شعر العجم علامہ شبلی نعمانی[1] کی لکھی ہوئی قدیم فارسی شعرا کے احوال و کمالات شاعری کی ایک جامع علمی و تحقیقی تاریخی دستاویز ہے۔شعر العجم پانچ جلدوں میں ہے۔ چار جلدیں شبلی کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھیں۔ پانچویں جلد شبلی کی وفات کے چار سال بعد ١٩١٨ میں شائع ہوئی۔ شعر العجم کی چوتھی جلد میں شبلی کے تنقیدی تصورات ملتے ہیں۔

شعر العجم علامہ شبلی نعمانی کا نہایت مہتم بالشان کارنامہ ہے۔یہ فارسی زبان و ادب کا مکمل تذکرہ ہے۔گویا کہہ لیجئے کہ یہ فارسی زبان والوں کی تاریخ ہے۔ ابتدائی دور کے ذکر کے ساتھ ساتھ ہر با کمال کے کلام پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس تصنیف سے پہلے اُردو اور فارسی زبان میں ایسی کوئی کتاب نہ تھی جس میں فارسی ادب کا پورا احاطہ کیا گیا ہو۔ کلام کی خصوصیات کے بیان میں مصنف کا تنقیدی پہلو خاصا نمایاں ہے اور شعر و شاعری کے متعلق نظریاتی بحث میں تنقیدی نظریات بخوبی اجاگر ہوئے ہیں۔

شبلی نہایت اعلیٰ ذوق شعر کے مالک تھے۔اس کتاب سے ان کے مذاق سخن کی شستگی‌اور پختگی کا ثبوت ملتا ہے۔ شعر العجم میں شبلی نے اُردو شاعری سے بحث نہیں کی، لیکن اس تصنیف کی چوتھی جلد میں انھوں نے عام شعری مسائل پر جو گفتگو کی ہے اس سے اُردو تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ شعر العجم پر نہایت شد و مد سے اعتراضات کیے گئے۔اس کی تاریخی ،ادبی اور لسانی حیثیت پر کافی لے دے ہوئی۔بات دراصل یہ تھی کہ شبلی اس کتاب میں۔ فارسی شاعری کا احاطہ کرنا چاہتے تھے۔ اُن کا مقصد فارسی اصناف سخن کے محاسن و معائب پیش کرنا تھا اس ضمن میں فارسی زبان کی تاریخ کا تذکرہ بھی ناگزیر تھا۔ بایں ہمہ ملکی تاریخ اور شاعروں کے حالات کا ذکر بھی از بس ضروری تھا۔شبلی کی یہ خاص فطرت تھی کہ وہ اپنے مخصوص موضوع سے متعلق تو کافی تحقیق و تلاش کرتے لیکن ضمنی باتوں کی طرف کم توجہ دیتے تھے اور سنی سنائی باتوں پر اکتفا کر لیتے تھے۔چنانچے فارسی زبان کی تاریخ اور شعرا کے حالات و کوائف کے سلسلے میں انھوں نے تذکروں اور روایات پر بھروسا کیا۔ظاہر ہے، تحقیق و تلاش نہ کرنے کی وجہ سے سے سقم برقرار رہا اور نکتہ چینیوں کو اعتراض کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔

کلیم الدین احمد نے بھی شعرالعجم پر سخت اعتراض کیا ہے ہے ان کا کہنا ہے شبلی کا یہ نظریہ سراسر غلط ہے ہے کہ شاعری صرف احساس کا نام ہے ہے حالانکہ ادراک سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے ہے اعلی شاعری کے لیے نہ صرف دلی جذبات ضروری ہیں ہیں بلکہ دماغی فکر و کاوش کو بھی اس میں خاص دخل ہے۔

یہ تنقید اپنی جگہ درست سہی، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کہ شعر العجم نے نقد و نظر کے لیے چراغ جلائے اور تنقید نگاری کی راہ استوار ک کی۔

شعرالعجم کے حصہ چہارم کو مولانا شبلی نعمانی کا کا عظیم تنقیدی سرمایہ قرار دے سکتے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. شعر العجم، شبلی نعمانی
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔