عبدالمنان خان کھٹڑ
کھٹڑ خاندان آج بھی اپنی اقدار کی وجہ سے اعلی درجے کا حامل خاندان مانا جاتا ہے۔اپنی بلند پایہ روایات اور رسوم نے آج تک کھٹڑ خاندان کی حرمت کو برقرار رکھا ہے۔
آج بھی ملکی سیاست میں بھی کٹھٹڑ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
کھٹڑ دنیا کے کئی حصوں میں پائے جاتےے ہیں اور سیاست، ادب، حرب، طب، علم، عدل، حکومت، تحقیق، دین، تصوف، اور کئی پہلوؤں میں باکمال مانے جاتے ہیں۔
ہر دور میں کھٹرڑ خاندان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور آج تک اپنی شاندار تارہخ کو برقرار رکھاہے۔
کھٹڑ خاندان کی کئی شاخیں موجود ہیں جو کالا چٹا پہاڑ کے آس پاس پھیلے ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک خندال کھٹڑ ہے جو پنڈسلطانی، دومیل، تھٹہ، بسال، مٹھیال،وغیرہ کے علاقوں میں آباد ہیں۔ان کی مزید شاخیں وجود میں آچکی ہیں مثلاً:
گجیال، کمڑیال، بھرڑال،سیال،میال،داتیال، بکھڑال وغیرہ شامل ہیں
کھٹڑ قوم وہ خوش نصیب قوم ہے جس کا شجرۂ نصب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ےس ملتا ہے۔یہ قوم حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی عیال میں شمار کی جاتی ہے۔
یہ قوم بہادری اور جرأت کے لئے پورے خطۂ ارض پر مشہور ہے۔آج بھی پاکستان،ہندستان،افغانستان، مصر ،شام،ایران، ،لبنان،بنگلہ دیش، اندلس اور عراق سمیت کئی ممالک میں نمایاں مقام پر موجود ہیں اور دنیا کے ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے میں کامیاب رہے ہیں۔
کھٹڑ قوم کا ذکر مغل بادشاہوں کی خود نوشت میں بھی موجود ہے۔مثلاً:
تزک بابری،تزک جاہنگیری،ہماہیوں نامہ وغیرہ۔
کھٹڑ قبیلہ کی تاریخ
ترمیمطارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا تو اس کی فوج میں حضرت علی ؑ کی اولاد کے لوگ بھی شامل تھے۔روایت ہے کہ یہ لوگ حضر ت عباس علمدار ؑ کی پشت سے تھے۔انہی میں ایک شخص ابوالخطار کو صوبہ اندلس کا گورنر بنایا گیا۔جو نہایت مقبول اور ہر دلعزیز حکمران ثابت ہوا۔ابوالخطار کی اولاد پشت در پشت اندلس کی والی رہی ایک اور روایت کے مطابق بنی امیہ کے آخری زمانہ میں اندلس کی حکومت کا نظام بگڑ چکا تھا، مسلسل خون ریزی اور بدامنی سے گھبراکر اہل اندلس نے ہشام بن عبدالملک اموی سے درخواست کی تھی کہ وہ کسی ایسے شخص کو اندلس کا حاکم بنا دے جو یہاں اتحاد و اتفاق پیدا کرکے امن و امان قائم کرسکے۔چنانچہ ہشام نے 125 ھ میں ابوالخطار حسام بن خرارکو اندلس کا حاکم مقرر کیا تھا۔اہل اندلس بدامنی سے تنگ آچکے تھے اس لیے سب نے اطاعت قبول کرلی۔اندلس میں امن و امان قائم ہوگیا(تاریخ اسلام از شاہ معین الدین ندوی،بحوالہ مجموعہ اخبارافتتاح اندلس ص 46،45۔ابن خلدون جلد ۴،ص119)
پھر حالات نے کروٹ بدلی اسپین میں مسلمانو ں کی زوال آگیا۔ابوالخطار کا خاندان اندلس سے نکلا، مصر پہنچا،کچھ افراد شام چلے گئے،پھران میں سے کچھ ترکی آگئے،اب یہ خطار قبیلہ نقل مکانی کرتے ہوئے ایران آیا،کچھ لوگ وہیں آباد ہو گئے،ان کی اولاد تلاِش معاش میں افغانستان پہنچی ،غزنی میں مقیم ہوئی،پھر ان میں سے کچھ محمود غزنوی کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے اور شمال مغربی صوبہ کے علاقہ اٹک کو فتح کیا اور یہیں قیام پزیر ہوگئے۔خطار قبیلہ آج بھی شام،لبنان اور مصر میں نمایاں حثیت رکھتا ہے۔
ہندوستان میں لفظ خطار مقامی لب و لہجہ کی وجہ سے بگڑ کر کھٹڑ بن گیا۔کھٹڑ ایک عرصہ تک اٹک میں حکمران رہے۔
اٹک ڈسٹرکٹ گزٹیئر کے مطابق کھٹڑ ضلع اٹک کا انتہائی پراسرار،انتہائی دلچسپ اور انتہائی غیر مطمئن قبیلہ ہے۔سماجی اعتبار سے اعلیٰ درجہ کے قبائل میں سے ایک اور سیاسی اعتبار سے پورے ضلع میں سے زیادہ پریشان کن ہے۔اسے ضلع اٹک کے انتہائی عجیب یا حیرت انگیز اور متجسس قبائل میں شمار کیا جاتا ہے۔کھٹڑوں کا علاقہ کالا چٹا پہاڑی سلسلے کے دونوں طرف پایا جاتا ہے۔اس کی آبادیاں ایک تنگ پٹی کی صورت میں مشرق سے مغرب کی طرف دریائے سندھ سے لے کر ضلع اٹک میں سے گزرتی ہوئی ضلع راولپنڈی میں داخل ہوتی ہیں جہاں اس قبیلہ کے چودہ گاؤں ہیں۔
تحصیل اٹک میں کھٹڑ قبیلہ کے 29گاؤں جبکہ تحصیل فتح جنگ میں 43 گاؤں ہیں متعدد خاندان پنڈیگھیب میں آباد ہیں۔مختلف مردم شماریوں میں انکی تعداد کم مرتب کی گئی ہے۔۱۰۹۱ کی مردم شماری میں انکی تعداد چھ ہزار کی قریب لکھی گئی تھی۔جو سابقہ دس برسوں کے مقابلہ میں ۹ فیصدکم تھی۔ریونیو یعنی محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق 1900ء کے ابتدائی عشرہ میں چھوٹے بڑے کھٹڑ زمینداروں کی
تعداد 4265 تھی۔جبکہ کھٹڑوں کی تعداد دس ہزارسے زیادہ تھی۔
اٹک گزٹیئر کے مطابق ہندوستان کے قبائل،ذاتوں اور گوتوں پہ تحقیق کرنے والے مسٹر گریفن کی کتاب ”پنجاب چیف“ میں درج ہے کہ کھٹڑوں کا جدامجد، محمودغزنوی کی فوج کا ایک کمان دار تھا۔غزنوی فوج کی ہندوستان میں پیش قدمی اور عسکری فتوحات کے دوران”چوہان“نے دریائے سندھ کے پاراٹک کے علاقہ باغ نیلاب پر قبضہ کیا۔ان دنوں باغ نیلاب اٹک کے علاقہ بڑا شہر تھا۔چوہان نے وہاں سے ہندو راجہ ”راج دیو“ کو نکالا اور اس شہر کو اپناہیڈ کوارٹر بنالیا۔طویل عرصہ تک باغ نیلاب چوہان کی اولاد کے قبضہ میں رہا پھر کھٹڑ خان کے دور میں ہندو ایک بار پھر طاقت میں آگئے۔انہوں نے کھٹڑ خان کو دریا پار دھکیل دیا۔کھٹڑ خان شہاب الدین محمد غوری کی ملازمت میں میں چلا گیا۔محمد غوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو کھٹڑ خان افغان فوج کے ساتھ آیا اور دوبارہ باغ نیلاب اپنے قبضہ میں لینے میں کامیاب ہوگیا۔
مسٹر گریفن کا کہنا ہے کہ باغ نیلاب کی دوبارہ تسخیر کا یہ واقعہ ۱۱۷۵ء میں رونما ہوا اور اب باغ نیلاب کا حکمران خاندان کھٹڑ کہلانے لگا۔اس روایت کے مطابق کھٹڑ خان کے چھ بیٹوں میں علاقہ تقسیم ہوا۔
سارو خان نے سرھال تعمیر کیا اس کی اولاد سرہال کہلائی۔سرھال آج کل پنڈی سرھال،باہتر جنگ،باہلول اور فیروز شاہی میں پائے جاتے ہیں۔
دوسرے بیٹے فیروز خان کی اولاد فیروز ل کہلاتی ہے،یہ لوگ فتح جنگ،دھیرک،واہ اور عثمان کھٹڑشاخ جو راولپنڈی میں پائی جاتی ہے۔فیروزل ہیں۔
تیسرے بیٹے جنڈخان نے کالا چٹا پہاڑی سلسلہ عبور کیااور اپنی اولاد کو لے کر دریائے سندھ کے کنارے”علاقہ“کے مقام پر آباد ہوگیا،ان لوگوں کو جندال کہاجاتا ہے۔نارا کھٹڑ جو رنیال کہلاتے ہیں،وہ بھی جنڈ خا ن کی اولاد میں سے ہیں نتھیال،ٹھٹھہ،ڈارنل اور بسال
کے کھٹڑ جندال کہلاتے ہیں۔
گکھڑ کے کھٹڑ بھی رنیال ہیں۔عیسیٰ خان یعنی چوتھے بیٹے کی اولاد عسیال کہلاتی ہے، وہ چوٹی گھڑیال اور کالا چٹا کے شمال میں دھیر کوٹ میں پائی جاتی ہے۔
پانچویں بیٹے بالو خان کی اولاد بروٹا میں رہتی ہے،جہاں دریائے ہرو دریائے سندھ میں گرتا ہے۔بالو خان کی اولاد کی مختلف شاخیں باغ نیلاب اور اٹک کے درمیان پائے جانے والے دیہات کی مکیں ہے،ان لوگوں کو بلوال کہا جاتا ہے۔
مہرا خان کی اولاد سرائے ذبوزہ اور راولپنڈی میں آباد ہے۔کالا چٹاکے شمال میں اکھوڑی کے مقام پر رہنے والے گھڑیال فیروز خان کی اولاد ہیں۔کھٹڑ خان کے بعد تین نسلوں تک یہ علاقے اس کی اولاد کے قبضہ میں رہے،پھر باغ نیلاب اس قبیلہ کے ہاتھوں سے نکل گیا۔لیکن راولپنڈی سے دریائے سندھ تک بیشتر علاقے ایک عرصہ تک ان کے زیر نگیں رہے۔بعد ازاں ان کی حکمرانی تو نہ رہی لیکن جاگیرداریاں اور زمیں داریاں برقرار رہیں اور مختلف حکمران ان کے تعاون اور امداد کے ساتھ علاقے میں حکومت کرتے رہے۔
کھٹڑوں کے پس منظر کے بارے میں کئی اور روایات موجود ہیں۔
مسٹر گریفن کا کہنا ہے کہ کھٹڑ اصل میں خراسان کے باشندے تھے اور ابتدائی مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے،محققین کا کہنا ہے کہ کھٹڑوں کے حسب نسب سے قطع نظریہ امر مسلمہ ہے کہ یہ قبیلہ ان دیگر قبائل سے بہرحال بہت اٹک کے علاقہ میں آیا جو ان دنوں بہت نمایاں قبائل ہیں۔
کھٹڑ قبیلہ کے ماضی قریب کے نامور افراد میں ایک سکندر حیات تھے،وہ غیر منقسم پنجاب کے پہلے غیر برطانوی یعنی مقامی گورنر تھے۔وہ پنجاب کے وزیراعظم بھی رہے۔1939 ء میں مشہور سکندر،جناح پیکٹ نے مسلم لیگ کو اس قابل بنایا کہ وہ پنجاب میں اپنی تنظیم کو موثر اور فعال بنا سکے۔پنجاب میں مسلم لیگ کے استحکام نے مارچ 1940 ء میں اسے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کے قابل بنایا۔لاہور میں مسلم لیگ کے اسی اجلاس کے بعد منٹو پارک کے جلسہ میں پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا۔سر سکندر حیات کو قائد اعظم کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان بھر میں سردار سکندر حیات خان کی انتظامی اور سیاسی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا تھا۔1942ء میں عین جوانی میں انکا انتقال ہوگیا۔انہیں بادشاہی مسجد کے باہر ہی دفن کیا گیا۔تدفین کا یہ مقام انہیں بادشاہی مسجد کی بحالی اور برصغیر کے مسلمانوں کی خدمت کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔
تحریک پاکستان میں کھٹڑخاندانوں نے بھر پو ر حصہ لیا۔یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ سردار اور خان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔سردار شوکت حیات خان اور سردار وقاص محمود خان تحریک پاکستان کے نمایاں کارکن تھے۔نوشہرہ،چکوال،کوہاٹ،کہوٹہ،اسلام آباد،واہ،وادی نیلم،خوشاب کے علاقے میں آباد کھٹڑ تعمیر پاکستان میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں
فروزال :فتح جنگ۔ڈھوکٹری۔رتوال۔ہنگو۔کنیال۔کٹری حسو خان۔صدقال۔اجوالہ۔بھال سیداں۔شاہ پور۔امیر خان۔نیکا۔جلالہ۔عثمان کھٹڑ۔سالار۔داہ۔باہتر۔دھیریک۔گھکھڑ۔ڈھوک شرفاء۔برائے خربوزہ یلی۔تھٹی گوجراں۔خورم کو۔کریماں۔جکلہ۔بانیاں۔موہڑامرادہ۔موہڑہ نکڑے۔چھوکر۔حصارتھیماں والی (میانوالی) ڈھوک سلو
بلیال: مدھروٹہ۔بوٹا۔جابہ۔بروٹہ۔گوندل۔نیڈصاحب خان
عسیال: باغ نیلاب۔چھوٹی مرید خان۔ڈھری کوٹ۔منگی والی۔سرگ
گرہال: اکھوڑی مہورہ۔ڈھوک موجی۔خولیشکیاں ضلع پشاور
جندال: تھٹہ۔دومیل۔بسال۔ مٹھیال۔کاہل۔نہلو۔پنڈ نوشہری۔گڑھی۔پنڈ سلطانی۔موہڑہ۔کھٹڑاں ضلع ہزارہ
سرہال: پنڈی سرہال۔باہتر۔جھنگ۔پیروشاہی۔بھرول۔بھگوی۔کاملپور۔پنڈبہادر خان۔دھریک۔جبی۔کوٹ سعداللہ۔کٹاریاں۔مصری بانڈہ (پشاور) حطار۔ خانیوال۔بوریوالہ۔گگو وہاڑی۔فقیر والی۔بہاولنگر