خیرآباد :ایک تاریخی جائزہ

تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں ہمارے اس خطۂ ارضی اعظم گڑھ اور مئو پرآفتاب اسلام کی ابتدائی کرنیں پڑیں، جب سید سالارمسعودعرف غازی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا قافلۂ جہاد دہلی فتح کرتا ہوا اودھ کی سرزمین میں داخل ہوا ،سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ جہادی سرگرمیاں قنوج، کڑا، مانک پور، بنارس ،بہرائچ اور گردو نواح کے علاقوں میں جاری رہیں۔

ان مردان غازی کا یہ کاروان جہاد پورے عز م واستقلال اور ایمانی غیرت وحمیت کے ساتھ رائے بریلی ،سلطان پور، فیض آباد،پرتاپ گڑھ ، اعظم گڑھ، جونپور،بنارس اور غازی پور سے گذرا ہے اور ایمان وایقان کے ابر رحمت کے کچھ چھینٹوں سے یہ سرزمین سیراب ہوئی ہے ۔

تاریخ آئینۂ اودھ میں مولانا شاہ ابوالحسن قطبی مانک پوری لکھتے ہیں:

اکثر قبریں ،گنج شہیداں دیہات وقصبات متعلقہ اضلاع رائے بریلی ، سلطان پور ،فیض آباد،پرتاپ گڑھ ،اعظم گڑھ، جونپور،بنارس اور غازی پور میں برابر پائی جاتی ہیں اور جہاں جہاں قبریں ہیں باوجود تمادیٔ ایام کےعام طور پر بلا کسی اختلاف کے یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں یہاں معرکۂ مجاہدانِ غازی میاں ہوا ہے اور یہ ان ہی کے ساتھی کی قبریں ہیں………ناظرین کتاب کو خیال رہے کہ ممالک مغربی وشمالی اودھ میں جہاں مقابرِ شہیدان ِہمراہیانِ غازی میاں کہا جائے اس کو باور کرنے میں تأمل نہ کیا جائے۔

(تاریخ آئینۂ اودھ ص:۳۷ مطبوعہ نظامی پریس کانپور۱۳۰۳ھ)

چونکہ سید سالار مسعود غازی ؒ اور ان کے رفقاء کی یہ مہمات ہمارے اس دیار میں اس وقت ہوئی ہیں جب کہ ان علاقوں میں مسلم بستیاں اور آبادیاں بھی نہیں تھیں اور اس بات پر بھی تاریخی شہادتیں موجود ہیں کہ سید سالار مسعود غازیؒ کی اس جہادی سرگرمی کے بعد جس کا زمانہ پانچویں صدی ہجری اور گیارہویں صدی عیسوی ہے کسی مسلم حکمراں اور کسی صاحب دل ولی باصفا کی عملی واصلاحی سرگرمی سے یہ علاقہ محروم رہا ہے البتہ سید سالار مسعود غازیؒ کے قافلۂ جہاد کے دو جیالوں سید ملک عبداللہ شاہ اور سید جعفر شاہ کی قبروں کا وجود خیرآباد کے جانبِ مشرق ومغرب میں زبان زدِ خواص وعوام ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کاروان جہاد تاریخ دعوت وعزیمت رقم کرتا ہوا ہمارے اس خیرآباد سے بھی گذرا ہے ،گیارہویں صدی عیسوی کے اس دور میں سوائے کڑا اور مانک پور (موجودہ الٰہ آباد اور انّاؤ کے درمیان ضلع پرتاپ گڑھ کا ایک علاقہ) کے اس پورے دیار پورب میں کسی اسلامی مملکت اور باقاعدہ ریاست کا پتہ نہیں ملتا ہے ۔

سیدابوالحسن قطبی مانکپوری رقمطراز ہیں :

مرآۃِ مسعودی سے مستنبط ہوتا ہے کہ سید سالار ساہومسعود غازی خود جانب کڑا اور مانک پور کے گئے وہاں کے راجاؤں کو بعد شکست دینے کے زندہ گرفتار کیا اور دونوں شہروں کو پھر تاخت وتاراج کیا اور ملک قطب حیدر کو حاکم مانک پور اور ملک عبداللہ کو حاکم کڑا مقرر کیا

(تاریخ آئینۂ اودھ ص: ۳۶ مطبع نظامی کانپور ۱۳۰۳ھ)

یہ پانچویں صدی ہجری اور گیارہویں صدی عیسوی کے اواخر کا زمانہ ہے ،مانک پور اور کڑا میں چونکہ اسلامی مملکت کا قیام ہوچکا تھا اس لئے شہری اور تمدنی اعتبار سے یہ علاقہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ،اپنے عمرانی اور تہذیبی وتمدنی عروج کی وجہ سے مزید ترقیات کرتا رہا یہاں تک کہ ساتویں صدی ہجری (۶۳۳ھ) سلطان شمس الدین التمش کے دور اقتدار میںیہ مانکپور سلطنت دہلی کا مشرقی پایۂ تخت بن گیا اور کثیر تعداد میں علماء دین اور دعاۃ اسلام کی آمد یہاں شروع ہوئی ،ٹھیک اسی دور میں افغانستان کے مشہور شہر گرویز سے صاحب فضل وکمال دو بھائی سید شمس الدین اور سید شہاب الدین نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے سید شمس الدین نے میوات کے علاقے کو اور سید شہاب الدین نے علاقۂ کڑا مانک پور کواپنی دینی واصلاحی سرگرمیوں کا مرکز بنایا،اور یہیں مستقل بودوباش اختیار فرمائی۔

سید شہاب الدین کی اولاد کو کڑا مانک پور میں بڑا فروغ حاصل ہوا ، مشیخت و امارت اور دین ودنیا کے امتزاج کی وجہ سے شاہی مناصب، عہدے اور جاگیر داری نے ان کے قدم چومے اور مشرقی علاقوں میں انھیں بڑا حسن قبول ملا،عوام کے ساتھ ساتھ سلاطین وامراء سے لے کر علماء وفضلاء تک ان لوگوں کے قدرداں ہوئے اور یہ لوگ راجہ اور شاہ کے خطابات سے نوازے گئے ۔

محرم ۷۵۲ھ مارچ ۱۳۵۱ء میں تغلق خاندان کا بادشاہ فیروز شاہ تغلق ہندوستان کا حکمراں بنا ،اس نے ۷۷۲ھ ۱۳۷۰ء میں جونپور کو آباد کرکے اسے دارالعلم والعلماء بنایا ،ریاست جونپور کی حد جانب شمال میں بہرائچ تک تھی ، تغلق خاندان کے آخری بادشاہ سلطان محمود شاہ نے ۷۹۲ھ/۱۳۹۰ء میں اپنا باپ فیروز شاہ تغلق کے وزیر مَلک سرور خواجہ جہاں کو سلطان الشرق کا دے کر جونپور کی فرمانروائی عطا کی ،لاہورکے زبردست عالم مولانا شرف الدین کو بڑی عقیدت وارادت کے مَلِک العلماء کا شاہی خطاب دلاکر ملک جہاں اپنے ساتھ جونپور لے آیا ،ان کے لئے مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ تعمیر کرائی ، ۸۰۰ھ/۱۳۹۸ء میں مولانا شرف الدین کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے امیر صدرالدین علم وفصل میں والد محترم کے جانشین ہوئے ،اس دور کے صاحب تصانیف علماء میں شمار کئے جاتے ہیں ،ان کی تصانیف میں شرح کافیہ، شرح حاشیہ عضدی اور شرح تفسیربیضاوی وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے ،ان کی بھی مستقل سکونت  جونپور میں رہی اور ملک جہاں کے بعد یہاں کے حکمران مبارک شاہ شرقی کے وزیر رہے ۔

فیروز شاہ تغلق سے لے کر امیر صدرالدین تک یہ چار اہم شخصیتیں ایسی گذری ہیں جن کی وجہ سے یہ پورا دیار آباد وپُربہار نظر آتا ہے ،اسی زمانے میں شیخ مخدوم ظہیرالدین صدیقی (متوفیٰ۲۷/ذی الحجہ ۷۴۵ھ مطابق یکم مئی ۱۳۴۵ء)محمدآباد گوہنہ میں آباد ہوئے،شیخ زکریا ملتانی کے پوتے شیخ ابوالفتح رکن الدین ملتانی سے بیعت وارشاد کا تعلق تھا اور انھیں سے خلافت حاصل ہوئی ،ان کے صاحبزادے شیخ مخدوم جمال الدین ان کے سجادہ نشین ہوئے اور ان کے بعد شیخ داود کو ولایت وخلافت ملی ،ان تینوں حضرات کی قبریں خیرآباد اور محمد آباد کی درمیانی شاہراہ پر جانب شمال ایک اونچے ٹیلے پر موجود ہیں ۔

اسی خانوادۂ ظہیریہ سے شیخ محمد ماہ تھے جو مبارکپور سے متصل املو میں جاگیر پاکر سکونت پذیر ہوئے ،دور فیروز شاہی میں ایک اور بزرگ شیخ بایزید محمدآباد گہنہ آئے ،ان کے خاندان میں بھی کئی اہل علم پیدا ہوئے ،فیروز شاہ تغلق نے پرگنہ محمد آباد میں شیخ بایزید کو’’کوئریا پار ،کبیر پور اور چک میر ‘‘کی جاگیر عطا کی۔

شاہان شرقیہ کے تیسرے حکمراں ابراہیم شاہ شرقی (۸۰۴ھ /۱۴۰۲ء تا ۸۴۴ھ/۱۴۴۰ء)کا تقریباً چالیس سالہ دور حکمرانی اس سلطنت کا عہد زریں اورپورب میں علمی بہار کا زمانہ ہے ،اسی دور میں ایک زبردست عالم دین شیخ محمد بن خضر وارد جونپور ہوئے بادشاہ نے بڑا اعزاز واکرام کیا ان کے لئے مکان تعمیر کرایا ،۸۱۱ھ/۱۴۰۸ء میں انکے انتقال کے بعد ان کے لڑکے شیخ مشیّد کو پرگنہ محمدآباد گہنہ میں کل بارہ گاؤں جن کا سلسلہ ولید پور ،بھیرہ ،اور مبارکپور سے ہوتا ہوا لہرا تک پہونچتا تھا)بطور جاگیر کے دیئے ،اسی پرگنہ محمدآباد گہنہ میں شیخ مشّید کے علمی وروحانی خانوادہ سے علم وتحقیق، فضل وکمال اور ولایت وارشاد کے آفتاب وماہتاب شاہ ابو سعید ،شاہ ابوالخیر بھیروی ،شاہ اسماعیل،ملا محمود جونپوری صاحب شمس بازغۃ،شاہ ابوالغوث گرم دیوان اور شاہ ابو اسحق وغیرہ آج تک علمی وروحانی دنیا کو منور کررہے ہیں۔

اس تاریخی مطالعہ سے یہ بات قارئین کرام نے یقیناً محسوس کر لی ہے پانچویں صدی ہجری کے وسط سے آٹھویں صدی ہجری تک یہ خطۂ ارضی جس میں خیرآباد شامل ہے بڑا آباد اور علم وعلماء اور صوفیہ ومشایخ کا گہوارہ رہا ہے ،ایسے ایسے جلیل القدر اولیا اور اصحاب علم اس دیار میں پیدا ہوئے جن کی وجہ سے لوگوں کی آمد اور پھر مستقل سکونت کا بھی پتہ ملتا ہے ،خاص طور سے محمدآباد گہنہ ،ولید پور ،بھیرہ ،کوئریا پار ،املو ، اور پھر آگے چل کر لہرا یہ سب خیرآبادکے نواح میں ہیں اور اُس دور میں نہ صرف مکمل طور پر آباد ہیں بلکہ یہاں کے علماء و صوفیاء مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں تواس چھوٹے سے  خطۂ ارضی (خیرآباد)کا وجود اس دور میں کیسےنہیں ہوگا ، اس لئے تجزیاتی طور پر تاریخ کے مطالعہ سے خیرآباد کی آباد کاری کے سلسلہ میں جو بات صحیح اور درست سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ:

خیرآباد کی موجودہ بستی سید سالار مسعود غازی ؒ کے زمانۂ جہاد (پانچویں صدی ہجری) میں بھی آباد تھی اس کا قرینہ یہ ہے کہ سید صاحب کی جہادی مہم انھیں علاقوں میں سرگرم رہی ہے جہاں ہندوؤں کی اکثریت اور کافی عمل دخل رہا ہے ،ملک عبداللہ شاہ اور سید جعفر شاہ کی قبر کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ یہاں غیر مسلم آبادی تھی اوریہ معرکۂ جہادعمل میںآیا ہے ،اس کے بعد سید جعفر شاہ کے مزار کے اور جانبِ مغرب تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلہ پرصالح آباد کے نام سے ایک مسلم بستی آباد ہوئی ،جس کے آثار ونشانات اب بھی باقی ہیں ۔

اسی طرح خیرآباد کے جانب شمال جو ٹونس ندی بہتی ہے،محلہ اٹھوریہ اور اتراری کے بیچ کی سیدھ میںندی کے کنارے آبادی کے آثارملتے ہیںاور لوگ اسے’’ کرملا‘‘ کے نام سے آج بھی جانتے ہیں،اس علاقے کے کھیتوں میں بھی کھدائی کے دوران بعض حضرات کو قدیم زمانے کے سکہ جات وغیرہ ملنے کی روایتیں عام ہیں،ویسے بھی ندی کے کنارے اس آبادی کا وجود بالکل قرین قیاس ہے اس لئے کہ جس زمانے کاذکر کیا جارہا ہے اس زمانے کی اکثر آبادیاں نقل وحمل اور آمدورفت کی سہولت کے لئے ندی اور دریاؤں کے کنارے ہوا کرتی تھیں ،سیلاب کی وجہ سے پھر یہ آبادی اپنی جگہ سے اور جانب جنوب منتقل ہوئی ہے اور محلہ اٹھوریہ اور اتراری کا وجود ہوا ہے ،یہ بات بھی زبان زدِ عوام وخواص ہے کہ ندی کے کنارے کے اس حصہ میں بہت پہلے اٹھواری نام کی ایک تجارت پیشہ غیر مسلم قوم آباد تھی جس کے پس ماندگان آج بھی شہر اعظم گڑھ اور شہر کلکتہ میں پائے جاتے ہیں ،اسی طرح ندی کے کنارے ’’ستی‘‘ کے نام سے جو ہندو تیرتھ استھان ہیں ان کا وجود بھی اس قوم کی آبادی کے لئے شاہد بنتا ہے۔

ہمارے مطالعہ کا حاصل یہ ہے کہ خیرآباد کی بستی بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں آباد نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کا وجود پانچویں صدی ہجری سے ہے ، رہا راجہ خیراللہ شاہ(جن کو خیرآباد کا بانی کہا جاتا ہے ) کی آمد اور ارشاد وتلقین کی ان کی کوششیں تو اس سے یہ باور کیا جانا چاہئے کہ باقاعدہ مسلم آبادی اور اسلامی تہذیب وثقافت کی شروعات ان کے دور سے ہوئی ہے ۔

خاندان گرویزیہ جو ساتویں صدی ہجری سلطان شمس الدین التمش کے دور اقتدار میں ہندوستان میں وارد ہوا ،اس خانوادہ کے گوہر شب چراغ سید راجہ حامد شاہ چشتی متوفی ۹۰۱ھ نے اپنے شیخ ومرشد مخدوم حسام الدین مانک پوری کے حکم سے ریاست جونپور کو اصلاح وتربیت کا مرکز بنایا ،یہ ابراہیم شاہ شرقی (۸۰۴ھ تا ۸۴۴ھ) کا دوراقتدار تھا ،اس زمانے میں ریاست جونپور سلاطین شرقیہ کی قدردانی اور علم دوستی کی وجہ سے دہلیٔ ثانی بنا ہوا تھا اور اطراف واکناف کے اہل علم وفضل کھنچ کھنچ کر یہاں آرہے تھے، سید حامد شاہ کو حکومت کی طرف سے منصب سلطانی اور مانک پور کی جاگیر ملی اور اللہ تعالی نے آپ کو اتنی با فیض اولادیں عطا کیں کہ ان سے کئی مواضعات آباد ہوگئے ،آپ کے سلسلۂ روحانی میں آپ کے بہت سارے خلفاء ہوئے جن کے فیوض وبرکات سے دنیا اور خاص طور سے دیار پورب مستفیض ہوا انھیں خلفا اور متوسلین میں آپ کے صاحبزادۂ محترم راجہ سید نور ہیں جنکی بعد کی اولادمیں ایک صاحب نسبت بزرگ راجہ سید نظام الدین عرف خیراللہ شاہ ہیں ۔

راجہ خیراللہ شاہ

پورا نام غلام نظام الدین اور عرفیت خیراللہ شاہ ہے ،علماء مانکپور میں سے راجہ سید غلام محی الدین کے صاحبزادے ہیں ،طریقۂ چشتیہ میں انتہائی بلند مقام اور عالیشان تھے ،ظاہری وباطنی تصرفات کے مالک اور پاک نہاد،راہ سلوک کے طالبوں اور مریدوں کی تعلیم وتربیت میں اللہ تعالی نے ان کو کرامت کی حد تک ملکہ دیا تھا ،چونکہ وہ محمد آباد کے صاحب ولایت تھے اس لئے اکثر محمدآباد ہی میں سکونت کرتے تھے ،ان کے دور میں محمد آباد میں اولیاء کرام اور مشایخ طریقت کی خوب دھوم رہا کرتی تھی اور عرس کی تقریبات اور سماع کی محفلیں سجتی تھیں۔

راجہ خیراللہ شاہ کا انتقال ۷/ رجب ۱۱۲۸ھ مطابق ۲۷ جون ۱۷۱۶ء میں محمد آباد میں ہوا اور وہیں اپنے صحن میں دفن کئے گئے۔

ان کے صرف ایک صاحبزادے سید مردان علی کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے راجہ خیراللہ شاہ کی ولایت کی جانشینی کی ہے ۔(دیار پورب میں علم اور علماء :از قاضی اطہر مبارکپوری)

اس سرزمین پر بسنے والے یہاں کے آبائی حضرات بہت کم ہیں ،اللہ تعالی نے اس بستی کے خمیر میں خوشحالی اور معیشت کے مواقع بکثرت ودیعت فرمائے ہیں ، قرب وجوار کی کی بہت ساری قدیم بستیوں سے بھی مالداری اور خوشحالی میں ہمارا یہ خیرآباد ممتاز ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ گردونواح کے بہت سارے افراد نقل مکانی کر کر کے یہاں آباد ہوتے رہے اور یہ خیرآباد آبادی کے لحاظ سے چند در چند ہوتا گیا اور اب بھی الحمد للہ یہ سلسلہ جاری ہے۔

خیرآباد کا محل وقوع

تحصیل محمدآباد گوہنہ سے مغرب جانب میں تقریباً دیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ’’خیرآباد ‘‘آباد ہے ،جس کے جانب دکھن اعظم گڑھ سے مئو جانے والی پختہ سڑک ہے اور اتر جانب دریائے ٹونس ہے ،پورب جانب میں ملک عبداللہ شاہ کا مزار،دیوبندی مسلک کی شاندار وپرشکوہ عیدگاہ کی مسجد وقبرستان،سرکاری ڈاک بنگلہ کی عمارت اور سرکاری اسکول کی پرانی عمارت اور ان دونوں کے درمیان میں نوجوانان خیرآباد کی فٹ بال ٹیم ینگ انصار اسپورٹنگ کلب کا کھیل کا میدان ہے، خیرآباد کی پچھم جانب بریلوی مسلک اور دیوبندی جماعت کی دو عید گاہ کی مسجدیںاور سید جعفر شاہ کا مزاراور ایک مسجد طریق ہے ، ان حدود میں خیرآباد آباد ہے،خیرآباد سے متصل جانب مشرق میں محمدآباد گہنہ کی قدیم بڑی آبادی ہے ،جانب مغرب میں چند چھوٹے قریات کے بعد تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلہ پر مسلمانوں کی آبادی ’’ابراہیم پور‘‘ کے نام سے ہے،جانب شمال میں ندی ہے اور اس ندی کے پار بھیرہ اور ولید پور کی آبادی ہے ،جانب جنوب میں مئو سے شاہ گنج بذریعۂ ٹرین جانے کے لئے ریلوے لائن ہے۔

موضع اتراری اگر چہ سرکاری کاغذات اور گرام پنچایت کے اعتبار سے مستقل گاؤں ہے لیکن خیرآباد سے معاشرت اور آپسی تعلقات اور ہاہمی قربت کی وجہ سے عملاً وعرفاً ہر خاص و عام اسے خیرآباد ہی کا ایک حصہ سمجھتا اور محلہ جانتا ہے اس لئے ہماری تحریر میں بھی لفظ خیرآبادمیں یہ موضع ہر جگہ شامل ہے۔