روزہ
روزہ بنیادی طور پر کسی مذہبی حکم کی بنا پر کسی خاص کام کرنے، چیز استعمال کرنے، خاص کھانے یا تمام کھانے، پینے کی اشیاء سے مخصوص وقت تک خود کو اپنی مرضی سے روکے رکھنے کا نام ہے۔
اسلام میں دن بھر تمام کھانے، پینے کی اشیاء سے اور دیگر چند کاموں سے مخصوص وقت تک خود کو اپنی مرضی سے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے۔
مسلمانوں پر، اسلامی مہینے رمضان میں پورا مہینہ روزے رکھنا فرض ہے۔[1] روزہ ہر دور میں دنیا کے مختلف خطوں میں مذہبی یا توہماتی نظریات کی وجہ سے رکھا جاتا رہا ہے۔ ہر قسم کے کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکنے کا روزہ اس وقت صرف اسلام میں ہے، باقی مذاہب میں مخصوص ایام میں ہی روزہ رکھا جاتا ہے اور اس میں کچھ چیزوں کی پابندی ہوتی ہے کچھ کی اجازت۔ مسیحیت میں روزہ ایک اختیاری چیز ہے۔[2] یہودیت کے تمام فرقوں میں جیسے طریقہ عبادت الگ ہوتی ہے اسی طرح ہر فرقے میں روزے بھی الگ الگ مخصوص ایام میں رکھے جاتے ہیں۔
تاریخ
ترمیم1.قدیم جنگلی قبائل میں: ' بھی ایک مخصوص دورانئے کے لیے کھانے پینے سے اجتناب کی روایت ملتی ہے۔
2.قدیم مذاہب میں: روزہ رکھنے کا یہ رواج عموماً مذہبی پروہتوں تک محدود ہوتا تھا اور اسے دیوتا تک رسائی کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
3. کچھ قدیم مذاہب میں: یہ نظریہ بھی رائج تھا کہ دیوتا اپنا آفاقی پیغام خواب میں صرف اس وقت ظاہر ہو کر پروہت کو منتقل کرتا ہے جب کہ خواب دیکھنے والا روزے کی حالت میں ہو۔
4.کچھ قبائل میں; روزہ رکھنے کی روایت زرخیزی کے دیوتا کو بہار کی آمد پر نیند سے بیدار کرنے کے لیے رائج تھی۔ قدیم یونان کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کھانا کھانے سے شیطانی قوتیں جسم میں داخل ہو جاتی ہیں، شائد اسی نظریے نے ان میں کھانے پینے سے اجتناب یعنی روزہ رکھنے کو رواج دیا۔
5.اسلام کی آمد سے پہلے بھی عرب قبائل میں روزہ رکھنے کا رواج موجود تھا '
اورعرب بت پرست کم وبیش اسی نمونے پر روزہ رکھتے تھے جیسے کہ مسلمان'
6.عراقی سابی بھی روزہ رکھتے تھے۔
7.پارسی 'مذہب غالباً ایسا واحد مذہب ہے جس میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے'۔
پارسی مذہب کے پیروکاروں کے خیال میں یہ عمل انھیں کمزور کرتا ہے اور نتیجتاً وہ برائی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
8.روزہ صرف یہودیت، مسیحیت اور اسلام کا حکم نہیں، بلکہ زمانہ قدیم سے رائج ہے۔
'روحانیت کے حصول کے لیے روزے کو ایک ذریعہ مانا جاتا تھا'۔
تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر مذاہب اپنے پیروکاروں پر کسی قسم کی پابندی لاگو نہیں کرتے اور یہ ماننے والے کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تھا کہ آیا وہ روزہ رکھنا چاہتا ہے یا نہیں
۔ مزید برآں روزوں کے ' مہینے،
اوقات' اور تعداد کا تعین بھی کم ہی مذاہب میں کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کا روزہ عیسائیو ں یا ہندووں کے روزے سے اس طرح بھی مختلف ہے کہ' اسلام کے برعکس ان مذاہب میں حالت روزہ میں کھانا پینا مکمل طور پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ' صرف مخصوص اشیا کا استعمال ہی ترک کیا جاتا ہے'۔
یوں مسلمانوں کا روزہ باقی مذاہب کی نسبت نہ صرف الگ ہے، بلکہ ہر بالغ مرد و عورت پر یکساں فرض ہے اور اس کے قضا ہونے کی صورت میں( اﷲ) خدا کی طرف سے سخت عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔
روزہ اسلام میں
ترمیمروزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ روزہ ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر اسلامی مہینے رمضان المبارک میں فرض ہے۔ روزے کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ صبحِ صادق کے طلوع ہونے سے پہلے کھانا کھانے کو سحری کہا جاتا ہے۔ روزے کی نیت یہ ہے : وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ۔ ترجمہ : " میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔ " افطار، یعنی روزہ کھولنے کی دعا : اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔ ترجمہ : ’’اے ﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسا کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کیا ۔‘‘ ذان صبح سے مغرب تک ان نو چیزوں سے جو بعد میں بیان کی جائے گی پرہیز کرے اور مغرب کی تشخیص (روزے کو کھولنے کے لیے) اس وضاحت کے ساتھ جو مغرب کی نماز میں کی گئی یہاں بھی جاری ہے۔
وہ چیزیں جو روزے کو باطل کرتی ہیں (مفطرات روزہ)
اوّل: کھانا پینا
دوّم: جماع کرنا
سوّم: استمنا ، یعنی مرد اپنے ساتھ یا کسی چیز کے ذریعے جماع کیے بغیر ایسا کام کرے جس سے منی خارج ہو اور یہ چیز عورتوں کے بارے میں اس تفصیل کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہے جو مسئلہ نمبر 417 میں ذکر کی گئی۔
چہارم: احتیاط واجب کی بنا پر خداوند متعال ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے جانشینوں علیہم السلام کی طرف جھوٹی نسبت دینا۔
پنجم: احتیاط واجب کی بنا پر غلیظغبار حلق تک پہنچانا۔
ششم: اذان صبح (طلوع فجر) تک جنابت پر باقی رہنا۔
ہفتم: عورت کا حالت حیض و نفاس میں اذان صبح (طلوع فجر) تک باقی رہنا۔
ہشتم: کسی سیّال چیز سے حقنہ (انیما) کرنا ۔
نہم: جان بوجھ کر قے کرنا ۔
شیعیت میں
ترمیمحسین بن سعید نے ابن فضال سے رویت کی کہ انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو ایک عریضہ لکھا اور اس میں، میں نے دریافت کیا کہ ہمارے یہاں ایک قوم ہے جو نماز پڑھتی ہے مگر ماہ رمضان میں روزہ نہیں رکھتی اور اکثر میں ان لوگوں سے اصرار کرتا ہوں کہ وہ ہماری کھیتی کاٹنے آئیں مگر جب ان کو بلاتا ہوں تو جبتک میں ان کو کھانا کھلانے کا وعدہ نہ کروں وہ قبول نہیں کرتے مجھے چھوڑ کر ان لوگوں کے پاس چلے جاتے ہیں جو ان کو کھانا کھلائیں۔ اور میں ماہ رمضان میں ان لوگوں کو کھانا کھلانے سے تنگ ہوتا ہوں۔
تو آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا جسے میں پہچانتا ہوں کہ ان لوگوں کو کھانا کھلاؤ۔[3]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ قرآن، سورہ البقره:183
- ↑ مسیحیت میں روزہ
- ↑ من لا یحضرہ الفقیہ جلد دوم صفحہ 120 حدیث نمبر 2039