آسٹریلیا کے دار الحکومت کینبرا میں دسمبر 2014 میں ایک ایرانی نژاد پچاس سالہ مسلح باشندے شیخ ہارون مونس نے سولہ گھنٹوں تک ایک ہوٹل میں کئی افراد کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ کئی گھنٹوں کی مسلسل جدو جہد کے بعد پولیس نے یرغمال بنائے گئے لوگوں کو کے قبضہ سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور اسی کی وجہ سے آسٹریلیا میں ہائی الرٹ کا ماحول بنا ہوا تھا ۔

شیخ ہارون
(فارسی میں: شيخ مأن هارون مؤنس ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 19 مئی 1964ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بروجرد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 دسمبر 2014ء (50 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سڈنی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران
آسٹریلیا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عارضہ شیزوفرینیا   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ امام صادق   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف ،  آخوند ،  الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اختتام

ترمیم

اس یرغمال بنانے کے معاملے میں شیخ ہارون مونس مڈبھیڑ میں مار دیا گیا۔ دو اور افراد بھی مارے کیے تھے۔ آسٹریلیائی وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے سڈنی کے اس کیفے پہنچ کران دو افراد کو خراج پیش کیا تھا۔[3]

دہشت گردی کی پرزور حمایت

ترمیم

شیخ ہارون مونس کی اہلیہ نے اا/ستمبر کے امریکا پر ہوئے دہشت گرد حملوں، 2002 کے بالی حملوں اور جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کی حمایت میں انٹرنیٹ پر کئی ویڈیوز اپلوڈ کیے تھے۔

آسٹریلیائی مسلمانوں کا رد عمل

ترمیم

آسٹریلیائی مسلمانوں نے سانحہ میں مارے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ کچھ مسلمانوں نے تو موقع واردات پر گلدستے رکھ کر مرنے والے افراد کو کے تئیں اپنے دلی رنج کا اظہار کیا۔[4]

حوالہ جات

ترمیم