تحصیل علی پور
تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ، پنجاب، پاکستان کی چار تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔[3] اس تحصیل کا صدر مقام علی پور شہر ہے۔ اس میں 20 یونین کونسلیں ہیں۔ جن کی تفصیل مدرجہ ذیل ہے
تحصیل علی پور | |
---|---|
تحصیل علی پور Alipur Tehsil |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان |
تقسیم اعلیٰ | ضلع مظفر گڑھ |
آبادی | |
کل آبادی | 639748 (پاکستان میں مردم شماری ) (2017)[1] |
مزید معلومات | |
اوقات | پاکستان کا معیاری وقت |
فون کوڈ | 066 |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
درستی - ترمیم |
1-خیرپورسادات 2- فتح پور جنوبی 3 سیت پور 4 کندائی 5 علی پور میرانی 6 علی پور اربن7 گھلواں8 بندے شاہ 9 على والی 10 بیٹ ملاں والی 11 باز والا 12 لتی13 مراد پور جنوبی 14 خانگڑھ دوئمہ15 لنگر واہ 16 مسن کوٹ 17 سلطان پور18 گبرآرائیں 19 ڈمر والا جنوبی 20 یاکیوالی.
یہ تحصیل بہت سی قبائلی برادری پر مشتعمل ہے اور بڑے بڑے قبیلے آباد ہیں قابل ذکر آرائیں، سید، جٹ، راجپوت بلوچ ہیں۔ ملحقہ علاقہ خیرپورسادات,سیت پور خانگڑھ دوئمہ, سلطان پور,گبرآرائیں,جھگی والہ , پرمٹ چوک ,شہر سلطان اور بہت سے چھوٹے پر مشتعمل شامل ہیں
پنجاب کی سب سے زیادہ پرانے تحصيل ہونے کے باوجود پيداوار کا کافی حصہ اس تحصيل سے ملکی پيداوار میں شامل ہوتا ہے۔ 90 کی دہائی تک تحصیل جتوئی علی پور کا حصہ تھی ۔ تاہم ترقی کے اعتبار ابھی باقی تحصیلوں سے پیچھے اور سیاسی میدان میں سب سے آگے ہے۔ متعدد وفاقی و صوبائی منسٹر اس تحصیل سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ مگر ترقی ناپید ہے
تاریخی تذکرہ
علی پورپاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے ایک تاریخی قصبہ" سیت پور" کا حصہ ہے۔ ماضی میں یہ ایک ریاست تھی. اس کی سرحدیں سندھ میں شکار پور سے ملتی تھی۔ سیت پور، علی پور سے جنوب میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ سیت پور کی سبزیاں بہت مشہور ہیں۔ سیت پور جو مختلف ادوار میں حکومت کا مرکز رہا ہے سیتارانی کے نام پر آباد ہوا تھا اس کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کے ہندو راجا جے پال کی بیٹی سیتا رانیکے نام پر سیت پور کا نام رکھا گیا۔ جے پال کی دوسری بیٹی اوچھا رانی کے نام پر اوچ شریف کا نام رکھا گیا بعد میں محمد بن قاسم نے یہ شہر فتح کیا اور مسلمانوں کے آنے پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور طاہر بادشاہ نے بادشاہی مسجد بنوائی جو اج تک آباد ہے اور پوری شان شوکت سے اپنی تاریخی طرز تعمیر پر قائم ہے ساتھ ہی طاہر بادشاہ کا مقبرہ ہے۔اس کا شمار ملتان کے گورنر بہلول لودھی کے چچا اسلام خان نے ان علاقوں پر حکمرانی کی اس نے سیت پور کو اپنا داراخلافہ بنایا ڈیرہ غازی خان, مظفر گڑھ, کوہ سلیمان کا مشرقی حصہ اور سندھ کے شمالی علاقے اس زیر نگین تھے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس ریاست کے بچے کھچے علاقوں پر قبضہ کر کے اس کے عروج کو تاراج کیا بلکہ اس کی ساری شان و شوکت چھین کر اسے معمولی قصبہ بنا دیا.
- علی پور شہر 1818عیسوی تا 1848عیسوی تک سکھ عملداری میں رہا۔
- 1849 عیسوی میں یہ شہر انگریزوں کے زیر تسلط آ گیا۔
- 1869 عیسوی میں علی پورکو ٹائون کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔
- 1870 میں گورنمنٹ ہائی اسکول کا قیام کیا گیا.
- منٹو اور مارلے اصلاحات 1909 کے بعد
- 1919 میں جیل خانہ تعمیر کیا گیا تھا.
- پولیس اسٹیشن 1928 میں قائم کیا گیا.
- ڈاکٹر مول چاند پہلے ایم . بی . بی ایس ڈاکٹر تھے.
- سول تحصیل ہسپتال قیام کیا گیا اور ڈاکٹر جمال خان بھٹھ کو پہلے سول سرجن تھے.
معشیت
ترمیمعلی پور ایک ذرخیز تحصیل ہے۔ شہریوں کے بڑے معاشی ذریعے صرف دو ہی ہیں۔ ایک ذراعت اور دوسرا مویشی پالنا۔ 70 کی دہائی تک تحصیل علی پور کی بیشتر زرعی زمین سیم اور جنگلات کی وجہ سے بنجراور ناقابل کاشت رہی۔ علی پورکی زرعی پیداوار میں آم،کپاس،گندم، چنا،چاول، اورکماد شامل ہیں۔ایک شوگر مل لگائی ہے۔ ذراعت کی وجہ سے علی پور کا نہری نظام بھی کافی منظم ہے۔ چودھری برادران کے دور حکومت میں پنجاب بھر میں نہری نظام بہت مظبوط اور پختہ ہوا۔ اسی منصوبے کے تحت علی پور کی نہر کو بھی پکا اور نالیوں کو پختہ بنایا گیا۔ جس سے پانی ضائع اور چوری ہونے کے امکانات میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔علی پور کو مرکزی تین نہریں سراب کرتی ہیں۔ جن میں خان نالہ نہر جو علی پور شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ قادرا نالہ جسے ماضی میں غلاظت سے پاک نہر کے طور پر جانا جاتا تھا تاہم اب آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ہی نہر کے پانی میں گٹر لائن ڈال دی گئی ہے ۔ یہ نہر علی پور شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ تیسری نہر چندر بھان کے نام سے مشہور ہے۔ یہ شہرعلی پور کے پنجند سڑک کے مشرقی حصے کی جانب واقعہ ہے.
دریا
ترمیمدریائے سندھ جسے انڈس ریور بھی کہا جاتا ہے وہ بھی علی پور کے مغرب خیرپورسادات کی جانب سے آتا ہے اور کندائی کے مغربی جانب سے ہوتا ہوا صوبہ سندھ کی طرف نکل جاتا ہے۔ دریا سندھ بنیادی طور پر ایک چین سے آتا ہے اور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہ دریا سیت پور کے پاس سے گزرتا ہے سندھ میں ٹھٹھہ کے مقام پر بحیرہ عرب یعنی سمندر میں جاگرتا ہے۔ جتوئی کے مغربی جانب دریا ئے سندھ واقع ہے۔علی پور کے مشرق دریائے پنجند کے اس پار بہاولپور رحیم یار خان کے اضلاع اور تاریخی قصب اچشریف واقع ہے جبکہ مغرب میں دریائے سندھ کے پار راجن پور ضلع ہے
دونوں دریاؤں کے بیچوں بیچ یہ تحصیل ملکی نظام سے بالکل ہٹ کر ہے۔ علی پور اگرچے ایک بڑے روٹ کے درمیان واقع ہے تاہم تحصیل کی حدود میں وہ روٹ تو آتا مگر شہر سے دور سے کلومیٹر بائی پاس ہوتا ہوا نکل جاتا ہے۔ اگر بہاولپورکی جانب سے کوئی مظفر گڑھ یا ڈیرہ غازی خان جانا چاہے تو وہ اس روٹ کا استعمال کرتا ہے۔ مگر علی پور سے ہوتے ہوئے پرانا چوک پرمٹ اور موجودہ نصیرآباد چوک سے ہوتے ہوئے مظفر گڑھ کی جانب نکل جاتا ہے۔ اس طرح اگر شاہ جمال والا روڈ بھی جائیں تو بھی گرڈ چوک سے بغیر کسی اسٹاپ کے گاڑی نکل جاتی ہے تاہم یہ روڈ ون وے کے طور پر اپنی خدمات پیش کر رہا ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف اس تحصیل کو گم نامی کا سامنا ہے بلکہ کسی معروف روٹ یہاں سے نہ گزرنے کی وجہ سے اس تحصیل کو کسی بھی قسم کا کوئی بزنس نہیں ملتا۔ یہ تحصیل اپنی طور پر جو کھیتی باڑی کرتی ہے اس پر ہی تمام تر نظام زندگی چلتا ہے۔
روٹ
ترمیمبہاولپور اور خان پور سے آنے والی ٹرانسپورٹ اگر راجن پور یا ڈیرہ غازی خان کی طرف جانا چاہیے تو ٹرانسپورٹ موجودہ صورت حال میں علی پور شہر سے گزرنے کی بجائے بائی پاس ہوتی ہوئی پہلے مظفر گڑھ جائے گی پھر دریائے سندھ کے پل سے گزرتی ہوئی سیدھی ڈیرہ غازی خان جائے گی۔ اس طرح وہیں سے یہ ٹرانسپورٹ سخی سرور اور داجل، جام پور کی طرف جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ روٹ کافی طویل ہوجاتا ہے تاہم کبھی حکومتوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس روٹ کے استعمال کرنے پر مجبور کرنے کی بجائے علی پور سے ایک ڈبل روڈ نکالا جائے جو دریائے سندھ سے ہوتا ہوا سیدھا ڈیرہ غازی خان جائے۔ اگر یہ روٹ نکال لیا جائے تو یقیناًآدھا سفر اور فیول اس روٹ سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے جتوئی کو بھی ایک اچھا خاصا بزنس مل جاتا۔ تاہم علی پور کی فلاح اور ترقی کا بھلا کوئی کیوں سوچے گا۔ سب کو روپیہ پیسا مل جاتا ہے اور اس سے ان کے کام چل جاتے ہیں۔
اگر اس روٹ کو لودھراں سے نکالا جاتا تو یہ روٹ جلال پور پیر والا سے ہوتا ہوا دریائے جہلم (پتن) پر پل بنا کر اسے چوک پرمٹ سے گزارتے ہوئے سیدھا علی پور اور جتوئی پھر جتوئی سے دریائے سندھ پر پل سے گزارتے ہوئے ڈیرہ غازی خان لایا جاتا تو یقیناًآدھے سے بھی کم ٹائم اور فیول میں یہ سفر اس قدر آسان ہوجاتا ہے۔ مگر بات وہیں ہے کہ یہ سب کوئی کیوں کرے گا۔ اگر تصور کیا جائے کہ یہ روٹ بن جاتا تو جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والا شہرعلی پور ہوتا اور سب سے بہترین روٹس میں سے یہ روٹ ہوتا۔ اب اسی روٹ کو نیشنل یعنی علاقائی سطح سے نکال کر قومی سطح پر دیکھا جائے تو یہ روٹ سندھ کو پنجاب سے گزارتے ہوئے بلوچستان اور خیبرپختونخوا تک رسائی دیتا۔
ایک دوسر ا راستہ علی پورسے سیت پور روڈ خانگڑھ دوئمہ اور کندائی سے دریائے سندھ پر (پتن) سے گزارتے ہوئے KLP سڑک بہاول پور اور رحیمیار خان سے سندھ میں جاتا ہے۔
ایک اور سڑک فیری کشتی (پتن)گبرآرائیں کے ذریعےخیرپورسادات سے جاتا ہے جوراجن پور اور کوٹ مٹھن تک رسائی دیتا.یہ نتشرگھاٹ سے ایک مختصر فاصلہ ہے۔
یہ تو تھی روٹس کی بات اب اگر شہر کی انتظامی صورت حال کا جائزہ لیا جائے توعلی پور میں ترقیاتی کام تو کبھی سننے کو نہیں ملے۔ ایک مرتبہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے شہر میں سیوریج کے نظام پر کچھ کام شروع کیا تو گیا. سیت پور روڈ کی اطرف اور بیچوں بیچ کھدائی کرکے وہ کھڈے ویسے کے ویسے ادھوری حالت میں پڑے رہ گئے اور آج تک سیوریج کا نظام مکمل تو کیا وہ کھڈے بھی واپس بھرنے کوئی نہیں آیا۔ ایک طرف سیوریج کا نظام انتہائی بری حالت میں ہے.
اسٹرکچر
ترمیمشہر کے اندرونی اسٹرکچر کی حالت تو ناگفتہ بہ ہے ہی تاہم سیت پور روڈ کی حالت بھی اپنی کسمپرسی کا رونا رورہی ہے۔ علی پور کی سبزی منڈی بھی کالج روڈ پر واقع ہے۔ کالج روڈ علی پور کے لیے ایک اہم ترین روڈ کے طور پر بینک، اسکول، کالج کے مرکزی بس اسسٹنٹ کمشنر آفس،سول اسپتال, کی خدمات پیش کر رہا ہے تاہم پہلی بار بننے کے بعد شاید ہی اس پر کبھی کوئی کام ہوا ہو۔ ۔ تاہم اس پر کراچی ، لاہور اور اسلام آباد کے بڑے بڑے کوچز اور بسیں چل رہی ہیں۔ ایک طرف روڈ کی حالت یہ ہے کہ وہاں پر حادثات کسی بھی وقت ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں اور دوسری بھاری ٹرانسپورٹ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جس پر آج تک نہ تو کسی پرائیویٹ اور نہ سرکاری سطح پر کام کیا گیا اور نہ آئندہ کے کسی پروجیکٹ کا حصہ یہ روڈ ہے.
پنجند(سیاحتی مقام)
ترمیمپنجند (Panjnad River) پنجاب میں ضلع بہاولپور کے انتہائی آخر میں ایک دریا ہے۔ دریائے پنجند پر پنجاب کے دریا یعنی دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی، دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانچ دریاوں کا سنگم قائم ہوتا ہے۔ جہلم اور راوی چناب میں شامل ہوتے ہیں، بیاس ستلج میں شامل ہوتا ہے اور پھر ستلج اور چناب ضلع بہاولپور سے 10 میل دور شمال میں اچ شریف کے مقام پر مل کر دریائے پنجند بناتے ہیں۔ مشترکہ دریا 45 میل کے لیے جنوب مغرب بہتا ہے اور پھر کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے سندھ بحیرہ عرب کی جانب بہتا ہے۔ پنجند پر ایک بند تعمیر کیا گیا ہے جو پنجاب اور سندھ کے صوبوں کو آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرتا ہے۔
دریائے سندھ اور پنجند کے سنگم کے بعد دریائے سندھ ستند کے طور پر نام سے جانا جاتا تھا، اس میں پنجاب کے پانچ دریا، سندھ کے علاوہ دریائے سرسوتی بھی شامل تھا جس کا وجود اب ختم ہو چکا ہے۔
۔اس علاقے میں رہنے والے لوگ
ضلع مظفر گڑھ کی دیگر تحصیلیں
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیم- ضلع مظفر گڑھ کا موقع جال آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mgarh.com (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.pbs.gov.pk/content/final-results-census-2017-0 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 مئی 2022
- ↑ "DISTRICT AND TEHSIL LEVEL POPULATION SUMMARY WITH REGION BREAKUP: PUNJAB" (PDF)۔ ادارہ شماریات پاکستان۔ 2018-01-03۔ 25 اپریل 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اپریل 2018
- ↑ "ضلع مظفر گڑھ کی تحصیلیں اور یونین کونسلیں" (بزبان انگریزی)۔ حکومت پاکستان