Doctor Mohammad Salaar Kashif Ali ڈاکٹر محمد سالار کاشف علی

اُردو زبان کے بیک وقت نوجوان اور معمر شاعر جن کے الفاظ کی کاٹ اور خیال کی ضرب منفرد و بے مثال ہے۔ وہ باتیں کر جاتے ہیں جو سوچنا محال ہے۔ اُن کی شاعری کی چند جھلکیاں زیل میں دی گئی ہیں۔

غزل نمبر602


نظر آئی تو ذرا دکھی کر لے گی

اور کیا تصویر جیب میں رکھی کر لے گی



دوریاں آہستہ آہستہ مستقل ہوں گی

ہجر کی ابتداء جب خودی کر لے گی



شکایات کی جگہ بھی بن جائے گی

جھگڑا بھی کوئی غلط فہمی کر لے گی



چلو اچھا ہے وہ مستحکم ہو کر

کسی امیر سے شادی کر لے گی



مجھے مار دے گی اب محبت تیری

یا میری بیوی خود کشی کر لے گی


میں صاف بچ گیا ہوں محبت سے

میرا کیا یہ زندگی کر لے گی


سالار میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا

مخالف ہوا بھی دل لگی کر لے گی


مجھے سالار کہتے ہیں۔۔۔ سالار