حسن محمود شاہین
راقم الحروف حسن محمود شاہین بن مولوی غلام مصطفی ١۴ اپریل ١٩٦٨ کو قصبہ دولت پور قریشیاں تحصیل و ضلع رحیم یار خانمیں ایک علمی خانوادے آنکھ کھولی- جدالجد سراج العلما مولوی محمد عالم احسان پوری متوفی ١٨٦٩ علاقے کے نامور عالم دین اور مفتی و دینی درسگاہ کے بانی ومہتمم تھے۔ علاوہ ازیں راقم کے نانا حضرت سراج الفقہا مفتی سراج احمد مکھن بیلوی ثمہ خان پوری بانی مدرسہ سراج العلوم خان پور اپنے وقت عظیم عالم دین تھے۔ راقم الحروف نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول دولت پور میں حاصل کی ١٩٨۵ میٹرک کا امتحان بہاول پور بورڈ سے پاس کیا۔ اسی اثنا میں فارسی کی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے گھر میں ہی حاصل کرتا رہا گلستاں، بوستاں سکندر نامہ اور مثنوی مولانا روم تک تمام متداولہ کتب پڑھیں علاوہ ازیں فاضل فارسی کا مکمل نصاب اور علامہ اقبال کا تمام فارسی کلام کا مطالعہ بھی کر لیا ۔تاریخ، سیٙٙر، حدیث و تفاسیر کا مطالعہ بھی کیا۔ اسی دوران فارسی ،اردو اور سرائیکی زبان میں شعر لکھنا شروع کر دیا اور شاہین تخلص رکھ لیا۔اصالاح سخن بھی اپنے والد گرامی مولانا مولوی غلام مصطفی، چچا قاضی عبدالستار احسان پوری اور حکیم شیدا رحمانی رحیم یار خان سے لیتا رہا۔
ابھی تک کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔ ١٩٨٨ میں ایف اے، ١٩٩٠ میں بی اے اور ١٩٩٢ میں اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور سے فارسی میں ایم اے کا امتحام اول درجہ میں پاس کیا۔ ١٩٩۵ میں شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہو گیا اور گریجویٹ انگلش ٹیچر تعینات ہو گیا۔ اسی اثنا میں ١٩٩٨ میں بی ایڈ کا امتحان پاس کیا اور ٢٠٠۵ میں یونی ورسٹی اف ایجوکیشن لاہور سے ایم ایڈ کا امتحان اعلی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ بعد ازاں ٢٠٠٧ میں بہاوالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کے شعبہ ایجوکیشن میں ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی ان ایجوکیشن میں داخلہ لیا اور مارچ ٢٠٠٩ میں ایم فل ایجو کیشن کی ڈگری حاصل کی۔ زکریا یونی ورسٹی ملتان میں پروفیسر ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی چئیرمین ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن، پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف اور پرو فیسر ڈاکٹر شمیم حیدر ترمذی جیسے اساتذہ کرام سے پڑھنے کا موقع ملا۔
٢٠١٠ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور سے مقابلہ کا امتحان پاس کیا اور گریڈ ١٨ میں سینئر ہیڈ ماسٹر تعینات ہو گیا اور ابھی تک اسی پوسٹ پر کام کر رہا ہوں۔ اسی دوران بطور ڈپٹی ڈی ای او اور کچھ دیگر انتظامی و تدریسی پوسٹ پر بھی کام کیا۔ گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج خانپور میں ایم۔ایڈ کلاس کو پڑھاتا رہا اور ڈی ایس ڈی و برٹش کونسل کی جانب سے بطور ماسٹر ٹرینر بھی فرائض سرانجام دئیے۔
مولوی غلام مصطفی راقم کے والد بزرگوار مولوی غلام مصطفی ولد مولوی غلام رسول قصبہ دولت پور قریشیاں تحصیل و ضلع رحیم یار خان پنجاب پاکستان اس وقت کی ریاست بہاول پور میں ١٩١٦ میں ایک علمی خانوادے میں آنکھ کھولی آپکے والد گرامی مولوی غلام رسول اس وقت کے جید عالم دین اور سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ خواجہ غلام فرید کے دست بیعت تھے۔آپ کے دادا سراج العلما مولوی محمد عالم احسان پوری تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم قصبہ راجن پور کلاں میں مولوی حامد اللہ سےحاصل کی بعد ازاں کچھ عرصہ فارسی تعلیم اپنے ماموں مولانا سراج احمد، سراج الفقہا خان پوری سے حاصل کی بعد ازاں آپ چاچڑاں شریف کے مشہور مدرسہ فریدیہ میں مولوی محمد ابراہیم جیسے جید عالم دین سے علوم متداولہ حاصل کئے۔ آپ چاچڑاں شریف میں سلسلہ چشتیہ کے سجادہ نشین خواجہ فیض احمد کے دست بیعت ہوئے اور ان کے برادر خواجہ عبدالکریم کے ہم درس رہے۔ آپ فارسی اردو اور سرائیکی کے قادرالکلام شاعر بھی تھے لیکن کوئی مجموعہ کلام طبع اور شائع نہیں ہوا۔ آپ سچے عشق رسول عالم با عمل صوفی بزرگ شب زندہ دار تھے۔ شب وروز ورد درود تلاوت قرآن ذکر اذکار اور صوم صلوات میں گزرتے تھے۔ نبی کریم ؐؐؐکے احادیث مبارک بیان کرتے وقت آپ پر رقت طاری ہو جاتی تھی آپ موت کو یاد کر کے زار و قطار گریہ کرتے جس سے آپ کی ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہو جاتی۔ آپ شیخ سعدی، مولانا روم اور علامہ اقبال کے زبردست مداح تھے ان کا اکثر فارسی کلام آپ یاد تھا۔ آپ بلا کے خوش نویس بھی تھے۔ آپ کی کوئی مجلس درس قرآن وحدیث سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ آپ باقائدگی سے جامع مسجد دولت پور قریشیاں میں نماز جمعہ و عیدین پڑھاتے تھے۔مخادیم دولت پور کے استاد محترم اور مخدوم مرید حسین ہاشمی کے رفیق خاص تھےاہل حرم کے بھی استاد تھے اندرون و بیرون خانہ مخادیم آپ کو خاص عزت وتکریم دی جاتی تھی لیکن دنیا داری سے دور رہتے تھے۔ مخدوم علمبردار حسین ہاشمی المعروف پیر پنوں شاہ فرزند مخدوم مرید حسین مرحوم فرماتے تھے کہ ہم مولانا غلام مصطفی کو ماموں کہ کر بلاتے تھے یہ بات انہوں ایک مرتبہ کثیر مجمع میں راقم کو کہی اس مجلس میں سردار محمد نواز خاں سابق ایم پی اے اور جام امین غوث چیئر مین یو سی ججہ عباسیاں بھی موجود تھے۔ راقم نے اپنی زندگی میں ان کی نماز تہجد قضا ہوتی نہیں دیکھی۔ اہل علاقہ کی اکثریت آپ کی شاگرد تھی چنانچہ آپ کو نہایت عزت وتکریم دی جاتی تھی لوگ آپ سے علمی مسائل دریافت کرنے آتے رہتے تھے۔ آپ کا وصال پانچ جنوری انیس سو اکیانوے کو بعمر پچھتر سال ہوا۔ آپکی مرقد دولت پور قریشیاں کے مشہور پیر مراد شاہ قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔
تحقیق شجرہ نسب از حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی سراج الفقہا۔
کہ وہ قریشی ہاشمی الراعی ہیں ۔ نہ مغل ہیں نہ ہی پٹھان
حضرت سراج الفقہا جو ہمارے جد اعلی ہیں بر صغیر کی ایک عظیم علمی روحانی شخصیت ہیں نے پانے خاندان کے نسب کے بارے میں تحقیق فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے افراد ارائیں، مولوی اور چغتائی مشہور ہیں۔ لیکن حقیقت میں ہم قریشی ہاشمی کعبی ہیں۔ ہمارا شجرہ نسب بالاتصال عبدالکعبہ یا عبدالکعب بن عبدالمطلب بن ہاشم سے ملتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اپنے خاندان کا شجرہ نسب مرتب فرمایا۔ اور اس صحت و صداقت پر مفصل بحث فرمائی جو مدلل اور تحقیقی ہے اور تین ابحاث پر مشتمل ہے۔ شجرہ نسب اور تینوں ابحاث مع تاریخی حوالہ جات اپنے رسالہ " الزبدة اسراجییہ فی علم المیقات والمیراث والوصیہ" میں شامل کر کے 1936 میں ملتان سے طبع کروا کر شائع کیا۔