سید نیاز محمد ہمدانی
آیت اللہ ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی دور حاضر کے ایک ممتاز مذہبی محقق ہیں جو دین اور انسانی معاشرے کے بارے میں ایک منفرد سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ دین کا بنیادی فریضہ انسان اور انسانی معاشرے کو قرب الٰہی کی منزل کی راہ دکھانااورمعاشرے میں سماجی عدل قائم کرکے فرد اور معاشرے کی تکالیف اور دکھوں کا خاتمہ کر کے ایک فلاحی معاشرہ تشکیل دینا ہے۔ اگر کوئی دین ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ایسے دین کو دین کہنا درست نہیں ہے اور نہ کسی عقلمند انسان کو ایسے دین سے کوئی سرو کار رکھنا چاہیے۔[1][2][3]
ڈاکٹر نیاز ہمدانی کے نزدیک دین اسلام واحد دین ہے جومکمل طور پر اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ لیکن علما نے دین اور معاشرتی مسائل کے بارے میں تحقیق کی راہ اپنانے کی بجائے گذشتہ علما کی اندھی تقلید کی روش اپنا کر اور عوام کو اپنی اندھی تقلید پر لگا کر اسلام کو اس کی حقیقی روح سے بیگانہ کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسلام چند رسمی عبادات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ ڈاکٹر نیاز ہمدانی کے مطابق مسلمانوں کی معاشرتی ،معاشی اور سیاسی پسماندگی کا خاتمہ کر نے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو فکری اور علمی جمود سے نجات دلائی جائے جس کا واحد راستہ یہ ہے گذشتہ علما کی اندھی تقلید کو ترک کر کے دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ عام تعلیم یافتہ طبقہ بھی علما کی اندھی تقلید پرقناعت کرنے کی بجائے قرآن مجید میں تفکر و تدبر کی روش اختیار کرے۔[1][2]
ڈاکٹر نیاز ہمدانی 2جولائی 1959 کو بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عالم شاہ مرحوم، جواسلامیہ ہائی اسکول میں مدرس تھے، ایک محقق اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ آپ سادات ہمدانی اعرجی حسینی کے چشم و چراغ ہیں جن کا تفصیلی ذکر سید قمر عباس اعرجی حسینی ہمدانی نے اپنی کتاب المشجر من اولاد حسین الاصغر اور مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میں کیا۔ڈاکٹر نیاز ہمدانی نے ابتدائی تعلیم اور دینی تربیت اپنے والد محترم سے ہی حاصل کی۔ 1973میں جب ان کے والد ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو وہ بھی اپنے والد کے ہمراہ اپنے آبائی علاقے، ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ میں آ گئے اور اپنے والد کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کے مراحل مکمل کیے۔ ڈاکٹر نیاز ہمدانی نے اکنامکس میں M.Aتک تعلیم حاصل کر نے کے بعد 1983 سے 1990تک حوزہ علمیہ قم (ایران )میں دینی تعلیم پائی اوراجتہاد کی ڈگری حاصل کی۔ حو زہ علمیہ قم میں قیام کے دوران انھوں نے قرآن،حدیث اور فقہ کے علاوہ اسلامی فلسفہ، اسلامی معاشیات اوررومی،غزالی اور فارابی کے نظریات کی بنیاد پر اسلامی نفسیات کا بھی تحقیقی مطالعہ کیا۔ وہ متعدد کتب کے مترجم اور مولف ہیں اور اخبارات و رسائل کے لیے بھی مضامین لکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر نیا ز ہمدانی پندرہ سے زائد کتب کے مؤلف اور مترجم ہیں۔ ان کی تالیف میں تفسیر سورہ حمد، تفسیر سورہ یاسین، تفسیر سورہ توحید، مسئلہ شہادت ثالثہ اور تحقیق مسائل تقلید قابل ذکر ہیں۔ ان کے قلمی کاموں میں سب سے اہم ترجمہ و تفسیر قرآن کریم ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ تفسیر ان شاء اللہ عنقریب 5یا 6جلدوں میں شائع ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ وہ مائنڈ سائنس،ریکی،ہپناتھراپی، روحانی علاج اورروحانی تربیت کے شعبوں میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ میں انھوں نے انٹر نیشنل یونیورسٹی آف آلٹر نیٹو میڈیسن سری لنکا سے \"Healing Through Communication with DNA\" کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس طرح ڈاکٹر نیاز ہمدانی دنیا بھر میں ان چند گنے چنے افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے اجتہاد اور ڈاکٹریٹ ،دونوں ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ 2006 میں اسی یونیورسٹی کی سالانہ عالمی کانگریس میں بھی انھوں نے اپنا مقالہ پڑھاجس کا موضوع تھا: \"Spirituality:The Best Alternative medicine\" اسی سال انھوں نے سری لنکا کے انٹرنیشنل بدھسٹ میڈی ٹیشن سنٹر سے Buddhist Mindfullness Meditaion کے انسٹرکٹر کا سر ٹیفکیٹ بھی حاصل کیا ۔
میں بھی اسی یونیورسٹی کی پینتالیسویں عالمی کانگریس میں انھوں نے ایک مقالہ پڑھا جس کا موضوع تھا: Health and Social Justice۔ 2013 میں انھوں نے اس کانگریس میں Integrated Wisdom for Global Peace and Health کے موضوع پر مقالہ پڑھا جسے بہت سراہا گیا۔ ڈاکٹر نیاز ہمدانی ہر سال مختلف اسلامی موضوعات پر ایک سو سے زائد لیکچرز دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مائنڈ سائنس اور بچوں کی تربیت سے متعلق تربیتی پروگرام بھی منعقد کرتے ہیں۔[1][2]
- ^ ا ب پ "آرکائیو کاپی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2015
- ^ ا ب پ "سید نیاز همدانی|بیوگرافی - جامعة علوم القرآن - Olum Quran"۔ 13 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولائی 2015
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 02 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جولائی 2015
- ↑ کتاب المشجر میں تمام ہمدانی سادات پاک و ہند کے مشجرات کو ایک جگہ اکٹھا گیا ہے، کتاب المشجر