سورتوں میں بکثرت مقامات پر قبر کے عذاب کا ایسے صریح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے کہ شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام آیت 93، النحل 28، المومنون 99 – 100، المومن 45 – 46۔ یہ سب مکی سورتیں ہیں۔ اس لیے حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ارشاد سے اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مذکورۂ بالا مکی سورتوں کے نزول سے پہلے سورۂ تکاثر نازل ہو چکی تھی اور اس کے نزول نے عذابِ قبر کے بارے میں صحابہ کے شک کو دور کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان روایات کے باوجود مفسرین کی عظیم اکثریت اس کے مکی ہونے پر متفق ہے۔ یہ سورت صرف مکی ہی نہیں ہے، بلکہ اس کا مضمون اور انداز بیان یہ بتا رہا ہے کہ یہ مکے کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
موضوع اور مضمون
اس میں لوگوں کو اُس دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گيا ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت اور دنیوی فائدے اور لذتیں اور جاہ و اقتدار حاصل کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور انہی چیزوں کے حصول پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس ایک فکر نے ان کو اس قدم منہمک کر رکھا ہے کہ انھیں اس سے بالاتر کسی چیز کی طرف توجہ کا ہوش ہی نہیں ہے۔ اس کے برے انجام پر متنبہ کرنے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نعمتیں جن کو تم یہاں بے فکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہو، یہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمھاری آزمائش کا سامان بھی ہیں۔ ان میں سے ہر نعمت کے بارے میں تم کو آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔