ابی بن کعب
ابی بن کعب انصاری بخاری کاتب وحی، فاضل قرآن محمد بن عبد اللہ کے صحابہ میں سے ایک ہیں۔[1] ابی بن کعب بیعت عقبہ ثانیہ میں موجود تھے، غزوہ بدر اور دوسرے غزوات میں شرکت کی۔ محمد بن عبد اللہ کی مشہور حدیث کے مطابق جن چار قاریوں سے قرآن پڑھا جانا چائیے۔ ان میں سے ایک ابی بن کعب تھے۔[2]
ابی بن کعب | |
---|---|
(عربی میں: أبي بن كعب) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 ہزاریہ مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 649 (48–49 سال) مدینہ منورہ |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
پیشہ | کاتب، فقیہ |
شعبۂ عمل | تفسیر قرآن، فقہ، قرأت |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسب اور ابتدائی حالاتترميم
ابی نام، ابوالمنذر وابوالطفیل کنیت، سید القراء، سیدالانصار اورسید المسلمین القاب ہیں، قبیلہ نجار(خزرج) کے خاندان معاویہ سے تھے جو بنی حدیلہ کے نام سے مشہورتھا (حدیلہ معاویہ کی ماں کا نام تھا جو جشم بن خزرج کی اولاد میں تھی سلسلہ نسب یہ ہے : ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زیاد بن معاویہ بن عمر بن مالک بن نجار، [3] والدہ کا نام صہیلہ تھا جو عدی بن نذر کے سلسلہ سے تعلق رکھتی تھیں اور ابو طلحہ انصاری کی حقیقی پھوپھی تھیں اس بنا پر ابوطلحہ اور ابی پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ابی کی دو کنیتیں تھیں، ابوالمنذر اورابوالطفیل، پہلی کنیت آنحضرتﷺ نے رکھی تھی اور دوسری سیدناعمرنے ان کے بیٹے طفیل کے نام کی مناسبت سے پسند فرمائی۔حضرت ابی کے ابتدائی حالات بہت کم معلوم ہیں، حضرت انسؓ بن مالکؓ کی زبانی اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے مے نوشی ابی بن کعبؓ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے ندیموں کا جو حلقہ قائم کیا تھا، حضرت ابی بن کعبؓ اس کے ایک ضروری رکن تھے۔
اسلامترميم
مدینہ میں یہود کا کافی مذہبی اقتدار تھا، غالباً وہ اسلام سے پہلے توراۃ پڑھ چکے تھے، اسی مذہبی واقفیت نے ان کو اسلام کی آواز کی طرف متوجہ کیا ہوگا؛چنانچہ مدینہ کے جن انصار نے دوسری دفعہ جاکر آنحضرتﷺ کے دست مبارک پر عقبہ میں بیعت کی تھی ان میں حضرت ابیؓ بھی تھے اور یہی ان کے اسلام کی تاریخ ہے۔
مواخاتترميم
ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار میں برادری ومواخات قائم ہوئی تھی، اس میں سعیدبن زید بن عمرو بن نفیل سے جو عشرہ مبشرہ میں تھے ان کی مواخات ہوئی۔
غزوات اور عام حالاتترميم
حضرت ابیؓ عہد نبوت کے غزوات میں بدر سے لے کر طائف تک کے تمام معرکوں میں شریک رہے، غزوۂ احد میں ایک تیر ہفت اندام میں لگا تھا، آنحضرت ﷺ نے ایک طبیب بھیجا جس نے رگ کاٹ دی، پھر اس رگ کو اپنے ہاتھ سے داغ دیا، [4] حضرت ابیؓ نے عہدِ رسالت سے لے کر خلافت عثمانی تک اہم مذہبی اورملکی خدمات انجام دیں، 9ھ میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی اورآنحضرتﷺ نے تحصیل صدقات کے لئے عرب کے صوبہ جات میں عمال روانہ فرمائے، توحضرت ابی ؓ بھی خاندان ہائے بلی، عذرہ اوربنی سعد میں عامل صدقہ مقرر ہوکر گئے اورنہایت تدین کے ساتھ یہ خدمت انجام دی، ایک دفعہ ایک گاؤں میں گئے تو ایک شخص نے حسب معمول تمام جانور سامنے لاکر کھڑے کردیے کہ ان میں سے جو کو چاہیں انتخاب کرلیں، حضرت ابی ؓ نے اونٹ سے ایک دو برس کے بچہ کو چھانٹا، صدقہ دینے والے نے کہا اس کے لینے سے کیا فائدہ؟ نہ دودھ دیتی ہے اورنہ سواری کے قابل ہے اگر آپ کو لینا ہے تو یہ اونٹنی حاضر ہے، موٹی تازی بھی ہے اور جوان بھی، حضرت ابی ؓ نے کہا، یہ کبھی نہ ہوگا، رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے خلاف میں نہیں کرسکتا، اس سے یہ بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ چلو، مدینہ یہاں سے کچھ دور نہیں، آنحضرتﷺ جو ارشاد فرمائیں اس کی تعمیل کرنا، وہ اس پر راضی ہوگیا اور حضرت ابیؓ کے ساتھ اس اونٹنی کو لے کر مدینہ آیا اور آنحضرت ﷺ کے سامنے تمام قصہ دہرایا، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی یہی ہے تو اونٹنی دے دو قبول کرلی جائے گی اورخدا تم کو اس کا اجردیگا، اس نے منظور کیا اوراونٹنی آپ کے حوالے کرکے اپنے مکان واپس آیا۔ [5]
11ھ میں آنحضرتﷺ نے انتقال فرمایا اورحضرت ابوبکرؓ خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے، ان کےعہد میں قرآن مجید کی ترتیب و تدوین کا اہم کام شروع ہوا، صحابہؓ کی جو جماعت اس خدمت پر مامور کی گئی تھی حضرت ابیؓ اس کے سرگروہ تھے وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اورلوگ ان کو لکھتے جاتے تھے، یہ جماعت چونکہ ارباب علم پر مشتمل تھی، اس لئے کسی کسی آیت پر مذاکرہ ومباحثہ بھی رہتا تھا، چنانچہ سورہ برأۃ کی یہ آیت: "ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ"[6] لکھی گئی تو لوگوں نے کہا کہ یہ سب سے اخیر میں نازل ہوئی تھی، حضرت ابیؓ نے کہا نہیں اس کے بعد دو آئتیں مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے اور پڑھائی تھیں، سب سے آخیر آیت :" لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ"[7] ہے۔ [8]
خلافت فاروقی میں حضرت ابی ؓ مدینہ منورہ میں بالا ستقلال مقیم رہے، زیادہ تر درس وتدریس سے کام رہتا تھا، جب مجالس شوریٰ منعقد ہوتیں یا کوئی مہم آپڑتی تو حضرت عمرؓ ان سے استصواب فرماتے تھے۔ حضرت ابیؓ حضرت عمرؓ کےپورے عہد حکومت میں مسند افتاء پر متمکن رہے اوراس کے سوا حکومت کا کوئی منصب ان کو نہیں ملا، ایک مرتبہ انہوں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے کسی جگہ کا عامل کیوں نہیں مقرر فرماتے، بولے کہ میں آپ کے دین کو دنیا میں ملوث نہیں دیکھنا چاہتا۔ [9] حضرت عمرؓ نے جب اپنے زمانہ خلافت میں نماز تراویح کو باجماعت کیا تو حضرت ابی بن کعبؓ کو امامت کے لئے منتخب فرمایا۔ [10]
حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن مجید میں لب و لہجہ کا اختلاف تمام ملک میں عام ہوچکا تھا، اس بنا پر آپ نے اس اختلاف کو مٹانا چاہا اورخود اصحاب قرأت کو طلب فرما کر ہر شخص سے جدا جدا قرأت سنی، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور معاذ بن جبلؓ، سب کے لہجہ (تلفظ) میں اختلاف نظر آیا، یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو ایک تلفظ کے قرآن پر جمع کرنا چاہتا ہوں۔ قریش اورانصار میں 12 شخص تھے، جن کو قرائن پر پورا عبور تھا، حضرت عثمان ؓ نے ان لوگوں کو یہ اہم کام تفویض فرمایا اور حضرت ابی بن کعبؓ کو اس مجلس کا رئیس مقرر کیا، وہ قرآن کے الفاظ بولتے تھے اورزید لکھتے تھے، آج قرآن مجید کے جس قدر نسخے ہیں، وہ حضرت ابیؓ کی قرأت کے مطابق ہیں۔ [11]
کاتب وحیترميم
آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، [12] ایک روایت میں ہے کہ : سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں [13] عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے [14] تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو ابی بن کعب اور زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔
وفاتترميم
39ھ میں عمر طبعی کو پہنچ کر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں جمعہ کے دن وفات پائی، حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ منورہ میں دفن گئے گئے۔
آل و اولادترميم
حضرت ابیؓ کی اولاد کی صحیح تعداد اگرچہ نامعلوم ہے، لیکن جن کے نام معلوم ہیں وہ یہ ہیں، طفیل، محمد بن عبداللہ، ربیع، ام عمر، ان میں سے اول الذکر دو بزرگ عہد رسالت میں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت ابیؓ کی زوجہ کا نام ام الطفیل ہے وہ صحابیہ ہیں اور روایات حدیث کی فہرست میں ان کا نام داخل ہے۔
حلیہترميم
حضرت ابیؓ کا حلیہ یہ تھا، قد میانہ، رنگ گورا مائل بہ سرخی، بدن دبلا۔
اخلاق عاداتترميم
مزاج میں تکلف تھا، مکان میں گدوں پر نشست رکھتے تھے، غالباً دیوار میں آئینہ لگایا تھا اورکنگھی کرتے تھے، اسی طرف بیٹھتے تھے، ایام پیری میں جب سراور داڑھی کے بال سفید ہوگئے تھے، کنیز سر کے بال بناتی تھی۔ حضرت ابیؓ نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھائی تھی، حضرت عمرؓ نے سنا تو پوچھا، تم نے یہ کس سے سیکھی، اس نے حضرت ابیؓ کا نام لیا، حضرت عمرؓ اس کو ساتھ لے کر ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور استفسار کیا، انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کے منہ سے ایسا ہی سیکھا تھا، حضرت عمرؓ نے مزید تحقیق کے لئے پھر پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ کے منہ سے تم نے سیکھا ہے، جواب دیا جی ہاں، حضرت عمرؓ نے اس جملہ کو پھر دہرایا، تیسری مرتبہ حضرت ابی ؓ کو غصہ آگیا، بولے واللہ یہ آیت خدانے جبریل پر نازل کی تھی اور جبریل نے قلب محمدﷺ پر نازل کی، اس میں خطاب اوراس کے بیٹے سے مشورہ نہیں لیا تھا، حضرت عمرؓکانوں پر ہاتھ رکھ کر ان کے گھر سے تکبیر کہتے ہوئے نکل گئے۔ [15]
اسی طرح ایک مرتبہ ایک آیت کے متعلق اختلاف ہوا، حضرت عمرؓ نے حضرت ابی ؓ کو بلاکر ان سے وہ آیت پڑھوائی، انہوں نے پڑھ کر حضرت عمرؓ کی ناک کی طرف انگلی سے اشارہ کیا، حضرت عمرؓ نے اس کو دوسری طرح پڑھااورحضرت ابی ؓ کی ناک کی طرف اشارہ کیا حضرت نے کہا اب ہم آپ کی متابعت کرتے ہیں۔ [16]
حضرت ابودرداؓ، شامیوں کی ایک بڑی جماعت کو تعلیم قرآن کے لئے مدینہ لائے، ان لوگوں نے حضرت ابیؓ سے قرآن پڑھا، ایک دن ان میں سے ایک شخص نے حضرت عمرؓ کے سامنے کوئی آیت پڑھی انہوں نے ٹوکا، اس نے کہا مجھ کو ابی بن کعبؓ نے پڑھایا ہے، حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ ایک آدمی کردیا کہ ابی کو بلا لاؤ، اس وقت حضرت ابیؓ اپنے اونٹ کو چارہ دے رہے تھے، آدمی نے پہنچ کر کہا، آپ کو امیر المومنین بلاتے ہیں، انہوں نے پوچھا کیا کام ہے، انہوں نے واقعہ بیان کیا، حضرت ابیؓ دونوں پر بگڑے اورکہا تم لوگ باز نہیں آتے اور غصہ میں اسی طرح دامن چڑھائے ہاتھ میں چارہ لئے ہوئے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے، انہوں نے ان سے اور زید بن ثابتؓ سے آیت پڑھوائی، دونوں کی قرأت میں اختلاف تھا، حضرت عمرؓ نے زید کی تائید کی، حضرت ابیؓ برہم ہوئے اورکہا خدا کی قسم عمرؓ! تم خوب جانتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اندر ہوتا تھا اورتم لوگ باہر کھڑے رہتے تھے، اب آج میرے ساتھ یہ برتاؤ کیا جاتا ہے، واللہ اگر تم کہو تو میں گھر میں بیٹھ رہوں نہ کسی سے بولوں اورنہ درس قرآن دوں یہاں تک کہ موت میرا خاتمہ کردے، حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں، جب خدانے آپ کو علم دیا ہے تو آپ شوق سے پڑھائیے۔ [17]
طبعاً نہایت آزاد اورخود دار تھے، ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ مدینہ منورہ کے کسی کوچہ میں ایک آیت پڑہتے ہوئے جارہے تھے پیچھے سے آواز آئی، ابن عباسؓ کھڑے رہو، مڑکر دیکھا تو حضرت عمرؓ تھے، فرمایا کہ میرے غلام کو لیتے جاؤ، ابی بن کعبؓ سے پوچھا کہ فلاں آیت انہوں نے اس طرح پڑھی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ حضرت ابیؓ کے مکان پہنچے تھے کہ خود حضرت عمرؓ بھی تشریف لے آئے اوراجازت لیکر سب اندر پہنچے حضرت ابیؓ بال بنوارہے تھے، دیوار کی طرف رخ تھا، حضر ت عمرؓ کو گدے پر بٹھایا گیا، حضرت ابیؓ کی پشت حضرت عمرؓ کی طرف تھی، وہ اسی حالت میں بیٹھے رہے اوران کی طرف متوجہ نہ ہوئے، تھوڑی دیر کے بعد پھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر کہا، مرحبا یا امیر المومنین میری ملاقات کے لئے تشریف لانا ہوایا کوئی اورغرض ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کام سے آیا ہوں اورایک آیت پڑھ کر کہا یہ تو بہت سخت ہے (یعنی تلفظ میں) حضرت ابیؓ نے کہا میں نے قرآن اس سے سیکھا جس نے جبریل سے سیکھا تھا، وہ تو نہایت نرم اور تر ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا آپ تو احسان جتانا چاہتے ہیں مگر مجھے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں دونوں میں ایک باغ کی بابت جھگڑا ہوگیا، حضرت ابیؓ رونے لگے اورکہا آپ کے عہد میں یہ باتیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں میری یہ نیت نہ تھی آپ کا جس مسلمان سے جی چاہے فیصلہ کرا لیجئے، میں راضی ہوں، انہوں نے زید بن ثابتؓ کا نام لیا، حضرت عمرؓ راضی ہوگئے اورحضرت زیدؓ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا، گو حضرت عمرؓ خلیفہ اسلام تھے، تاہم ایک فریق کے حیثیت سے حضرت زید بن ثابتؓ کے اجلاس میں حاضر ہوئے، حضرت عمرؓ کو ابیؓ کے دعویٰ سے انکار تھا، انہوں نے ان سے کہا آپ بھولتے ہیں، سوچ کریاد کیجئے، حضرت ابیؓ کچھ دیر سوچتے رہے پھر کہا کہ مجھے کچھ یاد نہیں آتا تو خود حضرت عمرؓ نے واقعہ کی صورت بیان کی، حضرت زید ؓ نے حضرت ابیؓ سے پوچھا آپ کے پاس ثبوت کیا ہے، انہوں نے کہا کچھ نہیں، بولے تو آپ امیر المومنین سے قسم نہ لیجئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر مجھ پر قسم ضروری ہے تو مجھے اس میں تامل نہیں۔ [18]
طبیعت غیور پائی تھی ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا فلاں آدمی اپنے باپ کی عورت (سوتیلی ماں) سے ہمبستر ہوتا ہے، حضرت ابیؓ موجود تھے بولے کہ میں تو ایسے شخص کی گردن ماردیتا، آنحضرتﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا ابیؓ کس قدر غیرت مند ہیں، لیکن میں ان سے زیادہ غیور ہوں اورخدا مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔ بڑے مہمان نواز تھے، لیکن تکلف نہ تھا، ایک بار براء بن مالکؓ ملاقات کو آئے، پوچھا کیا کھاؤ گے؟ انہوں نے کہا ستو اورچھوہارے، اندر جا کر ستو لے آئے اورشکم سیر ہوکر کھلایا، براء بن مالکؓ آنحضرتﷺ کے پاس گئے اوراس واقعہ کا ذکر آپ سے کیا آپﷺ نے فرمایا یہ تو بڑی عمدہ بات ہے۔
علم وفضلترميم
حضرت ابی بن کعبؓ کی حیات سعید کا ایک ایک لمحہ علم کے لئے وقف تھا، عین اس وقت جب مدینہ میں مہاجرین اورانصار سے تجارت اورزراعت کا بازار گرم رہتا تھا، حضرت ابیؓ مسجد نبوی میں نبوت کے علمی جواہر سے اپنے علوم وفنون کی دوکان سجاتے تھے، انصار میں ان سے بڑا کوئی عالم نہ تھا، اورقرآن کے سمجھنے اور حفظ و قرأت میں مہاجرین وانصار دونوں میں ان کی فوقیت مسلم تھی، یہاں تک کہ خود رسول اللہ ﷺ ان سے قرآن مجید پڑھواکر سنتے تھے۔
علوم اسلامیہ کے علاوہ کتب قدیمہ سے بھی پوری واقفیت رکھتے تھے، تورات انجیل کے عالم تھے، آنحضرتﷺ کے متعلق ان کتابوں میں جو بشارتیں مذکور ہیں وہ ان کو خاص طور پر معلوم تھیں، اس علمی جلالت شان کی بنا پر حضرت فاروق اعظمؓ ان کی تعظیم اوران کا لحاظ کرتے تھے اورخود ان کے گھرپر جاکر مسائل پوچھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو اسلام کی تاریخ میں حبر کے لقب سے مشہور ہیں، حضرت ابی ابن کعبؓ کی درسگاہ میں حاضری کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔
حضرت ابیؓ کا فضل وکمال صرف خرمن نبوت کا خوشہ چین تھا، انہوں نے حاملؓ وحی سے اس قدر سیکھ لیا تھا کہ پھر کسی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی، صحابہ کرام میں حضرت ابوبکرؓ کے سوا کوئی شخص ایسا نہ تھا، جو آنحضرتﷺ کے بعد کسب علم سے بے نیاز رہا ہو، صرف ابیؓ ابن کعب کی شخصیت تھی جو اس سے مستغنی تھی۔ حضرت ابی بن کعبؓ اگرچہ مختلف علوم کے جامع تھے؛ لیکن وہ خاص فن جن میں ان کو امامت اوراجتہاد کا منصب حاصل تھا، قرآن، تفسیر، شان نزول، ناسخ ومنسوخ، حدیث وفقہ تھے اورہم انہی علوم میں اپنی بساط کے مطابق ان کے کمالات دکھائیں گے۔
قرآن مجیدترميم
سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید کا ذکر کرنا ہے اوریہ دکھانا ہے کہ حضرت ابی ؓ اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے، حضرت ابی مجتہد تھے، وہ قرآن مجید پر مجتہدانہ انداز سے غور کرتے تھے، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ قرآن میں کون سی نہایت معظم آیت ہے، حضرت ابیؓ نے کہا آیۃ الکرسی، آنحضرتﷺ نہایت مسرور ہوئے اورفرمایا! ابی تمہیں یہ علم مسرور کرے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کی آیتوں میں کیسا غور وخوض کرتے تھے، اب خود ان کی زبان سے قرآن کی حقیقت سنو، ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ مجھے نصیحت کیجئے، فرمایا: قرآن کو دلیل راہ نہ بناؤ، اس کے فیصلوں اورحکموں پر راضی رہو، رسول اللہﷺ نے یہی چیز تمہارے لئے چھوڑی ہے اس میں تمہارا اور تمہارے قبل والوں کا اور جو کچھ زمانہ بعد میں ہوگا سب حال درج ہے: حضرت ابیؓ نے اس رائے میں حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:
(1)قرآن مجید اسلام کا مکمل قانون ہے۔ (2)مسلمانوں کا بہترین دستور العمل ہے۔ (3)اس کے قصص وحکایات نتیجہ خیز ہیں جو عمل اور عبرت کے لئے ہیں، گرمی محفل کے لئے نہیں۔ (4)اس میں تمام قوموں کا نہایت کافی تذکرہ ہے۔ غورکرو!جو شخص ان حیثیتوں سے قرآن کریم کو دیکھتا ہوگا، اس کی وسعت معلومات اوردقت نظر میں کیا کلام ہوسکتا ہے۔ حضرت ابی ؓ نے ابتداہی سے قرآن مجید کے ساتھ غیر معمولی شغف ظاہر کیا تھا؛چنانچہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں ورود فرما ہوئے تو سب سے پہلے جس نے وحی لکھنے کا شرف حاصل کیا وہ حضرت ابیؓ تھے۔
قرآن مجید حفظ کرنے کا خیال بھی اسی زمانہ سے پیدا ہوا، جس قدر آیتیں نازل ہوئیں وہ حفظ کرلیتے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پورا قرآن یاد کرلیا، صحابہؓ میں پانچ بزرگ تھے، جنہوں نے آنحضرتﷺ کے عہد مقدس میں پورا قرآن یاد کیا تھا، لیکن حضرت ابیؓ ان سب میں ممتاز تھے، خودآنحضرتﷺ اس باب میں ان کی مدح کرتے تھے۔ حضرت ابیؓ نے قرآن کا ایک ایک حرف رسول اللہﷺ کے دہن مبارک سے سن کر یاد کرلیا تھا، آنحضرتﷺ بھی ان کے شوق کو دیکھ کر ان کی تعلیم کی طرف توجہ مبذول فرماتے تھے، نبوت کا رعب بڑے بڑے صحابہ کو سوال کرنے سے مانع ہوتا تھا، لیکن حضرت ابیؓ بے جھجھک جو چاہتے تھے، سوال کرتے تھے، ان کے شوق کو دیکھ کر بعض اوقات آنحضرتﷺ خود ابتدا فرماتے تھےاوربغیرپوچھے بتاتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابیؓ سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسی سورۃ بتاتاہوں جس کی نظیر نہ تورات وانجیل میں ہے اورنہ قرآن میں یہ کہہ کر باتوں میں مصروف ہوگئے، حضرت ابیؓ کہتے ہیں، میرا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ بیان فرمائیں گے، اس لئے جب آپ گھر جانے کے لئے اٹھے تو میں بھی ساتھ ہولیا، آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر باتیں شروع کردیں اورگھر کے دروازہ تک اسی طرح چلے آئے، میں نے عرض کیا وہ سورۃ بتادیجئے، آپ نے سنادی، [19] ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے نماز فجر پڑھائی اس میں ایک ا ٓیت پڑھنا بھول گئے، حضرت ابیؓ نماز میں شروع سے شریک نہ تھے بیچ میں شریک ہوئے تھے، نماز ختم کرکے آنحضرتﷺ نے لوگوں سے پوچھا کہ کسی نے میری قرأت پر خیال کیا تھا؟ تمام لوگ خاموش رہے، پھر پوچھا، ابی بنؓ کعب ہیں؟ حضرت ابیؓ نماز ختم کرچکے تھے، بولے کہ آپ نے فلاں آیت نہیں پڑھی کیا منسوخ ہوگئی، یا آپ پڑھنا بھول گئے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا"نہیں میں پڑھنا بھول گیا" اس کے بعد فرمایا میں جانتا تھا کہ تمہارے سوا اورکسی کو ادھر خیال نہیں ہوا ہوگا۔
ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ جب کوئی مسئلہ حضرت ابیؓ کی سمجھ میں نہ آتا تو وہ اور صحابہؓ کی طرح خاموش نہیں رہتے تھے؛بلکہ آنحضرتﷺ سے دیر تک مذاکرہ جاری رکھتے اورجب سمجھ میں آجاتا تب اٹھتے، مسجد نبوی ﷺ میں عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک آیت پڑھی ؛چونکہ وہ قبیلہ ہذیل سے تھے، ان کی قرأت علیحدہ تھی، حضرت ابی بن کعبؓ نے سنا تو کہا آپ نے یہ آیت کس سے پڑھی؟ میں نے تو رسول اللہ ﷺ سے اس طرح پڑھی ہے، انہوں نے کہا مجھ کو بھی رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا ہے، حضرت ابیؓ کہتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیالات فاسدہ کا غلبہ ہوا اور عجیب عجیب باتیں ذہن میں آئیں میں ابن مسعودؓ کو لے کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اورکہا میرے اوران کے درمیان میں قرأت میں اختلاف ہوگیا ہے،
آنحضرتﷺ نے مجھ سے یہ آیت پڑھوائی اورفرمایا تم ٹھیک پڑہتے ہو، پھر حضرت ابن مسعودؓ سے پڑھوائی اور فرمایا تم بھی ٹھیک پڑہتے ہو، پھر میں نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ دونوں ٹھیک ٹھاک پڑہتے ہیں یہ کیونکر؟ اس قدر کدوکاوش پر حضرت ابیؓ پسینہ پسینہ ہوگئےتھے، آنحضرتﷺ نے ان کی گھبراہٹ دیکھی تو ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر فرمایا الہی ابی کاشک دور کر! دستِ مبارک کی تاثیر، تسلی بن کر قلب میں اتر گئی اوران کو کامل تشفی ہوگئی۔ حضرت ابی کا خاص فن قرأت ہے اس فن میں ان کو اتنا کمال تھا کہ خود آنحضرت ﷺ نے ان کی تعریف کی تھی صحابہ میں چند بزرگ تھے جن کے کمالات کی حامل وحی نے تعیین کردی تھی ان میں حضرت ابی کعبؓ کی نسبت آنحضرتﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا" واقراہم ابی بن کعب "یعنی صحابہ میں سب سے بڑے قاری ابیؓ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت عمرؓ نے اس جملہ کی یاد کو کئی مرتبہ تازہ کیا ایک مرتبہ مسجد نبوی کے منبر پر کہا کہ سب سے بڑے قاری ابی ہیں، شام کے مشہور سفر میں مقام جابیہ کے خطبہ میں فرمایا :"من ارادالقرآن فلیات ابیا" یعنی جس کو قرآن کاذوق ہو وہ ابی کے پاس آئے۔ [20] فن قرأت میں حضرت ابیؓ کو جو دخل تھا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ خود حامل نبوت ان سے قرآن کا دورہ فرمایا کرتے تھے؛چنانچہ جس سال آپ نے وفات پائی حضرت ابیؓ کو قرآن سنایا اور فرمایا مجھ سے جبریلؑ نے کہا تھا کہ ابی کو قرآن سنادیجئے۔ جو سورۃ نازل ہوتی اس کو آنحضرتﷺ حضرت ابیؓ کو سناتے اوریاد کراتے تھے، "سورہ لم یکن" نازل ہوئی تو فرمایا کہ خدانے تم کو قرآن سنانے کا حکم مجھے کیا ہے، انہوں نے عرض کیا خدانے میرا نام لیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں، حضرت ابیؓ یہ سن کر فرط مسرت میں بے اختیار روپڑے۔
عبدالرحمن بن ابی ابزی حضرت ابی بن کعبؓ کے شاگرد تھے، ان کو استاد کا یہ واقعہ معلوم ہوا تو پوچھا! یا ابالمنذر (حضرت ابی کی کنیت) اس وقت آپ کو خاص مسرت ہوئی ہوگی، فرمایا کیوں نہیں، خدا وند تعالی خود فرماتا ہے: "قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ" [21] اسی قرأت دانی کا نتیجہ تھا کہ ایک قرأت خاص طور پر ان کی جانب منسوب ہوئی جس کا نام قرات ابی بن کعب تھا، اہل دمشق اسی قرأت میں قرآن مجید پڑہتے تھے۔ حضرت ابیؓ کی قرأت کو ان کے رتبہ کے لحاظ سے عالمگیر ہونا چاہیے تھا؛ لیکن اس وقت تک زیادہ رواج نہ پاس کی، اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ بہت سی آیتیں جو منسوخ ہوچکی تھیں اس میں موجود تھیں، حضرت عمرؓ نے بار بار کہا کہ ابی ؓ ہم میں سب سے زیادہ قرآن کے جاننے والے ہیں، لیکن ہم کو بعض مواقع پر ان سے اختلاف کرنا پڑا ہے، ان کو اصرار ہے کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے، یہ سچ ہے لیکن جب بہت سی آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں اوران کو اس کا علم نہیں ہوا تو پھر ہم ان کی قرأت پر کیونکر قائم رہ سکتے ہیں۔ [22]
لیکن بعد میں اس کی اصلاح ہوگئی، حضرت عثمانؓ کے عہد مبارک میں جب قرآن مجید کو جمع کیا گیا تو اس میں منسوخ شدہ آیتوں کا خاص خیال رکھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد ان کی قرأت نے قبول عام کی سند حاصل کرلی اور تمام ممالک اسلامیہ جن کی وسعت مغرب سے مشرق تک تھی حضرت ابیؓ کی قرأت پر مجتمع ہوگئے۔ حضرت ابی نے انتقال کے بعد اس فن میں اپنے دو جانشین چھوڑے جو اپنے عہد میں مرجع انام تھے، حضرت ابوہریرہؓ، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ۔ قراء سبعہ میں سے نافع بن عبدالرحمن، ابو رویم مدنی، حضرت ابوہریرہؓ کے سلسلہ سے اور عبداللہ بن کثیر مکی، حضرت عبداللہ بن عباس کے واسطہ سے حضرت ابی بن کعب کے سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔
درس و تدریسترميم
حضرت ابی بن ؓ کعب کا مدرسۂ قرأت اس وقت ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا، عرب وعجم، روم و شام اوردیگر صوبہ جات اسلامیہ سے طلبہ مدینہ منورہ کا رخ کرتے اور ان کی درس گاہ قرأت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ طلبہ کے علاوہ بعض اکابر صحابہ دور دراز مقامات سے شائقین کو لے کر مدینہ منورہ تشریف لاتے اورحضرت ابیؓ سے استفادہ کرتے تھے، حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں حضرت ابودرد اؓانصاری شام میں تعلیم قرآن کے لئے بھیجے گئے تھے وہ اس درجہ کے تھے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں جن 5 بزرگوں نے پورا قرآن حفظ کیا تھا ان میں ایک وہ بھی تھے ؛لیکن بایں ہمہ وہ حضرت ابی کی قرأت سے مستغنی نہ تھے، حضرت عمرؓ کے عہد مقدس میں شامیوں کا ایک مجمع ساتھ لے کر حضرت ابیؓ کی خدمت میں آئے، خود قرآن پڑھا اور دوسرے لوگوں کو بھی پڑھوایا۔
حضرت ابیؓ اگرچہ تلامذۃ کی تعلیم سے خاص دلچسپی لیتے تھے، لیکن مزاج تیز تھا اس لئے بہت جلد ان کا حلم و تحمل غیظ و غضب میں بدل جاتا تھا، اس لئے تلامذہ خاص کوئی سوال کرتے تو خوف لگا رہتا کہ کہیں غصہ میں جھنجھلا نہ اُٹھیں، زرین حبیش جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد رشید تھے اورجن کو حضرت ابیؓ کے تلمذ کا بھی شرف حاصل تھا، کوئی بات پوچھنا چاہتے تھے مگر ہمت نہ پڑتی تھی ایک دن ایک سوال کیا توپہلے اس طرح عرض کیاکہ مجھ پر نظر عنایت فرمائیے میں آپ سے علم سیکھنا چاہتا ہوں، حضرت ابیؓ نے کہا ہاں شاید یہ ارادہ ہوگا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت پوچھنے سے باقی نہ رہ جائے۔ اسی وجہ سے ان کی مجلس لایعنی سوالات سے پاک ہوتی تھی، وہ قبل از وقت باتوں کا جواب نہیں دیتے تھے؛بلکہ ناراض ہوتے تھے، مسروق نے ایک دن ایک سوال کیا، حضرت ابیؓ نے کہا کہ ایسا بھی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا ابھی ٹھہریے جب ایسا واقعہ پیش آئے گا تو آپ کے لئے اجتہاد کی تکلیف کی جائے گی۔
لیکن معقول سوالات سے خوش ہوتے تھے اور جواب مرحمت فرماتے تھے، زیاد انصاری نے پوچھا، آنحضرتﷺ کی تمام بیویاں قضا کرجاتیں تو آپ نکاح کر سکتے تھے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کرسکتے تھے، زیاد نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی لایحل لک النساء من بعد حضرت ابیؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ کے لئے عورتوں کی ایک قسم حلال تھی۔ [23] حضرت ابیؓ کی زندگی بڑی پر تکلف اور باوقار تھی، اس کا اثرا ن کے حلقۂ درس میں نظر آتا تھا، گھر اورمجلس دونوں جگہوں میں ان کی نشست گدے پر ہوتی تھی اور تلامذہ عام صف میں بیٹھتے تھے۔
نشست وبرخاست میں تلامذہ ان کی تعظیم کے لئے سر وقدکھڑے ہوتے تھے اس زمانہ میں یہ دستور بالکل نیا تھا، ایک مرتبہ سلیم بن حنظلہ حضرت ابیؓ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے آئے جب وہ اُٹھے تو شاگردوں کا پورا مجمع پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو ان کو یہ روش ناپسند ہوئی، حضرت ابیؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کے لئے فتنہ اوران لوگوں کے لئے ذلت ہے۔ تلامذہ سے تحائف وہدایا قبول کرلیتے تھے اوراس میں کچھ مضائقہ نہ جانتے تھے، آنحضرتﷺ کے عہد مقدس میں انہوں نے طفیل بن عمرودوسی کو قرآن پڑھایا تھا، انہوں نے ایک کمان ہدیۃً پیش کی، حضرت ابیؓ اس کو لگا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا یہ کہاں سے لائے، انہوں نے کہا ایک شاگرد کا ہدیہ ہے، آپ نے فرمایا اس کو واپس کردو اور آیندہ ایسے ہدیہ سے پرہیز کرنا۔
اسی طرح ایک شاگرد نے کپڑا ہدیہ میں پیش کیا، اس میں بھی یہی صورت پیش آئی، اس لئے بعد میں ان باتوں سے اجتناب کلی کرلیا تھا؛چنانچہ ملک شام کے لوگ جب آپ سے قرآن مجید پڑہنے مدینہ آئے تو مدینہ کے کاتبوں سے اس کو لکھواتے بھی تھے اورکتابت کا معاوضہ اس طرح ادا ہوتا تھا کہ شامی اپنے ساتھ کاتبوں کو کھانے میں شریک کرلیتے تھے، لیکن حضرت ابیؓ ایک وقت بھی ان کی دعوت منظور نہ کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے ایک دن ان سے دریافت کیا، ملک شام کا کھانا کیسا ہوتا ہے؟ حضرت ابیؓ نے کہا میں ان کے ہاں کھانا نہیں کھاتا۔
قرات پڑھاتے وقت حروف مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے باشندوں کے ساتھ تو چنداں دشواری پیش نہ آتی تھی؛ لیکن اعراب اور بدوؤں یادیگر ملکوں کے باشندوں کو جن سے حروف صاف صاف ادانہ ہوسکتے تھے ان کا پڑھانا نہایت مشکل کام تھا، لیکن حضرت ابیؓ اس مشکل کو بھی آسان کرلیتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ مبارک میں حضرت ابیؓ ایک ایرانی کو قرآن پڑھاتے تھے جب اس کو یہ آیت پڑھائی "إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الْأَثِيمِ" تو اس سے "أَثِيمِ" نکلتا نہ تھا، وہ یتیم کہتا تھا، حضرت ابیؓ نہایت پریشان تھے، آنحضرتﷺ وہاں سے گذرے اوران کی حیرانی دیکھ کر خود ان کے شریک ہوگئے اور ایرانی میں فرمایا کہو "طعام الظالم" اس نے اس کو صاف طور سے ادا کردیا، آپ نے حضرت ابیؓ سے فرمایا کہ اس کی زبان درست کرو اور اس سے حرف نکلواؤ، خدا تمہیں اس کا اجر دے گا۔
مصحف ابی بن کعبؓترميم
حضرت ابیؓ آنحضرتﷺ سے جس قدر قرآت پڑہتے تھے گھر پر اس کو قلمبند کرتے جاتے تھے، یہی قرآن ہے جو فن تاریخ قرأت میں "مصحف ابیؓ" کے نام سے مشہور ہے، یہ مصحف حضرت عثمانؓ کے عہد تک موجود تھا، اس مصحف کی شہرت دور تک تھی، حضرت ابیؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کے پاس جن کا نام محمد تھا اور مدینہ ہی میں رہتے تھے، عراق سے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ ہم لوگ مصحف کی زیارت کو آئے ہیں انہوں نے کہا وہ تو حضرت عثمانؓ نے لے لیا تھا۔
تفسیرترميم
حضرت ابیؓ مفسرین صحابہ میں ہیں اوران سے اس فن میں ایک بڑا نسخہ روایت کیا گیا ہے، جس کے راوی امام ابو جعفر رازی ہیں، تین واسطوں سے حضرت ابیؓ تک یہ سلسلہ منتہی ہوتا ہے۔ فن تفسیر میں حضرت ابیؓ کے اگرچہ متعدد شاگرد تھے، جن کی روایتیں عموماً تفسیر کی کتابوں میں مندرج ہیں؛ لیکن اس کا بڑا حصہ ابوالعالیہ کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے ابو العالیہ کے تلمیذ ربیع بن انسؓ تھے جن پر امام رازی کے سلسلہ روایات کا اختتام ہوتا ہے۔ اس تفسیر کی روایتیں ابن جریر اور ابی حاتم نے کثرت سے نقل کی ہیں، حاکم نے مستدرک میں اور امام احمد نے اپنی مسند میں بھی بعض روایتوں کو درج کیا ہے، حضرت ابیؓ سے اس فن میں دو قسم کی روایتیں ہیں، پہلی قسم میں وہ سوالات داخل ہیں جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کئے تھے اورآنحضرتﷺ نے ان کے جوابات عنایت فرمائے تھے دوسری قسم میں وہ تفسیر یں ہیں جو خود حضرت ابیؓ کی طرف منسوب ہیں۔ حضرت ابیؓ کی تفسیر کا پہلا حصہ جو آنحضرتﷺ سے روایت کیا گیا ہے، ظن وقیاس کے رتبہ سے بلند ہوکر یقین کے درجہ تک پہنچتا ہے کیونکہ حاملِ وحی سے زیادہ قرآن کا مطلب کون سمجھ سکتا ہے۔
دوسرا حصہ حضرت ابیؓ کی رائے کا مجموعہ ہے اس میں مختلف حیثیتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں، بعض آیتوں میں تفسیر القرآن بالقرآن کا اصول مد نظر ہے، بعض میں خیالات عصریہ کی جھلک ہے کسی میں اسرائیلیات کا رنگ ہے اورکہیں کہیں ان سب سے الگ ہوکر مجتہدانہ روش اختیار کی ہے اور یہی ان کا علم تفسیر میں سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
شان نزولترميم
حضرت ابیؓ سے شان نزول کے متعدد روایتیں ہیں جو تفسیر کی کتابوں میں مندرج ہیں۔
حدیثترميم
صحابہ کرامؓ میں جو بزرگ علم حدیث کے ماہر خیال کئے جاتے تھے ان میں ایک حضرت ابی ؓ بن کعب بھی تھے، محدث ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں۔ مکان احدہ بن سمع الکثیر یعنی حضرت ابیؓ ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے احادیث کا بہت بڑا حصہ سنا تھا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے علمائے صحابہ جواپنے مجالس درس میں مسند روایت پر متمکن تھے حضرت ابیؓ کے حلقہ تعلیم میں شاگردی کا زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے حلقہ میں تابعین سے زیادہ صحابہ کا مجمع ہوتا تھا، حضرت عمربن الخطابؓ حضرت ابو ایوب انصاری، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ، ابوموسیٰ اشعری، انس بن مالک، عبداللہ بن عباس، سہل بن سعد، سلیمان بن صرورؓ کہ تمام صحابہ میں انتخاب تھے حضرت ابیؓ سے علم حدیث میں استفادہ کرتے تھے۔
حضرت ابیؓ کے اوقات درس اگرچہ متعین تھے ؛تاہم ان وقتوں کے علاوہ بھی باب فیض مسدود نہ ہوتا تھا، چنانچہ جب مسجد نبوی میں نماز کو تشریف لاتے اوراس وقت بھی کسی کو تعلیم کی حاجت ہوتی تو اس کی تشفی فرماتے تھے۔ قیس بن عباد مدینہ میں صحابہ کے دیدار سے مشرف ہونے آئے تھے، ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے بڑھ کر کسی کو نہ پایا، نماز کا وقت تھا لوگ جمع تھے اور حضرت عمرؓ بھی تشریف رکھتے تھے، کسی چیز کے تعلیم دینے کی ضرورت تھی، نماز ختم ہوئی تو محدث جلیل اٹھا اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث لوگوں تک پہنچائی، ذوق وشوق کا یہ عالم تھا کہ تمام لوگ ہمہ تن گوش تھے، قیس پر حضرت ابیؓ کی اس شان عظمت کا بڑا اثر پڑا۔ [24] روایت حدیث میں حضرت ابیؓ حزم واحتیاط سے کام لیتے تھے باوجود اس کے وہ حاملِ نبوت کے مقرب بارگاہ تھے اورزندگی کا بیشتر وقت رسول اللہ ﷺ کے حضور میں صرف کیا تھا باایں ہمہ روایت حدیث میں یہ شدت تھی کہ روایات کی مجموعی تعداد 164 سے متجاوز نہیں ہے۔
فقہترميم
صحابہ میں کئی بزرگ تھے جو اجتہاد کا منصب رکھتے تھے اور استنباط مسائل کرتے تھے، حضرت ابیؓ کا بھی ان میں شمار ہوتا تھا اور وہ حامل قرآن کی مقدس زندگی ہی میں مسند افتاء پر جلوہ افروز ہوچکے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں بھی اہل الرائے اوراہل فقہ میں شامل رہے اورلوگ انہی سے استفادہ کیا کرتے تھے، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں بھی یہ منصب عظیم ان کو حاصل رہا۔
آفاق عالم سے فتوے آتے تھے جن کے مستفتیوں میں صحابہ کا نام بھی داخل ہوتا تھا، سمرہ بن جندب ؓ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، وہ نماز میں تکبیر کہنے اورسورہ پڑہنے کے بعد ذرا توقف کرتے تھے، لوگوں نے ان پر اعتراض کیا، انہوں نے حضرت ابی کے پاس استفتاء لکھ کر بھیجا کہ مجھ پر حقیقت مجہول ہوگئی ہے، اس کے متعلق تحریر فرمائیے واقعیت کیا ہے؟ حضرت ابیؓ نے نہایت مختصر جواب تحریر کیا اور لکھا کہ آپ کا طریق عمل شرع شریف کے مطابق ہے اور معترضین غلطی پر ہیں۔ [25] استنباط مسائل کا یہ طریقہ تھا کہ پیشتر قرآن مجید میں غور وخوض کرتے تھے پھر احادیث کی تلاش ہوتی تھی اور جب ان دونوں میں کوئی صورت نہ ملتی تو قیاس کرتے تھے۔
حضرت عمرؓ کے پاس ایک عورت آئی اورکہا کہ میرا شوہر مرگیا میں حاملہ تھی، اب وضع حمل ہوا ہے ؛لیکن عدت کے ایام ابھی پورے نہیں ہوئے اس صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میعاد معین تک رکی رہو وہ حضرت عمرؓ کے پاس سے حضرت ابیؓ کے پاس آئی اور حضرت عمرؓ سے فتویٰ پوچھنے کا حال اوران کا جواب ان کے گوش گزار کیا، حضرت ابیؓ نے کہا کہ جاؤ اور عمرؓ سے کہنا کہ ابی کہتے ہیں کہ عورت حلال ہوگئی، اگر وہ مجھے پوچھیں تو یہیں بیٹھا ہوں آکر بلالینا، عورت حضرت عمرؓ کے پاس آگئی انہوں نے کہا بلا لاؤ، حضرت ابی آئے، حضر عمرؓ نے پوچھا آپ نے یہ کہاں سے کہا، انہوں نے جواب دیا قرآن سے اور یہ آیت پڑھی "وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنّ"اس کے بعدکہا کہ جو حاملہ بیوہ ہوگئی ہو وہ بھی اس میں داخل ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق حدیث سنی ہے، حضرت عمرؓ نے عورت سے کہا کہ جو یہ کہہ رہے ہیں اس کو سنو۔
حضرت عباسؓ عم رسول اللہ ﷺ کا گھر مسجد نبویﷺ کے متصل تھا، حضرت عمرؓ نے جب مسجد کو وسیع کرنا چاہا تو ان سے کہا کہ اپنا مکان فروخت کردیجئے میں اس کو مسجد میں شامل کروں گا، حضرت عباسؓ نے کہا یہ نہ ہوگا، حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا تو ہبہ کردیجئے انہوں نے اس سے بھی انکار کیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا توآپ خود مسجدکو وسیع کردیں اور اپنا مکان اس میں داخل کردیں، وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے، حضرت عمرؓ نے کہا ان تین باتوں میں سے کوئی بات آپ کو ماننا ہوگی، حضرت عباسؓ نے کہا میں ایک بات بھی نہ مانوں گا، آخر دونوں شخصوں نے حضرت ابی بن کعبؓ کو حکم بنایا انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا بلا رضا مندی آپ کو ان کی چیز لینے کا کیا حق ہے؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا اس کے متعلق قرآن مجید کی رو سے حکم نکالا ہےیا حدیث سے؟ حضرت ابیؓ نے کہا حدیث سے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؓ نے جب بیت المقدس کی عمارت بنوائی تو اس کی ایک دیوار جو کسی دوسرے کی زمین پر بنوائی تھی گر پڑی، حضرت سلیمان ؑ کے پاس وحی آئی کہ اس سے اجازت لے کر بنائے، حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے؛ لیکن حضرت عباسؓ کی غیرت اس کو کب گوارا کرسکتی تھی، انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ میں اس کو مسجد میں شامل کرتا ہوں۔
سوید بن غفلہ، زید بن صوجان اورسلیمان بن ربیعہ کے ہمراہ کسی غزوہ میں گئے تھے، مقام عذیب میں ایک کوڑا پڑا ہوا تھا، سوید نے اٹھا لیا، ان لوگوں نے کہا اسے پھینک دو شاید کسی مسلمان کا ہو، انہوں نے کہا میں ہر گز نہ پھینکوں گا پڑا رہے گا تو بھیڑئیے کی غذا بنے گا اس سے تو بہتر ہے کہ میں اسے کام میں لاؤں، اس کے کچھ دنوں بعد سوید حج کے ارادہ سے روانہ ہوئے، راستہ میں مدینہ طیبہ پڑتا تھا، حضرت ابیؓ کے پاس گئے اور کوڑے والا واقعہ بیان کیا، حضرت ابیؓ نے کہا کہ اس قسم کا واقعہ مجھ کو بھی پیش آچکا ہے میں نے آنحضرت ﷺ کے عہد میں 100 دینار (500) روپئے پائے تھے، آنحضرتﷺ نے حکم دیا تھا کہ سال بھر تک لوگوں کو خبر کرتےر ہو سال گزرنے کے بعد فرمایا کہ روپئے کی تعداد، تھیلی کا نشان وغیرہ یاد رکھنا اورایک سال تک اور انتظار دیکھنا اگر کوئی اس نشان کے موافق طلب کرے تو اس کے حوالہ کرنا ورنہ وہ تمہارا ہو چکا۔ [26]
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ حج تمتع سے لوگوں کو روک دیں، حضرت ابیؓ نے کہا آپ کو اس کا کوئی اختیار نہیں، پھر ارادہ کیا کہ حیرہ کے حلے پہننے سے منع کردیں ؛کیونکہ اس کے رنگ میں پیشاب کی آمیزش ہوتی تھی، حضرت ابیؓ نے کہا اس کے بھی آپ مجازنہیں خود رسول اللہ ﷺ نے اس کو پہنا ہے اور ہم لوگوں نے بھی پہنا ہے، [27] یہ فتویٰ عموم بلوی کی بنا پر تھا، طرز استنباط معلوم کرنے کے بعد فقہ ابی کے چند مسائل بھی پڑھ لینا چاہیے۔
کتاب الصلوٰۃترميم
حضرت ابی ؓ قرأت خلف الامام کے قائل تھے؛ مگر اس کی یہ صورت تھی کہ ظہر اور عصر کی فرض نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرتے تھے، عبداللہ بن ابی ہذیل نے پوچھا کہ آپ قرأت کرتے ہیں فرمایا ہاں۔ [28]
حضرت ابیؓ کا یہ استدلال قرآن مجید کے ظاہری الفاظ کی بنا پر تھا قرآن میں ہے"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ " یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو اور یہ ظاہر ہے کہ قرأت سری میں جو ظہر و عصر میں ہوتی ہے قرآن کو کس طرح سنا جاسکتا ہے، اس لئے یہ بالکل قرین قیاس ہے کہ قرأت سری میں مقتدی قرأت کرے اورجہری میں خاموش کھڑا رہے۔ ایک شخص مسجد میں کسی گم شدہ چیز پر شور کررہا تھا، حضرت ابیؓ نے دیکھا تو غصہ ہوئے، اس نے کہا میں فحش نہیں بکتا، انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے، مگر مسجد کے ادب کے یہ بات منافی ہے۔ [29]
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے اور سورہ برأت تلاوت فرمائی تھی، یہ سورۃ حضرت ابو درداؓ اورابوذرؓ کو معلوم نہ تھی، اثنائےخطبہ میں حضرت ابیؓ سے اشارہ سے پوچھا کہ یہ سورۃ کب نامل ہوئی میں نے تو اب تک نہیں سنی تھی، حضرت ابی نے اشارہ سے کہا خاموش رہو، نماز کے بعد جب اپنے اپنے گھر جانے کے لئے اٹھے تو دونوں بزرگوں نے حضرت ابیؓ سے کہا کہ تم نے ہمارے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا، حضرت ابیؓ نے فرمایا: آج تمہاری نماز بیکار ہوگئی اور وہ بھی محض ایک لغو حرکت کی وجہ سے، یہ سن کر لوگ آنحضرتﷺ کے پاس پہنچے اور بیان کیا کہ ابیؓ ایسا کہتے ہیں، آپ نے فرمایا ابی سچ کہتے ہیں۔ [30]
کتاب الحدترميم
حضرت ابیؓ زنا کی سزا کے متعلق کہا کرتے تھے کہ تین قسم کے لوگوں کے لئے تین قسم کے حکم ہیں کچھ لوگ سرائے تازیا نہ اورسنگساری دونوں کے مستحق ہیں کچھ فقط سنگساری کےاور کچھ صرف تازیانہ کے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی والے بوڑھے کو زنا کرنے کی صورت میں تازیانہ اورر جم دونوں، بیوی والے جوان کو محض رجم اور بے بیوی والے جوان کو فقط کوڑے لگائے جائیں۔ شبیب کے متعلق حضرت ابیؓ کا خیال تھا کہ قرآن مجید کی رو سے اس کو کوڑے مارے جائیں اور سنت کے لحاظ سے سنگسار کیا جائے، [31] حضرت علیؓ بھی اس خیال کے موید تھے۔
باب الاشربہترميم
نبیذ چھوہاروں کا شربت کی حلت پر عموماً علمائے اسلام متفق ہیں؛ لیکن ابیؓ سے اس کے متعلق ایک خاص اثر مروی ہے، ایک شخص نے نبیذ نوشی کے متعلق استفسار کیا، حضرت ابیؓ نے کہا نبیذ میں کیا رکھا ہے، پانی پیو، ستو پیو، دودھ پیو، سائل نے کہا شاید آپ نبیذ نوشی کے موافق نہیں، انہوں نے کہا شراب نوشی کی کیسے موافقت کرسکتا ہوں۔ [32] ان مسائل کو غور سے پڑھو تو معلوم ہوگا کہ فقہائے صحابہ میں اجتہاد ومسائل اوراستنباط احکام کی حیثیت سے حضرت ابیؓ کا رتبہ بھی نہایت بلند تھا۔
لکھنا جانتے تھےترميم
حضرت ابیؓ لکھنا بھی جانتے تھے اوریہ اس زمانہ میں نعمت غیر مترقبہ تھی؛چنانچہ وحی کی اکثر آیتیں وہی لکھتے تھے، مدینہ منورہ میں جب آنحضرتﷺ تشریف لائے تو وحی لکھنے کا سب سے پہلے انہی کو شرف حاصل ہوا۔ اس زمانہ تک کتاب یا قرآن کے اخیر میں کاتب کا نام لکھنے کا دستور نہ تھا، سب سے اول حضرت ابیؓ نے اس کی ابتدا کی بعد میں اور بزرگوں نے بھی اس کی تقلید کی۔
حب رسولترميم
بدعات سے اجتناب، جرأت اظہا حق، یہ اوصاف حضرت ابیؓ میں خاص طورپر موجود تھے، عبادت الہی کا ذوق شوق ایک مرتبہ اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ حضرت ابیؓ تمام علائق ظاہری سے قطع تعلق کرکے زاویۂ روحانیت میں معتکف ہوگئے تھے۔ رات کی ہولناک تاریکی میں جب کہ تمام کائنات بستر راحت پر پر مستِ نشہ خواب ہوتی تھی، وہ اپنے گھر کے ایک گوشہ میں معبود برحق کی عظمت وجلال کے تصور سے سرتا پا عجز ونیاز ہوتے تھے، زبان پر کلام الہہی رواں ہوتا تھا اورآنکھوں کی اشک باری ان کے کشتِ عبادت کو سیراب کرتی تھی۔ قرآن مجید تین راتوں میں ختم کرتے تھے، رات کے ایک حصہ میں درود وسلام کا ورد کرتے تھے۔ محبت رسولﷺ کا یہ عالم تھا کہ استن حنانہ کو اپنے گھر میں بطور تبرک رکھ لیا تھا اورجب تک دیمک نے چاٹ کر اس کو راکھ نہ کردیا، حضرت ابیؓ نے اس کو مکان سے علیحدہ نہ کیا۔ [33]
بدعات سے اس قدر اجتناب تھا کہ جو باتیں رسول اللہ ﷺ کے مقدس عہد میں نہ ہوئی تھیں، انکا ارتکاب نہایت قبیح سمجھتے تھے، حضرت عمرؓ اپنے خلافت کے زمانہ میں مسجد نبوی میں آئے تراویح کا وقت تھا لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمرؓ نے چاہا کہ اس کو باجماعت کردیں، حضرت ابیؓ سے کہا آپ کو امام بناتا ہوں آپ تراویح پڑھایا کریں، حضرت ابیؓ نے کہا جو بات پہلے نہیں کی ہے اس کو کیسے کرسکتا ہوں؟ حضرت عمرؓ نے کہا میں یہ جانتا ہوں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ [34]
ان کا قلبِ مز کا صغائر کی خفیف سی گرد کا بھی متحمل نہ تھا، رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ایک شخص نے سوال کیا یا رسول اللہ ہم لوگ بیمار ہوتے ہیں یا اور تکلیفیں اٹھاتے ہیں، اس میں کچھ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، حضرت ابیؓ موجود تھے پوچھا چھوٹی تکلیفیں بھی گناہ کا کفارہ ہو جاتی ہیں؟ حضورنے فرمایا ایک کانٹا تک کفارہ ہے، حضرت ابیؓ کا جوش ایمان اب اندازہ سے باہر تھا عذاب و ثواب کا تصور آتش زیر پا بناچکا تھا، خدا کی قہاریت وجباریت کی تصویر آنکھوں میں پھر رہی تھی، اسی بے اختیار کے عالم میں زبان سے نکلا! کاش مجھے ہمیشہ تپ چڑھی رہتی، لیکن حج، عمرہ، جہاد اور نماز باجماعت ادا کرنے کے قابل رہتا، دعا قلب صمیم سے نکلی تھی، حریم اجابت تک پہنچی، حرارت کی ایک خفیف مقدار رگ وپے میں سرایت کر گئی ؛چنانچہ جب جسد اطہر پر ہاتھ رکھا جاتا تھا حرارت معلوم ہوتی تھی۔
حوالہ جاتترميم
- ↑ انسائیکلوپیڈیا قرآنیات، قسط 5، صفحہ 15، سید قاسم محمود، اگست 2009ء، شاہکار بک فاؤنڈیشن، لاہور۔
- ↑ اطہر مبارک پوری، قاضی، خیر القرون کی درسگائیں اور ان کا نظام تعلیم و تربیت، صفحہ 148، ادارہ اسلامیات لاہور-کراچی، اکتوبر 2000ء
- ↑ مسند احمد:5/113
- ↑ (مسند جابر بن عبداللہ:3/303، 304، 315)
- ↑ (مسند احمد :5/142)
- ↑ (التوبۃ:127)
- ↑ (التوبۃ:128)
- ↑ (مسند احمد:5/134)
- ↑ (کنزالعمال:2/163)
- ↑ (بخاری کتاب الصلوٰۃ التراویح)
- ↑ (کنزالعمال:1/282، 283)
- ↑ تاریخ طبری 6/179، المصباح المضئی 8/ ب، تجارب الامم 1/291
- ↑ البدایہ والنہایہ 5/240
- ↑ التاریخ الکامل 2/13
- ↑ (کنز العمال:1/287)
- ↑ (کنزل العمال:1/285)
- ↑ (کنزل العمال:1/285)
- ↑ (کنزل العمال:3/184، 181)
- ↑ (مسند احمد:5/114)
- ↑ (مسند احمد:5/123)
- ↑ (یونس:58)
- ↑ (مسند :5/13)
- ↑ (مسند احمد :5/132)
- ↑ (مسند احمد:5/140)
- ↑ (کنزالعمال:74/251)
- ↑ (کنزالعمال:4/260)
- ↑ (مسند احمد:5/143)
- ↑ (کنزل العمال:254)
- ↑ (کنزل العمال:4/260)
- ↑ (کنزالعمال:255، مسند احمد:5/143)
- ↑ (کنزالعمال:3/91)
- ↑ (کنزالعمال:3/91)
- ↑ (بخاری:2/624)
- ↑ (کنزالعمال:4/284)