سینٹ بوناوینچرز ہائی اسکول
سینٹ بوناوینچرز ہائی اسکول (متبادل: سینٹ بوناوینچرز بوائز ہائی اسکول) کی دو شاخیں فوجداری روڈ اور قاسم آباد، حیدرآباد، صوبہ سندھ، پاکستان میں واقع ہیں۔ یہ اسکول 1920ء کی دہائی میں قائم ہوا اور شہر کے قدیم ترین اسکولوں میں سے ایک ہے۔ یہ حیدرآباد کے رومن کیتھولک ڈایوسس (diocese) کی طرف سے چلایا جاتا ہے۔
سینٹ بوناوینچرز ہائی اسکول | |
---|---|
We hold the fort | |
پتہ | |
، سندھ، پاکستان | |
معلومات | |
قسم | ہائی اسکول |
مذہبی الحاق | رومن کیتھولک گرجا |
قائم | 1920–1930 |
بانی | آرکلس مئیرسمن |
LEA | کیتھولک تعلیمی مجلس مجلس برائے وسطی و ثانوی تعلیم، حیدرآباد |
انتظامیہ | کیتھولک تعلیمی بورڈ |
پرنسپل | برٹرم ڈیسوزہ، اینجلہ ڈیسوزہ |
جنس | لڑکے (سٹی برانچ)، لڑکے اور لڑکیاں (قاسم آباد) |
اندراج | تقریباً 2000 |
علاقہ | فوجداری روڈ 117,040 فٹ مربع (10,873 میٹر2) قاسم آباد 88,610 فٹ مربع (8,232 میٹر2) |
ہاؤسس | ایوب جناح لیاقت طارق |
رنگ | سفید، نارنجی اور کتھئی |
الحاق | آغا خان یونیورسٹی سینٹ میریز کانوینٹ ہائی اسکول |
تاریخ
ترمیم1920ء کی دہائی میں جنوبی ہندوستان کے مشنری اداروں نے حیدرآباد میں چرچ کی طرف سے چلائے جانے والے ایک اسکول بنیاد رکھی۔[1] تاہم تقسیمِ ہندوستان اور قیامِ پاکستان (1945ء-1948ء) کے دوران، آرکلس مئیرسمن (پادری) نے نیا اسکول تعمیر کیا۔ آرکلس مئیرسمن ایک ڈچ ماں اور بیلجئن باپ کے ہاں کراچی کے فرانسسکن مدرسے میں پیدا ہوئے تھے۔[2] فرانسسکن نظریات سے گہری وابستگی کی وجہ سے آرکلس نے اسکول کا نام باگنوریجیو کے سینٹ بوناوینچر سے منسوب کیا۔ اگرچہ کچھ روایات کے مطابق اسکول کا نام رائٹ ریورنڈ بوناوینچر پیٹرک پال، سابق بشپ حیدرآباد، سے وابستہ ہے۔[3] تقسیمِ ہند کے بعد اسے ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا اور باضابطہ طور پر سینٹ بوناوینچرز ہائی اسکول کا نام دیا گیا۔
کیتھولک تعلیمی مجلس نے اسکول چلانے اور اس کی تعمیروتوسیع کا ذمہ اٹھایا۔ اور وسطی ایشیا اور بھارت میں ان کی خدمات کے لیے سینٹ فرانسس زیویر کی یاد میں ایک چرچ تعمیر کیا۔ چرچ اور اسکول کی عمارات کا شمار حیدرآباد کے ثقافتی ورثے میں کیا جاتا ہے۔[4] ابتدا میں ایک مخلوظ ادارے کے طور پر قائم ہوا، جس میں سے لڑکیوں کے لیے سینٹ میریز کانونٹ ہائی اسکول کے نام سے اسکول علاحدہ کیا گیا۔ مسیحی انتظامیہ کے تحت چلنے والے دونوں اسکولوں نے 1970ء کی دہائی تک طلبہ کو انتہائی اعلٰی معیارِتعلیم مہیا کی، جب ان اسکولوں کو ذو الفقار علی بھٹو کی سوشلسٹ حکومت کے تحت سرکار کے حوالے کیا گیا۔[1]
جب 1972ء میں نجی ملکیت کے تمام اداروں کو حکومتِ پاکستان کے ماتحت کیا گیا تو ان اداروں کے معیار میں کمی واقع ہوئی۔[1] یہ 1992ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اسکول کو بالآخر رومن کیتھولک ڈایوسس کے حوالہ کیا گیا۔ ملک کے دیگر حصوں میں مسیحی اداروں کو جون 2001ء میں نجی ملکیت ک حوالے کیا گیا۔[1][5] موجودہ پرنسپل برٹرم ڈیسوزہ اور مسز انجیلا ڈیسوزہ 1960ء کی دہائی میں اساتذہ تھے۔ جو بعد میں رشتہ ازداج میں منسلک ہوئے اور بالآخر 1970ء میں مشترکہ پرنسپل بنے۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت "The Vanishing Glory of Hyderabad (Sindh, Pakistan)" (PDF)۔ Unior.it۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2008
- ↑ Katharine Smith Diehl (August 1978)۔ "Review: Catholic Religious Orders in South Asia (1500-1835)"۔ The Journal of Asian Studies۔ Association for Asian Studies۔ صفحہ: 699–711۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2008
- ↑ "Colvale - Village with a view"۔ Goacom۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2008
- ↑ "List of old historical building"۔ Hyderabad District Government۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2008 [مردہ ربط]
- ↑ "News from Pakistani missionary schools"۔ Goanet USENET forum۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2008