شنگھاؤ
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
شنگاؤ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو ضلع مردان کے شمال مشرقی کنارے ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ جو کے مردان سے 21 میل کے فاصلہ پر ہے۔ شنگھاؤ گاؤں سطح سمندر سے 1700 فٹ بلند ہے اور پر خودرہ غار جو عرف عام میں شنگھاؤ غار کہلاتا ہے جو مزید 300 فٹ بلند اونچی جگہ پر واقع ہے۔ غار کے قریب فرشی چٹان نچلے قدیم مجحر حیات کے دور ( 57 کروڑ سال قبل تا 39 کروڑ پچاس لاکھ سال قبل ) سے تعلق رکھتی ہے۔ غار کی زمین پر جو مٹی، چونا اور دیگر مواد جمع ہے وہ پچاس فٹ ضخیم ہے اور دووسری برف ببدی ( چار لاکھ سال تا پانچ لاکھ سال قبل ) کے زمانے کا ہے ۔
قدامت
ترمیمپرخودرہ غار یا شنگھاؤ غار آخری انتہائی نزدیکی زمانے ( پچیس لاکھ سال قبل تا دس ہزار سال قبل ) میں وجود میں آئی۔ اس کا آخری وسطہ زمانہ بار تیرہ لاکھ سال قبل یہ غار وجود میں آئی۔ غار میں موجود حجری اوزار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں موسمی اثرات کے تحت غار میں مزید تودے گرتے رہے اور یہ غار بڑی ہو گئی۔ غار کے اندر جو اصل غار ہے اس کی چوڑائی 80 فٹ ہے۔ دہانے سے اندر کے قریب گہرائی 35 فٹ ہے اور فرش سے چھت تک اونچائی 14 فٹ ہے۔ اس میں بار بار چھت سے توے گرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ غار بار بار انسانوں سے خالی ہوتی رہی اور بالآخر سنسان ہو گئی۔ غار کا فرش زمین سے پانچ فٹ اونچا ہے۔ جب کھدائی کی گئی تو سطح فرش سے پندرہ فٹ نیچے جاکر بنیادی چٹان آتی ہے۔ ذخیرہ شدہ مٹی کی واضح طور پر بارہ پرتیں ہیں۔ ہر دو سطح کے درمیان راکھ اور کوئلہ کی ایک تہ بچھی ہوئی ہے۔ غار کے دھانے پر اس طرح کی مٹی کی تہ نہیں ہیں بلکہ ہو وہ گندگی جو غار کے باسیوں نے ہزاروں سالوں میں مسلسل باہر پھینکی ہے۔ یہاں پر جمع شدہ ہے۔ گو اس کی ترتیب وار تہیں اتنی وضاحت سے بنی ہوئی نظر نہیں نظر آتی ہیں۔ لیکن پھر بھی اندر کی تہیں باہر کی تہیں کے ساتھ مماثلت ضرور رکھتیں ہیں۔ ڈاکٹر دانی نے اس کے پانچ زمانے بتائے ہیں۔ یعنی یہ غار پانچ مرتبہ آباد ہوئی ہے ۔
پہلا زمانہ
ترمیمانسان کی قدیم ترین رہائشوں کا زمانہ نیچے کی تین سطحوں پر مشتمل ہے۔ ان تیل اندورنی سطحوں کے متوازی باہر کوڑے کے ڈھیر میں بھی ایک سطح ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کی چھت سے ایک تودہ گرا ہے جس کی مٹی نے فرش کو ڈھانپ لیا ہے۔ چونکہ اندر انسانی لاشیں نہیں ملیں ہیں۔ اس مطلب صاف ہے کہ تودہ گرنے کے آثار کافی پہلے نظر آ گئے ہوں گے اور لوگوں نے غار خالی کردی ہوگی ۔
اسی زمانے کی سطح راکھ اور لکڑی کے کوئلے کی موجودگی سے ثابت ہوتا ہے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو انسان یہاں رہا ہے اس کو آگ پر پورا غبور تھا اور وہ آگ کو اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرتا تھا، اس کے علاوہ وہاں سے جانوروں کی ہڈیاں، ان کے دانت، سینگوں کے ٹکڑے اور گاری پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ اوزار بناتے قوت گار پتھر کے جو ٹکڑے اور کرچیاں اتری ہیں وہ بکثرت ملی ہیں، اس کے علاوہ وزنی چٹانوں کے ٹکڑے اور ان سے بنی نوکیں بھی ملی ہیں اور دھار والے اوزار بھی، پہلے زمانے کے اوزار بعد کے زمانوں کی نسبت موٹے اور بڑے ہیں۔ اس زمانے کا اختتام چھت گرنے سے ہوا ہے۔ چھت کیوں گری؟ اس کی وجہ شاید موسمی تبدیلیوں میں ہو۔ مثلاً بارشیں، سیلاب، زلزلہ وغیرہ۔ اسی تودے کے اوپر دوسرے لوگوں نے رہاہش اختیار کرلی ۔
دوسرا زمانہ
ترمیمیہ بعد کی چار سطحیں یعنی نویں سے لے کر پانچویں سطح پر مشتمل ہے۔ جس کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر کی متوازی سطح شامل ہے۔ اس زمانے میں جو خام مال استعمال کیا گیا ہے اس کی رنگت پہلے سے مختلف ہے۔ بعد ان پر سرخ مٹی کے دھبے لگے ہیں۔ اس مرتبہ غار اس وجہ سے خالی ہوئی کہ غار کی پچھلی چٹان قدرے سرک گئی تھی۔ اس زمانے کے مواد میں جانوروں کی ہڈیاں، جن میں بعض ادھ جلی ہوئی تھیں اور بعض ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کچھ گاری پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ جن پر سرخ دھبے تھے۔ اس زمانے کے بارے میں ڈاکٹر دانی کا خیال ہے کہ یہ غار باقیدگی اور تسلسل کے ساتھ آباد نہیں رہا۔ لگتا ہے کہ گاہے بگاہے لوگ آکے رہے پھر چلے گئے ۔
تیسرا زمانہ
ترمیمیہ غار کے اندر کی چوتھی اور تیسری سطح اور باہر کے کوڑے کی دو متوازی سطحوں پر مشتمل ہے۔ یہ سطح اس گلابی مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ جو باہر وادی میں میسر ہے اور غالباً یہیں سے مٹی کی یہ تہ جمائی گئی ہوگی۔ تیسرا زمانہ باقیدہ رہائش کا زمانہ ہے۔ اس دور میں جو چیزیں ملی ہیں ان میں گار پتھر کے اوزار ہیں۔ جن پر سرخ دھبے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ان اوزاروں سے جانوروں کو جن کے سینگ پڑے ہیں ذبح کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سنگ خارا کے بنے ہوئے کئی اہرن ملے ہیں۔ ہڈیوں کے ٹکڑے، جانوروں کے دانت اور ورقی چٹانوں کے اوزار بھی کافی تعداد میں ملے ہیں ۔
یہ تینوں زمانے پاکستان کے سطی حجری دور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا دورانیہ پچاس ہزار سال قبل سے لے کر پندرہ ہزار قبل تک ہے۔ چوتھا زمانہ بہت بعد کا ہے۔ جب اس علاقے میں بدھ مت پھیل چکا تھا۔ یعنی 200 قبل مسیح سے لے کر 200 عیسویں تک کا زمانہ ہے۔ اس دور میں غار باقیدہ آباد نہیں رہی۔ بلکہ وقفے وقفے سے لوگ آتے جاتے رہے۔ پانچواں زمانہ غار کے خالی رہنے کا زمانہ ہے۔ جب اس پر مٹی گرتی رہی۔ جو کھدائی کے وقت ظاہری سطح ( فرش ) کی صورت رکھتی تھی ۔
کھدائی ملنے والی چیزیں
ترمیمکھدائی سے ملنے والی چیزیں بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں۔ ایک تو حجری اوزار ہیں جو گار پتھر یا ورقی چٹانوں سے بنے ہیں۔ یہ بھی دو تین انوع کے ہیں۔ دوسری چیزیں جانوروں کی ہڈیاں، ان کے دانت اور سینگ ہیں۔ انسانی لاش یا کوئی ڈھانچہ نہیں ملا۔ جس کا مطلب ہے کہ لاش کو کہیں دور ٹھکانے لگایا جاتا ہوگا ۔
حجری دور کے تینوں مرحلوں میں پتھر کے اوزار وافر مقدار میں بنے ہیں۔ ان میں زیادہ تر گار پتھر سے بنے ہوئے ہیں۔ ان کی بنیادی ٹیکنک ایک ہی رہی ہے۔ یعنی ضرب لگا کر ٹور بنائے گئے ہیں۔ صرف ایک فرق پہلے اور تیسرے مرحلے میں نمایاں ہے کہ پہلے مرحلے کے اوزار بڑے ہیں اور تیسرے مرحلے کے چھوٹے ہیں۔ پہلے مرحلے کے اوزاروں میں تنوع بہت ہے اور یہی چیز تیسرے مرحلے میں نظر آتی ہے۔ جب کہ دوسرے مرحلے کے اوزارو میں یہ تنوع بہت کم ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہاں کے باسی ارد گرد کی چٹانوں سے پتھر ٹور کر غار کے اندر لے آتے ہوں گے اور یہیں اوزار بنانے ہوں گے۔ کیوں کے غار کے اندر ملنے والی کرچیاں غار اور باہر کچرے میں بھی وافر مقدار میں ملی ہیں۔ اوزاروں کی تین واضح قسمیں ملی ہیں۔ گار پتھر کے اوزار، ورقی پتھر کے اوزار اور اہرن اور سندان ۔
گار پتھر کے اوزار
ترمیماس غار پتھر کے جتنے بھی اوزار ملے ہیں ان میں سے بہت سے استعمال شدہ نظر آتے ہیں۔ لیکن ان اوزاروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ان سے کیا کام لیا ہوگا۔ نعض پتھروں پر سرخ دھبے ہیں جو اس بات کی ناشندہی کرتے ہیں کہ ان سے جانوروں ذبح کرنے اور کھال اتارنے یا گوشت بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہوںگے۔ ان میں سے بعض چھیلنے والے اور بعض آر ( سوا ) یا چھنی ہیں۔ ان کو بنانے میں بڑی احتیاط اور مہارت سے بنایا گیا ہے ۔
گاز پتھر کے بنے ہوئے کچھ مغز اوزار بھی ہیں ان میں بعض تقریباً گول ہیں اور کنارے سے کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعض دستی کلہاڑی کی شکل کے ہیں۔ جن کا اوپر والا حصہ چپٹا ہے اور نیچے والا حصہ دھار والا ہے۔ چپٹے حصہ کو ہاتھ سے پکڑنا مقصود ہے ۔
گار پتھر کے بنے کچھ مغز اوزار بھی ملے ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قرض نما مغز اوزار ہیں۔ ان میں بعض تقریباً ہیں۔ یہ چپٹے اور ہر کنارے سے کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں بعض ڈستی کلہاڑے کی شکل کے ہیں۔ ان کا اوپر والا حصہ چپٹا ہے جس کو ہاتھ سے پکڑنا مقصود تھا اور نیچا والا حصہ دھار والا ہے۔ اس کی متفرق شکلیں ہیں اور ان سب کا مقصد کانٹا ہے اور ان سب کو دستی کلہاڑا سمجھنا چاہیے۔ قرض نما اوزاروں کی ایک شکل نیم گول کھر چنیوں کی ہیں۔ ان کے اوپر کا حصہ چبٹا ہے اور باقی گول۔ ان کو ہلکی ضربوں سے تیار کیا گیا ہے۔ پتھروں کی مغز اوزاروں کی دوسری قسم کچھوا نما ہیں۔ یہ سب گار پتھر سے بنے ہوئے ہیں یہ بھی کاٹنے کے اوزار ہیں ۔
ورقی پتھر
ترمیمشنگھاؤ کے تمام مرحلوں میں چونے کے پتھر اور ورقی پتھروں کے چھوٹے ٹکڑے ملے ہیں۔ ان میں بعض کچھ گڑھوں کے اندر مٹی کی دیواروں کے ساتھ دیواروں کے طور پر چنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تنور کے طور پر استعمال ہوتے ہوں گے ۔
اہرن اور سندان
ترمیمدرجن بھر اہرن کوڑے کی چوتی سطح سے ملے ہیں۔ ان ساتھ تین ٹوٹے ہوئے سینگ بھی ملے ہیں۔ یہ سب دریا کے بہا کر لائے ہوئے قدتی گول پتھر ہیں، جو سنگ خارا کے ہیں اور دونوں طرف سے گول ہیں ۔
شنگھاؤ کے اکثر اوزار تکونے ایک طرف نوکدار یا قدرے گول ہیں۔ بار بار کی ضربوں سے ٹوڑنے کا تو ثبوت تو نہیں ملتا ہے لیکن باریک کام یا رگائی گھسائی بالکل نہیں کی گئی ہے۔ کھرچنے والے اوزاروں میں چاقو نما پھل اور پتہ نما پھل خاصی عمدگی سے بنائے گئے ہیں۔ ان میں خاص پر آدھے گول کھرچنے، پنکھے کی شکل کے کھرچنے زیادہ عام ہیں ۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور