شہید کا لغوی معنی ہے گواہ کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔ اور شریعت میں اِس کا مفہوم ہے۔ اللہ تعالٰی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا،

اسلام میں شہید کا بڑا مقام ہے ، قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق جو راہِ خدا میں شہید ہو جاتے ہیں کہا گیا ہے کہ تم انھیں مردہ نہ کہو؛ بلکہ وہ زندہ ہیں اور انھیں ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ تم شہید کی لاش کو غسل نہ دو ؛ کیوں کہ بروز قیامت اس کے ہر زخم اور خون کے ہر قطرہ سے مشک کی خوشبو پھیلے گی۔ [1]

شہید کی اقسام ترمیم

  • شہیدءِ المعرکہ : یعنی اللہ کے لیے نیک نیتی سے میدانِ جِہاد میں کافروں، مُشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہونے والا * فی حُکم الشہید، شہادت کی موت کا درجہ پانے والا::: یعنی میدان جِہاد کے عِلاوہ ایسی موت پانے والا جسے شہادت کی موت قرار دِیا گیا ۔

اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت پر اللہ تعالٰی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ مُحمدیہ الصلاۃُ و السلام علی نبیھا، میں درجہِ شہادت پر صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجہ پر فائزفرمایا ہے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا

ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟
تُم لوگ اپنے(مرنے والوں ) میں سے کِسے شہیدسمجھتے ہو؟
قالوا یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیلٌ
اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے

صحابہ نے عرض کِیا

فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟
اے اللہ کے رسول تو پھر شہید (اور) کون ہیں؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ * جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے * اور جو اللہ کی راہ میں (نکلا اور معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے نکلا اور) مر گیا وہ بھی شہید ہے* اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے * اور جو پیٹ (کی بیماری ) سے مر گیا وہ بھی شہید ہے
قال بن مِقْسَمٍ اَشْہَدُ علی اَبِیکَ فی ہذا الحدیث اَنَّہُ قال
عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کے ذریعے روایت کر رہے تھے، کہا، میں اِس حدیث کی روایت میں تمھارے والد کی (کی درستی ) پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
وَالْغَرِیق ُ شَہِیدٌ
ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے دوسری روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
الشُّہَدَاء ُ خَمْسَۃٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِق ُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِیدُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل
شہید پانچ ہیں[1]
  • مطعون
  • اور پیٹ کی بیماری سے مرنے والا
  • اور ڈوب کر مرنے والا
  • اور ملبے میں دب کر مرنے والا
  • اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا

امام ابن حَجر العسقلانی نے المطعون کے بہت سے معنی مختلف عُلماء کی شرح کے حوالے سے ذِکر کیے ہیں، جِس کا خلاصہ یہ ہے کہ المطعون طاعون کے مریض کو بھی کہا جا سکتا ہے، کِسی تیز دھار آلے سے زخمی ہونے والے کو بھی اور جِنّات کے حملے سے اندرونی طور پر زخمی ہونے والے کو بھی کہا جا سکتا ہے[2] اس لیے میں ترجمے میں """ مطعون """ ہی لکھ رہا ہوں ، جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِق ُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْاَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شہیدۃٌ
اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں[3] * مطعون شہید ہے * اور ڈوبنے والا شہید ہے* ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے * اور جل کر مرنے والا شہید ہے(٥) اور ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے * اور حمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہ ہے

راشد بن حبیش سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کی عیادت (بیمار پُرسی) کے لیے تشریف لائے تو فرمایا
اَتَعلَمُونَ مَن الشَّھِیدُ مِن اُمتِی
کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ میری اُمت کے شہید کون کون ہیں؟
عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ نے عرض کیا
اے اللہ کے رسول (اللہ کی راہ میں مصیبت پر )صبر کرنے اور اجر و ثواب کا یقین رکھنے والا
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا
انَّ شُہَدَاء َ امتی اذاً لَقَلِیلٌ الْقَتْلُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل شَہَادَۃٌ وَالطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ وَالنُّفَسَاء ُ یَجُرُّہَا وَلَدُہَا بِسُرَرِہِ إلی الْجَنَّۃِ والحَرق ُ و السِّلُّ
اِس طرح تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے اللہ عز وجل کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے اور طاعون (کی موت ) اورشہادت ہے اور ڈوبنا (یعنی پانی میں ڈوبنے سے موت واقع ہونا ) شہادت ہے اور پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے اور ولادت کے بعد نفاس کی حالت میں مرنے والی کو اُس کی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مر گئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ لے جاتی ہے اور جلنے (کی وجہ سے موت ہونا اور سل (کی بیماری کی وجہ سے موت ہونا شہادت ہے)،[4] سل کی بھی مختلف شرح ملتی ہیں، جن کا حاصل یہ ہے کہ سل پھیپھڑوں کی بیماری ہے ۔

عبد اللہ ابن عَمر (عمرو) سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ
جِسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے[5]

سعید بن زید سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ اَھلِہِ او دُونَ دَمِہِ او دُونَ دِینِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ
جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہو شہید ہے[6]

حوالہ جات ترمیم

  1. صحیح مُسلم / کتاب الامارۃ /باب ٥١ بیان الشُّھداء۔
  2. فتح الباری / کتاب الطب / با ب مایذکر فی الطاعون
  3. سُنن ابو داؤد حدیث ٣١١١/ کتاب الخراج و الامارۃ و الفيء / اول کتاب الجنائز /باب ١٥، مؤطا مالک، حدیث /کتاب الجنائز /باب ١٢ اور اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے احکام الجنائز صفحہ٥٤
  4. مُسند احمد / حدیث راشد بن حبیش، مُسند الطیالیسی، حدیث ٥٨٢ اور اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے احکام الجنائز صفحہ٥٤
  5. متفقٌ علیہ، صحیح البخاری حدیث ٢٣٤٨ /کتاب المظالم /باب ٣٤، صحیح مُسلم حدیث ١٤١/کتاب الاِیمان/باب ٦٢
  6. سنن النسائی،حدیث ٤١٠٦/کتاب تحریم الدم /باب٢٤، سنن ابو داؤد حدیث ٤٧٧٢ /کتاب السُنّہ کا آخری باب، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دِیا، صحیح الترغیب الترھیب، حدیث١٤١١، احکام الجنائز و بدعھا