شفاء اللہ خان روکھڑی
شفاءاللہ خان روکھڑی ایک پاکستانی موسیقار تھے۔ جو روکھڑی ضلع میانوالی سے تعلق رکھتے تھے۔
شفاء اللہ خان روکھڑی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1966ء |
تاریخ وفات | 29 اگست 2020ء (53–54 سال) |
شہریت | پاکستان |
فنکارانہ زندگی | |
پیشہ | موسیقار |
درستی - ترمیم |
شفاءاللہ خان روکھڑی نیازی کا تعلق نیازی قبیلہ سے تھا اور وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ 1966ء کو میانوالی سے 10 کلومیٹر دور بمقام روکھڑی میں پیدا ہوئے،
گلوکاری کے شعبہ میں قدم رکھنے سے قبل شفاءاللہ خان روکھڑی پنجاب پولیس میں ملازمت کرتے تھے تاہم خواہش ان کی گلوکار بننے کی ہی تھی۔
گلوکاری کے شوق کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے پولیس کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر باقاعدہ طور پر گلوکاری کے میدان میں 1984ء میں قدم رکھ دیا۔
شفااللہ روکھڑی دس سال تک گلوکاری میں محنت کرتے رہے اور 1995ء میں اپنا پہلا البم ریلیز کیا جو انھیں کامیابی کی بلندیوں تک لے گیا۔
فوک گلوکاری ان کی پہچان بنی۔عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے بعد وہ ملکی سطح پرمیانوالی کی پہچان بنے، گلوکاری میں ان دنوں انکا اپنے ہی بیٹے ذیشان روکھڑی سے مقابلہ تھا شاعرافضل عاجز‘مظہر نیازی‘عاجز بھریوں‘اعجا زتشنہ‘محمود احمد کے سینکڑوں گیت گائے جو پاکستان بھرمیں مقبول ہوئے جن میں ’’میں ستی پئی نوں جگایاماہی‘‘’’آکھوسکھیو‘‘’’آ مل ڈھولا‘‘’’جیویں شالا دل جانی ‘‘شامل ہیں۔
شفاءاللہ خان روکھڑی اور ان کے بیٹے ذیشان خان روکھڑی نے موسیقی میں اپنا نام پیدا کیا اور سوشل میڈیا پر ان کے سبکرائیبرز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ شفاءاللہ خان روکھڑی کے یوٹیوب پر 1.78 ملین سبسکرائبرز ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سرائیکی سے محبت کرنے والے لوگوں میں کس قدر مقبول تھے۔
29 اگست 2020ء کو راولپنڈی کے نجی ہسپتال میں بعارضہ قلب وفات پاگئے،
نماز جنازہ اور تدفین ان کے آبائی علاقہ روکھڑی میں کی گئی، مسلم کالونی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔انھوں نے پسماندگان میں بیوہ ‘چاربیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔ان کا ایک بیٹا ذیشان روکھڑی بھی سرائیکی گلوکاری میں اپنی پہچان رکھتا ہے، [1]