ضلع گھوٹکی میں گبول قبیلہ کا پہلا سرداری گھرانہ

ترمیم

ضلع گھوٹکی میں گبول قبیلے کے پہلے سردار ’’شیرلانی گبول‘‘ تھے۔ گھوٹکی ضلع میں گبولوں کے پہلے سردار کا نام ’’شادی خان‘‘ تھا۔ اُن کے بعد ’’سردار شیر علی گبول‘‘ سردارہوئے۔ موضع ’’شیر علی گبول‘‘ اب تک اُن کے نام سے چلا آ رہا ہے۔ ابتداً اِس خاندان کی ملکیت میں سات مواضعات تھے جو اُن کی بعد میں آنے والی نسل نے بیچ دیے اور کچھ جاگیریں انگریزوں نے ضبط کر لیں۔ اِس وقت بھی ان کے پاس ہزاروں ایکڑ اراضی ہے مگر سرداری ختم ہو چکی ہے۔

شادی خان دوم کی سرداری میں گبول قبیلہ کے لوگ بہت خوش حال تھے۔ اُس دورمیں ٹالپروں سے گبول قبیلہ کی جنگ بھی ہوئی۔گبول سردار کی بوذدار سردار سے بہت گہری دوستی تھی یہاں تک کہ گبول اور بوذدار ایک دوسرے کو بھائی کہتے اور لڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے کاساتھ دیتے تھے۔ جب بوذدار اور لنڈ قبیلہ کا جھگڑا ہوا تو گبول نے بوذداروں کا ساتھ دیا۔ شادی خان کی سرداری کے بعد ان کے گھرانے کی سرداری کمزور ہوتی گئی اور جب انگریزوں کا دور آیا تو انگریزوں نے تمام سرداروں کو طلب کیا۔ سردار شیر علی گبول اور گھوٹکی شہر کے سادات کے سِوا سارے سردار انگریز کے پاس حاضر ہوئے۔ انگریزوں کو یہ رویہ ناگوار گذرا جس کے بعد انتقامی کارروائیوں میں گبول سرداروں کی جاگیروں کو، جو سات مواضعات پر مشتمل تھیں، کسی حد تک ضبط کر لیا گیا۔ گھوٹکی کا پرانا نام ’’صاحبن جو لوء‘‘ (سیدوں کا گھر) تھا،اُسے گھوٹکی سے بدل دیا۔

جب شیرلانی خاندان کی سرداری کمزور ہوئی تو’’ جمالانی‘‘ خاندان نے سرداری کا دعویٰ کیا۔ جمالانی گبول نے ضلع ڈیرہ غازی سے ہجرت کی اور براستہ علی پور سندھ میں داخل ہوئے۔ پہلے پہل جمالانی گبول’’قاضی واہن‘‘ آ کر آباد ہوئے جو تین گھرانے تھے: جمال خان، بجار خان اور ہِکڑا خان۔ یہ تینوں بھائی شادی خان کی سرداری کے وقت ضلع گھوٹکی میں آئے۔ بعد میں سردار شیر علی گبول نے انھیں دو ایکڑ زمین رہائش کے لیے دی۔ یہ خاندان علمی دولت سے مالا مال تھا۔ شیرلانی گبول کی سرداری تقریباً ختم ہونے کو تھی تو اس خاندان نے تعلیم اور فیاضی کی بدولت سرداری کا دعویٰ کیا۔ شروع میں ان کی سرداری کمزور تھی مگر’’سردار الٰہی بخش خان گبول‘‘ نے اپنی سرداری کا لوہا منوایا۔ اُن کے بعد ’’سردار عالم خان گبول‘‘ کا پلہ بھاری رہا۔ اُنھوں نے قبیلے کو متحد رکھا۔ اِس وقت سردار عالم خان گبول کے بیٹے سردار خلیل احمد خان گبول ضلع گھوٹکی کے گبول قبیلہ کے سردار ہیں۔[1]

گبولوں کی ٹالپروں سے لڑائی

ترمیم

ٹالپروں کے اُس دَور میں ریاست خیر پور کا حاکم ’’ میر شیر محمد ٹالپر‘‘ تھا۔ اُس کی گبول قبیلہ سے بہت دوستی تھی۔ گبول نہ صرف ٹالپروں کی فوج میں شامل تھے بلکہ اُن کے قریبی محافظ بھی گبول بلوچ تھے۔ جب ٹالپروں نے شادی خان گبول سے زمین کا ٹیکس مانگا تو شادی خان نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔ اِ س بات پر ٹالپر امیر شادی خان گبول سے بہت خائف ہوئے۔ حالات اِس قدر کشیدہ ہو گئے کہ ٹالپروں نے شادی خان کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایااور اپنے آدمیوں کے ذریعے اُس کو قتل کروا دیا۔ شادی خان کی وفات کی خبر جب گبولوں کو ملی تو اُنھوں نے سردار کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

جوابی کارروائی کے لیے بیس تربیت یافتہ جوان جن میں سے بارہ گبول اور آٹھ بوذدار تھے، میر شیر محمد حاکم ریاست خیر پور کو قتل کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ میر شیر محمد حیدرآباد گیا ہوا ہے۔ میر شیر محمد کا قائم مقام اور چچا زاد بھائی ’’ گل محمد گوزی‘‘ ریاست خیر پور کے صدر مقام ’’کوٹ ڈی جی‘‘ میں موجود تھا۔ متبادل حکمت عملی کے تحت حملہ آور کوٹ ڈیجی روانہ ہوئے اور راستے میں اُن کا سامنا گل محمد گوزی ٹالپر سے ہو گیا۔ اُس کے محافظوں میں گبول اور خاصخیلی قبیلے کے افراد شامل تھے۔ جن کو حملہ آوروں نے گھیر لیا۔ اِس حملے میں میر گل محمد گوزی اپنے محافظوں سمیت مارا گیا۔ گبولوں کی طرف سے بھی دو آدمی مارے گئے جن میں سے ایک بوذدار تھا۔ گبول ٹالپر اَمیر کا سر قلم کر کے بطور نشانی اپنے ساتھ لے گئے۔[2]

کچھیلا خاندان

ترمیم

گبول قبیلہ کے وہ پاڑے جنھوں نے مکران کے ساحل کی جانب سے ضلع گھوٹکی کی طرف نقل مکانی کی اُن کی زبان بلوچی ہے۔ اُن کی افرادی قوت سرائیکی اور سندھی بولنے والے گبولوں سے زیادہ تھی مگر اَب بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اِس کے علاوہ جو خاندان سبی اور کچھی(بلوچستان) سے یہاں آکر مقیم ہوئے اُن کو ’’کَچھیلا‘‘ کہا جاتا ہے۔

کچھی کے گبولوں میں سے پہلے پہل تین بھائیوں بہادر خان، کریم داد خان اور یار محمد خان نے ضلع گھوٹکی کا رُخ کیا۔ آگے چل کر اُن کی نسل سے تین نمایاں پاڑے وجود میں آئے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • بہادر خان سے بہادرانی:

یہ وڈیروں کا خاندان ہے۔ پہلے ان کا سردار بھریو خان بہادرانی گبول تھا۔ اس کے چار بیٹے علی نواز خان، علی خان، غلام مصطفیٰ خان اور میرو خان پیدا ہوئے۔ علی نواز خان کے دو بیٹے غلام سرور خان اور عبد الرحیم خان ہیں۔

  • کریم داد خان سے قلاتانی گبول:

یہ خاندان اپنی بہادری کی وجہ سے مشہور ہے۔ برٹش دور میں پنوں خان اور بابو خان مشہورِ زمانہ دلیر جوان ہو گذرے ہیں۔ اُن کے بعد غلام رسول قلاتانی گبول اندرون سندھ میں نامی گرامی ہو گذرا ہے۔ لنڈ اور مہر قبائلی جنگ میں غلام رسول گبول نے مہر سرداروں کے بنگلے میں گھس کر لنڈ بلوچوں کا اِنتقام لیا۔ اس سے قبل لنڈ سردار نور احمد خان کسی کارروائی میں کامیاب نہ ہوا تھا۔ ضیا دور میں قبائلی تنازعات اور مخالفین کے سیاسی اَثر رسُوخ کے پیشِ نظر سندھ گورنمنٹ نے غلام رسول قلاتانی کو گرفتار کروانے میں مدد پر دس لاکھ روپے انعام بھی مقرر کیا۔

  • یار محمد خان سے یارانی گبول:

یہ خاندان یارانی گبول کے نام سے مشہور ہے۔ کچھیلے گبولوں کا یہ خاندان بہت بڑا ہے جس کی ملکیت میں آٹھ گاؤں ہیں۔ پہلے اس پاڑے کا مقدم رحمت اللہ خان گبول تھا۔ موجودہ مُقدم سعید احمد خان یارانی گبول ہیں۔ اُن کی جاگیروں میں شامل اندرون سندھ سمیت لاکھوں ایکڑ اراضی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. گبول قبیلہ: عہدِ قدیم سے عصرِ حاضر تک، صفحہ 212 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014).
  2. گبول قبیلہ، صفحہ 213 از: محمد عرفان گبول ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور (2014)

دیگر ماخذ

ترمیم
  • The Musalman Races Found in Sindh Baluchistan and Afghanisthan By: Sani Hussain Panhwar
  • تاریخ ضلع گھوٹکی از: کامران اعظم سوہدروی ایم-اے ناشر: تخلیقات پبلشرز، بیگم روڈ لاہور۔
  • قديم سنڌ: ان جا مشهور شہر ۽ ماڻهو مصنف: ميرزا قليچ بيگ ڇپائيندڙ: سنڌي ادبي بورڊ ڄام شورو
  • رسالہ: مهراڻ 1995 جلد:44 ایڈیٹر: نفیس احمد شیخ ناشر: سندھی ادبی بورڈ جامشورو۔
  • مہماتِ بلوچستان، ضمیمہ اول از: کامل القادری ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ

بیرونی ربط

ترمیم