سائل کی کہانی سائل کی کی زبانی
میرا اصل مقصد
جب آٹھویں اور نویں جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت یہ خیال پیدا ھوا کہ ھم مسلمانوں کے ہاں چاند کلینڈر ھونا چاھئے۔ جب عربی ٹیچر کے آرڈر ھوئے تو سورہ يٰس کی آیت نمبر ٣٩ ذھن میں بیٹھ گئی:
وَٱلۡقَمَرَ قَدَّرۡنَٰهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَٱلۡعُرۡجُونِ ٱلۡقَدِيمِ
” اور ھم نے چاند کی منزلیں مقرر کر دیں یہاں تک کہ ( گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ھو جاتا ھے ۔“
آرڈر ھونے کے بعد کچھ عرصہ کچھ مجبوریوں کے تحت خاموش اختیار کرنا پڑی لیکن اندریں حالات مزید تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ اب میں وہ کام مکمل کر چکا ھوں لیکن مارے خوف کے اس کو شائع نہیں کر رہا ھوں کہ کہیں کوئی اور آدمی میری تحقیق پر حملہ آور نہ ھو جائے۔
1996ء میں بی۔اے کا امتحان پہلا سالانہ پنجاب یونیورسٹی لاھور میں رول نمبر 64397 کے تحت دیا۔ پنجاب یونیورسٹی نے میرا ریزلٹ کسی اور کو دے دیا۔ 1996ء سے چلا رہا ھوں کہ یہ ریزلٹ میرا نہیں کسی اور کا ھے۔ در بدر ٹھوکریں کھانے کے باوجود کہیں سے انصاف نہ ملا۔
بیرون ممالک کچھ یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن براہ راست ایم۔اے کی بنیاد پر پی۔ایچ۔ڈی میں داخلہ مل جاتا ھے مگر ان کے اخراجات نہیں برداشت کر سکتا ۔ اب مسلمان بھائیوں سے مشورے کا طلبگار ھو کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟