شکر پڑياں (Shakarparian) اسلام آباد، پاکستان میں ایک پہاڑی اور ایک مقامی تفریحی مقام ہے۔[1] پارک زیرو پوائنٹ انٹر چینج کے قریب واقع ہے۔ پاکستان مونومنٹ شکر پڑياں میں واقع ہے۔[2]

شکر پڑیاں کی تاریخ

ترمیم

شکرپڑیاں بھی ان 85 دیہات میں شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔ ان میں کٹاریاں بھی شامل تھا جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔ شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ، بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں سنبل کورک، مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ گھج ریوٹ، جی سکس میں بیچو، ای سیون میں ڈھوک جیون، ایف سکس میں بانیاں، جناح سپر میں روپڑاں، جی 10 میں ٹھٹھہ گوجراں، آئی ایٹ میں سنبل جاوہ نڑالہ اور نڑالہ کلاں، ایچ ایٹ میں جابو، زیرو پوائنٹ میں پتن، میریٹ ہوٹل کی جگہ پہالاں، ایچ ٹین میں بھیگا سیداں، کنونشن سینٹر کی جگہ ڈھوکری، آبپارہ کی جگہ باغ کلاں آباد تھے۔اسی طرح راول ڈیم کی جگہ راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں نامی گاؤں بستے تھے۔ فیصل مسجد کی جگہ ٹیمبا اور اس کے پیچھے پہاڑی پر کلنجر نام کی بستی تھی۔

شکر پڑیاں کی آبادی

ترمیم

شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی بگیال شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔ راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

اسلام آباد کی معروف تفریح گاہ شکرپڑیاں کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس حوالے سے ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بابا فرید گنج شکر (1173–1265) یہاں ٹھہرے۔ ایک پٹھان تاجر گدھے پر بوری لاد کر جا رہا تھا۔ بابا فرید نے پوچھا، ’کیا لے کر جا رہے ہو؟‘ شکر کے اس تاجر نے اس خدشے سے کہ کہیں یہ بابا مجھ سے کھانے کو شکر نہ مانگ لے، جواب دیا کہ نمک ہے۔ بابا فرید نے کہا، ’اچھا، نمک ہی ہو گا۔‘ جب وہ تاجر جب اپنی دکان پر گیا اور بوری کھولی تو دیکھا کہ اس میں شکر کی جگہ نمک ہے۔ چونکہ شکر نمک سے کہیں زیادہ مہنگی تھی، اس لیے وہ دوڑتا ہوا بابا کے پاس آیا اور کہا کہ بابا بوری میں تو شکر تھی۔ بابا نے شانِ بے نیازی سے کہا، ’اچھا، شکر ہی ہو گی۔‘ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی شکر ہی تھی۔ اس نے ارد گرد یہ واقعہ مشہور کر دیا جس کے بعد لوگ بابا فرید کی زیارت کو آنے لگے۔ بابا فرید کے نام سے ایک بیٹھک آج بھی زیرو پوائنٹ کے بالکل ساتھ موجود ہے جس پر سبز رنگ کے جھنڈے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے یہاں ایک چشمہ بھی تھا لیکن جب یہاں فلائی اوور بنایا گیا اور اس کے اوپر مشرف دور میں مانومنٹ تعمیر ہوا تو چشمے کا پانی خشک ہو گیا۔ آج شکر پڑیاں گاؤں کے کھنڈر پر جنگل اُگ آیا ہے۔ لوک ورثہ میں راجا اللہ داد کی حویلی لوک ورثہ کے طور پر قائم رکھی گئی ہے۔ ان کی بارہ دری اور مہمان خانہ کا کچھ حصہ بھی لوک ورثے کا حصہ ہے۔ ان کے خاندان کی ایک اور حویلی میں ’1969‘ نام کا معروف کیفے بھی موجود ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Lively Spring Festival kicks off at Shakarparian"۔ thenews.com.pk۔ فروری 25, 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مارچ 4, 2013 
  2. "Shakarparian, a local park in ISD"۔ etdip.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مارچ 4, 2013 
  3. https://www.independenturdu.com/node/34676/