فیضان الٰہی عام سہی

عرفان الٰہی عام نہیں

الله کا کرم تو بے شک ہر شخص کیلئے موجود ہے تمام نعمتیں عام ہیں کسی کو کم کسی کو زیادہ مگر تواتر سے ملتی رہتی ہیں لیکن جان لیجیئے الله کا عرفان عام نہیں، (بے ریا) عبادت، ریاضت، مشقت، محنت، محبت، جستجو، لگن، تگ ودو کے باوجود بھی عرفان الہی حاصل ہونا ضروری نہیں

امام ابو القاسم قشیری رحمت اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کی زبان میں معرفت علم کو کہتے ہیں لہٰذا ہر علم معرفت ہے اور ہر معرفت علم، اور ہر شخص جو عالم باﷲ ہے وہ عارف باﷲ بھی ہے۔ ہر عارف عالم بھی ہے، صوفیاء کے نزدیک معرفت ایک ایسے شخص کی صفت ہے جو حق تعالیٰ کو اس کی صفات کے ساتھ پہچانے۔ اخلاص والا ہو نفس کی تمام آلائشوں سے پاک ہو ﷲ کے در کےسوا کسی کو نہ جانے نہ مانے۔  نتیجہ کے طور پر اسے الله تعالیٰ کی خصوصی توجہ حاصل ہوگی۔۔

نفسانی خیالات آنے بند ہو جائیں گے۔ جب انسان مخلوق سے اجنبی اور آفاتِ نفس سے بری ہوجائے اور دھیان میں صرف الله ہی کی ذات ہو اور ہر لحظہ اﷲ کی طرف اس کا رجوع کرنا ثابت ہو اور اﷲ تعالیٰ اس پر مکاشفات کے دروازے کھول دے، اسے علوم باطن کے راز الہامی طور سے بتلادے تب جا کر وہ عارف کہلاتا ہے اور اس کو عرفان حاصل ہوتا ہے یوں سمجھیں کہ کسی چیز کے نتیجے پر پہنچنے کے لیئے اس میں غور وفکر کر کے اس کا ادراک حاصل کرنے کا نام عرفان ہے۔۔۔

جس طرح ایک طبیب بیماریوں کا اچھا علاج کرے تو وہ اس کا ظاہری عالم  ہے اگر وہ ان کی اصل کی کوئی معرفت  نہیں رکھتا تو عارف نہ ہوگا، اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات اور ناموں کا حقیقی علم رکھتا ہے اسے عارف کہا جا سکتا ہے اور جب وہ ان کو بیان کرے گا تو وہ علوم عرفانی کہلائیں گے اور اگر وہ اپنے خیالوں کی بنیاد پر دین کے متعلق کچھ سیکھے ہوئے ہے تو وہ  عارف نہیں اور اس کی باتیں بھی سچی معرفت والی نہیں۔

عرفان الٰہی میں پہلا مرحلہ اطاعت کا ہے کیونکہ بندہ صحيح معنوں میں اطاعتِ الٰہی کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب اسے اﷲ رب العزت کی معرفت حاصل ہو۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی ’’معرفت رب‘‘ کو قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِيَعْبُدُوْنَ ’اور میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں

ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت میں مذکور لفظ لِیَعْبُدُوْنَ کا مفہوم ہے  أيْ يَعْرِفُوْنَ تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔‘‘ قرآن حکیم میں مذکور ہے : وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ. اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نازل کیا گیا ہے تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ کسی چیز، بات ، علم ، کا حقیقی ادراک و مقصد ، اصل ماہیت و مفہوم ، ان کے رموز و اسرار و حکمت و مصلحت کو سمجھ لینا معرفت کہلاتا ہے اور یہ خدائی وجدان و عطا سے ہی ممکن ھے ، اکثر لوگ اپنی ناقص العقلی کی وجہ سے یا مختلف علوم خود سے پڑھ کر کم فہمی کے باعث کوئی نتیجہ نکال لیتے ہیں جو کہ زبردست دھوکہ ہے ۔ اس کے لئے بلند پایہ خدائی کشف و الہام و وجدان کی ضرورت ھوتی ھے جو ہر ایک کے پاس نہیں ھوتا

اسی لیئے عرض کیا کہ

فیضان الٰہی عام سہی

عرفان الٰہی عام  نہیں

محمود زیدی