*سرچشمۂ علم وعرفان حضرت مولانا عبد المنان*

(ڈاکٹر جسیم الدین

شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، دہلی)

سرزمین بہار ہر دور میں اہل فضل و کمال، صاحب ورع وتقوی کا مولد ومسکن رہا ہے،اس سرزمین نے ایک سے بڑھ کر ایک عدیم المثال لعل وگہر دیے،جنھوں نے آسمان علم وفضل پرنہ صرف اپنی نمایاں موجودگی درج کرائی، بلکہ اپنے علم وفضل اور زہد وتقویٰ سے خلق خدا کو بھولا ہوا سبق یاد دلاکر انبیاء کی سچی جانشینی کا فرض نبھایا، مساجد ومدارس کے وقار کو بلند کیا اور اپنے طرز زندگی کو اتباع سنت وشریعت کا مرکز ومحور بناکر خود کو قندیل راہب بنایا۔ انہیں باکمال اساطین علم وفضل ،متبعین سنت وشریعت میں ایک بڑا اور نمایاں نام حضرت الاستاذ مولانا عبد المنان صاحب قاسمی دامت برکاتہم (بانی و مہتمم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ،راجو پٹی،سیتامڑھی) کا ہے، جو سر زمین شمالی بہار کے دور افتادہ قافلۂ علم وفضل کے سرخیل، دراز قد ، سرتاپا پاک باز، گمشدہ زمانوں کے راست باز علما ء کی ایک جیتی جاگتی تصویر، قرن اول کی سادگی کا نمونہ، طبیعت میں حلم ،مزاج میں انکسار، زبان میں شیرینی، علم کا رسیا، قرآن اورصحت الفاظ کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنے اور کرانے کا شیدا، حدیث کا شائق، فقہ کا نباض، بیان میں پیچ نہ قلم میں خم، فقید المثال اساتذہ کا شاگرد، اور نامور شاگردوں کا استاذ ، چہرہ مہرہ شرافت کی دستاویز، کم سخن، کم آمیز ،خوف غیر اللہ سے خالی، دماغ غور وفکر کاخزینہ، عیب بینی اور نکتہ چینی سے بے زار، آنکھوں میں علم وحیا کانور، عمر کہولت کی منزل میں، زندگی چشمۂ صافی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں سرشار ایک درخشندہ وتابندہ چہرہ جو اس یقین کے ساتھ جی رہاہے کہ اپنے ہرسانس کے لیے وہ اللہ کے روبرو جواب دہ ہے، جن کے آستانۂ علم ودانش سے حضرت مولانا اعجاز صاحب شیخوپوری بانی ومہتمم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور اعظم گڑھ جیسی عظیم المرتبت شخصیت نے کسب فیض کیا اور ایک کائنات کو اپنے فکروفن کا گرویدہ بنایا۔وہ خود تخت نشیں نہیں ،بلکہ بوریہ نشیں تھے، کسی سلطنت کا فرمانروا نہیں،فقر واستغنا کی سلطنت کا تاجدار تھے، جو بھی ان سے ملتا ،یہی محسوس کرتا کہ قرون اولیٰ کا کوئی چہرہ سامنے ہے۔

چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے

عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے

حضرت مدظلہ العالی کی کمال نسبت اور فیضان صحبت کا اثر تھا کہ حضرت مولانا اعجاز اعظمی علیہ الرحمہ جب بھی آپ کے آستانے پر حاضری کا شرف پاتے عجروانکسار کا پیکر نظر آتے اور جب گفتگو شروع ہوتی تو اپنی نکتہ آفرینی سے سامعین کو مسحور کر دیتے، راقم السطور کے زمانۂ طالب علمی میں مدرسہ امدایہ اشرفیہ راجوپٹی ،سیتامڑھی میں ایک بارکسی موقع پر آپ کی تشریف آوری ہوئی اور آپ نے طلبہ سے خطاب فرماتے ہوئے علوم آلیہ کو علوم شرعیہ کے لیے معاون بتاتے ہوئے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ،وہ آج بھی راقم کے ذہن میں محفوظ ہے۔آپ کو علم تفسیر وحدیث اور  فقہ واصول فقہ کے علاوہ منطق وفلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا اور اپنے رسوخ فی العلم کا سہرا اپنے استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد المنان صاحب دامت برکاتہم کے سر باندھتے۔

آپ کی نگاہوں میں ذوالفقار کی چمک، چہرہ پر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا استغناء، طبیعت میں حضرت علی مرتضیٰ کی فقیری،متوسط ومعمولی کپڑوں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنی کا دبدبہ، چال ڈھال میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیا، دنیا کا تو ذکر ہی کیا،اپنی ذات سے بے نیاز ، ظاہر ہے کہ جن کا سراپا ایسا ہو ،توخدا ان کا ،اور وہ خدا کے ہوجاتے ہیں، پھر ان کی ہم نشینی میں وہ سرور ملتاہے ،جو بادشاہوں کے یہاں نہیں مل سکتا۔

یہ حقیقت ہے کہ مولانا عبد المنان صاحب جہاں درس وتدریس کے شہ سوار ہیں ،وہیں شریعت وطریقت کے بھی سرخیل ہیں، آپ کی تدریسی زندگی کاسلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے، اپنے خاص اسلوب وانداز کی بنیاد پر آپ کا درس نہایت مقبول رہاہے، راقم السطور نے آپ سے ’القراءۃ الواضحۃ‘ جزء ثالث اور ’جلالین‘ پڑھی ہے ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ مجھے بھی ملک کی سب سے بڑی عصری دانشگاہ دہلی یونیورسٹی میں ’القراءۃ الواضحۃ جزء ثالث‘ کو پڑھانے کا موقع ملا، یہاں پہلے دن کے سبق میں ہی آپ کے انداز وآہنگ نے مجھے غیر معمولی حد فائدہ پہنچایا اور میں اس کتاب کو پڑھانے میں کامیاب ثابت ہوا۔جلالین کے درس میں آپ کا انداز تحقیق اور اپنے علم ومعرفت کو طلبہ کے اندر منتقل کرنے کا والہانہ اسلوب نہایت پرکشش ہوتا،سبق کے دوران ہی انشراح قلب ہوجاتا، دوران درس یا بعد میں کسی عبارت  کوسمجھنےمیں کسی طرح کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہتی ، آپ سے جس طالب علم نے استفادہ کیا ،وہ بھی استاذ بننے کے بعد اپنے طالب علموں کو حتی المقدور معلومات منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔یہ تو درسی خصوصیات کے تعلق ایک اشارہ تھا۔

آپ کی زندگی کااصل پہلواور سب سے نمایاں گوشہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ کی  بنیاد سے لے کر ہنوز اس کی تعمیر وترقی میں جگرسوزی وجانکاہی ہے، آپ نے اس ادارے کو ایک کرایے کے مکان سے شروع کرکے آج اس کو نہ صرف اپنا خود مختار آشیانہ فراہم کیا ،بلکہ ’مسجد ابرار‘ اور شعبۂ تحفیظ القرآن کے لیے الگ پرشکوہ عمارت بنائی ، برسات کے موسم میں جزیرہ نما  بن جانے کی صورت میں آپ نے کتنی پریشانیاں اٹھائیں اور ہنوز ان سے دوچار ہوتے ہیں ،یہ آپ ہی کا ظرف ہے کہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اس ادارے کو ایک مثالی ادارہ بناکر نہ صرف علاقے کا نام روشن کیا ،بلکہ دین وشریعت کی ترویج واشاعت اور اصلاح خرافات وبدعات میں مرکزی کردار اداکیا۔آج یہ ادارہ شمالی بہار میں تعلیم واصلاح کے میدان میں اپنی انفرادی شناخت رکھتاہے، یہاں کے فارغین ملک کی دینی درسگاہوں کے علاوہ میڈیاہا ؤس اور عصری جامعات میں بھی درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔

حضرت دامت برکاتہم نے  15/اگست، 1947ءکو موجودہ ضلع سیتامڑھی کی ایک بستی ’چاندی راجواڑہ‘میں آنکھیں کھولیں، آپ کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی، بعد ازاں شمالی بہار کے مشہور دینی درسگاہ’’ مدرسہ اشرف العلوم‘‘ کنہواں شمسی، سیتامڑھی سےکسب فیض کیا۔ 1962میں ، یوپی امروہہ کا سفر کیا اور’’دارالعلوم حسینیہ چلہ امروہہ‘‘ میں عربی اول میں داخلہ لیا اورحصول علم میں مصروف ہوگئے، ذہین وفطین تھے اساتذہ کرام کی خصوصی نگاہ کرم آپ پر پڑی، خارج اوقات میں درجہ دوم وسوم کی کتابیں ان مخلص اساتذہ نے پوری پڑھادی، سالانہ امتحان کے موقع پر اول درجہ کے ساتھ دوم وسوم تینوں درجات کی کتابوں کا امتحان دیا اور سارے درجات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1965ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، وہاں عربی پنجم میں ہی داخلہ لیا، اور مختصر المعانی سے دورۂ حدیث شریف تک کی تعلیم حاصل کی، سن فراغت 1388ھ،بمطابق 1968 ہے۔ مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں جن عبقری شخصیات سے اکتساب فیض کیا، ان میں حضرت مولانا فخرالدین صاحب رح(شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)،حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رح،(صدر مفتی دارالعلوم دیوبند ) ،حضرت مولانا شریف الحسن صاحب رح،حضرت مولانا فخر الحسن صاحب رح،حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی رح،حضرت علامہ محمد حسین بہاری رح،حضرت مولانا اسلام الحق صاحب اعظمی رح،حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رح، حضرت مولانا محمد سالم صاحب رح، حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رح، حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رح، حضرت مولانا مسعود عالم صاحب رح، اور حضرت مولانا اختر حسین صاحب دیوبندی رح شامل ہیں۔حضرت والا دامت برکاتہم دورۂ حدیث شریف کے سالانہ امتحان میں دوسری پوزیشن سے کامیاب ہوئے، اور تکمیل ادب میں داخلہ لیا ساتھ ہی معاون مدرس کی حیثیت سےتدریسی خدمات بھی انجام دیں۔

آپ کو زمانۂ طالب علمی سے ہی عربی زبان و ادب سے خاص دلچسپی تھی، چناں چہ آپ نےحضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رح سے تعلق خاطر قائم کیا اور حضرت شیخ الادب رح کے یہاں انشاء عربی کی گھنٹی علاحدہ تھی، حضرت شیخ الادب رح طالبان علوم نبوت کو کھڑا کر کے عربی زبان میں محادثہ کراتے تھے، حضرت والا اس میں برابر حصہ لیتے آپ کے سامنے حضرت الاستاذ مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم (موجودہ مہتمم دارالعلوم دیوبند) ہوتے اور عربی زبان میں باہم محادثہ کرتے۔ یہاں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ درمیان سال ہی آپ اپنے سابقہ مادر علمی’دارالعلوم حسینیہ چلہ امروہہ‘‘ میں بحیثیت استاذ تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے۔ آپ نے’ دارالعلوم چلہ ‘میں 1969تا1974/1975 تک ابتدائی کتابوں سے لے کر دورۂ حدیث شریف تک کی کتابیں پڑھائیں، دورۂ حدیث میںآپ کو طحاوی شریف اور شمائل ترمذی شریف پڑھانے کا شرف رہا۔قیام امروہہ کے دوران محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحق حقی رح سے بھی خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا، اور پھر محی السنہ رح نے آپ کو اپنے سلسلہ میں داخل فرمایا۔آپ کو حضرت محی السنہ  نے 28/ذی الحجہ 1410/ھ، مطابق 20/جولائی 1990/کو مدینہ منورہ سے یوم جمعہ سند مجاز بالصحبہ ارقام فرمایا، پھر 1994/کو بیعت و خلافت کی اجازت

کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔اور آپ تشنگان علوم نبوت کو جہاں سیراب کررہے ہیں ،وہیں گم گشتہ راہوں کو بھی حلقۂ ادارت میں شامل فرماکر سوئے حرم لے جارہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے اور آپ فیض رسانی کا سلسلہ یونہی جاری رہے۔