شاہ احمد حسن محدث کانپوری

مسلمان عالم دین

شاہ احمدحسن محدث کانپوری چشتی استاذالعلماء، امامِ معقولات و منقولات سے مشہور ہیں۔

شاہ احمد حسن محدث کانپوری
معلومات شخصیت
مقام پیدائش پٹیالہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت مظاہر علوم سہارنپور   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت

ترمیم

آپ کی ولادت 3 صفر 1296ھ /1879ء میں ڈسکہ ضلع حصار (مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی ۔

حصول تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم والد محترم مولانا عظمت اللہ اور برادر خورد حافظ موسی سے حاصل کی اس کے بعد امرتسر ،ملتان ، پشاور اور پانی پت اور سہارنپور کے ساتھ علی گڑھ شہر میں مفتی لطف اللہ علی گڑھی کی خدمت میں رہنے لگے اور وہیں سے فراغت پائی۔ پھر مدرسہ فیض عام کانپور میں بحیثیت استاد مقرر کیے گئے، چنانچہ کافی زمانہ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے، ، نتیجہ کے طور پر وہیں شادی کرکے رہائش اختیار کرلی اور طویل مدت تک درس دیتے رہے۔ پھر وہاں سے سفر کرکے حجاز مقدس تشریف لے گئے اور حج و زیارت مقامات مقدسہ سے فارغ ہوئے۔ پھر شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بیعت طریقت حاصل کی اور ہندوستان لوٹ آئے۔

علمی مقام

ترمیم

استاذ العلماء، امامِ معقولات و منقولات ، جید عالم، مدرس مدرسہ فیض عالَم کانپور، مصنف و شارحِ کتب،اعلیٰ حضرت کے ساتھی اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔

زہد و تقوی

ترمیم

آپ بہت بڑے عالم تھے۔ دینداری میں بہت پسندیدہ اور مقبول تھے۔ پرہیزگار اور متواضع بھی تھے، بہت زیادہ عقل مند، بہترین اخلاق والے، تمام اچھی صفتوں سے متصف تھے۔ اچھی معاشرت والے، لوگوں کو بہت زیادہ نصیحتیں کرتے رہنے والے اور اپنے شاگردوں اور دوستوں سے بہت محبت کرنے والے، کم سخن، لوگوں سے کنارہ کش، دنیاداروں کے پاس آمدورفت کرنے سے بھاگنے والے، تھوڑے پر قناعت کرلینے والے، تکلف برطرف کرنے والے، بہت زیادہ انصاف کرنے والے، ان سے کچھ چاہنے والے کو خوش آمدید کہنے والے، اپنی مصروفیت پر مداومت کرنے والے، پڑھانے کے لیے پیش قدمی کرنے والے، بہت ہی صابر، کسی تنگدلی اور رنجش کے بغیر اپنے درس کو جاری رکھنے والے، جیسے کہ آپ درس و تدریس میں شب و روز مشغول رہے۔ میں آپ کے مثل کسی بھی عالم سے اب تک واقف نہیں ہوسکاہوں۔

درس و تدریس

ترمیم

فنون منطق، حکمت و اصول اور کلام کی اہم کتابوں کا درس دیتے۔ مختلف علوم میں باریک تر مسائل میں بھی بحث کرسکتے تھے اور اہم کتابوں کے اسباق ہر روز پندرہ گھنٹے پڑھاتے تھے۔ ایسی حالت میں ان کو بواسیر کا مرض لاحق ہو گیا جس سے بدن سے بہت زیادہ خون نکل جاتا۔ پھر درس دینے میں رخصت نہیں لیتے۔ بالآخر ان کو بہت زیادہ کمزوری ہو گئی، اس لیے حکماءنے ان کو کلی طور پر پڑھانے سے سختی سے منع کر دیا۔ پھر بھی یہ اپنی عادت سے باز نہیں آئے اور اپنا درس کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ روح جسم سے پرواز کرگئی۔

تصانیف

ترمیم

حمداللہ کی شرح سلم پر ان کا بہت مفصل حاشیہ موجود ہے۔ اسی طرح سے مثنوی معنوی پربھی حاشیے ہیں۔ اور اللہ تعالی کے امکان کذب کی بحث میں ان کے انکار پر مستقل رسالہ ہے جس میں دلائل کلامیہ سے امتناع کو ثابت کیا ہے۔ تصانیف میں رسالہ تَنْزِیْہُ الرَّحْمٰن کو شہرت حاصل ہوئی۔

وفات

ترمیم

آپ کی وفات 3صفر 1322ھ /19،اپریل 1904ء کو کانپور (یوپی) ہند میں فرمایا، آپ کا مزار پرانوار یہیں بساطیوں والے قبرستان نزد پنجابی محلہ میں ہے۔ [1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ محدث سورتی، ص270 ، خواجہ رضی حیدر ،رضا اکیڈمی بمبئی 
  2. چودھویں صدی کے علمائے برِّ صغیر“، ”نزہة الخواطر“ کا اردو ترجمہ، 8/ 95