صابی، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بے دین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی کہا جاتا ہے۔

لغوی معانی

ترمیم

صابی کے لفظی معانی ہیں جو کوئی بھی اپنے دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں آجائے یا اس کی طرف مائل ہو جائے۔ من خرج اومال عن دین الی دین۔ (قرطبی) قیل لکل خارج من الدین الی دین اخر صابیء ۔ اس کا مادہ ص، ب، ء ہے، جو شخص ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکل جائے، گویا یہ ’’ صَبَأَ نَابُ الْبَعِیْرِ‘‘ سے ہے، جس کا معنی ہے اونٹ کی کچلی نکل آئی۔ ایک قراءت میں ’’صابین‘‘ ہے، وہ اسی ’’ صابئین‘ میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ صَبَا یَصْبُوْسے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہو گیا۔ ( راغب) [1]

اصطلاحی معانی

ترمیم

اصطلاح میں صابیون (Sabians) کے نام کا ایک مذہبی فرقہ تھا جو عرب کے شمال ومشرق میں شام وعراق کی سرحد پر آباد تھا۔ یہ لوگ دین توحید اور عقیدہ رسالت کے قائل تھے اور اس لیے اصلاً اہل کتاب تھے۔

عقائد و معمولات

ترمیم

صابئین۔ =صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقیناً ابتدا میں کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لیے قرآن میں یہودیت ومسیحیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لیے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔[2] صابی مذہب والے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ان کا مذہب الہامی مذہب ہے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت اخنوح[3] یعنی ادریس علیہ السلام کے پیرو ہیں۔
ان کے یہاں سات وقتوں کی نمازیں اور ایک قمری مہینہ کا روزہ ہوتا تھا۔
یہ جنازے کی نماز بھی پڑھتے تھے۔ ان حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا دعویٰ صحیح ہو، لیکن یہ عیب ان میں آ گیا تھا کہ سبع سیارہ (سات ستاروں) کی پرستش کرتے تھے،
بایں ہمہ خانہ کعبہ کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔[4]

تاریخی حیثیت

ترمیم

اپنے کو ’’ نصارائے یحیی‘‘ کہتے تھے، گویا حضرت یحیی (علیہ السلام) کی امت تھے۔ عمر فاروق جیسے مبصرونکتہ رس خلیفہ راشد اور عبداللہ بن عباس جیسے محقق صحابی نے صابیوں کا شمار اہل کتاب میں کیا ہے اور عمر نے ان کا ذبیحہ بھی حلال مانا ہے۔ قال عمر ابن الخطاب وابن عباس ہم قوم میں اھل الکتاب وقال عمر تحل ذبائحھم مثل ذبائح اھل الکتاب(معالم) تابعین میں سے متعدد اکابران کے اہل کتاب یا موحد ہونے کے قائل ہوئے ہیں۔ |ہم طائفۃ من اھل الکتب (ابن جریر، عن السدی) فرقۃ من اھل الکتاب(ابن کثیر، عن ابی العالیۃ والربیع بن انس والضحاک والسدی واسحاق بن راہویہ) ابن زید ان کے موحد ہونے کے قائل تھے اور قتادہ اور حسن بصری (رح) سے تو یہاں تک منقول ہے کہ اہل قبلہ تھے اور نماز پانچ وقت کی پڑھتے تھے (ابن جریر) اور ہمارے امام ابوحنیفہ (رح) جو خود بھی عراقی تھے اور اس لیے صابیوں سے براہ راست واقفیت کا موقع رکھتے تھے، ان کا فتوی ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور ان کے ہاں کی عورتوں سے نکاح بھی جائز۔ قال ابو حنیفۃ لا باس بذبائحھم ونکاح نساءھم(قرطبی) تاریخ ایران پر ایک مستند مستشرق کی کتاب کا اردو ترجمہ ابھی حال ہی میں نکلا ہے (انجمن ترقی اردو، دہلی) اس کے صفحہ 47 پر فاضل مترجم، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال اور نٹیل کالج لاہور، لفظ مینڈین (Mandean) پر حاشیہ دیتے ہیں :۔’’ مینڈین بہ زبان آرامی بمعنی اولوالعلم۔ اس فرقہ کے لوگ عراق میں اب بھی موجود ہیں اور صابیون کہلاتے ہیں۔ وہ لوگ اگرچہ مسیحی نہیں ہیں، تاہم جان دی بپٹسٹ کو مانتے ہیں عراق میں عوام الناس ان کو حضرت یحیی کی امت کہتے ہیں۔‘‘ (ایران بہ عہد ساسانیاں)[5] صابی دراصل وہ ستارہ پرست اور سورج پرست قوم ہے جس نے اپنے معبودوں کی حمایت میں حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کا پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی بعد میں آنے والے سب انبیا کے منکر ہیں۔ بعد میں صباء کا لفظ دین میں تبدیل کرنے یا آبائی مذہب سے سے روگردانی کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور ایک گالی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چنانچہ مشرکین مکہ بھی اسلام لانے والوں کو اسی محبت سے نوازتے تھے اور کہتے تھے کہ فلاں شخص صابی ہو گیا ہے۔ یعنی بے دین اور لا مذہب ہو گیا ہے۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر القرآن الکریم، حافظ عبد السلام بھٹوی،سورہ البقرہ، آیت62
  2. تفسیر مکہ، صلاح الدین یوسف، سورۃ البقرہ، آیت62
  3. حضرت اخنوح، حضرت ادریس علیہ السلام کو کہا جاتا ہے۔
  4. تاریخِ ابن خلدون، ج-دوم، ص-38
  5. تفسیر ماجدی عبد الماجد دریابادی سورۃ البقرہ زیر آیت62
  6. تفسیر تیسیر القرآن عبد الرحمن کیلانی سورۃ الحج آیت17