شہر آشوب
شہر کے لیے فتنہ اور ہنگامہ، نظم کی وہ صنف جس میں مختلف طبقوں اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں کے حسن و جمال اور ان کی دلکش اداؤں کا بیان ہوتا تھا۔
"وہ شہر آشوب جس میں خوباں شہر کی فتنہ انگیزی کا بیان مقصود ہے۔"،
وہ نظم جس میں کسی شہر یا ملک کی اقتصادی یا سیاسی بے چینی کا تذکرہ ہو یا شہر کے مختلف طبقوں کی مجلسی زندگی کے پہلو کا نقشہ خصوصاً ہزلید، طنزیہ یا ہجویہ انداز میں کھینچا گیا ہو۔
"اس کے برعکس نعت، حمد اور واسوخت شہر آشوب سے اپنے معانی کے لحاظ سے ممیز ہوتی ہیں۔"،
اس کے معنی شہر میں فتنہ و ہنگامہ یا شہر میں فتنہ برپا کرنے والے کے ہیں۔اصطلاح میں وہ نظم جس میں شہر کے اور شہر کے لوگوں کے حالات کا ذکر ہو۔اس کے لیے کوئی خاص ہیت مقرر نہیں۔ہر ہیت میں شہر آشوب لکھے جا سکتے ہیں۔
آشوب کے لغوی معنی ہیں ’’بربادی، بگاڑ یا فتنہ و فساد۔‘‘
اصطلاحِ شاعری میں شہر آشوب ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی شہر کی پریشانی، گردشِ آسمانی اور زمانے کی ناقدری کا بیان ہو۔
کسی زمانے میں اردو میں بڑی کثرت سے شہر آشوب لکھے گئے۔ میرزا محمد رفیع سودا اور میر تقی میرؔ کے شہر آشوب، جن میں عوام کی بے روزگاری، اقتصادی بدحالی اور دلّی کی تباہی و بربادی کا ذکر ہے، اُردو کے یادگار شہر آشوب ہیں۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنے شہر آشوبوں میں آگرے کی معاشی بدحالی، فوج کی حالتِ زار اور شرفا کی ناقدری کے خوب صورت مرقعے پیش کیے ہیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد دلّی پر جو قیامت ٹوٹی، اسے بھی دلّی کے بیشتر شعرا نے اپنا موضوع بنایا ہے، جن میں میرزا غالبؔ، داغؔ دہلوی اور مولانا حالیؔ شامل ہیں۔
میرزا محمد رفیع سوداؔ کے ’’مخمس شہر آشوب‘‘ کا یہ پہلا بند ملاحظہ کیجیے جس میں ناقدریِ زمانہ اور دلّی میں بے روزگاری کا گلہ کیا گیا ہے:
؎ کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تُو ڈانواں ڈول
پھرے ہے جا کہیں نوکر ہو، لے کے گھوڑا مول
لگا وہ کہنے یہ اس کے جواب میں دو بول
جو میں کہوں گا تو سمجھے گا تُو کہ ہے یہ ٹھٹھول
بتا کہ نوکری بکتی ہے ڈھیریوں یا تول