شہربانو

ساسانی شہزادی

شہر بانو یا شہربانو[2] پیغمبر اسلام کے نواسے اور تیسرے شیعہ امام حسین ابن علی کی زوجہ اور چوتھے شیعہ امام اور جانشین حسین ابن علی زین العابدین کی والدہ تھی۔[3] مبینہ طور پر شہربانو خاندان ساسان کی شہزادی تھی جو ساسانی سلطنت، ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھی۔[4] شہربانو کا ذکر مصنفین نے کئی دیگر ناموں سے بھی کیا ہے جیسے : شہرباونیہ، [5] شہرناز، شاہزنان، [6] شاہجہان، [7] جہانشاہ، [8] جہان بانو، خولہ، سلافہ، [9] سلامہ، [10] غزالہ، [11]حرار اور سدرہ۔[12]

شہربانو
(فارسی میں: شهربانو ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش ایران   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 658ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ بی بی شہربانو   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر حسین ابن علی   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد زین العابدین [1]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد یزد گرد سوم   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
پیروز سوم ،  بہرام ہفتم   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پہلوی زبان ،  کلاسیکی عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ایران رے میں شہربانو کا مزار

روایتاً مشہور ہے کہ ان کو فارس کی مسلم فتوحات کے دوران میں قیدی بنایا تھا۔ وہاں شہزادی ہونے کے ناتے اس کو اشراف میں سے کسی بھی مرد سے شادی کے لیے چناؤ کا اختیار دیا گیا تو حسین ابن علی سے شادی کی۔[2] شیعہ مآخذ کی اکثریت یہ بتاتی ہے کہ اس کے بعد شہربانو اپنے بیٹے علی ابن حسین کو جنم دینے کے چند ہی ماہ بعد انتقال کر گئی۔[13][14] اور پیغمبر اسلام کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ہی جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ تاہم، کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رے میں مزار ہے۔[2]

شہریانو کو شیعہ اور سنی دونوں فرقوں میں ایک محترم شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور خاص طور پر ایران میں ان بہت تعظیم کی جاتی ہے، اس کی اہمیت جزوی طور پر اس تعلق سے جڑی ہوئی ہے جس سے وہ اسلام سے قبل پارسیوں اور جدید شیعہ کے درمیان میں فراہم کرتی ہیں۔ تاہم، اس کی تاریخ سازی غیر یقینی ہے۔ اسلامی مصنفین، ابو العباس المبرد، یعقوبی اور محمد بن یعقوب الکلینی وغیرہ نے ان کا ذکر نویں صدی میں جا کر شہربانو اور اس کے شاہی فارسی پس منظر کی نشان دہی کرنا شروع کی۔ تاہم، ابتدائی ماخذ نے علی ابن حسین کی والدہ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ وہ ان کی والدہ کا کوئی شاہی نسب منسوب کرتے ہیں۔ اس کی بجائے نویں صدی میں پہلی بار ان کا ذکر سندھ سے لائی گئی قیدی کی حیثیت سے ابن سعد بغدادی اور ابن قتیبہ دینوری نے کیا ہے۔ دائرۃ المعارف ایرانیکا میں اس پر زور دیا گیا کہ شہربانو بلا شبہ افسانوی شخصیت ہے۔[2]

حوالہ جات

  1. عنوان : Али Зайн аль-Абидин
  2. ^ ا ب پ ت Mohammad Ali Amir-Moezzi (جولائی 20, 2005)۔ "ŠAHRBĀNU"۔ Encyclopaedia Iranica۔ Encyclopaedia Iranica Foundation۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی، 2019 
  3. Michael Curtis, Religion and Politics in the Middle East (1982)، p. 132
  4. Mehrdad Kia, The Persian Empire: A Historical Encyclopedia, Vol. I (2016)، p. 6
  5. (1)Roudat al-Wa'zin, vol. 1, p. 237. (2) 'Uyyun al-Mu'jizat, p. 31.(3) Ghayat al-Ikhtisar, p. 155.
  6. Al-Shiblanji, Nur al-Abbsar, p. 126.
  7. Mary Boyce (دسمبر 15, 1989)۔ "BĪBĪ ŠAHRBĀNŪ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ Encyclopaedia Iranica Foundation۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی، 2019 
  8. (1) Al-Dhahabi, Tarikh al-Islam, vol. 2, p. 46.(2)Al-Imama fi al-Islam, p. 116. (3) Ansab al-Ashraf, p. 102. (4) AlBustani, Da'irat al-Ma'arif, vol. 9, p. 355.(5) Nur al-Abbsar, p. 136. (6) Al-Kamil, vol. 2, p. 464.
  9. (1) 'Usul al-Kafi, vol. 1, p. 466. (2) Siyar 'Alam al-Nubala'، vol, 14, p. 237 (3) Kalifa Khayyat, al-Tabaqat, p. 238.(4) Al-Nisaburi, al-Asami wa al-Kuna.
  10. (1)Safwat al-Safwa, vol. 2, p. 25. (2) Shadharat al-Dhahab, vol. 1, p. 104.(3) Sir al-Si;sila al-'Alawiya, p. 31. (4) Nihayat al-Irab, vol. 21 p. 324. (5) Kulasat al-Dhahab al-Masbuk, p. 8.
  11. Al-Ithaf bi Hub al-Ashraf, p. 49.
  12. (1) Al-Mas'udi, Ithabat al-Wasiya, p. 143. Imam Zayn 'al-Abidin, p. 18
  13. Baqir Sharif al-Qarashi. The life of Imam Zayn al-Abideen a.s. p20-21