شیخ سلیمان مصری قلندر کا تعلق سلسلہ قلندریہ سے تھا۔

وہ سیاحت پیشہ تھے ،جب وہ ملتان پہنچے تو دارا شکوہ نے والئی ملتان کو حکم دیا کہ ان کا پورے اعزاز سے استقبال کرے اور ان کے دارالخلافہ لانے کا انتظام کیا جائے۔ دارا شکوہ کی ان سے ملاقات 1064ھ / 1654ء میں ہوئی۔ دوران ملاقات دارا شکوہ کو ان میں یگانگئی مشرب کا احساس ہو گیا۔ دارا شکوہ چونکہ اپنے ہم مشرب صوفیاء کا متلاشی تھا اس لیے یہ اس کے لیے بڑی نعمت تھی۔ وہ خاصے آزاد مشرب صوفی تھے۔ انھوں نے خود دارا شکوہ سے بیان کیا تھا کہ ان کے نماز باجماعت نہ پڑھنے پر جب علما نے اعتراض کیا تو انھوں نے امامت کرنے والے اس دیار کے تمام علما کو ہی ناقص قرار دے دیا۔[1]

انھوں نے ایک مرتبہ دارا شکوہ سے کہا کہ انھیں سیاحت کرتے ہوئے 45 سال ہو گئے ہیں لیکن انھوں نے دارا شکوہ جیسا سخنوار اور عالی مشرب شخص نہیں دیکھا۔[2]

حوالہ جات ترمیم