میانوالی، صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ سرائیکی زبان بولتے ہیں۔ یہاں پاک فوج کا فوجی ہوائی اڈا بھی ہے۔ یہاں کے بہادر لوگوں کی کثیر تعداد پاکستان فوج میں شمولیت اختیار کرتی ہے۔ میانوالی ضلع 5840 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔

میانوالی
 

انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ تحصیل میانوالی   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 32°35′07″N 71°32′37″E / 32.585277777778°N 71.543611111111°E / 32.585277777778; 71.543611111111   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 210 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی 95007   ویکی ڈیٹا پر (P1082) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 1170425  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

میانوالی کی زبان اور معاشرت

معاشرتی لحاظ سے میانوالی ضلع کیونکہ بنوں کا حصہ رہا ہے تو یہاں کے لوگ قبائل میں تقسیم صدیوں سے چلے آ رہے ہی یہاں کی سب سے قدیم زبان سرائیکی ہے جو یہاں کے قدیم باشندوں کی زبان چلی آ رہی ہے 17 اور 18 صدی میں یہاں پشتو زبان کے افراد آباد ہوئے تو ان پر مقامی زبان نے چھاپ لگا دی تاہم اب بھی کچھ علاقے پشتو زبان پر مشتمل ہیں۔

تاریخی پس منظر اور قبائل

ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی کتاب تاریح میانوالی میں محمد سلیم احسن لکھتے ہیں، میانوالی کے کئی نام ہیں۔ تاریحی طور پر اس کا نام دھنوان تھا جو معرب ہو کر شبوان بنا۔ اسے رام نگر اور ستنام کا نام بھی ملا ہے۔مصنف تاریخ نیازی قبائل محمد اقبال خان تاجہ خیل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میانوالی کا ایک نام یونانی دور میں "سینگون" بھی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میانوالی کسی دور میں یونانی قبضہ میں رہا اور اسکندر اعظم کی قلمرو میں راجدھانی تھا۔دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے کچھی بھی کہلایا۔1861ء میں جب بنو ضلع بنا تو کچھی کا دفتر بلوخیل میں تھا۔ سردار محمد خیات خان کٹھٹر اپنی کتاب خیات افغان 1865ء میں لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ دریاہ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے کچھی بھی کہلایا اورہنوز اسی یعنی کچھی کے نام سے معروف ہے گریر سن دریائی مٹی سے بنی ہوئی زمیں (Aluvial Land) کو بھی لکھتے ہیں دراصل لچھی دریا کی دست برد کا علاقہ ہے۔ دریائے سندھ کا مشرقی کنارا تاریخی طور پر سیلابوں کی آما جگاہ بنا رہا۔ اس اعتبار سے کچھی کا علاقہ دریائے سندھ کی زرخیز مٹی کی وجہ سے بہت سر سبز اور آباد تھا ایک روایت کے مطابق مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں 1584ء میں شیخ جلال الدین اپنے بیٹے میاں علی کے ہمرا تبلیغ و اشاعت دین کی خاطر بغداد سے ہندوستان آئے۔

باب اسلام

تاریخ میانوالی میں پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم ملک اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔ کہ , سندھ 91/90 ہجری (712/711 عیسوی) میں فتح ہو کر شامل ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ ایک صدیوں تک اسلامی سلطنت کا حصہ رہا۔ یہیں سے ہندستان کے دوسرے علاقوں کو فتح کرنے کی کوشیش کی گئیں۔ گو کوئی قابل ذکر علاقھ فتح ہو کر اسلامی سندھ میں داخل نہیں ہوا۔ میانوالی پاکستان کے ان واحد لعلاقوں میں شامل ہے جہاں دو تہذیبوں کا ملاپ ہوتا ہے ایک طرف پشتو زبان کے لوگ اور دوسری طرف سرائیکی بولنے والے قبائل۔لیکن یہاں کے رسم و رواج رہن سہن پٹھانوں کے جنگ جو اور راجپوتوں کے جنگ جو قبائل جو ماضی کی ایک بہت وسعی تاریخ رکھنے والی قوم ہیں کے درمیان بہترین دوست ماحول میں پروان چڑی ہیں۔عورتوں کی پردہ داری اور وفا مردوں میں محنتی سخت جان اور اپنے وطن سے محبت کرنے والے جذبہ کے لوگوں کی دھرتی ہے گھوڑوں کے شوقین اور منفرد رقص انکا جنون رہا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے یہاں پر اصل ثقافت سے ہٹ کر مختلف رجہانات بھی نظر آ رہے ہیں

تاریخ سادات


میانوالی میں آباد دیگرقبائل

نیازی قبائل

نیازی قبیلے کا تعلق لودی(لودھی) وہی لودھی(شاہو خیل) خاندان جنھوں نے ہندوستان پر حکومت کی انھی لودھی خاندان سے شیر شاہ سوری کا بھی تعلق تھا، سوری،نیازی، مروت، دولت خیل (نوابین ٹانک )اور میاں خیل یہ سب پشتونوں کے لودھی قبیلہ کی ذیلی شاخیں ہیں۔نیازی قبائل کے لوگ ہندوستان میں امیر تیمور کے ساتھ داخل ہوئے۔بعد ازاں ١٥ عیسوی میں یہاں قیام پزیر ہوئے یہ پہلے پشتون قبیلے تھے جو اس علاقے میں وارد ہووے اور جاٹوں اور ہندوؤں کو نکال باہر کیا۔ اس قبیلے کے اثرات و کھنڈر آج بھی دہلی کے گرد و نواح میں موجود ہیں جن میں خاص کر عیسا خان نیازی کا مقبرہ ہے جو آج بھی ہمایوں کے مقبرے کے ساتھ موجود ہے اس قوم کے پہلی سکونت دہلی میں تھی اور پشتونو کی پہلی اور شروع کے دور حکومت میں وہاں قیام پزیر تھے مگر مغلوں کے ہاتوں شکست خانے کے بعد یہ اس علاقے میں دیگر افغان قوموں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوگے اور وقت با وقت اور نیازی قبائل افغانستان سے آکر آباد ہوتے گئے افغانستان میں آج بھی نیازی قبائل کی اچھی خاصی آبادی ہے اس کے علاوہ لکی مروت،کوہاٹ،ہنگو،ڈیرہ اسماعیل خان،ژوب ،لورالائی اور کوئٹہ میں بھی نیازی آباد ہیں جو ابھی تک پشتو بولتے ہیں جبکہ میانوالی میں بھی کچھ نیازی قبیلے پشتو بولتے ہیں جن میں باہی،سلطان خیل اور بوری خیل سرے فہرست ہیں۔ نیازی قبیلے کے مشہور لوگوں میں سے کچھ یہ ہیں عیسیٰ خان نیازی مشیر شیر شاہ سوری، ہیبت خان نیازی گوورنر پنجاب و جرنیل۔ عمران خان نیازی وزیر اعظم پاکستان،منیر نیازی معروف اردو شاعر،ایڈمرل کرامت رحمان نیازی پاک بحریہ کا سابقہ سربراہ وغیرہ ہیں۔


فہرست نیازی قبائل

  • عیسیٰ خیل،, نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے، اس قبیلے نے تمام نیازیوں کی نمائندگی کرتے ہووے نادر شاہ کے ساتھ مل کر جنگ کی اور نواب کا خطاب پایا
  • اباخیل
  • بوری خیل
  • موسیٰ خیل
  • وتہ خیل
  • بلو خیل
  • تاجہ خیل
  • پائی خیل
  • کلہ خیل(روکھڑی)
  • تری خیل
  • داؤد خیل
  • مشانی
  • سلطان خیل
  • پنوں خیل
  • شہباز خیل
  • زادے خیل
  • الیاسی خیل(سوانس)
  • باہی
  • سنبل
  • مچن خیل
  • ملا خیل
  • اللہ خیل
  • سالار
  • بہرام خیل
تلوکر جٹ::::::

میانوالی کی تحصیل پپلاں کی اکثریتی آبادی تلوکر جٹ قبائل کا موجودہ مسکن یونین کونسل کھولہ،بھکڑا اور خطہ اتلس، کچہ گجرات ہے۔جس کا تعلق ماضی کی وسعی جنگجو تاریخ رکھنے والی قوم راجپوت قبیلے سے ہے اس کے علاوہ ضلع کے مختلف جگہوں پر رہائش پزیر یہ قبیلہ صدیوں سے موجودہ میانوالی میں آباد چلے آ رہے ہیں۔ضلع میں تین مختلف تلوکر ہارس رائزنگ کلب اب بھی ماضی کی تاریخ سے جوڑے ہوئے ہیں۔ خواجہ خان محمد نقشبندی عالمی تحریک ختم نبوت کا تعلق مسلم تلوکر قبیلے سے تھا اس قبیلے نے ملک پاکستان کے دو بڑے منصوبوں کے لیے دو بار اپنی جاگیروں اور آبادیوں کی قربانی دی۔اس کے علاوہ تلوکر قبائل خوشاب،ہری پور،بھکر نور پور تھل،لیہ،ڈی جی خان وغیرہ میں کافی تعداد میں آباد ہیں اس کی درجہ ذیل چھ بڑی جاگیردار خیلیاں ہیں۔

  • جمالے خیل
  • فوجے خیل
  • مرزے خیل
  • سکھے خیل
  • رنگے خیل
  • جلال خیل

مندرجہ ذیل ذیلی خیلیاں ہیں۔ جمالے خیل کی ذیلی خیلیاں:جمالے خیل۔ مستی خیل۔ عالو خیل۔لٹو خیل۔حسین خیل۔حسن خیل۔بخشے خیل۔کیمے خیل۔نیازی خیل۔رحمتے خیل۔باقر خیل۔بگے۔

  • فوجے خیل کی ذیلی خیلیاں:فوجے خیل۔ سکو خیل۔گنگے۔بھابھے۔مہرے خیل * مرزے خیل و دول۔کوئی ذیلی خیلی نہیں ۔ * سکھے خیل کی ذیلی خیلیاں: زمان خیل۔شہباز خیل ۔ ذکری خیل ۔ * رنگے خیل کی ذیلی خیلیاں: مانے خیل۔یارو خیل۔شیرے خیل۔شپاہی خیل۔لال خیل۔بڈھے خیل۔علی خیل۔ڈیڈے۔ڈڈوو۔بٹڑی۔۔شادو خیل۔ * جلال خیل کی ذیلی خیلیاں: جلال خیل۔ صالت خیل۔ دھنڑائی خیل۔گڈو خیل۔بلے۔بوئے۔مٹھن خیل۔ * نوٹ: تلوکر کا تعلق مشہور شاعر تلوک چند یا بھگوان چند سے بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ تلوکر صدیوں پہلے بابا فرید گنجؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرچکے تھے۔تلوک چند و بھگوان چند تو پاکستان بننے سے پہلے یعنی کل کی بات ہے ۔۔۔تلوکر جٹ یا پنور راجپوت وسیع تر کچہ المعروف کچی و کھچی۔بکھڑا شریف۔کالو۔کچہ پار یونین کونسل کچہ گجرات کے مالک تھے اور ہیں جبکہ تھل کی ملکیت علاحدہ ہے۔تلوکر یونین کونسل کھولہ کے موضع کھولہ و ڈنگ شریف و خانقاہ سراجیہ و سعیدآباد و لال خیلانوالہ۔زمان خیلانوالہ۔شہباز خیلانوالہ۔بلے والہ و متعدد ڈیرہ جات کے مالک تھے اور ہیں ۔

سلطان خیل

ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی کتاب تاریح میانوالی میں پروفیسر رئیس احمد عرشی لکھتے ہیں کہ، نیازیوں(خلجی ،لودھی ) کی آمد کا سلسلہ ہندوستان پر محمود غزنوی داتک کے آغاز اے ہوتا ہے۔(2 )

تہزیب و ثقاافت

ماحولیات

شخصیات

بیرونی روابط

ب* (1تاریح میانوالی از ڈاکٹر لیاقت علی نیازی , سنگ میں پبلی کیشنز لاہور۔

  • (2 )تاریح میانوالی از ڈاکٹر لیاقت علی نیازی , سنگ میں پبلی کیشنز لاہور۔
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
  1.    "صفحہ میانوالی في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2024ء