سورہ لقمان
قرآن مجید کی 31 ویں سورت جس میں 4 رکوع اور 34 آیات ہیں۔
سورة لقمان Sūrat Luqmān سورت لقمان | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
عددِ پارہ | 21 واں پارہ |
اعداد و شمار | 4 رکوع, 34 آیات, 550 الفاظ, 2,121 حروف |
نام
اس سورت کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے: لقمان آیت 27 تا 29
اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لیے جبر و ظلم کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر طرح کے ہتکھنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفانِ مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت 14-15 سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے بڑھ کر ہیں، لیکن اگر وہ تمھیں اسلام قبول کرنے سے روکیں اور دینِ شرک کی طرف پلٹنے پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات ہر گز نہ مانو۔ یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں لیکن دونوں کے مجموعی اندازِ بیاں اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں مسلمان پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا۔
موضوع و مضمون
اس سورت میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے اور انھیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خداوندِ عالم کی طرف پیش کر رہے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کسیے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہيں۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہہ رہے ہیں۔ تمھارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گذر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمھارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمھارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خود ہی دیکھ لو کہ وہ کسی عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔