سوز ایک نظمیہ صنف ہے جو معرکہ کربلا میں حسین بن علی، ان کے اہل و عیال اور دیگر حضرات کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ یہ ایک پر سوز ساز ہے جس کا انداز بہت ہی نرالا ہوتا ہے۔ سوز، سلام اور مرثیہ مسدس نظمیں ہوتی ہیں جن کے چار اشعار ایک بحر میں اور باقی دو دوسرے بحر میں ہوتے ہیں۔ نیز مجالس میں سوز پڑھنے والے کو سوز خوان کہا جاتا ہے۔

نظم کی اس صنف کو لکھنؤ میں بہت ہموار زمین ملی کیونکہ یہ شہر اہل تشیع کا اہم مرکز رہا ہے۔ لکھنؤ کے اہل تشیع شہدائے کربلا کا سوگ منانے اور ان کے قصیدے پڑھنے کو اپنا مذہبی فریضہ خیال کرتے ہیں۔ میر ببر علی انیس کی شاعری نے اس فن کو کمال تک پہنچایا۔ سوز میں اہل بیت، واقعہ کربلا اور خصوصا حسین ابن علی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ سوز اور نوحہ دراصل مرثیہ کے اجزا ہیں۔ سوز کا مطلب ہے آگ کی تپش اور نوحہ کا مطلب ہے گریہ وزاری کرنا، ماتم کرنا۔

بیرونی روابط

ترمیم