شیخ عبداللہ محمد بن قسوم

شیخ عبد اللہ محمد بن قسوم ابن عربی کے مشائخ میں سے ہیں۔ ابن عربی، شیخ عبد اللہ محمد بن قسوم کے بارے میں اپنی کتاب روح القدس میں لکھتے ہیں:۔ آپ ابن مجاہد کے صحبت یافتہ تھے، اُن کی وفات تک انہی سے پڑھا اور اُن کے بعد ان کے جانشین ہوئے، آپ بھی انہی جیسے بلکہ اُن سے بڑھ کر تھے۔ صاحبِ علم و عمل تھے، مالکی مذہب سے تعلق رکھتے اور علم کے شرف اور مرتبت کے قائل تھے۔ میں نے آپ کی صحبت اختیار کی، نماز اور طہارت کے بنیادی مسائل آپ سے ہی سیکھے اور آپ سے سماعت بھی کی۔

مجلس کے اختتام پر آپ کی دعا

ترمیم

مجلس کے اختتام پر آپ ہمیشہ یہ دعا کرتے: “یا اللہ ! ہمیں بھلائی سنا اور بھلائی دکھا، اے اللہ ! ہم پر سایہ عافیت ہمیشہ قائم رکھ، اے اللہ! ہمارے دلوں کو تقویٰ سے جوڑ دے اور اس بات کی توفیق دے جو تیری پسند اور رضا ہو۔” اور پھر سورۃ البقرة کی آخری آیتیں تلاوت فرماتے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم بھی اپنی مجلس کے خاتمے پر لازماً پڑھتے ہیں، (اس کی وجہ یہ ہے کہ) میں نے حرم شریف میں خواب میں حضور اکرم  کو دیکھا، پڑھنے والا آپؐ کے سامنے صحیح بخاری پڑھ رہا تھا جب وہ پڑھ چکا تو آپؐ نے یہی دعا مانگی، لہذا اِس (دعا) پر میرا رشک اور بڑھ گیا۔

پیشہ

ترمیم

آپ ٹوپیاں سی کر گذر بسر کرتے، ایک دن (کام پر) بیٹھے تھے جبکہ آپ کے پیسے ختم ہو چکے تھے، آپ نے قینچی اور کام کے دوسرے اوزار اٹھائے کہ اچانک دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی، آپ باہر نکلے تو دیکھا کوئی نہیں ہے اور چھ دینار پڑے ہوئے تھے، آپ نے وہ اُٹھا لیے، واپس اندر آئے اور قینچی کنویں میں پھینک دی، فرمانے لگے: میری زندگی کی گاڑی اللہ چلا رہا ہے اور میں تدبیریں کرتا ہوں، جس چیز کا مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے اُس کی طلب میں خود کو تھکاتا ہوں، رزق تیری طلب میں ہے تُو اُس کی طلب میں نہیں۔ یوں آپ نے “فتح ” (اللہ کی طرف سے رزق دیے جانے) کا در تھام لیا اور اپنا پیشہ چھوڑ دیا۔

آپ کے رو ز و شب کا معمول

ترمیم

آپ نے اپنے روز و شب کا معمول یوں باندھ رکھا تھا: فجر کی نماز پڑھنے کے بعد طلوعِ آفتاب تک ذکر اذکار کرتے، پھر دو رکعت (نفل ) پڑھتے اور اپنے گھر چلے جاتے، اپنی کتابیں اٹھاتے اور طالب علموں کو دن چڑھنے تک تعلیم دیا کرتے، پھر گھر جاتے اور اگر روزے سے نہ ہوتے تو کچھ کھاتے پیتے، پھر چاشت کی نماز پڑھتے اور تھوڑی دیر آرام کرتے، پھر اٹھتے اچھی طرح وضو کرتے، اگر کچھ اندراج وغیرہ کرنا ہوتا تو وہ کرتے، نہیں تو اللہ کا ذکر کرتے۔ جب ظہر کا وقت ہوتا تو مسجد کھولتے، اذان دیتے اور اپنے گھر جا کر نفل پڑھتے اور جماعت کھڑی ہونے تک ذکر اذکار میں مشغول رہتے، پھر متانت سے چلتے ہوئے مسجد کی طرف آتے، نماز پڑھتے مگر نفل نہ پڑھتے۔ اپنے باطن میں کلام اللہ کا ایسا وجد پاتے کہ محراب میں مخمور جھومتے، جب سلام پھیر دیا جاتا تو باہر چلے جاتے اور ظہر کی سنتیں پڑھتے۔ قرآن مجید اٹھاتے، اسے کھول کر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے اور اپنی انگلی کو اس کے حروف پر رکھتے جاتے، آپ کی آنکھیں قرآن مجید پر ہوتیں، شوق اور تدبر سے قرآن پاک کی تلاوت فرماتے یہاں تک کہ پانچ احزاب پورے ہو جاتے، تب تک عصر کا وقت ہو چکا ہوتا، مسجد جاتے اذان دیتے اور پھر اپنے گھر واپس آ کر نفل پڑھتے رہتے، یہاں تک کہ جماعت کھڑی ہو جاتی پھر نماز پڑھاتے۔ پھر گھر واپس آ جاتے اور مغرب تک اللہ کے ذکر میں مصروف رہتے۔ پھر باہر آتے، اذان دیتے، نماز پڑھتے اور گھر چلے جاتے، پھر مغرب اور عشا کے درمیان کسی وقت (دوبارہ ) مسجد جاتے اور (قندیلیں ) چراغ یا فانوس روشن کرتے، اذان دیتے اور پھر گھر چلے جاتے۔ جب تک جماعت کھڑی نہ ہو جاتی نفل پڑھتے رہتے، پھر مسجد جاتے اور نماز پڑھاتے۔ پھر مسجد کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر چلے جاتے، اپنی رسی تھام لیتے، اپنی حرکات الفاظ اور ہر وہ چیز جو فرشتے نے لکھی ہو اس پر اپنا محاسبہ کرتے۔ پس آپ کی حالت ویسے ہی ہوتی جو آپ کے صحیفے میں ہوتا۔ پھر بستر پر لیٹتے اور سو جاتے۔ جب رات کا ایک پہر گذر جاتا تو اٹھتے، اگر حاجتِ غسل ہوتی تو غسل کرتے اور مصلّے پر بیٹھ جاتے، ترنم سے قرآن کریم پڑھتے اور ہر آیت کے حساب سے اس کا مزہ لیتے، کبھی حاضرتِ توحید میں، کبھی جنت میں، کبھی غور و فکر میں اور کبھی احکام میں، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی، اس وقت نماز ختم کرتے۔ اللہ نے آپ کو اس تلاوت (کی برکت) سے بہت سے ایسے علوم تک رسائی دی جو آپ کے پاس نہ تھے، اللہ نے آپ کو یہ سب قرآن حکیم سے سمجھائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿اللہ کا تقویٰ اختیار کرو وہ تمھیں سکھائے گا﴾ (قرآن: سورۃ البقرہ:282) جب فجر کا وقت ہو جاتا تو مسجد کھولتے، اذان دیتے، چراغ جلاتے اور گھر جا کر سنتیں پڑھتے۔ پھر روشنی ہونے تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے۔ جب روشنی ہو جاتی تو مسجد جا کر نماز پڑھاتے۔ یہی آپ کی عادت اور معمول تھا، ہفتے میں دو روز سالن کھاتے ایک اتوار کی رات اور دوسرا جمعرات کو۔ آپ کا حال اور مقام دونوں بہت بلند تھے، آپ جیسے بڑی معرفت والے لوگ بہت کم ہوں گے۔ میں نے آپ کی ملاقات اپنے دوست عبد اللہ بدر حبشی سے بھی کروائی اور انھوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. روح القدس از ابن العربی، شائع شدہ ابن العربی فاؤنڈیشن ۔