سید احمد حسن قنوجی
سید احمد حسن قنوجی (پیدائش: 2 فروری 1831ء– وفات: 23 نومبر 1860ء) ہندوستان کے ممتاز ترین عالم، فقیہ، محدث، محقق تھے۔ مولانا سید احمد حسن قنوجی بھوپال کے شیخ الاسلام و قاضی القضاۃ صدیق حسن خان کے بڑے بھائی تھے۔آپ مسلکِ اہل حدیث کے نامور عالم شمار کیے جاتے تھے۔
سید احمد حسن قنوجی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 2 فروری 1831ء بریلی |
وفات | 23 نومبر 1860ء (29 سال) وادودارا |
وجہ وفات | اسہال |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، محدث ، فقیہ ، محقق ، مصنف |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش و تعلیم
ترمیممولانا احمد حسن کی پیدائش 19 شعبان المعظم 1246ھ مطابق 2 فروری 1831ء کو بریلی میں ہوئی۔ خاندانی اعتبار سے حسینی بخاری سید تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ کچھ بڑے ہوئے تو تکمیل تعلیم کے واسطے کانپور، فرخ آباد، بریلی اور علی گڑھ کے مدارس میں حاضری دی اور وہاں کے جید علما کے سامنے زانوئے شاگردی تہ کیا۔ علی گڑھ میں شاہ عبد الجلیل کا غلغلۂ درس بلند تھا، اُس میں شامل ہو گئے۔یہ وہی شاہ عبد الجلیل علیگڑھی ہیں جو شاہ محمد اسحاق دہلوی کے خاص شاگرد اور بلند پایہ عالم دین تھے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں انھوں نے شہادت پائی۔شاہ عبد الجلیل کے علاوہ شیخ عبد الغنی مجددی دہلوی سے سندِ حدیث حاصل کی۔[1]
بطور عالم و فقیہ
ترمیمسید احمد حسن مروجہ علومِ عربیہ میں کامل اور حدیث و فقہ میں یگانہ تھے۔ ذکاوت و فطانت میں مشہور‘ قوتِ حفظ میں منفرد‘ ذہانت میں بے مثل اور جُودتِ طبع میں اپنے معاصرین سے فائق تر تھے۔ علوم معقولات و منقولات میں مرتبۂ کمال حاصل تھا۔ حدیث و سنت کے شیدائی اور اللہ اور اُس کے رسول کے احکام پر سختی سے پابند تھے۔ تقلیدِ شخصی کے خلاف اور تقلید شخصی پر تنقید کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ابتدائے عہد ہی میں ردِ تقلید میں ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ’’شہابِ ثاقب‘‘ رکھا تھا۔ اِس میں حدیث و فقہ کی روشنی میں تقلید کی تردید کی ہے اور اِس کتاب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے نامور عالم، فقیہ اور جلیل القدر عالم تھے۔[2]
تصانیف
ترمیممولانا احمد حسن کثیر التصانیف تھے مگر امتدادِ زمانہ کے سبب اُن کی تصانیف کا پتا نہیں چلتا۔ سوائے ’’شہابِ ثاقب‘‘ نامی کتاب کے جو تقلید کے رد میں تحریر کی گئی ہے۔[3]
وفات
ترمیممولانا نے دو تین مرتبہ حج بیت اللہ اداء کرنے کا اِرادہ کیا لیکن اُس زمانے میں پورے ہندوستان میں 1857ء کے ہنگامے جاری تھے۔ اِس لیے ہر بار آپ کی والدہ یہ کہہ کر روکتی رہیں کہ تھوڑے دِن ٹھہر جاؤ، یہ ہنگامے ختم ہوں گے تو سب اکٹھے حج کو جائیں گے۔ کچھ دن تو رکے رہے مگر غلبہ شوق نے زیادہ شورش بپا کی تو تنہا ہی قنوج سے حج کے لیے نکل پڑے۔ بڑودہ (گجرات) پہنچے اور مولانا غلام حسنین بن مولانا رستم علی قنوجی کے مکان پر ٹھہرے۔وہیں تپِ اسہالی میں مبتلاء ہوئے اور بروز جمعہ 9 جمادی الاول 1277ھ مطابق 23 نومبر 1860ء کو وفات پاگئے۔ بڑودہ میں ہی تدفین کی گئی۔ مولانا کی عمر بوقتِ وفات تیس سال سات مہینے بیس دن تھی یعنی عین عالم جوانی میں فوت ہوئے۔[4]