سیھتی
پس منظر
ترمیمسھتی یا ساکا آریوں یعنی پارتی، ایرانیوں اور ہندیوں کے ہم نسل تھے اور عرصہ دراز سے دریائے جیحوں کے شمال میں آباد تھے۔ یہ وہاں سے اپنے ہمسایوں پر حملے کرتے تھے، خورس نے انھیں مغلوب کرنے کی کوشش کی، مگر انھیں پوری طرح تابع نہ کرنہ سکا اور خود بھی ایک سیتھی قبیلے کی بغاوت سرد کرنے میں مارا گیا۔ دارا نے 514 تا 512 ق م کے دوران انھیں مغلوب کرنے کے لیے بحیرہ اسود غبور کرکے دریائے ڈنیوب کی وادی میں اپنا تسلط قائم کرکے انھیں مغلوب کیا تھا۔ دارا نے ان کی شورش کی بنا پر بہت سے سیھتی قبائل کو پاک و ہند کی طرف جلاوطن کر دیا تھا۔ اس کے بیٹے خشیارشا نے جو فوج یونان پر حملے کے لیے ترتیب دی تھی، اس میں ہیروڈوٹس کے بیان کے مطابق سیھتی دستہ بھی شامل تھے۔ خشیارشا نے اپنی مملکت کے صوبوں کے جو نام لکھے، ان میں سیھتیوں کے علاقہ سغدیانہ بھی شامل تھا۔ سیھتیوں کے دستے تقریباََ تمام ایرانی بادشاہوں کی افواج میں شامل رہے ہیں۔ باوجود اس کے انھوں نے ایرانی بادشاہوں کو بہت تنگ کیا اور لوٹ مار ان کا خاصہ رہی ہے۔ ہیروڈوٹس کا کہنا ہے یہ سب سیتھی نہیں تھے مگر ایرانوں کی عادت تھی وہ وسط ایشیا کے تمام قبیلوں کو سیتھی کہتے ہیں۔
برصغیر میں آمد
ترمیمتقریباََ 160ق م میں یوچی سیھتیوں کی سرزمین پر ٹوٹ پڑے اور کئی جنگوں کے بعد انھیں انھیں جنوب و مغرب کی طرف ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ سیھتی اپنا وطن چھور کر بلخ اور پارتھیا کی طرف بڑھے اور بلخ کی یونانی حکومت ختم کرکے اس پر قابض ہو گئے اور چند سال کے بعد سیستان فتح کرتے ہوئے وادی سندھ کی طرف بڑھ آئے اور یونانی حکومت ختم کر کے وہاں اپنی ریاستیں قائم کر لیں۔ یہ وادی سندھ میں موقع پاکر آرکوشیہ اور درہ بولان کے راستہ دریائے سندھ کی جنوبی حصہ میں آباد ہو گئے تھے۔ چنانچہ یہ علاقہ ان کے نام سے ہندو سیھتہ Hundusihta مشہور ہوا۔
پارتھیوں کے زیر اثر
ترمیمسیتھیوں نے یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت 09 ق م تا 52ء کے درمیان متھرا تک پھیل گئی۔ ابھی ان کو حکومت کرتے ہوئے مشکل سے سو سال گذرے تھے کہ پارتھیوں نے ان کو زیر اثر کر لیا۔ سیتھیوں کو پارتھیا میں خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ پہلی دو اہم جنگوں میں انھوں نے اشکانی بادشاہ ف رہاددوم اور اردوان دوم کو شکست دے کر قتل کر دیا۔ مگر بعد میں سیھتیوں کا مقابلہ مہردادا دوم سے ہوا تو اشکانی مقابلے کی تاب مقارمت نہ لا سکے اور سخت ہزمیت اٹھانے کے بعد اشکانی بالادستی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس طرح بلخ، افغانستان اور پنجاب میں سیھتی پارتھی حکومتیں قائم ہوگئیں اور یہ علاقہ مختلف ریاستوں میں بٹ گیا، جس کی نوعیت سٹراپی کی رہی جو پارتھی حکومت کے زیر فرمان سنجھی جاتی تھیں اور یہ سیھتی پارتھی آپس میں مخلوط ہو گئے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان پر مخلوط نسل کے سیھتی اور پارتھی حکومت کرتے تھے۔
مہا بھارت اور سیھتی
ترمیمپروفیسر بدھ Prf Budha کا کہنا ہے کہ ساکا برصغیر میں پہلے پہل آٹھویں صدی قبل مسیح میں ہند پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان کا دعویٰ کہ مہابھارت دراصل ساکاؤں یعنی سیھتیوں کے درمیان جنگ تھی۔ ان کی تحقیق کے مطابق پانڈو سگے بھائی نہیں تھے اور نہ ہی کوروں سے ان کی کوئی قرابت تھی، بلکہ بدھشتر، ارجن، بہیم، نکل اور سہدیو ساکا قبیلے تھے۔ جنھوں نے کوروں سے جنگ کی تھی اور لڑائی جتنے کے بعد ٹیکسلہ میں راج کرتے رہے۔ پرفیسر بدھ پرکاش کے دعویٰ کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ کوروں کو ہرا کر بھی پانڈو اندر پرستھ یا سیتا پورکی گدی پر نہیں بیٹھے (حلانکہ کہانی کے مطابق وہ اس کا حق رکھتے تھے) اور واپس ٹیکسلہ آ گئے۔
ساکاؤں کی دوسری یلغار پہلی صدی مسیح میں ہوئی تھی۔ یہ لوگ تین قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کے نام داہا، سکاراؤکا اور مستاگزئی اور ان کے سردار کا نام موگا آیا ہے۔ چنانچہ پنجاب میں آج بھی داہا اور موگا قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ ساکاؤں نے یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کر لیا تھا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت پنجاب و سندھ سے متھرا تک پھیل گئی۔ ابھی ان کو حکومت کرتے ہوئے مشکل سے سو سال گذرے ہوں گے کہ پارتھیوں نے انھیں اپنے زیر اثر کر لیا۔ پنجاب میں سیھتیوں کی حکومت ان سیھتی اور پارتھی خاندانوں میں دو حکمران مادیس Mves جسے ہندی کتبوں میں موگا Moga لکھا گیا ہے اور دنومیس Vonomas زیادہ مشہور ہیں۔ اول الذکر ماویس پنجاب کا حکمران تھا۔ اس نے گندھارا کو فتح کیا اور شہنشاہ کا لقب اختیار کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود مختار حکمران تھا۔ ازیس اول Azes 1th اور ازیلیسس Azileses اور ازیس دوم Azes 2ed جو ماویس کے جانشین خیال کیے جاتے ہیں آزاد نہ تھے، بلکہ اشکانی بادشاہ مہردادا دوم کے ماتحت سٹراپ کی حثیت سے حکومت کر رہے تھے۔ ازیس دوم کے بعد ایک اور حکمران گونڈو فر Gondophares کانام ملتا ہے، جو شاید پارتھی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے آرکوشیہ سیستان اور پنجاب پر قبضہ کرکے اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی تھی اور پارتھی سیادت کا جوا اتار پھنکا تھا۔ اس حکمران کے متعلق ایک دلچسپ روایت ملتی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ایک حواری سنٹ ٹامس St Thamas گونڈو فر سے ملے تھے اور اسے اپنی رعایا کی کثیر تعداد کے ساتھ دین عیسوی قبول کرنے پر ائل کیا، مگر یہ روایت تاریخی اعتبار سے مستند نہیں سمجھی جاتی ہے۔
پنجابی معاشرہ اور سیھتی
ترمیمپنجاب میں ان کے تین قبیلے آباد ہوئے ان داہاDaha، ساؤکاSakarawka اور مستیا گزئی Mastragzai تھے۔ ااور ان کے سردار کا کا نام موگاMves تھا۔ ساکا چونکہ باخترسے آئے تھے اس لیے آریا ان کو بال ہیکا کہتے تھے۔ یہ بالہیکا کا تلفظ بدلتے بدلتے داہیکا ہو گیا۔ اس لیے آریہ ورت کے رہنے والے وادی سندھ کو داہیکا دیس سے تعبیر کرتے تھے۔ پنجابی میں آج بھی کھتی باڑی کرنے والے کو داہی کہا جاتا ہے۔ آریہ ورت کے لوگ خاص کر اونچی ذات والے ساکاؤں کے طرز معاشرت کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ دھرم شاشتر میں داہیکا دیس کا سفر ممنوع تھا۔ اگر سفر ناگریز ہوتا تو واپسی پر کفارہ ادا کرنا ہوتا تھا۔ مہابھارت میں کوروں کا ہیرو کرن ساکاؤں طنز کرتے ہوئے کہتا ہے، داہیکا دیس میں آدمی برہمن پیدا ہوتا ہے اور چھتری بن جاتا ہے اور دیش شودر بن جاتا ہے، پھر نائی سے ترقی کرتے ہوئے برہمن بن جاتا ہے اور پھر برہمن کے بعد داس۔ کرن کے اس اعتراض سے ثابت ہوتا ہے کہ وادی سندھ میں برہمن، چھتری، ویش اور شودر ذاتیں نہیں تھیں۔ بلکہ پیشے تھے جن کو انسان جب چھاہے تبدیل کر سکتا تھا۔
برصغیر میں ان کا پھیلاؤ
ترمیمپہلی صدی قبل مسیح میں سنگ و کانو Sung & Kanu کے کمزور حکمران شمالی ہندوستان میں حکومت کر رہے تھے اور ان دو ریاستوں میں کوئی اتنی طاقتور نہ تھی کہ بیرونی حملوں لا مقابلہ کرسکتی۔ چنانچہ پہلے یونانیوں اور پھر سھتیوں نے پاکستان کے شمالی حصہ پر قبضہ کر لیا اور جب تک سھتیوں کا تصادم پارتھیوں سے ہوتا رہا، وہ برصغیر کے اندرونی حصوں کی طرف اقدام نہیں کرسکے۔ مگر جب پہلی صدی عیسوی میں اشکانی حکومت کمزور ہو گئی، تو سیھتی شمالی ہند میں بنارس اور جنوب میں سندھ سے گزرکر راجپوتانہ، گجرات کاٹھیاوار اور مالوہ تک پھیل گئے۔ مہاشتر میں ایک سیھتی خاندان کشہرات Kasharta نے تسلط قائم کیا تھا، جس کے ایک حکمران نہپان Naphana نے بڑی ناموری حاصل کی۔ اس ریاست کا تصادم اندھیر سے ہوتا رہا اور اندھیر راجا گوتمی پتر سات کرنی Gautamiputra Satakrniنے اس خاندان کو اکھاڑ پھنکا۔ اس طرح مالوہ کا علاقہ کشہرات Kasharta خاندان کی دوسری شاخ چشتیان Chastana نے زیر تسلط کر لیا اور اس خاندان کا نامور راجا ردرادمن Rudradamana گذرا ہے۔ یہ چشتیان Chastana کا پوتا تھا، جس نے130ء سے 150ء تک حکومت کی ہے اور اندھر یا سات واہنThe Satvahanes or the Andhras خاندان سے ازواجی تعلقات قائم کیے۔ اس نے کوکن سے ماڑوار تک اپنی ڈھاک بیٹھائی، ردرادمن Rudradamana کی موت کے بعد اس خاندان کا زوال شروع ہو گیا، پھر بھی یہ ریاست چوتھی صدی عیسوی تک قائم رہی، یہاں تک گپتا Gupta خاندان نے اسے اکھاڑ پھنکا۔
افغانستان کے سسیتھی
ترمیمیہ کلمہ افغانستان میں ساکا کے علاوہ سکہا بھی ملتا ہے اور افغانستان میں دس قبیلے اب بھی سہاک کے نام سے موسوم ہیں۔ یہ آریائی قبیلے تھے۔ بقول ہیروت کے یہ قبیلے سیستان آ گئے اور دریائے سندھ تک پھیل گئے اور یہ سرزمین ان کی نسبت سے سگستان کہلائی۔ جس کا معرب سجستان ہے اور بعد میں سیستان کہلائی۔ بقول عبد الحئی حبیبی کے سہاک، سکہا اور ضحاک تقریباً ایک ہی ہیں اور بامیان کے نذدیک ایک شہر ضحاک موجود ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں اس نام سے اشخاص، قبیلے اور شیر مشہور ہیں۔ درانیوں کا مشہور قبیلہ ساگزئی ہے، پہلے سہاکزی کہلاتے تھے اور ان کا تعلق یقینا سہکا قبائل سے ہے اور امتداد زمانہ سے یہ اسحاق زئی مشہور ہو گئے۔ لیکن مورخین نے ان کے باپ کا نام ضحاک بتایا ہے۔ افغانستان اور پاک و ہند میں آباد بہت سی اقوام کا نسلی تعلق سیھتی یا ساکاؤں سے ہے۔ افغانوں میں بہت سے قبیلے سہکا یا سکا نام سے بنے ہیں۔ اس طرح بلوچوں میں ساکزئی یا ساکازئی ہے۔ نیز جاٹوں کا نسلی تعلق بھی سھتیوں سے ہے۔ سیھتی بدھ مذہب پر کاربند تھے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے، مگر وہ مذہبی رواداری کے قائل تھے اور دیگر مذاہب کے ساتھ ان کا برتاؤ رواداری اور نرمی کا تھا۔
ماخذ
سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا
ڈاکٹرمعین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
عبد الحئی حبیبی۔ تقلیمات طبقات ناصری جلد دوم ویسنٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند ابسن پنجاب کی ذاتیں