سرمد صوفی ازم کا بہادر سپاہی  

ٹھٹہ کی گلیاں سرمد کے لیے وہ مقام ٹھہریں جہاں کایا پلٹ ہوتی ہے۔ کچھ روایتوں میں ہے کہ سرمد نے اسلام یہیں پر قبول کیا اور ’سعید‘ کا نام بھی یہیں ملا۔ ٹھٹہ کے بعد سرمد نے لاہور کی راہ لی۔ سرمد نے لاہور میں کتنا عرصہ گزارا، اس حوالے سے کوئی حتمی رائے موجود نہیں مگر مؤرخین اس دور کو 11 سے 13 سالوں پر محیط قرار دیتے ہیں۔ لاہور میں ہی اس نے توریت کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ اسے عربی، فارسی اور دوسری زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ سرمد نے ایک اندازے کے مطابق جو 334 رباعیاں تخلیق کیں وہ یہیں لاہور میں ہی تخلیق ہوئیں۔ اس حوالے سے ایک محقق لکھتے ہیں: ’آخرکار ابھے چند اپنے باپ کی قید سے آزاد ہوکر سرمد سے ملا۔ اس کے بعد 1634ء میں دونوں لاہور چلے گئے جہاں سے سرمد کی شہرت دُور دُور تک پھیلی۔ لاہور میں 12 برس گزارنے کے بعد اس نے حیدرآباد دکن کو اپنا مرکز بنائ

        جب دہلی کی جامع مسجد بن کر مکمل ہوئی تھی۔ اسی برس سرمد ہمیں دہلی کی گلیوں میں ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ جب گولکنڈہ سے دہلی آیا تو شاہجہاں آباد میں ڈیرہ ڈالا۔ یہاں اس کا قیام قادری سلسلے کے صوفی خواجہ سید ابو القاسم سبزواری کے یہاں رہا، جہاں سرمد کی دوستی دارا شکوہ سے ہوئی اور یہی دوستی سرمد کے قتل کی بنیادی وجہ بنی۔

مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں لکھتے ہیں: ’دنیا میں ایسے ترازو بھی ہیں جن کے ایک پلے میں اگر دیوانگی رکھ دی جائے تو دوسرا پلہ تمام عالم کی ہوشیاری رکھ دینے سے بھی نہیں جُھک سکتا اور پھر ایسے خریدار بھی ہیں جن کو اگر ہوش و حواس کا تمام سرمایہ دے دینے سے ایک ذرہ جنون مل سکتا ہو تو، بازار یوسف کی طرح ہر طرف سے ہجوم کریں۔ بہرکیف خواہ کچھ ہو، عالمگیر کی ہوشیاری سے تو ہمیں دارا شکوہ کی دیوانگی اور دوستی پسند آتی ہے کہ وہاں تو تیغِ ہوشیاری کشتگانِ حسرت کے خون سے رنگین ہے اور یہاں خود اپنے جسم کے گردن کی رگوں سے خون کی نالیاں بہہ رہی ہیں۔ شاید دارا شکوہ بھی عالمگیر جیسے ہوشیاروں کی ہوشیاری سے تنگ آگیا تھا۔ اسی لیے اس نے سرمد جیسے مجانین کی صحبت کو ہوش والوں کی مجلس پر ترجیح دی۔

’غرض یہ کہ سرمد دارا شکوہ کی صحبت میں رہنے لگا اور اسے بھی سرمد سے کمال عقیدت تھی۔ اس زمانہ میں عشق کی شورش انگیزیاں کبھی کبھی اسے باہر نکلنے پر مجبور کرتیں لیکن چونکہ معلوم ہوچکا تھا کہ آخری امتحان گاہ یہی ہے اس لیے شاہجہان آباد سے نکل نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ شاہجہاں کی علالت اور دارا شکوہ کی نیابت نے عالمگیری ارادوں کے ظہور کا سامان کردیا اور عرصہ کی شورش و خونریزی کے بعد اورنگزیب عالمگیر تخت نشین حکومت ہوا۔

بیک دو زخم کہ خوردن زعشق امن مباش

کہ در کمیں گہہ ابر و کمان کش ست ہنوز

سرمد کے قتل کے اسباب تذکرہ نویسوں نے کئی بتلائے ہیں۔ سرمد کی ایک رباعی پر مفتیانِ وقت نے اسے منکرِ دین قرار دیا۔ سرمد پر دربارِ عالمگیری میں عائد کی گئی فردِ جرم میں ایک جرم اس کی بے لباسی بھی تھی۔ لیکن یہ سب صرف بہانے تھے۔ وہ خوب جانتا تھا کہ سرمد کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ سارا شاہجہان آباد اس کا عقیدت مند ہے، اس لیے بہت معقول بہانہ مطلوب ہے۔ درحقیقت عالمگیر کی نظروں میں سرمد کا سب سے بڑا جرم دارا شکوہ کی معیت تھی چنانچہ وہ اسے کسی نہ کسی بہانے قتل کرنا چاہتا تھا

بالآخر یہ طے پایا کہ علما و فضلا کو جمع کیا جائے اور تمام علماء کی جو رائے ہو اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ چنانچہ مجلس منعقد ہوئی، اس میں سرمد کو بلایا گیا۔ اس سے طرح طرح کے سوالات پوچھے گئے جن کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے۔ سرمد جھوٹ کیسے بولتا؟ اس کا جرم یہ تھا کہ جو اس جام کو چھپ کر پیتے تھے، سرمد نے اعلانیہ منہ کو لگایا اور ہر سزا کا مستحق ٹھہرا۔ اپنے افکار سے تائب نہ ہوا تو قتل کا مستوجب قرار پایا۔ یہ واقعہ 1661ء کا ہے جب عالمگیر کی حکومت کو ایک سال سے کچھ زیادہ وقت گزرا تھا۔

جب سرمد کو جامع مسجد کے آگے کی طرف لے چلے تو تمام شہر ٹوٹ پڑا اور چلنا دشوار ہوگیا۔ جب جلّاد تلوار چمکاتا ہوا آگے بڑھا تو سرمد نے مسکرا کر اس سے نظر ملائی اور کہا ’تجھ پر قربان، آؤ آؤ جس صورت میں بھی آؤ، میں تمہیں خوب پہچانتا ہوں۔‘ ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ اس جملے کے بعد سرمد نے یہ شعر پڑھا:

شورے شد و از خواب عدم چشم کشودیم

دیدیم کہ باقی ست شب فتنہ، غنودیم

(ایک شور بپا ہوا اور ہم نے خوابِ عدم سے آنکھ کھولی، دیکھا کہ شبِ فتنہ ابھی باقی ہے تو ہم پھر سو گئے)

اور مردانہ وار سر تلوار کے نیچے رکھ دیا اور جان دے دی۔

حوالہ جات

۔ ’حیات سرمد‘ از مولانا ابوالکلام آزاد

۔ ’المیہءِ تاریخ‘ از ڈاکٹر مبارک علی

۔ ’تذکرہ اولیائے پاک و ہند‘ از ڈاکٹر ظہورالحسن

۔ ’سرمد ایک سمندر‘ آرٹیکل از عبدالقادر حسین