ابو ہریرہ

حدیث کے سب سے بڑے راوی سلطان الحدیث اور سر خیل اصحابِ صفہ

ابو ہریرہ حدیث کے سب سے بڑے راوی سلطان الحدیث اور سر خیل اصحابِ صفہ کہلاتے ہیں۔

ابو ہریرہ
(عربی میں: أبو هريرة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
أبو هريرة.png

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 602  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الباحہ علاقہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 679 (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وادی عقیق  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد محرر بن ابی ہریرہ  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد انس بن مالک،  طاؤس بن کیسان،  محمد بن سیرین  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسبترميم

عبدالرحمن بن صخر نام،ابوہریرہ کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،عمیر بن عامربن عبدذی الشریٰ بن طریف بن غیاث بن لہنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس،[1] اصل خاندانی نام عبدشمس تھا،اسلام کے بعد آنحضرت ﷺ نے عمیر رکھا،کنیت کی وجہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ایک "ہرہ" بلی پالا تھا، شب میں اس کو ایک درخت میں رکھتا تھا اور صبح کو جب بکریاں چرانے جاتا تو ساتھ لے لیتا اوراس کے ساتھ کھیلتا،لوگوں نے یہ غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر مجھ کو ابوہریرہ کہنا شروع کیا، دوس کا قبیلہ یمن میں آباد تھا۔ [2]

قبل از اسلامترميم

بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، اس لیے فقر و افلاس بچپن کے ساتھی بن گئے تھے، بسرہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی کپڑے پر ملازم تھے اورخدمت یہ سپرد تھی کہ جب وہ کہیں جانے لگتے تو یہ پاپیادہ ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے اس کی سواری کے ساتھ چلیں، [3]

اسلام وہجرتترميم

ابوہریرہؓ کے ایک ہم قبیلہ طفیل بن عمر دوسی ہجرت عظمیٰ کے قبل مکہ ہی میں قرآن کے معجزانہ سحر سے مسحور ہوچکے تھے اورقبول اسلام کے بعد اس کی تبلیغ کے لیے یمن لوٹ آئے ان ہی کی کوششوں سے دوس میں اسلام پھیلا اور غزوۂ خیبر کے زمانہ میں یہ یمن کے اسی خانوادوں کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں مدینہ حاضر ہوئے؛لیکن آپ اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے،اس لیے یہ لوگ مدینہ سے خیبر پہنچے ،[4] اسی قبیلہ کے ساتھ ابوہریرہؓ بھی تھے اور راستہ میں بڑے شوق و ولولہ کے ساتھ شعر: بالیلۃ من طولھا وعنائھا علی انھا من دارالکفرنجت پڑھتے جاتے تھے،اسی ذوق و شوق کے ساتھ خیبر پہنچ کر آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے ،ان کا ایک غلام راستہ میں گم ہوگیا تھا، اتفاق سے اسی وقت وہ دکھائی دیا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابوہریرہؓ تمہارا غلام آگیا، عرض کیا خدا کی راہ میں آزاد ہے، [5] بیعت اسلام کے بعد دامن نبوی سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑا۔ [6]

غزواتترميم

غزوات میں ان کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی، مگر اجمالاً اتنا معلوم ہے کہ اسلام کے بعد متعدد غزوات میں شریک ہوئے ؛چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں جن جن لڑائیوں میں شریک رہا غزوۂ خیبر کے علاوہ ان سب میں مالِ غنیمت ملا؛کیونکہ اس کا مال حدیبیہ والوں کیلیے مخصوص تھا۔ [7]

ماں کا اسلامترميم

دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہونے کے بعد فکر ہوئی کہ بوڑھی ماں کو بھی جو زندہ تھیں اس سعادت میں شریک کریں، مگر وہ برابرانکار کرتی رہیں،ایک دن حسب معمول انکو اسلام کی دعوت دی،انہوں نے شان نبوت میں کچھ ناروا الفاظ استعمال کیے، ابوہریرہؓ روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ بیان کرکے ماں کے اسلام کے لیے طالب دعا ہوئے رحمت عالمؓ نے دعا فرمائی، واپس ہوئے تو دعا قبول ہوچکی تھی،والدہ اسلام کے لیے نہاد دھو کر تیار ہورہی تھیں، ابوہریرہؓ گھر پہنچے تو ان کو اندر بلایا اور "أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"کے سامعہ نواز ترانہ کے ساتھ ان کا استقبال کیا،یہ فوراً الٹے پاؤں فرط مسرت سے روتے ہوئے کاشانۂ نبویﷺ پر حاضر ہوکر عرض گذار ہوئے، یارسول اللہ !بشارت ہو آپ ﷺ کی دعا قبول ہوئی،خدانے میری ماں کو اسلام کی ہدایت بخشی۔ [8]

عہد خلفاترميم

ابوبکر کے عہد خلافت میں ملکی معاملات میں کوئی حصہ نہیں لیا، اس لیے کہیں نمایاں طور پر نظر نہیں آتے، اس مدت میں اپنے محبوب مشغلے حدیث کی اشاعت میں جس کی تفصیل آئندہ آئے گی خاموشی کے ساتھ مصروف رہے۔ عمر کے زمانہ سے زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا، انہوں نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا، اس دن سے ان کا فقر وافلاس ختم ہوا، چنانچہ جب وہاں سے واپس ہوئے تو دس ہزار روپیہ پاس تھا، عمر نے باز پرس کی کہ اتنی رقم کہاں سے ملی؟ عرض کیا گھوڑیوں کے بچوں، عطیوں اور غلاموں کے ٹیکس سے، تحقیقات سے ان کا بیان صحیح نکلا تو حضرت عمرؓ نے دوبارہ ان کے عہدہ پر واپس کرنا چاہا،مگر انہوں نے انکار کر دیا، عمر نے پوچھا تم کو امارت قبول کرنے میں کیوں عذر ہے، اس کی خواہش تو یوسف علیہ السلام نے کی جو تم سے افضل تھے، عرض کیا وہ نبی اور نبی زادہ تھے، میں بیچارہ ابوہریرہ امیمہ کا بیٹا ہوں، میں تین باتوں سے ڈرتا ہوں ،ایک یہ کہ بغیر علم کے کچھ کہوں، دوسرے یہ کہ بغیر حجت شرعی کے فیصلہ کروں، تیسرے یہ کہ ماراجاؤں میری آبروریزی کی جائے اور میرا مال چھینا جائے۔ [9]

حضرت عثمانؓ کا عہد خلافت خاموشی میں بسر کیا، البتہ آخر میں حضرت عثمانؓ کے محصور ہونے کے بعد لوگوں کو ان کی امد اور اعانت پر آمادہ کرتے تھے اور محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے، کچھ اور لوگ بھی تھے،ان سب کو خطاب کرکے کہا میں نے آنحضرت سے سنا ہے؛کہ تم لوگ میرے بعد فتنہ اوراختلاف میں مبتلا ہوگئے،لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہ ﷺ اس وقت ہمارا کیا طرز عمل ہونا چاہئے فرمایا: تم کو امین اوراس کے حامیوں کے ساتھ ہونا چاہئے،اس سے حضرت عثمان غنیؓ کی طرف اشارہ تھا۔ [10]

حضرت عثمانؓ کے محاصرہ تک حضرت ابوہریرہؓ کا پتہ چلتا ہے،اس کےبعد آپ جنگ جمل اور جنگ صفین وغیرہ میں کہیں نہیں نظرآتے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس فتنہ عام کے زمانہ میں اکثر محتاط صحابہؓ گوشہ نشین ہوگئے تھے،بہتوں نے نو آبادی چھوڑکر بادہ نشینی اختیار کر لی تھی، حضرت ابوہریرہؓ بھی فتنہ میں مبتلا ہونے کے خوف سے کہیں روپوش ہوگئے تھے، ان فتنوں کے بعد امیر معاویہؓ کے عہد حکومت میں مروان کبھی کبھی ان کو مدینہ پر اپنا قائم مقام بناتا تھا۔ [11]

علالتترميم

۵۷ھ میں مدینہ میں بیمار ہوئے،بڑے بڑے لوگ عیادت کو آتے تھے،خود مروان بن حکم بھی آتا تھا،بیماری کی حالت میں زندگی کی کوئی آرزو باقی نہ رہی تھی، اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جلد سے جلد یہ دارالابتلاءچھوڑ کر دارالبقا میں داخل ہوجائیں،ابوسلمہ بن عبدالرحمن عیادت کو آئے، رواج کے مطابق ان کی صحت کے لیے دعا کی، انہوں نے کہا خدا یا اب دنیا میں نہ لوٹا، پھر ابو سلمہ کو مخاطب کرکے بولے وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے،جب انسان موت کو سونے کے ذخیرہ سے زیادہ پسند کرےگا، اگر تم زندہ رہے تو دیکھو گے کہ جب آدمی کسی قبر پر گذرے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش بجائے اس کے وہ اس میں دفن ہوتا۔ [12] بستر مرگ پر پیش آنے والی منزل کے خطرات کو یاد کرکے بہت روتے تھے،لوگ رونے کا سبب پوچھتے تو فرماتے کہ میں اس دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں روتا ؛بلکہ سفر کی طوالت اور زادراہ کی قلت پر آنسو بہاتا ہوں، اس وقت میں دوزخ جنت کے نشیب و فراز کے درمیان ہوں معلوم نہیں ان میں سے کس راستہ پر جانا ہوگا۔ [13]

وصیتترميم

آخر وقت میں تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایتیں دیں کہ آنحضرت ﷺ کی طرح مجھ کو عمامہ اور قمیص پہنانا اورعرب کے پرانے دستور کے مطابق میری قبر پر نہ خیمہ نصب کرنا اورنہ جنازہ کےپیچھے آگ لے چلنا اور جنازہ لیجانے میں جلدی کرنا اگر میں صالح ہوں گا جلد اپنے رب سے ملوں گا اوراگر بد قسمت ہوں گا تو ایک بوجھ تمہاری گردن سے دور ہوگا۔ [14]

وفات اور تجہیز و تکفینترميم

انتقال کے بعد اس وصیت کی پوری تعمیل کی گئی، ولید نے نماز جنازہ پڑھائی،اکابر صحابہ ؓ میں حضرت ابن عمرؓ،ابوسعید خدریؓ موجود تھے،نماز کے بعد حضرت عثمانؓ کے صاحبزادوں نے کندھا دے کر جنت البقیع پہنچایا اورمہاجرین کے گور غریباں میں اس مخزنِ علم کو سپرد خاک کیا، اناللہ وانا الیہ راجعون، [15] انتقال کے وقت ۷۸ سال کی عمر تھی۔ [16]

ترکہترميم

انتقال کے بعد ولید حاکم مدینہ نے امیر معاویہؓ کو آپ کی وفات کی خبردی تو انہوں نے ترکہ کے علاوہ بیت المال سے دس ہزار درہم آپ کے ورثہ کو دلوائے اورولید کو ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔ [17]

حلیہترميم

رنگ گندم گون، شانے کشادہ،دانت آبدار تھے اورآگے دو دانتوں کے درمیان جگہ خالی تھی، زلفیں رکھتے تھے اوربالوں میں زرد خضاب کرتے تھے۔

لباسترميم

عموما ًسادہ ہوتا تھا، یعنی صرف دو رنگین کپڑے استعمال کرتے تھے، کبھی کبھی کتان وغیرہ کے بیش قیمت لباس بھی استعمال کرلیتے تھے۔

فضل و کمالترميم

حضرت ابوہریرہؓ وہ صحابہ میں ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں، آپ بالاتفاق صحابہ کرامؓ کی جماعت میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، اگرچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اورانس بن مالکؓ بھی حفاظ میں ممتاز درجہ رکھتے تھے،لیکن حضرت ابوہریرہؓ کو کثرت روایت میں ان پر بھی تفوق حاصل تھا،آنحضرت ﷺ فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ علم کا ظرف ہیں۔ [18]

ذوق علمترميم

حضرت ابوہریرہؓ کو علم کی بڑی جستجو تھی،ان کا ذوق علم حرص کے درجہ تک پہنچ گیا تھا، ان کی علمی حرص کا اعتراف خود آنحضرت صلی اللہ علیہہ وسلم نے فرمایا، ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن کون خوش قسمت آپ کی شفاعت کا زیادہ مستحق ہوگا، فرمایا کہ تمہاری حرص علی الحدیث کو دیکھ کر میرا پہلے سے خیال تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہ کرے گا۔ [19] عام طور پر لوگ آنحضرت ﷺ سے زیادہ سوالات کرتے ہوئے ڈرتےتھے؛ لیکن حضرت ابوہریرہؓ نہایت دلیری سے پوچھتے تھے،عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے کہا کہ ابوہریرہؓ آنحضرت ﷺ سے کثرت سے روایت کرتے ہیں،انہوں نے جواب دیا پناہ بخدا ان کی روایات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کرنا، اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ سے پوچھنے میں بہت جری تھے، اس لیے وہ ایسے ایسے سوالات کرتے تھے جن کو ہم لوگ نہیں کرسکتے تھے۔ [20] وہ خود جیسے علم کے شائق تھے،چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کے دل میں طلب علم کا یہی جذبہ پیدا ہوجائے ،ایک دن بازار جاکر لوگوں کو پکارا کہ تم کو کس چیز نے مجبور کر رکھا ہے؟لوگوں نے پوچھا کس شے سے ؟کہا وہاں رسول اللہ ﷺ کی میراث تقسیم ہورہی ہے اور تم لوگ یہاں بیٹھے ہو،لوگوں نے پوچھا کہاں؟ کہا مسجد میں ،چنانچہ سب دوڑکر مسجد آئے؛لیکن یہاں کوئی مادی میراث نہ تھی،اس لیے لوٹ گئے اور کہا وہاں کچھ بھی تقسیم نہیں ہوتا، البتہ کچھ لوگ نمازیں پڑھ رہے تھے،کچھ لوگ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھے،کچھ حلال و حرام پر گفتگو کررہے تھے بولے تم لوگوں پر افسوس ہے،یہی تمہارے نبی کی میراث ہے۔ [21]

حدیث میں ان کا پایاترميم

اس تلاش وجستجو نے ان کو حدیث کا بحربے کران بنادیا تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو خود بھی بڑے حافظ حدیث تھے ،فرماتے تھے کہ ابو ہریرہؓ ہم سب سے زیادہ حدیث جانتےہیں، [22] امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ ابوہریرہؓ ،اپنے ہمعصر حفاظ میں سب سے بڑے حافظ تھے [23] اعمش ابو صالح سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے، علامہ ذہبی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ "ابو ہریرہؓ" علم کا ظرف تھے اورصاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند پایہ رکھتے تھے، [24] حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں،کہ "ابوہریرہ"اپنے ہمعصر رواۃ میں سب سے بڑے حافظ تھے اور تمام صحابہؓ میں کسی نے حدیث کا اتنا ذخیرہ نہیں فراہم کیا۔ [25] کمال کی آخری حدیہ تھی کہ آپ کو خود اپنی ہمہ دانی کا یقین داثق تھا، چنانچہ ایک موقع پر اپنی زبان سے کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس کو مجھ سے زیادہ احادیث یاد ہوں، [26] ترمذی کی روایت میں صرف عبداللہ بن عمروبن العاصؓ کا استثنا ہے۔ [27]

کثرت روایت کا سببترميم

بہت سے اکابر اورعلمائے صحابہؓ کے مقابلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کے کثرت علم اور وسعت معلومات کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس قسم کے مواقع حاصل تھے، جو دوسرے صحابہؓ کو حاصل نہ تھے، یہ خود اپنی کثرتِ روایت کے وجوہ واسباب بیان کرتےتھے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے،حالانکہ مہاجر و انصار ان حدیثوں کو نہیں بیان کرتے مگر معترضین اس پر غور نہیں کرتےکہ ہمارے مہاجر بھائی بازاروں میں اپنے کاروبار میں لگے رہتے تھے اور انصار اپنی زراعت کی دیکھ بھال میں سرگردان رہتے تھے، میں محتاج آدمی تھا، میرا سارا وقت آنحضرت ﷺ کی صحبت میں گذرتا تھا اورجن اوقات میں وہ لوگ موجود نہ ہوتے تھے،اس وقت بھی میں موجود رہتا تھا،دوسرے جن چیزوں کو وہ بھلادیتے تھے میں ان کو یادرکھتا تھا، [28] حضرت ابوہریرہؓ کی اس توجیہ کی تصدیق کبار صحابہؓ کرتے تھے، چنانچہ ابو عامر روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت طلحہؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر کہا ابو محمدﷺ آج تک ہم کو نہ معلوم ہوسکا کہ یہ یمنی (ابوہریرہؓ) اقوال نبوی کا بڑا حافظ ہے، یا تم لوگ، انہوں نے جواب دیا کہ بلاشبہ انہوں نے بہت سی ایسی حدیثیں سنیں جو ہم لوگوں نے نہیں سنیں اور بہت سے ایسی باتیں جانتے ہیں جو ہمارے علم سے باہر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ دولت وجائداد والے تھے، ہمارے گھر بار اوراہل وعیال تھے،ہم ان میں پھنسے رہتے تھے،صرف صبح و شام آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری دے کر لوٹ آتے تھے اور ابوہریرہؓ مسکین اور مال و متاع اور بال بچوں کی ذمہ داری سے سبکدوش تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیے آپ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ،ہم سب کو یہ یقین ہے کہ انہوں نے ہم سب سے زیادہ احادیث نبویﷺ سنیں اور ہم میں سے کسی نے ان پر یہ اتہام نہیں لگایا کہ وہ بغیر آنحضرت ﷺ سے سنے ہوئے ان کو بیان کرتے ہیں، [29] حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ ہم سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی خدمت کے حاضر باش تھے، [30] ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے ان کو بلا کر پوچھا،تم یہ کیسی حدیثیں بیان کرتے ہو،حالانکہ جو کچھ میں نے (فعل نبویﷺ ) دیکھا اور (قول نبویﷺ ) سنا وہی تم نے بھی سنا اوردیکھا، عرض کیا آپ آنحضرت ﷺ کے خاطر زیب وزینت میں مصروف رہتی تھی اورخداکی قسم میری توجہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ہٹاتی تھی۔ [31]

ایک مرتبہ مروان کو ان کی کوئی بات ناگوار ہوئی، ا س نے غصہ میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں روایت کرتے ہیں،حالانکہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے کچھ ہی دنوں پہلے مدینہ آئے تھے، بولے،جب میں مدینہ آیا تو آنحضرت ﷺ خیبر میں تھے، اس وقت میری عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی اورآپ کی وفات تک سایہ کی طرح آپ کے ساتھ رہا، آپ کی ازواج مطہراتؓ کے گھروں میں جاتا تھا، آپ کی خدمت کرتا تھا، آپ کے ساتھ لڑائیوں میں شریک رہتا تھا، آپ کی معیت میں حج کرتا تھا، اس لیے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ حدیثیں جانتا ہوں خدا کی قسم وہ جماعت جو مجھ سے قبل آپ کی صحبت میں تھی، وہ میری حاضر باشی کی معترف تھی اور مجھ سے حدیثیں پوچھا کرتی تھی، ان پوچھنے والوں میں عمرؓ، عثمانؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ [32]

آپ دعا بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے،زید بن ثابت ؓ کا بیان ہے کہ ایک دن میں ابوہریرہؓ اورایک دوسرا شخص مسجد میں بیٹھے دعا اور ذکر خدا میں مشغول تھے، اس درمیان میں آنحضرت ﷺ بھی تشریف لائے،ہم لوگ خاموش ہوگئے،آپ نے فرمایا، اپنا کام جاری رکھو اس ارشاد پر میں اور دوسرا شخص ابوہریرہؓ کے قبل دعا کرنے لگے اورآنحضرت ﷺ آمین کہتے جاتے تھے،اس کے بعد ابوہریرہؓ نے دعا کی کہ خدایا جو کچھ میرے ساتھ مجھ سے قبل مانگ چکے ہیں وہ بھی مجھے دے، اس کے علاوہ ایسا علم عطا فرما جو پھر فراموش نہ ہو، اس پر آنحضرت ﷺ نے آمین کہی، اس کے بعد ہم دونوں شخصوں نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ ہم کو بھی ایسا علم عطا ہو جو فراموشی کی دست برد سے محفوظ رہے،فرمایا وہ دوسرے نوجوان کے حصہ میں آچکا [33]اسی طرح ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نسیانِ حدیث کی شکایت کی ،آپ ﷺ نے فرمایا چادر پھیلاؤ،انہوں نے چادر پھیلادی،آپ نے اس میں دست مبارک ڈالے ،پھر فرمایا کہ اس کو سینہ سے لگا لو، کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں پھر کبھی نہ بھولا۔ [34]

حدیث کی تحریر وکتابتترميم

حضرت ابوہریرہؓ حدیثوں کے بارہ میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ چنانچہ بھولنے یا الفاظ کے رد وبدل کے ڈر سے جو کچھ سنتے تھے اس کو قلمبند کرلیتے تھے، فضل بن حسن اپنے والد حسن بن عمروکا ایک واقعہ خود ان کی زبان سے سنا ہوا بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہؓ کو ایک حدیث سنائی، ابوہریرہؓ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی حسن نے کہا میں نے یہ حدیث آپ ہی سے سنی ہے،فرمایا کہ اگر مجھ سے سنی ہے تو میرے پاس ضرور لکھی ہوگی،چنانچہ ان کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اورایک کتاب دکھائی جس میں تمام حدیثیں درج تھیں اسی میں وہ حدیث بھی تھی،حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے تم سے کہا نہ تھاکہ تم نے مجھ سے سنی ہے تو وہ ضرور لکھی ہوگی۔ [35] لیکن صحاح کی ایک اور روایت میں ہے جو خود ان ہی سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص مجھ سے زیادہ حدیث اس لیے جانتے تھے کہ وہ آپ کی باتوں کو لکھ لیا کرتے تھے، اورمیں نہیں لکھتا تھا، [36]اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں گو نہیں لکھ لیتے تھے، مگر بعد کو ان کو بھی لکھنا ضروری معلوم ہوا۔

امتحانترميم

ابوہریرہؓ کی کثرت روایت کی وجہ سے بعض اشخاص کے دل میں ان کی روایات کی جانب سےشکوک و شبہات پیدا ہوئے ،چنانچہ ایک مرتبہ مروان نے امتحان کی غرض سے ان کو بلوایا اوراپنے کاتب کو تخت کے نیچے بٹھا کر ان سے حدیثیں پوچھنا شروع کیں،یہ بیان کرتے جاتے تھے اور کاتب چھپا ہوا ان کی لا علمی میں لکھتا جاتا تھا،دوسرے سال پھر اسی طریقہ سے امتحان لیا، اس مرتبہ بھی انہوں نے بلاکم وکاست وہی جوابات دیئے جو ایک سال قبل دے چکے تھے حتی کہ ترتیب میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔ [37]

اشاعت حدیثترميم

حضرت ابوہریرہؓ کا یہ خاص امتیاز ہے کہ خدانے آپ کو جس فیاضی سے علم کی دولت عطا کی ،اسی فیاضی سے آپ نے اس کو مسلمانوں کے لیے وقف عام کیا،چلتے پھرتے اٹھتےبیٹھتے ،جہاں بھی کچھ مسلمان مل جاتے ان کے کانوں تک اقوال نبویﷺ پہنچادیتے،جمعہ کے دن،نماز کے قبل کا وقت حدیث کے لیے مخصوص تھا، چنانچہ ہر جمعہ کو نماز سے پہلے لوگوں کے سامنے حدیثیں بیان کرتے اوریہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہتا جب تک مقصورہ کا دروازہ نہ کھلتا اورامام برآمد نہ ہوتا۔ [38]

حضرت ابوہریرہؓ کے علم وعرفان کی بارش سے عورتیں بھی سیراب ہوتی تھیں،گو اس طبقہ کو وہ باقاعدہ تعلیم نہیں دیتے تھے،لیکن اگر کسی عورت سے کوئی فعل خلافِ احکام نبویﷺ سرزد ہوجاتا، تو فورا ٹوک دیتے اوراس بارے میں رسول اللہ ﷺ کا حکم اس کو بتادیتے،ایک مرتبہ ایک عورت سے ملے، اس کےپیراہن سے خوشبو کی لپٹ آتی تھی، پوچھا تو مسجد سے آتی ہے اس نے کہاہاں پھر پوچھا مخصوص مسجد جانے کے لیےخوشبو لگائی تھی؟ اس نے کہاہاں،فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس عورت کی نماز جو مخصوص مسجد جانے کے لیے خوشبو لگاتی ہے اس وقت تک مقبول نہ ہوگی، جب تک کہ وہ غسل نہ کرڈالے، [39] یعنی اس کی خوشبو دھل نہ جائے،کیونکہ وہ فتنہ بن جاتی ہے،غرض اس عہد مبارک کی خواتین بھی ان کے خرمن علم کی خوشہ چین تھیں،چنانچہ آپ کے زمرہ روات میں حضرت عائشہؓ کا نام بھی نظر آتا ہے۔

آپ کے دامن کمال میں جس قدر علمی جواہرتھے، سب عام مسلمانوں میں تقسیم کردیے؛ لیکن وہ احادیث جو فتنہ سے متعلق تھیں اورجن کوآنحضرت ﷺ نے پیشین گوئی کے طور پر فرمایا تھا زبان سے نہ نکالیں کہ یہ خود فتنہ کی بنیاد بن جاتیں ،فرماتے تھے کہ میں نے احادیث نبویﷺ دو ظرف میں محفوظ کی ہیں،ایک ظرف کو پھیلایا ہوں،اگر دوسرے کو پھیلادوں تو نرخرہ کاٹ ڈالا جائے، [40] صوفیہ کہتے ہیں کہ یہ اسرار توحید کی امانت تھے، متکلمین کہتے ہیں کہ وہ اسرار دین تھے،لیکن محدثین کا فتویٰ یہی ہے کہ وہ فتنہ کی حدیثیں تھیں۔ اشاعت علم فریضہ مذہبی اور عمل خیر ہے،لیکن اگر اس میں مذہبی خدمت کے جذبہ کے بجائے نمود ونمائش کا شائبہ شامل ہوجائے تو یہی عمل شربن جائے گا، ابوہریرہؓ جس جذبہ کے تحت اس فرض کو انجام دیتے تھے، اس کے متعلق خود ان کا بیان ہے کہ اگر سورۂ بقرہ کی یہ آیت: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ [41] ان لوگوں پر جو ہمارے نازل کیے ہوئے کھلے ہوئے احکام اورہدایت کی باتوں میں جن کو ہم نے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے چھپاتے ہیں،خدا بھی لعنت بھیجتا ہے اورلعنت بھیجنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔ نہ ہوتی تو میں کبھی کوئی حدیث نہ بیان کرتا۔ [42]

حضرت ابوہریرہؓ کی مرویات کی مجموعی تعداد ۵۳۷۴ ہے، ان میں ۳۲۵ متفق علیہ ہیں اور ۷۹میں بخاری اور ۹۳ میں مسلم منفرد ہیں، [43] احادیث نبوی ﷺ کے عظیم الشان ذخیرہ کی مناسبت سے آپ کے رواۃ تلامذہ کا دائرہ بھی وسیع تھا، اکابر صحابہؓ میں زید بن ثابتؓ، ابوایوب انصاریؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، ابی بن کعبؓ، انس بن مالکؓ، ابو موسیٰ اشعریؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، جابر بن عبداللہ، ام المومنین عائشہ صدیقہؓ، اور عام صحابہؓ وتابعین میں ابورافع، واثلہ،جابر،مروان ابن حکم، قبیصہ بن ذویب، سعید بن مسیب، سلیمان الاغر، قیس بن ابی حازم، مالک بن ابی عامر اصبحی، ابواسامہ بن سہل بن حنیف،ابو ادریس خولانی، ابو عثمان نہدی، ابو رافع صائع، ابوزرغہ، بن عمرو، ابو مسلم، ابن فارض، بسر بن سعید، بشیر بن نہیک ،بعجہ جہنی، ثابت بن عیاض، حفص بن عاصم بن عمر الخطابؓ ،حمید وابوسلمہ ابنا عبدالرحمن بن عوفؓ، حمید بن عبدالرحمن حمیری، حنظلہ بن علی اسلمی، جناب صاحب مقصورہ، خلاس بن عمرو، حکم بن مینا،خالد بن غلاق، ابو قیس ،زیاد بن رباح، سالم بن عبداللہ، زراہ بن ابی اوفی، سالم ابوالغیث، سالم مولی شداد، سعید بن ابی سعید، ابو سعید مقبری، حسن بصرمی، محمد بن سیرین وسعید بن عمروبن سعید بن العاص، سلیمان بن یسار، ابو الحباب، سعید بن یسار، سنان بن ابی سنان، عامر بن سعد بن ابی وقاصؓ، شریح ابن ہانی، شفی بن ماتع، طاوس، عکرمہ،مجاہد، عطا، عامر شعبی،عبداللہ بن رباع انصاری، عبداللہ بن شفیق، عبداللہ بن ثعلبہ، ابوالولید عبداللہ بن حارث،سعید بن حارث، سعید بن سمعان، سعید بن مرجانہ، عبداللہ بن عبدالرحمن، عبدالرحمن بن سعد المقعد،عبدالرحمن بن ابی عمرہ انصاری،عبدالرحمن بن یعقوب ،عبدالرحمن بن ابی نعیم الجبلی،عبدالرحمن بن مہران، اعرج،عبیداللہ بن عبداللہ، عبیداللہ بن سفیان حضرمی،عطاء بن میناء، عطا بن یزید لیثی،ابوسعید مولی بن کریز، عجلان بن مولی فاطہ، عراک بن مالک ،عبید بن حنین،عبید اللہ بن ابی رافع،عطاء بن یسار،عمروبن ابی سفیان ،عنبسہ بن سعید بن العاص ،محمد بن قیس بن مخرمہ، موسیٰ،عیسیٰ ابنا طلحہ بن عبیداللہ ،عروہ بن زبیرؓ، محمد بن عباد، جعفر، محمد بن ابی عائشہ، محمد بن زیادجمجیؒ ،محمد بن عبدالرحمن ،موسیٰ ابن یسار، نافع بن جبیر بن مطعم، نافع مولی ابن عمر، نافع مولی ابی قتادہ، یوسف ابن ماہک، مقیم بن ابی سنان، یزید بن ہرمز، ابو حازم الاشجعی، ابوبکر بن عبدالرحمن ،ابوتیمیہ ہجیمی،یزید بن اصم موسیٰ بن دروان، ابو الشعثاء المحاربی، ابوصالح السمان ،ابوغطفان بن طریف المری، یہ حضرت ابوہریرہؓ کے رواۃ کی نہایت مختصر فہرست ہے، صحابہؓ اورتابعین ؒ ملاکر ان کے رواۃ کی تعداد ۸۰۰ سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ [44]

ایک اعتراض اوراس کا جوابترميم

بعض روایتوں سے ظاہرہوتا ہے کہ بعض صحابہؓ ان کی مرویات پر اعتراض کرتے تھے، اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ ان کی روایتوں پر شک کرتے تھے؛بلکہ ان کے تفقہ پرانہیں اعتراض تھا،ان کا کہنا یہ تھا کہ آنحضرتﷺ نے مختلف حالات و واقعات کے لحاظ سے بعض باتیں ارشاد فرمائی ہیں اورحضرت ابوہریرہؓ موقع ومحل کا لحاظ کیے بغیر ان حدیثوں کو بیان کردیتے ہیں،جن سے ان حادیث کا اصل منشا فوت ہوجاتا ہے اوراس حیثیت سے ان کا اعتراض صحیح تھے کہ حضرت ابوہریرہؓ فقہ الحدث کا لحاظ نہیں کرتے تھے، فقہ میں ان کا کوئی امتیازی درجہ نہیں تھا، تاہم آنحضرت ﷺ کے بعد مدینہ میں جو جماعت منصب افتاء پر فائز تھی اس میں ایک ابو ہریرہؓ بھی تھے۔ [45]

عام تعلیمترميم

عام تعلیمی لحاظ سے وہ صحابہؓ کی جماعت میں بہت نمایاں تھے،عربی مادری زبان تھی اس کے علاوہ فارسی بھی جانتے تھے،ایک مرتبہ ایک ایرانی عورت استغاثہ لے کر آئی کہ شوہر نے مجھ کو طلاق دیدی ہے اورلڑکا لینا چاہتا ہے،یہ عورت فارسی میں گفتگو کرتی تھی اورابوہریرہؓ اسی زبان میں جواب دیتے تھے، [46] اسلام کے علاوہ دوسرےمذاہب سے بھی واقفیت رکھتے تھے چنانچہ توراۃ کے مسائل سے کافی واقفیت تھی، [47] لکھنے میں بھی پوری مہارت رکھتے تھے، چنانچہ احادیث کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا۔

اخلاق وعاداتترميم

حضرت ابوہریرہؓ غزوۂ خیبر میں دارالاسلام آئے، اس حساب سے ان کو کل چار سال صحبت نبوی سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا، اگرچہ بظاہر یہ مدت کم معلوم ہوتی ہے؛لیکن اس حیثیت سے کہ اس مدت میں سفر وحضر، خلوت وجلوت میں ایک لمحہ کے لیے بھی خدمت اقدس سے جدانہ ہوئے اوراس قلیل مدت میں جو لمحات بھی میسر آئے ان سے پورا فائدہ اٹھایا،یہ چھوٹی مدت کیفیت کے اعتبار سے بڑی طویل مدت کے برابر ہوجاتی ہے اس ملازمت رسولﷺ کا یہ نتیجہ تھاکہ آپ پر تعلیمات نبوی کا بہت گہرا رنگ چڑھا تھا اورآپ اسلامی تعلیمات کا مکمل ترین نمونہ بن گئے تھے۔

خوف قیامتترميم

خشیت الہی اور خوف قیامت صحابہ اکرامؓ کا خاص وصف تھا، ابوہریرہ اس سے لرزہ براندام رہتے تھے،خوف خدا اورقیامت کے احتساب کے ذکر سے چیخ کر بیہوش ہوجاتے تھے۔ ایک بار شقیا اصبحی مدینہ آئے،دیکھا کہ ایک شخص کے گرد بھیڑ لگی ہوئی ہے،پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے کہا،ابوہریرہؓ،چنانچہ یہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے، اس وقت ابوہریرہؓ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے،جب حدیث سنا چکے اورمجمع چھٹا تو انہوں نے ان سے کہا،کہ رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنائیے،جس کو آپ نے ان سے سنا ہو،سمجھا ہو،جاناہو،ابوہریرہؓ نے کہا ایسی ہی حدیث بیان کروں گا،یہ کہااورچیخ مار کر بے ہوش ہوگئے،تھوڑی دیرکے بعد ہوش آیاتو کہا میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا،جو آپ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اوراس وقت میرے اورآپ کے سوا کوئی تیسرا شخص نہ تھا، اتنا کہہ کر پھر زور سے چلائے اوربیہوش ہوگئے،افاقہ ہوا،تومنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو آنحضرت ﷺ نے اس گھر میں بیان فرمائی تھی اوروہاں میرے اورآپ کے سوا کوئی نہ تھا یہ کہہ اورچیخ مارکر غش کھاکر منہ کے بل گرپڑے ،شقیا اصبحی نے تھام لیا اور دیر تک سنبھالے رہے،ہوش آیا توکہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب خدا بندوں کے فیصلہ کے لیے اترے گا تو سب سے پہلے تین آدمی طلب کئے جائیں گے عالم قرآن، راہ خدا میں مقتول اور دولت مند، پھر خدا عالم سے پوچھے گا کیا میں نے تجھ کو قرآن کی تعلیم نہیں دی، وہ کہے گا، ہاں خدایا، فرمائے گا تو نے اس پر کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا رات دن اس کی تلاوت کرتا تھا ،خدافرمائے گا تو جھوٹا ہے تو اس لیے تلاوت کرتا تھا کہ لوگ تجھ کو قاری کا خطاب دیں، چنانچہ خطاب دیا، پھر دولت مند سے سوال کرےگا، کیا میں نے تجھ کو صاحب مقدرت کرکے لوگوں کی احتیاج سے بے نیاز نہیں کردیا؟ وہ کہے گا، ہاں خدایا ،فرمائے گا تو نے کیا کیا، وہ کہے گا میں صلہ رحمی کرتا تھا،صدقہ دیتا تھا، خدا فرمائے گا، تو جھوٹ بولتا ہے ؛بلکہ اس سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تو فیاض اورسخی کہلائے اور لوگوں نے کہا، پھر وہ جس کو راہ خدا میں اپنی جان دینے کا دعویٰ تھا پیش کیا جائے گا، اس سے سوال ہوگا، تو کیوں مارڈالاگیا وہ کہے گا تو نے اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا میں تیری راہ میں لڑا اور مارا گیا،خدا فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے،بلکہ تو چاہتا تھا کہ تو دنیا میں جری اوربہادر کہلائے تو یہ کہا جاچکا ،یہ حدیث بیان کرکے رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا ابو ہریرہؓ سب سے پہلے ان ہی تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ [48]

عبادت وریاضتترميم

حضرت ابوہریرہؓ کو عبادت سے خاص ذوق تھا، شب بیداری آپ کا محبوب مشغلہ تھا، خود بھی شب بیداری کرتے تھے اورگھر والوں سے بھی شب بیداری کراتے تھے آپ کا کنبہ تین آدمیوں پر مشتمل تھا، ایک خود،دوسری بیوی اور تیسرا خادم ،یہ تینوں بالالتزام باری باری سے اٹھ کر ایک ایک تہائی شب میں نماز پڑہتے تھے،ایک ختم کرکے دوسرے کو جگاتا اوردوسرا تیسرے کو اسی طریقہ سے تینوں مل کر پوری رات نماز میں گذاردیتے ۔ [49] ہر مہینہ کے شروع میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے،اگر کسی سبب سے شروع میں نہ رکھ سکتے تو آخر میں پورے کرتے،[50] ارکان عبادت کو پورے شرائط کے ساتھ ادا کرتے تھے ؛بلکہ شدت احتیاط کے باعث اس میں مبالغہ سے کام لیتے تھے، نعیم بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہؓ مسجد کی چھت پر وضو کرتے تھے، میں نے دیکھا کہ ہاتھ اٹھا کر شانوں تک دھوتے اور مجھ سے مخاطب ہوکر بولے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے وہ اعضا جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں چمکیں گے ،اس لیے تم لوگوں سے جہاں تک ہوسکے اس کی چمک کو بڑھاؤ، [51] عکرمہ راوی ہیں کہ ابوہریرہؓ بارہ ہزار تسبیحیں روزانہ پڑہتے تھے اورکہتے تھے کہ بقدر گناہ تسبیح کرتا ہوں، مضارب بن جزء بیان کرتے ہیں کہ رات کو میں نکلا کرتا تھا ایک دن نکلا تو تکبیر کی آواز سنی،قریب جاکر دیکھا تو ابوہریرہ تھے،پوچھا یہ کیا کررہے ہو، کہا خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک دن وہ تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس پیٹ کی روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد خدانے یہ دن دکھایاکہ وہ میرے عقد میں آگئی، [52] آپ تسبیح وتہلیل میں مصروف رہتے تھے ،ایک تھیلی میں کنکریاں اورگٹھلیاں بھری رہتی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھتے تھے جب تھیلی ختم ہوجاتی تولونڈی کو حکم دیتے وہ بھرلاتی۔ [53]

محبت رسولﷺترميم

آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کی محبت شیفتگی کے درجہ تک تھی ایک لمحہ کے لیے بھی آپ سے جدانہ ہوتے تھے، تمام مہاجرین وانصار اپنے اپنے کاروبارمیں لگے رہتے ؛لیکن ان کا کام صرف یہ تھا کہ جمال نبویﷺ کے دیدار سے شوق کی آگ بجھائیں، ایک موقع پر اس کا اظہار بھی کیا یا رسول اللہ ﷺ حضورکا مشاہدہ جمال میری جان کا سرمائی راحت اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ [54] آنحضرت ﷺ کے بعد لطیف غذا کھانے سے محض اس لیے پرہیز کرتے تھے،کہ حضورنے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا، ایک مرتبہ لوگوں نے ان کو بھنی ہوئی بکری کی دعوت دی،انہوں نے محض اس لیے قبول کرنے سے انکار کیا کہ آنحضرت ﷺ دنیا سے اس حال میں سدھارے کہ کبھی جو کی روٹی بھی آسودہ ہوکر نہیں کھائی۔ [55]

محبت آل رسولﷺترميم

ذات نبویﷺ کے ساتھ اس والہانہ تعلق کا فطری اقتضایہ تھا کہ آل اطہار کے ساتھ بھی یہی شیفتگی تھی، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان کے سامنے حضرت حسنؓ کو بلاکر گود میں بٹھایا اوران کے منہ میں منہ ملا کر تین مرتبہ فرمایا کہ: خدا میں اس کو محبوب رکھتا ہوں، اس لیے توبھی محبوب رکھ اوراس کے محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ، اس کے بعد سے جب یہ حضرت حسن کو دیکھتے تھے تو ان کی آنکھیں پرنم ہوجاتی تھیں، [56] عمیر بن اسحق راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ابوہریرہؓ حضرت حسنؓ سے ملے تو کہا کہ اپنے شکم مبارک کا وہ حصہ کھولیے جو آنحضرت ﷺ کا بوسہ گاہ تھا، آپ نے کپڑا ہٹادیا اورابوہریرہؓ نے اسی مقام پر بوسہ عقیدت ثبت کردیا۔ [57]

والدہ کی خدمت گذاریترميم

حق العباد میں ایک بڑا حق یہ ہے کہ انسان تابمقدور ان ضیعف اورسب سے بڑے محسن والدین کی خدمت گزاری کو باعث فخر اور ذریعہ نجات سمجھے،جنہوں نے اس کو بچہ سے جوان بنایا، اسلام نے خاص طورپر ان کے اعزاز واحترام اورخدمت گذاری کی تعلیم دی، حضرت ابوہریرہؓ نے اس فریضہ کا یہاں تک لحاظ رکھا کہ ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی بھر حج نہیں کیا۔ [58]

اظہار حق میں بے باکیترميم

حق گوئی اور راست بازی حضرت ابوہریرہؓ کا خاص جوہر تھا،اعلانِ حق میں وہ اس قدر جری اوردلیر تھے کہ بڑے بڑےشخص کو اس کی لغزش پر فوراً ٹوک دیتے تھے، آپ کا قیام مدینہ میں تھا، مروان یہاں کا حاکم تھا، اس لیے اکثر اس سے سابقہ پڑتا تھا، ایک مرتبہ اس کے یہاں گئے تو تصویریں آویزاں دیکھیں،فرمایا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہےجو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے،اگر دعوائے تخلیق ہے تو کوئی ذرہ، غلہ یا جو پیدا کر کے دکھائے۔ [59] مروان کے زمانہ امارت میں مدینہ میں چک (ہنڈی) کا رواج ہوچلا تھا،حضرت ابوہریرہؓ کو معلوم ہواتو مدینہ جاکر مروان سے کہا تم نے رباحلال کردیا،مروان نے اس سے برات ظاہر کی ،فرمایا تم نے چکون کو رائج کیا،حالانکہ آنحضرت ﷺ نے اشیاء خوردنی کی بیع کی اسوقت تک ممانعت فرمائی ہے جب تک بائع اس کو ناپ نہ لے،حضرت ابوہریرہؓ کی اس تنبیہ سے مروان نے یہ طریقہ منسوخ کردیا۔ [60] ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ مسجد نبوی میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے،مروان بھی موجود تھا، آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے سنایا کہ میں نے صادق مصدوق ﷺ سے سنا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں ہوگی۔ [61]

فقروغناترميم

حضرت ابوہریرہؓ کی زندگی کے دو دور تھے،پہلا افلاس ،تنگدستی اورفقر و فاقہ میں بسر ہوا،دوسرے میں جاہ وثروت اورفارغ البالی نصیب ہوئی، فقرفاقہ کا دور نہایت دردانگیز تھا، مسلسل فاقوں سے غش پر غش آتے تھے،لیکن رحمۃ للعلمین کے سوا کوئی پوچھنے والانہ تھا، اس زمانہ میں آپ نے سخت تکلیفیں برداشت کیں،لیکن زبان کبھی سوال سے آلودہ نہ ہوئی، ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے بہت بے قرار ہوئے تو راستہ میں بیٹھ گئے،حضرت ابوبکرؓ کا گذر ہوا، ان سے ایک آیت پوچھی، وہ بتاکر گذ رگئے اورکچھ توجہ نہ کی، اس کے بعد حضرت عمرؓ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا تو آپ اس حسن طلب کو سمجھ گئے اورساتھ لیجا کر ان کو اور تمام اصحاب صفہ کو کھانا کھلایا۔ [62] جب فقروفاقہ کا دور ختم ہوا اورخدانے فارغ البال کیا، اس وقت فقیرانہ سادگی کو قائم رکھتے ہوئے کبھی کبھی فارغ البالی کا بھی اظہار کیا، چنانچہ ایک مرتبہ کتان کے دورنگے ہوئے کپڑے پہنے اورایک سے ناک صاف کرکے کہا واہ وا، ابوہریرہؓ آج تم کتان سے ناک صاف کرتے ہو،حالانکہ منبر نبوی اورحضرت عائشہ کے حجرہ کے درمیان غش کھا کر گرتے تھے اورگذر نے والے تمہاری گردن پر پیر رکھ کر کہتے تھے کہ ابوہریرہؓ کو جنون ہوگیا ہے،حالانکہ تمہاری یہ حالت صرف بھوک کی وجہ سے ہوتی تھی۔ [63]

سادگیترميم

لیکن امارت کی حالت میں بھی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی جب شہر سے نکلتے تو سواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا، چھال کی رسی کی لگام ہوتی ،غرض اس سادگی سے نکلتے کہ کسی کو امارت کا اندازہ بھی نہ ہوتا، جب کوئی سواری کے سامنے آجاتا تو (مذاق سے )خود کہتے کہ راستہ چھوڑدو، امیر کی سواری آرہی ہے۔ [64]

فیاضیترميم

فقر وغنا دونوں حالتوں میں بلند حوصلہ اور فیاض رہے،لوگوں کو کھلانے پلانے میں بڑی سیر چشمی سے کام لیتے تھے،عبداللہ بن رباح راوی ہیں کہ ایک مرتبہ چند آدمیوں کا وفد امیر معاویہؓ کے پاس گیا، جس میں ہم اور ابوہریرہؓ بھی تھے، رمضان کا زمانہ تھا ہم لوگوں کا معمول تھا کہ کھانے پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے تھے، ان سب میں سب سے زیادہ "ابوہریرہ" دعوت کرتے تھے۔ [65] گو مہمان نوازی صحابہ کرامؓ کا عام وصف تھا، تاہم لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے زیادہ مہمان نواز کم صحابی تھے۔ [66]

حوالہ جاتترميم

  1. (بنسعد،جز۴،ق۲،:۵۲)
  2. (ترمذی مناقب ابوہریرہؓ)
  3. (ابن سعد ،ترجمہ ابوہریرہؓ دوسی)
  4. (ابن سعد، جز۴،ق۱،:۱۷۵)
  5. (بخاری ،جلد۱،باب الشرکہ باب اذا قال بعدہ ہو معہ ونوی العتق خیبر جانے کا واقعہ ابن سعد سے ماخوذ ہے)
  6. (طبقات ابن سعد،جز۴،ق ۱،:۵۴)
  7. (طبقات ابن سعد،جز۴،ق ۱،:۵۴)
  8. (مسلم،جلد۳،فضائل ابی ہریرۃؓ)
  9. (اصابہ:۲۰۶/۷)
  10. (مسند ابن ،حنبل:۳۲۵/۲)
  11. (مسلم:۱۵۴/۱،باب انبات التکبیر فی کل خفض فی الصلوٰۃ )
  12. (ابن سعد،جز۴،ق ۲،:۱۶۲)
  13. (ابن سعد،جز۴،ق ۲،:۱۶۲)
  14. (ابن سعد،جز۴،ق ۲،:۶۲،۶۳)
  15. (ابن سعد،جز۴،ق۲،:۶۳)
  16. (اسد الغابہ:۳۱۷/۵)
  17. (مستدرک حاکم:۵۰۸/۳)
  18. (بخاری، کتاب العلم)
  19. (مسند احمد ابن حنبل:۳۷۳/۲)
  20. (مستدرک حاکم:۵۱۰/۳)
  21. (جمع الفوائد ،کتاب العلم بحوالہ طبرانی الاوسط ،:۲۲۱/۱)
  22. (مستدرک حاکم:۵۱۰/۳)
  23. (تذکرہ الحفاظ:۳۱/۱)
  24. (تذکرہ الحفاظ:۲۸/۱)
  25. (تہذیب التہذیب:۲۶۶/۱۲)
  26. (مستدرک حاکم،جلد۳،تذکرہ ابوہریرہؓ)
  27. (ترمذی،مناقب ،ابوہریرہؓ)
  28. (ابن سعد،جز۴،قسم ۲،صفحہ:۵۶،ومسلم،جلد۲،فضائل ابوہریرہؓ)
  29. (مستدرک حاکم:۵۱۲/۳،ترمذی، مناقب ابو ہریرۃ)
  30. (مستدرک حاکم:۵۱۱/۳)
  31. (مستدرک حاکم:۵۰۹/۳)
  32. (اصابہ:۲۰۵/۷)
  33. (تہذیب التہذیب:۲۶۶/۲)
  34. (صحیح بخاری،کتاب العلم)
  35. (مستدرک حاکم:۵۱۱/۳)
  36. (صحیح بخاری،کتاب العلم)
  37. (مستدرک حاکم:۵۱۰/۳)
  38. (مستدرک حاکم:۳۱۲/۳)
  39. (ابوداؤد:۱۲۱/۲)
  40. (صحیح بخاری کتاب الفتن وابن سعد ،جلد۴،ق۲،صفحہ:۵۷)
  41. (بقرۃ:۱۵۹)
  42. (صحیح بخاری کتاب الفتن وابن سعد،جلد۴،۱۲،صفحہ:۵۷)
  43. (تہذیب الکمال،صفحہ:۴۶۲)
  44. (تہذیب التہذیب ،ترجمہ ابوہریرہؓ)
  45. (اعلام الموقعین:۱۳/۱)
  46. (ابوداؤد:۲۲۷/۱)
  47. (اصابہ:۲۰۵/۵)
  48. (ترمذی ابواب الزہد باب،ماجاء فی الریا والسمعۃ)
  49. (مسند احمد بن حنبل:۳۵۳/۲)
  50. (مسند احمد بن حنبل:۲۳۴/۲)
  51. (مسند احمد بن حنبل: ۳۵۳/۲)
  52. (اصابہ:۲۰۶)
  53. (ابوداؤد کتاب انکاح باب مایکرہ من اذکر الرجل مایکون من اصابۃ اھلہ)
  54. (مسند احمد بن حنبل:۴۹۳/۲)
  55. (بخاری،جلد۲،کتاب الاطعمہ باب ماکان النبی ﷺ واصحابہ یاکلون)
  56. (مسند احمد بن حنبل:۵۳۲/۲)
  57. (مسند احمد بن حنبل:۴۲۲/۲)
  58. (مسلم جلد۲،باب ثواب العبد واجرہ اذا نصح لسیدہ واحسن وابن سعد تذکرہ ابو ہریرہؓ)
  59. (مسند احمد بن حنبل،جلد۲،احادیث ابوہریرہؓ)
  60. (مسلم،جلدا، کتاب البیوع باب بیع المبیع قبل القبض مطبوعہ مصر ،ومسند احمد:۳۴۹/۲)
  61. (بخاری،جلد۲،کتاب الفتن باب قول النبی ﷺ ہلاک امتی علی ایدی اغیلتمہ مفناء)
  62. (ترمذی ابواب الزہد ،باب جاء فی حبشہ اصحاب النبی صلعم)
  63. (بخاری کتاب الاعتصام باب ماذکر النبی ﷺ وحص علی انفاق اہل العلم)
  64. (ابن سعد:۶۰/۴)
  65. (مسند احمد بن حنبل:۵۳۸/۲)
  66. (مسند احمد بن حنبل:۵۳۸/۲)