نام : ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا تخلیق : 16 مارچ 1846 رقبہ: 85806 مربع میل تخلیق کی اہم قانونی دستاویز معائدہ امرتسر مابین تاج برطانیہ و شری مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر ۔ بانی ریاست : شری مہاراجہ گلاب سنگھ بہادر 1846 تا 1947 انتظامی تقسیم صوبہ جموں , صوبہ کشمیر صوبہ لداخ (صوبہ گلگت )جو کے پہلے وزرات تھی 1947 میں تاج برطانیہ سے عارضی معائدہ ختم ہونے کے بعد صوبہ بنا دیا گیا تھا گھنسارا سنگھ گورنر تعینات ہوئے تھے۔ 1947 کی جبری تقسیم کے بعد سے تاحال انتظامی تقسیم کل 6 اکائیاں : جموں , لداخ , کشمیر , نام نہاد آزاد جموں و کشمیر ,گلگت بلتستان اور چین کے زیر کنٹرول اقصائے چن و وادی شکسگام منقسم ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا کی 6 اکائیاں تین ممالک کے زیر کنٹرول ہیں جموں ,لداخ , کشمیر وادی بھارتی زیر کنٹرول اقصائے چن و وادی شکسگام چین زیر کنٹرول نام نہاد آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستانی زیر کنٹرول ۔ ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا۔ ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا (ڈوگرا عہد) 1846ء سے 1947ء ۔ متحدہ ہندوستان میں 562 بادشاہی ریاستوں میں سے جموں کشمیر ایک ریاست تھی جس کا کل رقبہ 85806 مربع میل پر مشتمل تھا صوبہ جموں صوبہ لداخ صوبہ کشمیر اور صوبہ گلگت بشمول اقصائے چن اور شکسگام وادی اس کے آئینی اور قانونی حصے ہیں ۔

ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبتہا کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے کمال حکمت عملی اور دانش مندی کی اعلی مثال پیش کرتے ہوئے تخلیق کیا تاریخ میں پہلی بار گلاب سنگھ نے جموں ,کشمیر , لداخ اور گلگت کو باہم ملا کر ریاست ریاست تشکیل دی جس کا نام جموں کشمیر اقصائے تبتہا رکھا گیا تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی دی اور امن قائم کیا گلاب سنگھ کی دور اندیشی اور مذہبی رواداری کا اہم ثبوت یہ ھے کہ ریاست کا پہلا وزیر اعظم ایک مسلمان کو مقرر کیا گیا تھا ریاستی فوج میں اعلی عہدوں تک مسلمان جرنیل بھی تعینات تھے ۔جموں کشمیر اقصائے تبتہا کی حکومت سنبھالتے ہی گلاب سنگھ کا پہلا حکم نامہ شری نگر مسلمانوں کی تاریخی جامع مسجد میں اذان اور نماز کا سلسلہ بحال کرنے کے لئے تھا پنجابی سکھوں نے شری نگر میں مسلمانوں کی سب قدیم مسجد کو بارود خانہ بنا کر عبادات پر پابندی عائد کر رکھی تھی مہاراجہ گلاب سنگھ نے اپنے ہاتھوں سے مسجد میں جھاڑو لگا کر صفائی کا حکم دیا اس کے حکم نامے کے تحت پوری ریاست میں سکھوں کی طرف سے غیر آباد کی گئ مسجدیں بحال ہوئیں

گلاب سنگھ نے کشمیر وادی سمیت تمام مسلم اکثریتی علاقوں کو  4 سو سالہ مغل ,افغان اور سکھ غلامی سے نجات دلائی

1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت تمام بادشاہی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کسی ایک سے الحاق کر لیں یا اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں، جموں وکشمیر اقصائے تبتہا مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن حکمران ایک عظیم ہندو مہاراجہ تھا جس نے مسلم اکثریتی ریاست کو آزاد و خود مختار رکھنے کا فیصلہ کیا

جسے مسلمانوں اور ہندؤں نے قبول کیا مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے مہاراجہ ہری سنگھ کے فیصلے کی کھلی حمایت ایک پریس کانفرنس کے زریعے کی پریس کانفرنس کا متن یہ ھے تفصیلی مضمون ملاحظہ کریں


مدلل اور مفصل تاریخی حقائق ملاحظہ کریں ۔

انگریز نے جب برصغیر سے کوچ کرنے کا فیصلہ کیا تو اُس نے تقسیم ہندوستان کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برطانوی پارلے منٹ سے قانون آزادی ہند کا بل پاس کروایا قانون آزادی ہند کے تحت یہ طے پایا کہ ہندوستان کے برطانوی حصے کو ٹو نیشن تھیوری کے تحت دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ ہونگے

اُسی قانون آزادی ہند جسے قانون تقسیم ہند کہنا بے جا نہ ہو گا کے تحت برصغیر کی 562 بادشاہی ریاستوں جن پر برطانوی وائسرائے کی حکمرانی نہیں تھی بلکہ ان ریاستوں نے برائے راست تاج برطانیہ سے چند شعبوں میں معائدے کر کے اپنی داخلی خود مختاری کو مکمل طور پر بحال رکھا ہوا تھا کو یہ حق دیا گیا کہ بادشاہی ریاستیں اگر خود مختار رہنا چاہیں تو رہ سکتی ہیں

اور اگر دو نومولود ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں تو بادشاہی ریاستوں کے حکمران کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر سکتے ہیں , بادشاہی ریاستوں کی عوام کی رائے کو ضروری نہیں سمجھا گیا کیوں کہ اگر بادشاہی ریاستوں کی عوام کو یہ حق دیا جاتا تو خود مختار تشخص رکھنے والی یہ ریاستیں دو قومی نظرئے یعنی ہندو مسلم کی بنیاد پر تقسیم ہو کر انڈیا اورپاکستان میں بٹ جاتیں

 جس سے ان ریاستوں کا الگ تشخص ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا لہذا شاہی ریاستوں کے حکمران اپنی اقوام کے بہتر مستقبل کے لئے مناسب فیصلہ کر سکتے تھے کہ اگر کسی ملک سے الحاق کیا بھی جائے تو ریاست کی وحدت قائم رھے جیسے آج انڈین یونین میں بہت سی ریاستیں مخصوص سٹیٹس کے ساتھ انڈیا میں شامل ہیں

1947 میں برصغیر کی 562 شاہی ریاستوں میں سے کئی ایک نے بھارت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا بیشتر کو بزور طاقت ضم کر لیا گیا مگر ریاست جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کسی بھی ملک سے الحاق کرنے کے بجائے خود مختار حثیت کو برقرار رکھنے کا حتمی اعلان کر دیا تھا۔

مہاراجہ ہری سنگھ کا خود مختار رہنے کا اعلان انڈو پاک کو قبول نہیں تھا کیوں کہ انڈو پاک دیگر تمام بادشاہی ریاستوں کے بھارت و پاکستان کے ساتھ الحاق یا بزور طاقت ادغام کے بعد جموں و کشمیر کو بھی اول تو سالم ہڑپنا چاہتے تھے دوسرا پلان دونوں کا ایک ہی تھا کہ 562 شاہی ریاستوں میں سے بچ جانے والی واحد ریاست کو بھی ہندو مسلم کی بنیاد پر بانٹ لیا جائے لیکن دونوں ملکوں کی راہ میں سب سے بڑی اور پہلی رکاوٹ مہاراجہ ہری سنگھ تھا جو کسی بھی صورت میں ریاست کو خود مختار رکھنے کا عزم کر چکا تھا اب یہاں پر مہاراجہ ہری سنگھ ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا امتحان شروع ہو چکا تھا ریاست کا مستقبل خطرے میں پڑھ چکا تھا انڈو پاک کے علاوہ انگریز بھی اپنی تمام تر مکاریوں اور ریشہ دوانیوں کا بھرپور استعمال کر رہا تھا

ہری سنگھ کے بظاہر خود مختار رہنے کے اعلان کے ساتھ عوامی رائے باالخصوص ریاست کی مسلم اکثریت کی رائے بھی دو قومی نظرئے کے خلاف سامنے آئی جس کا سب سے بڑا ثبوت مہاراجہ کے اعلان خود مختاری سے پہلے ہی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی بڑی جماعت مسلم کانفرنس کی 28 مئی 1947 کی پریس کانفرنس کی صورت میں دے چکی تھی

مسلم کانفرنس کی پریس کانفرنس کا مختصر متن پیش خدمت ھے

“ 28 مئ 1947 کو مُسلم کانفرنس کے قاہم مقام صدر چوہدری حميد اللہ نے ليڈنگ ہوٹل جموں ميں ايک پريس کانفرنس کے زريعے مُسلم کانفرنس کا مؤقف واضع کيا۔ ان کا کہنا تھا کہ

“ پاکستان کے ساتھ الحاق رياست کے ہندوؤں کو ناگوار گزرے گا اور ہندوستان کے ساتھ الحاق مُسلمانوں کو پريشان کرے گا، اسليے ہم الحاق کے قضيے ميں نہيں پڑھيں گے۔ دوسری جو چيز ہم نے طے کی ہے کہ ہم رياست کی آزادی کے حصول کی کوشش کرينگے۔ اب تيسرا سوال ہمارے سامنے يہ ہے کہ اس ساری صورتحال ميں مہاراجہ کی پوزيشن کيا ہو گی؟ ہم نے آج تک مہاراجہ کی عزت و تکريم ميں کمی نہيں کی اور يہی وجہ تھی ہم نے شيخ عبداللہ کی کشمير چھوڑ دو تحريک کی حمائت نہيں کی۔ حالانکہ کہ يہ ايک طرح سے فطری تحريک تھی مگر ہم نے محسوس کيا کہ ہميں حل تلاش کرنا چاہيے تاکہ مہاراجہ بہادر کی ساکھ بحال رہے اور عوام کو بھی تسلی ہو۔ ہمارے نزديک اسکا بہترين حل يہ ہے کہ ديگر بہت سارے ممالک کی طرح مہاراجہ رياست کا آئينی بادشاہ ہونا چاہيے۔ چوتھی چيز جو ہم نے طے کی ہے وہ يہ کہ دستور سازی کے لئے ہماری اپنی دستور ساز اسمبلی ہونی چاہيے۔ مُسلم کانفرنس پہلے ہی برطانوی آئين ساز اسمبلی کا بائيکاٹ کر چُکی ہے۔ چونکہ سو فيصد ہندوؤں کا تجويز کردہ آئين مسلمانوں کے لئے قابلِ اطمينانِ نہيں اور ہمارے چار نمائندے اسمبلی ميں محض وقت کا ضياع کرينگے۔ “

پريس کانفرنس ميں چوہدری حميد اللہ نے مزيد کہا کہ

“مجھے اس معاملے ميں مُسلم کانفرنس کے تمام اہم راہنماؤں کی حمائت حاصل ہے اور خود چوہدری غلام عباس نے ان تجاويز سے اتفاق کيا ہے اور انکی حمائت کی ہے۔ ايک ماہ کے اندر مُسلم کانفرنس کا نمائندہ کنونشن منعقد کيا جاۓ گا اور يہ تجاويز غير مشروط طور پر اختيار کی جائيں گيں۔ يہ حل مُسلم کانفرنس کا آفیشل پاليسی سمجھا جانا چاہيے۔ يہ حل ہميں مُسلم ليگ نے نہيں ديا اور نہ ہی ہم ہندوؤں کو دھوکہ دينا چاہتے ہيں۔ ہم صورتحال کو سامنے رکھتے ہوۓ پوری سچائ کے ساتھ اس حل تک پہنچے ہيں۔ اسکے ساتھ مسلم ليگ کا صرف ايک ہی تعلق ہے اور وہ يہ کہ مسلم ليگ کی ماضی اور حال کی ہندوستانی آزاد رياستوں ميں مداخلت نہ کرنے والی پاليسی ہے جو کہ ہمارے لئے حوصلہ افزا ثابت ہوئ۔ ميں پُوری سچائ کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس پورے معاملے ميں ہماری کسی بھی مسلم ليگی ليڈر يا کارکن سے کسی طرح کی کوئ بات چيت نہيں ہوئ۔ اسلئے ہندوؤں کو بھی کانگريس کی اتباع ترک کر دينی چاہيے۔ ہم سب کے مفاد ميں يہی بہتر ہے کہ مسلم ليگ اور کانگريس دونوں ہمارے معاملات ميں مداخلت نہ کريں اور ہميں ان دونوں جماعتوں کا ساتھ چھوڑ دينا چاہيے۔ جب ہم يہ کہتے ہيں کہ ہم ہندوستان اور پاکستان دونوں سے خود کو الگ رکھنا چاہتے ہيں تو اسکا مطلب يہ ہے کہ ہم ان دونوں کے زير اثر نہيں رہنا چاہتے بلکہ دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔


جب مسلمانوں نے ہری سنگھ پر اعتماد کا اظہار کر دیا اور ہندو اقلیت بھی کھلم کھلا کانگریس کی حمایت سے گریزاں تھی گلگت کی جو پٹی معائدے کے تحت برطانیہ کے پاس تھی وہ بھی واپس مل چکی تھی گلگت میں ریاستی پرچم جو کہ معائدے کے تحت برطانوی پرچم کے ساتھ سرکاری عمارتوں پر پہلے ہی لہراتا تھا مگر برطانیہ کی گلگت سے رخصتی کے وقت خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں گھنسارا سنگھ نے بطور گورنر چارج سنبھالا اور ریاستی پرچم خصوصی طور پر بلند کیا گیا

اس تقریب میں گلگتی عوام نے بھی شرکت کی اور جشن منایا گیا برطانوی گورنر گلگت سے برطانوی پرچم اتارے جانے پر رو پڑا کیوں کہ برصغیر بھر کی طرح جموں و کشمیر کے علاقے گلگت سے بھی برطانوی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا ایسے میں گورنر گھنسارا سنگھ نے گلگتی عوام کے ہمراہ روائتی رقص کیا اور جشن منایا تھا۔

یہ وہ تمام تاریخی حقائق ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ھے کہ ریاست کے کسی بھی حصے میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف علاقائی نوعیت کی عوامی بغاوت سرے سے موجود ہی نہیں تھی جس بغاوت کو مہاراجہ کے مظالم کی وجہ قرار دیا جاتا ھے ریاست میں کہیں بھی مہاراجہ کا کوئی ظلم تھا اور نہ ہی عوامی بغاوت بیرونی سازشوں اور اندرونی سہولت کاروں کی کارستانیوں کو مہاراجہ کے خلاف عوامی بغاوت اور نفرت قرار دینا تاریخ کا بد ترین جھوٹ ھے

آگے چل کر مسلم لیگ جس کی جموں لیڈنگ ہوٹل پریس کانفرنس میں مسلمانوں نے خوب تعریف و توصیف کی تھی مسلم کانفرنس کی جموں پریس کانفرنس کے بعد اُس کی بھی نام نہاد اصول پسندی اور جمہوریت پسندی کا نقاب اتر گیا مسلم لیگ اور کانگریس نے جب بھانپ لیا کہ تقسیم کا ہر

فارمولا ناکام ہو چکا تو دونوں غیر ملکی جماعتوں نے سازشیں تیز کر دیں کانگریس نے شیخ عبداللہ صاحب کو پہلے ہی رام کیا ہوا تھا شیخ صاحب آزاد و خود مختار ریاست کے خلاف نہرو کے ایجنڈے پر کاربند تھے ہی مگر مسلمان شیخ صاحب کے بجائے ہری سنگھ کا ساتھ دے رھے تھے

جموں کے ہندو گو مگو کی کیفیت میں تھے انہیں آر ایس ایس اور ہندو ماسبھا کے زریعے مسلمانوں کے قتل پر اکسایا گیا دوسری جانب پاکستان نے مسلم کانفرنس کی تاریخی پریس کانفرنس جس میں ریاست کی خود مختاری اور مہاراجہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسلم کانفرنس کے چند غیر معروف اور پست ذہنیت لیڈروں جن میں سے ابراھیم خان کو جعلی قراداد الحاق پاکستان کا روح رواں قرار دیا اور قیوم خان اور غلام عباس کو بھی خرید کر ریاست پر حملے کا منصوبہ پائہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے دن رات ایک کر دیا

صوبہ کشمیر کے مسلمان شیخ صاحب کے خلاف تھے اور ہری سنگھ کا ساتھ دے کر ریاست بچانا چاہتے تھے پونچھ , میرپور اور مظفرآباد کے مسلمان بھی ریاست کے خلاف نہیں جانا چاہتے تھی یہی وجہ تھی کہ پاکستان کو باہر سے قبائلی جتھے بھیجنا پڑے تاکہ حملہ اتنی طاقت سے کیا جائے کے جسے عوام کی اکثریت کی بغاوت ثابت کیا جا سکے اور بالاآخر یہی ہوا قبائلی حملے کے بعد اپنی فوج بھی ریاست میں داخل کر چکنے کے باوجود بھی کئی دنوں تک پاکستان اپنی مداخلت سے انکار کرتا رہا

لیکن جب انڈیا جموں و کشمیر کے مسلے کو یو این او میں لے گیا تو پاکستان کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ حملہ آور ھے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اپنی فوج ریاست سے باہر نکالے گا

دوسری جانب انڈیا آر ایس ایس اور پٹیالہ فورسسز کے زریعے جموں میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا تھا پٹیالہ فورسسز اور آر ایس ایس بلکل ایسے ہی ریاست میں داخل ہوئے جیسے قبائلی بلوائی کیوں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کا پٹیالہ فورسسز اور اور آر ایس آیس کی مداخلت میں کوئی کردار نہیں تھا

(((((کیوں کہ مہاراجہ سری نگر میں تھا جب جموں میں مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا تھا مہاراجہ کو مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا حتی کہ مہارانی بیوی اور کرن سنگھ بیٹے کو بھی آر ایس ایس نے یرغمال بنا لیا تھا اور ان دونوں ماں بیٹے کو اپنی مرضی سے استعمال کر رھے تھے 12 دن کے بعد جب ہری سنگھ جموں گیا تو اسے پتہ چلا کے آر ایس ایس نے کچھ مقامی ہندوؤں کی مدد سے مسلمانوں کو قتل کیا ھے تو مہاراجہ نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے رنجور لہجے میں کہا کہ مسلمان میری رعایا تھا انہیں کیوں مارا؟

اسی وقت تارا دیوی کو گاڑی میں بٹھایا اور کانگڑہ جہاں کی وہ رہنے والی تھیں وہاں چھوڑنے چلے گئے ہری سنگھ نے تارا دیوی کو گاڑی سے اتار کر پیچھے مڑ کر تارا دیوی کے طرف ایک نظر دیکھا بھی نہیں اس کے بعد ساری زندگی تارا دیوی سے بات کی اور نہ انہیں اپنے ہمراہ رکھا کرن سنگھ کو بھی ہری سنگھ نے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا اور مرتے دم تک کرن سنگھ سے لاتعلق رھے یہی وجہ ھے کہ کرن سنگھ ایک نا فرمان اور نا اہل جانشین ثابت ہوا مہاراجہ ہری سنگھ کو جب بھارت نے شیخ عبداللہ صاحب کے ساتھ مل کر جبراّ جلاوطن کرنا چاہا تو ڈوگروں اور کشمیریوں میں سے کوئی بھی شخص مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ جانے پر تیار نہیں تھا کیوں کہ اُس وقت مہاراجہ کے ساتھ ہمدردی اور وفاداری کے جرم میں کوئی بھی ریاستی حکومت اور انڈیا سے اذیت ناک سزا پانے کے لئے تیار نہیں تھا ایسے میں ایک فوجی افسر جو کہ ریاستی فوج کا ملازم تھا یہ سب دیکھ کر برداشت نہ کر سکا اور رو پڑا اُسی وقت فوج سے مستعفی ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ جلاوطنی کاٹنے دہلی چلا گیا دہلی جانے کے بعد انڈیا نے ساری زندگی ہری سنگھ کو واپس نہ آنے دیا کیوں کہ ہری سنگھ ایک دن کے لئے بھی واپس آ جاتے تو اس عظیم انسان دوست حکمران کو عوام نے ایک بار پھر اپنا لیڈر تسلیم کر لینا تھا جو کہ انڈیا کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں تھا یہ تمام اذیتیں اور سزائیں مہاراجہ ہری سنگھ کو اس لئے دی گئیں کیوں کہ مہاراجہ ہماری ریاست جموں و کشمیر کو آزاد اور خود مختار رکھنا چاہتا تھا ))))

 " انڈیا نے کمال ہوشیاری اور چالاکی کا مظاہرہ کیا انڈیا نے جب دیکھا کہ ایک طرف قبائیلی اور دوسری جانب آر ایس ایس ,پٹیالہ فورسسز جموں وکشمیر کے معصوم شہریوں کو تہ تیغ کر رھے ہیں مہاراجہ مجبوراً فوجی مدد طلب کرے گا کیوں کہ پاکستان قبائیلی یلغار کر کے ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ہونے والا stand still agreement پہلے ہی توڑ چکا تھا لہذا بھارت نے فوجی مدد کے بدلے الحاق کی شرط رکھ دی پوری ریاست کو قبائلی بلوائیوں کے زریعے بلا شرکت غیرے پاکستان کے قبضے میں جانے سے بچانے کے لئے مہاراجہ ہری سنگھ کو  مجبوراً بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کرنا پڑا جو کہ صرف تین سبجکٹس پر تھا دفاع , کرنسی اور فارن افیئر یوں بھارت مہاراجہ کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنی قانونی پوزیشن بنا کر ریاست میں فوجیں اتارنے میں کامیاب ہوا

مہاراجہ ہری سنگھ کو جموں کے ہندوؤں نے انڈیا کے سہولت کاری کر کے کمزور کیا اور سرحدی علاقوں کے مسلمانوں نے پاکستان کی سہولت کاری کر کے یہاں آباد ہندوؤں کو قتل کر کے ہری سنگھ کو کمزور کیا شیخ عبداللہ صاحب کشمیر صوبے میں انڈیا کے لئے راستہ ہموار کرنے میں جتے تھے

گلگت میں کرنل حسن مرزا صاحب کی قیادت میں محض چند سپاہیوں کو زخمی یا قتل کر کے گورنر گھنسارا سنگھ کو قیدی بنا کر عوامی بغاوت کا نام دے کر گلگت کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا جب کہ گلگت کے عوام ریاست کے خلاف کسی بغاوت کا حصہ بنے ہی نہیں حسن مرزا صاحب کے ساتھ ریاستی فوج کے چند سپاہی اور جونیر افسران تھے گلگت سکاؤٹس نے بھی بہکاوے میں آکر میجر براؤن کی قیادت میں ریاست ریاست خلاف بغاوت کی

یہ ریاست کے خلاف ایک عسکری نوعیت کی بغاوت تھی جسے عوامی بغاوت قرار دے کر گلگت کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا جو کہ 16 دن کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت ختم ہو گئی اور گلگت سمیت بلتستان جو کہ لداخ کا حصہ تھا پر پاکستان بلا شرکت غیرے قابض ہو گیا مگر گلگتیوں کو اس نام نہاد بغاوت جو کہ غداری تھی کو ریاست کے خلاف جنگ آزادی گلگت قرار دے کر گلگت کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ھے کہ ان کے بزرگوں نے گلگت کی آزادی کے لئے کوئی جنگ لڑی تھی یہ کہنا درحقیقت گلگت کے عوام کی حب الوطنی کے خلاف سازش ھے گلگت کے عوام کا نام استعمال کر کے چند لوگوں کی غداری یا بغاوت کو آزادی کی جنگ قرار دے کر انہیں ریاست سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا گلگتیوں کو آزادی سے محروم کر کے پاکستان کا غلام بنا دیا گیا

بھارت اور پاکستان کی سازشیں 1930 کی دہائی سے ہنوز جاری ہیں

1947 میں تقسیم ریاست جموں کشمیر اقصائے تبتہا کے بعد دونوں ملکوں نے جہاں مذہبی کارڈ کھیلا وہیں آئینی اور قانونی جرائم میں ملی بھگت سے شریک رھے

مہاراجہ ہری سنگھ کے مشروط الحاق کے تحت انڈین فوج ریاست کے کسی بھی حصے میں دو سوت سے زیادہ زمین کھود کر فوجی بنکر یا کیمپ وغیرہ نہیں بنا سکتی تھی انڈین فوج کو ریاستی کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق دیا گیا تھا اور نہ ہی اختیار وہی انڈین فوج آج ریاست میں مظبوط قلعے تعمیر کر چکی ھے انڈین فوج کو یہ اختیارات مہاراجہ ہری سنگھ کے معائدے کے تحت نہیں ملے بلکہ جموں و کشمیر اسمبلی نے آئین میں ترامیم کر کے انڈین فوج اور حکومت کو لا محدود اختیارات دئے جموں و کشمیر اسمبلی کی انہی ریاست دشمن پالیسوں اور ہوس اقتدار نے انڈیا کے قبضے کو دوام بخشا جس سے بحالی ریاست کا ہر راستہ مشکل بنا دیا گیا

اِدھر پاکستان نے سب سے پہلے تو 1949 میں ابراھیم خان صاحب کے مدد سے معائدہ کراچی کے زریعے گلگت بلتستان کو ریاست سے کاٹ کر الگ کر دیا اور پھر 1954 میں گلگت بلتستان سے سٹیٹ سبجکٹ رول کا خاتمہ کر کے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی نام نہاد آزاد جموں و کشمیر میں ایکٹ 74 مسلط کر کے آزاد جموں و کشمیر کی آزادی سلب کر کے اسے پاکستانی لینٹ افسران کے زریعے چلایا جانے لگا پھر مشرقی پاکستان کی علحیدگی کے بعد شملہ اور تاشقند دو ایسے معائدے کئے جن زریعے ریاست جموں و کشمیر کے مسلے کو سہہ فریقی مسلے سے دو فریقی مسلہ بنا کر عالمی برادری کی طرف سے ہمیں ملنے والی ممکنہ سفارتی اور قانونی مدد کا راستہ روک دیا

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے تعلیمی نصاب میں پاکستان کے تسلیم شدہ حملے اور لاقانونیت کو 1947 کا ڈوگرہ کے خلاف جہاد قرار دیا مطالعہ پاکستان کے زریعے ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کو مسخ کیا گیا قومی ہیروز کو ظالم جابر قرار دیا گیا عوام کے دلوں میں نفرت اور زہنوں میں جہالت انڈیلی گئی

بحالی ریاست کے مطالبے کے بجائے نام نہاد خود مختاری کی تحریکیں چلوائی گئیں معائدہ امرتسر ایسی قانونی دستاویز کو خرید و فروخت کا معائدہ قرار دیا گیا جموں کشمیر اقصائے تبتہا کی قوم کو جھوٹ پڑھایا اور رٹایا گیا ریاستی عوام سے ان کی قومی تاریخ چھین کر غلامی کی سیاہ رات کو طویل کیا گیا جو کہ قدیم سامراجی اور جابرانہ ہتھکنڈا ھے

دوسری جانب انڈیا بھی پاکستان کی بھرپور مدد کرتا رہا پاکستان نے کشمیریوں کے ہاتھ میں گن تھمائی انڈیا نے بھی ایک ملی ٹنٹ کے بدلے پوری فیملی کو موت کے گھاٹ اتار کر قرض سود سمیت واپس کیا جہاں سیاسی تحریکوں کو معائدہ امرتسر کے تحت بننے والی تسلیم شدہ ریاست کی بحالی کے مطالبے سے دور رکھا گیا وہیں عسکری تحریکیں بھی مذہبی بنیاد پر چلوائیں

بھارت اور پاکستان نے اپنی سیاسی جماعتوں کو ریاست میں داخل کر کے مقامی سطح پر موجود جماعتوں کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ پارلیمانی سیاست میں آنے کے لئے آئینی طور پر ان کا راستہ ہی بند کر دیا سوائے الحاق نواز جماعتوں کے کوئی بھی ریاستی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی

اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ھے کہ پاکستان اپنے غیر قانونی اقدامات پر شرمسار ہونے کے بجائے انڈیا کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان کرتا ھے حلانکہ پاکستان نے سٹیٹ سبجکٹ رول کے خاتمے سمیت ہر غیر قانونی اقدام میں پہل کر کے انڈیا کو جواز مہیا کیا پاکستان کو چاہئے تھا گلگت میں ایس ایس آر کو بحال کرے نام نہاد آزاد جموں و کشمیر سے ایکٹ 74 ختم کر کے جموں و کشمیر کے عوام سے معافی مانگے اور پھر انڈیا کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان کرتا یقینا ً نام نہاد آزاد آزادجموں و وکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے ایسے اقدامات سے خوش ہو کر پاکستان اپنا دوست اور وکیل بھی تسلیم کرتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا پاکستان اپنے زیر قبضہ علاقوں میں روائتی قوم پرستوں کو کسی بھی طرح کی کھلی چھٹی دیتا ھے حتی کہ کووڈ 19 کے دوران بھی نام نہاد قوم پرستوں کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں لیکن قومی ریاستی بیانیے پر کام کرنے والی پارٹی نیشنل ایکویلٹی پارٹی کو نارمل حالات میں بھی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ملتی یہ ثبوت ھے نیشنل ایکویلٹی پارٹی جے کے جی بی ایل کی سچائی اور حب الوطنی کا ریاست کی بحالی اور قومی یکجہتی آزادی و خود مختاری کے لئے وہ کام کر رھے ہیں جو ماضی میں کسی نے نہیں کیا کیوں کہ یہی اصل اور مشکل ترین کام تھا

دوسری جانب انڈیا بھی قومی ریاستی بیانیے کو کچلنے کے لئے جموں میں ہری سنگھ کے نام استعمال کر کے ڈوگروں کو ورغلانے میں جُت چکا ھے کیوں کہ ڈوگرے اب ںھارت کے ہاتھ سے بڑی حد تک نکل چکے ہیں ہری سنگھ کی فوٹو لگا کر پی او جے کے بھی ہمارا ھے اور پاکستان کو فتح کرنے ایسے نعرے شائع کرنا ڈوگروں کو دھوکہ دینے مزید استعمال کرنے کا ایک ڈھونگ ھے جو کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا

پاکستانی مظفرآباد میں کھڑے ہو کر دہلی کے کو فتح کرنے کے نعرے لگا کر بی جے پی کی تقلید کرتے ہیں بلکہ پاکستان نے ہی جموں و کشمیر کو فتح کر کے دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا نعرہ پہلے لگایا

دونوں ملک اپنے انٹرنیشنل بارڈرز سے ایک دوسرے کو فتح کریں دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرائیں یا اسلام آباد کو فتح کریں جموں کشمیر اقصائے تبتہا کے عوام کو خوامخواہ میں تختہ مشق بنایا جا جارہا ھے۔

 ہری سنگھ کا کردار۔

حقائق سے معلوم ہوتا ھے ہری سنگھ ریاست کو مکمل خود مختار رکھنا چاہتے تھے جو کہ برطانیہ کو قبول نہیں تھا برطانیہ نے بھارت اور پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کو تقسیم کر کے پاکستان بھارت اور بعد ازاں چین کو بھی کچھ علاقوں پر قبضہ کا موقع فراہم کیا ۔

مسلہ جموں و کشمیر اب تک حل طلب ھے پاکستان اور بھارت اس ریاست پر برائے راست قابض ہو چکے ہیں ریاستی عوام تاحال قومی بیانیے پر متفق نہ ہوکی جو کہ المیہ ھے مسلہ کا حل معائدہ امرتسر کے تحت بننے والی ریاست کی مانگ کے سوا کچھ بھی نہیں مگر ریاست کی مسلم اکثریت مذہںی تعصب کی بنیاد پر پاکستانی ببیانیے کے مطابق مہاراجہ گلاب سنگھ اور ہری سنگھ کے کردار کو ماننے کے لئے پوری طرح تیار نہیں یہی وجہ ھے کہ مسلہ طوالت کا شکار ھے۔۔۔۔۔ ع د ی ل م س ج ن ا پ۔


شمار نام دور 1. گلاب سنگھ 1846–1857 2. رنبیر سنگھ 1857–1885 3. پرتاب سنگھ 1885–1925 4. ہری سنگھ 1925–1949