سورہ العنکبوت

قرآن مجید کی 29 ویں سورت

قرآن مجید کی 29 ویں سورت جو 69 آیات اور 7 رکوع پر مشتمل ہے۔

العنکبوت
دور نزولمکی
نام کے معنیمکڑی
زمانۂ نزولہجرت حبشہ
اعداد و شمار
عددِ سورت29
عددِ پارہ20، 21
تعداد آیات69
الفاظ982
حروف4,200

نام

آیت 41 کے فقرے مثل الذین اتحذو من دون اللہ اولیآء کمثل العنکبوت سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ "عنکبوت" آیا ہے۔

زمانۂ نزول

مزید دیکھیے : العنکبوت آیت 1 تا 11

آیات 56 تا 60 سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانے کے حالات جھلکتے نظر آتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورت کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورت مکی ہے۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں سے کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کر رہے تھے اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا اتفاق مکہ ہی میں ہو سکتا ہے نہ کہ مدینے میں۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورت میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دے دیا ہے حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کر چکے تھے۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادتوں کی بنا پر رکھی گئے ہیں۔ اور یہ اندرونی شہادت، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈال لی جائے، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشان دہی کرتی ہے جس میں ہجرتِ حبشہ واقع ہوئی تھی۔

موضوع و مضمون

سورت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکۂ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا۔ کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور و شور سے ہو رہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جا رہے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لیے اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لیے نازل فرمائی۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آ رہے تھے۔ مثلاً اُن کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو۔ جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے۔ تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے۔ اس کا جواب آیت 8 میں دیا گیا ہے۔

اس طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہو جاؤ۔ اگر خدا تمھیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، اس لیے آپ ہمیں پکڑ لیں۔ اس کا جواب آیات 12-13 میں دیا گیا ہے۔

جو قصے اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیا کو دیکھو، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے، پھر آخر کار اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے ان کی مدد ہوئی۔ اس لیے گھبراؤ نہیں۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گي، مگر آزمائش کا ایک دور گذرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمھارے سامنے ہیں < دیکھ لو کہ آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر ظلم و ستم تمھارے لیے ناقابل برداشت ہو جائے تو ایمان چھوڑنے کے بجئے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ۔ خدا کی زمین وسیع ہے۔ جہاں خدا کی بندگی کر سکو وہاں چلے جاؤ۔

ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ توحید اور معاد، دونوں حقیقتوں کے دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، شرک کا ابطال کیا گیا ہے اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی تمھارے سامنے پیش کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین