سید ثمر علی نقوی
امام حسین کے قتل کا حکم یزید بے دیا۔ حوالہ:(تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت)
- یزید نے امام حسین علیہ سلام کے قتل کا حکم دیا تھا*
یزیدی ٹولہ آج بھی یہ کہتے نہیں تھکتا کہ امیر یزید بن معاویہ بے گناہ ہے ، وہ قتل حسین میں ملوّث نہیں۔ جبکہ محدثین کرام لکھتے آرہے ہیں کہ یزید پلید ہی نے امام کے قتل کے اور ان کے ساتھ لڑائی کے احکامات جاری کیے تھے۔
یزید نے کوفہ کے گورنر کو لکھا تھا کہ حسین نے تیرے شہر میں آنے کو منتخب کیا ہے، اب یہ تیرے اوپر منحصر ہے کہ تو آزاد زندگی گذارنا چاہتا ہے یا غلامی کی زندگی ، اور کوفہ کے گورنر ملعون ابن زیاد نے اپنی زندگی گذارنے کے لیے امام کوقتل کرکے سر یزید کے پاس بھیج دیا۔
ذیل میں حوالہ جات ملاحظہ کیجیے:
امام ذهبی لکھتے ہیں کہ:
خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه
- ترجمہ*
امام حسینؑ نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کا انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بھیجا۔
(شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام ج 5 ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء ج 3 ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي)
یہی بات ابن عساکر نے بھی نقل ہے ہے: تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.
علامہ جلال الدین سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:
فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله
- ترجمہ*
يزيد نے عبيد الله بن زياد کہ جو والی عراق تھا کو امام حسین (ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔
(تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت)
ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:
أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله
- ترجمہ*
میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا تھا اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا۔
(الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324. لابن اثیر)
ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:
قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام
- ترجمہ*
مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلا میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔