عمران شہزاد تارڑ
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 1)
سوال: تقابلی مطالعہ پروگرام کا مقصد کیا ہے؟
جواب: اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ جو طالب علم مسلم دنیا کے مختلف مکاتب فکر کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنا چاہیں، انہیں ایک منظم (Systematic) انداز میں مطالعہ کے وسائل اور طریق کار فراہم کر دیا جائے اور ان کے ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہوں، ان کا بروقت جواب دے دیا جائے۔ ہر ہر مکتب فکر کے نقطہ نظر اور ان کے دلائل کو نہایت ہی غیر جانبداری کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دیا جائےاور بغیر کسی تعصب کے ہر مسلک کے نظریات اور دلائل کا مطالعہ کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔ اس پروگرام میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تمام نقطہ ہائے نظر کو، جیسا کہ وہیں ہیں، بغیر کسی اضافے یا کمی کے بیان کر دیا جائے۔ ان کے بنیادی دلائل بھی جیسا کہ ان کے حاملین بیان کرتے ہیں، واضح طور پر بیان کر دیے جائیں۔ ہم نے کسی معاملے میں اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کیا اور نہ ہی کوئی فیصلہ سنایا ہے کہ کون سا نقطہ نظر درست اور کون سا غلط ہے۔ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔ سوال: یہ پروگرام کن لوگوں کے لیے ہے؟ جواب: یہ پروگرام ان لوگوں کے لیے ہے جو: وسیع النظر ہوں- مثبت انداز میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو سمجھنا چاہتے ہوں- منفی اور تردیدی ذہنیت کی رو سے مطالعہ نہ کرتے ہوں- دلیل کی بنیاد پر نظریات بناتے ہوں نہ کہ جذبات کی بنیاد پر- اپنے سے مختلف نظریہ کو کھلے ذہن سے پڑھ سکتے ہوں اور اس میں کوئی تنگی اپنے سینے میں محسوس نہ کرتے ہوں- اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ میں یہ خصوصیات موجود ہیں، تو آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مکتب فکر سے ہو، آپ اس پروگرام میں شامل سلسلہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ خصوصیات آپ میں موجود نہیں ہیں، تو پھر یہ سلسلہ ہائے "اسلام اور تصوف" آپ کے لیے نہیں ہے۔ آپ ہمارا گروپ چهوڑ سکتے ہیں- سوال: اس پروگرام کو کون لوگ چلا رہے ہیں اور ان کا مسلک کیا ہے؟ جواب: اس پروگرام کی ذمہ داری راقم الحروف کی ہے۔میں کسی مخصوص مسلک سے وابستہ نہیں ہوں اور خود کو صرف اسلام سے وابستہ سمجھتا ہوں۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے کھلے ذہن کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہوں اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا رہتا ہوں تاکہ اپنی اصلاح کر سکوں۔ سوال: کیا یہ پروگرام کسی خاص مذہب یا مسلک کے لوگوں کے لیے ہے؟ جواب: جی نہیں۔ اس پروگرام سبھی مسالک سے تعلق رکھنے والے کھلے ذہن کے قارئین کے لیے ہے۔ کسی معاملے میں ہم آپ سے اتفاق رکھتے ہوں یا اختلاف، ہماری کوشش یہ ہو گی کہ تمام کتب اور ای میل رابطے میں آپ کے نقطہ نظر کا پورا احترام کیا جائے اور کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ سوال: اس پروگرام میں آپ نے کس مسلک کی حمایت کی ہے؟ جواب: اس پروگرام میں ہم نے نہ تو کسی مسلک کی حمایت کی ہے اور نہ مخالفت۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تمام مسالک کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا مطالعہ کریں۔ ہم نے دانستہ طور پر یہ کوشش کی ہے کہ طلباء کو کسی مسلک کی طرف مائل نہ کیا جائے بلکہ صحیح و غلط کا فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔ تمام مسالک کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ خود رائے قائم کریں کہ انہیں کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟ "تقابلی مطالعہ کا طریق کار" ہمارے ہاں عام طور پر تقابلی مطالعہ کے طریق کار کی تربیت نہیں دی جاتی ہے۔ اگر یہ تربیت فراہم کر دی جائے تو اس کے نتیجے میں تقابلی مطالعہ سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں جن سے آپ کو تقابلی مطالعہ میں مد دمل سکے گی۔ ·جب آپ کسی فرقہ کے نقطہ نظر کا مطالعہ کر رہے ہوں تو کچھ دیر کے لیے خود کو اسی میں شامل سمجھ لیجیے۔ خود کو اس فرقہ کے لوگوں کی جگہ رکھ کر سوچیے۔ ضروری نہیں کہ آپ ہمیشہ کے لئے اس مسلک کو مان لیں مگر اس طریقے سے آپ کو ان کے استدلال (دلائل پیش کرنا) سے صحیح آگاہی حاصل ہو سکے گی۔ اس کے بعد جب آپ مختلف رائے رکھنے والے دوسرے فرقے کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہی طریقہ اختیار کیجیے کہ آپ ان میں شامل ہیں۔ فریقین کا اس طریقے سے مطالعہ کرنے کے بعد اب خود کو غیر جانبدار کر لیجیے۔ غور کیجیے کہ پہلے فریق نے کیا دلائل پیش کیے اور دوسرے فریق نے ان کا جواب کیا دیا۔ پھر اس پر غور کیجیے کہ دوسرے فریق کے دلائل کیا تھے اور پہلا فریق ان کا کیا جواب پیش کرتا ہے۔ فریقین کے دلائل میں مضبوط اور کمزور نکات نوٹ کر لیجیے۔ آخر میں جس فریق کے دلائل مضبوط نظر آئیں، اس کے نقطہ نظر کو اختیار کر لیجیے۔ کوئی نقطہ نظر اختیار کر لینے کے بعد بھی اپنا ذہن کھلا رکھیے اور اس بات کے لیے تیار رہیے کہ اگر مستقبل میں آپ کے سامنے درست بات واضح ہو گئی تو آپ اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائیں گے۔ اپنی وابستگی حق کے ساتھ رکھیے نہ کہ کسی مخصوص فرقہ کے ساتھ۔ اگر دونوں فریقوں کے دلائل آپ کو مضبوط نہ لگیں تو اس ضمن میں توقف کیجیے اور کسی تیسرے نقطہ نظر کی تلاش کیجیے جاری ہے ---
(قسط نمبر 2 )
تصوف کا تعارف:
تصوف یا صوفی ازم بالعموم اس فن اور طرز زندگی کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہو۔ تصوف سے وابستہ حضرات "صوفی" کہلاتے ہیں۔
اس پروگرام کو ہم نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے تصوف کے مقاصد کیا ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے؟ اہل تصوف کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟ صوفی حضرات کن امور اور مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اور ان کو کس طریقے سے منظم کیا جاتا ہے؟ اس کے بعد دوسرے حصے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ تصوف سے متعلق کیا کیا نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں اور ان کے دلائل کیا ہیں؟ اس کا دین اسلام سے کیا تعلق ہے؟ لیکن ایک بات یاد رہے ہم اہل تصوف اور ناقدین کے نقطہ نظر کو ویسے ہی بیان کریں گے جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں-
تصوف کیا ہے؟ تصوف کی تعریف: تصوف کی ایک جامع و مانع تعریف ممکن نہیں ہے۔ شام کے ایک بڑے صوفی عالم شیخ عبدالقادر بن عیسی (1919-1991) نے اپنی عربی کتاب "حقائق عن التصوف" میں اس لفظ کے متعدد ماخذ بیان کرتے ہوئے متعدد تعریفیں بیان کی ہیں جو کہ یہ ہیں: تصوف اور صوفی، "صفت" سے نکلے ہیں کیونکہ تصوف وہ علم ہے جس میں اچھی صفات پیدا کرنے اور بری صفات دور کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔
امام ابو القاسم القشیری (376-465/986-1072) لکهتے ہیں۔
تصوف کا لفظ "صفوت" سے نکلا ہے جس کا معنی ہے بہترین لوگ۔ مسلم و غیرمسلم محققین نے اسلام میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کئے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔مناسب ہو گا کہ اس پر بهی روشنی ڈال دی جائے- فرانسیسی لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon) عہد بمطابق (1883ء تا 1962ء) نے تصوف کو داخلیتِ اسلام قرار دیا ہے ، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا- اس کے مطابق قرآن کی مسلسل تلاوت (تکرار)، مراقبہ، اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا یا ہوئی اور بڑھی-
تصوف کا قرآن میں لغوی طور پیوست ہونے کا یہ نظریہ ، باطنیتِ کلام ، سے بہت مختلف بھی نہیں کہا جاسکتا؛ صوفیاء بھی اسی ظاہریت اور باطنیت کی تقسیمِ اسلام کے قائل ہیں، یعنی قرآن کے الفاظ کا مسلسل ورد اور ان میں وہ معنی (باطنی) تلاش کرنا کہ جو ظاہر میں نظر نہیں آتے یا پوشیدہ ہیں، صوفیاء کے نزدیک تصوف کی بنیاد ہیں-
مشہور پروفیسر نکلسن کا کہنا ہے کہ تصوف یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہوا۔ نکلسن نے اپنی رائے کو بڑے وثوق کے ساتھ اپنی تصانیف میں پیش کیا ہے اور صوفیاء و حکماۓ یونان کے خیالات پیش کر کے ان میں باہم تطبیق کی کوشش کی ہے۔ ڈوزی اور فان کریمر کی رائے ہے کہ تصؤف ویدانیت سے ماخوذ ہے۔ کچھ لوگ اسے بدھ مذہب سے اخذ کردہ بتاتے ہیں۔ تصوف سے شغف رکھنے والے علماء اکرام ، لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ، اصحاب صفہ سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر (صِفَة) کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید (صُفَّة)کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ مسجد نبوی کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ ، فقراء ، تارکِ دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لئے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے۔ امام ابن تیمیہ کے مطابق اصحاب صفہ اسلام کے مہمان تهے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گهر میں جو کچھ میسر ہوتا انہیں بهیج دیا جاتا-رہا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا تو اس بارے میں ان کا طریقہ کار وہی تها جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کی تربیت کی تهی-بلکہ ایسی اپنی وضع بنانا یا ایسی زندگی اختیار کرنا کہ جسے دیکھ کر لوگ خواہ مخواہ دیں-یہ طریقہ بهی سوال میں داخل ہے-اصحاب کو سوال کرنے سے بالکل منع کردیا گیا تھا یعنی اصحاب صفہ ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نا ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات (حال ، وجد وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نا ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح جہاد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے- مزید یہ کہ علم لسانیات کے مطابق ، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ اعراب کی رو سے لفظ صفہ سے صُفّی (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے- بعض صوفیاء کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی ، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی (saffi) ہونا چاہئے تھا نا کہ صوفی (sufi) جو مروج ہے۔ ابو محمد عبدالغنی بن سعید الحافظ نے فرمایا :جب ولید بن قاسم سے لفظ ’صوفی‘ کی نسبت کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا کہ :زمانہ جاہلیت میں ایک شخص تھا جس کا نام غوث بن مرّ اور لقب ’صوفا‘ تھا ۔ اس کا کام ایامِ حج میں لوگوں کو حج کرانا اور ان کو عرفات سے منٰی اور منٰی سے مکہ جانے کی اجازت دنیا تھا ۔ اس کے بعد یہ ذمہ داری اس کی اولاد میں منتقل ہوگئی ۔ ان سے عدوان نے لے لی اور کافی عرصہ عدوان کی اولاد میں یہ ذمہ داری باقی رہی ۔ پھر ان سے یہ منصب قریش نے حاصل کر لیا۔ غوث بن مرّ پہلا فرد ہے جیسے اس کی ماں نے بیت اللہ کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا ۔ ابن سائب الکلبی کا بیان ہے کہ اس کی ماں کا کوئی لڑکا نہیں جیتا تھا ۔ اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا فرزند زندہ رہا تو اس کے سرپر ’صوف‘ باندھ کر اس کو کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردے گی ۔ چنانچہ اس نے نذر پوری کی ۔ بعد میں اس لڑکے کا نام ’صوفہ‘ پڑ گیا اور اس کی اولاد بھی ’صوفہ‘ کہلائی ۔ اس کے بعد سے جو لوگ بھی اللہ کے واسطے دنیا چھوڑ کر کعبہ کی خدمت سے منسلک ہوگئے انہیں بھی لوگ اسی مناسبت سے ’صوفیہ‘ کہنے لگے ۔ بحوالہ : تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ، باب 10 ، صوفیوں پر تلبیس ابلیس کا بیان 2۔
گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے’’کوفانی‘‘ کے بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے۔ اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں-قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیاء کی توجہ مرکوز ہونا یا اسکے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں۔اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ اکرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے موجود ہونا چاہئے تھا نا کہ دوسری صدی (ابو ہاشم 140)ہجری میں- اور ویسے بهی یہ نسب زمانہ جہالت کی طرف ہوتی ہے جس کی بنا پر تصوف کو ان کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا- کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صوفی ’صوفانہ‘ سے لیا گیا جو ایک خوشنما اور خود رو جنگلی ساگ ہے جو چھوٹے چھوٹے پتوں کی شکل کا ہوتا ہے ۔ اہل تصوف بھی جنگل کے ساگ پات پر گزارہ کر لیتے ہیں اس لئے انہیں صوفی کہا جاتا ہے ۔ مگر یہ بھی غلطی ہے ، کیونکہ اگر اس طرف نسبت ہوتی تو ’صوفانی‘ کہا جاتا ۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صوفی منسوب ہے ’صوفۃ القضا‘ کی طرف یعنی وہ چند بال جو گدی کے آخر میں جمتے ہیں گویا صوفی حق کی طرف متوجہ اور خلق کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہے ۔ (تلبیس ابلیس، علامہ ابن جوزی ، باب 10 ، فصل :2) ابوریحان البیرونی کا خیال ہے کہ ’صوفی‘ کا مادۂ اشتقاق ایک یونانی لفظ ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :سوفی بمعنی فلاسفر ہے کیونکہ یونانی لفظ ’سوف‘ بمعنی فلسفہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی زبان میں ’فیلسوف‘ کو ’فلاسفا‘ کہا جاتا ہے ، یعنی فلسفہ کا دلدادہ ۔ چونکہ اہل اسلام میں ایک جماعت ایسی تھی جو ان کے مسلک سے قریب تھی اس بناء پر ان کا نام بھی ’صوفی‘ پڑ گیا ۔(بحوالہ : کتاب الہند ، ابوریحان البیرونی ، صفحہ 16) فقہی امام، احمد بن حنبل کے استاد بشر ابن الحارث (767ء تا840ء) جنہیں بشر الحافی بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق؛ صوفی وہ ہے کہ جس کا دل اللہ کی جانب مخلص (صاف) ہو۔ اگر لفظ الصفاء کو اخلاص ، پاکیزگی اور صفائی کے معنوں میں لے کر اسی کو صوفی کی بنیاد یا اصل الکلمہ تسلیم کیا جائے تو پھر قواعدی طور پر لفظ صوفی کے بجائے صفوی یا صفاوی اخذ ہونا چاہیے تھا۔ لفظ صوف کے معنی اون کے آتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ کوئی آٹھویں صدی عیسوی سے دیکھنے میں آ رہا ہے جب ابن سیرین (وفات 729ء) سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس لباس کی حضرت عیسی کی جانب نسبت سے پہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا۔ ابن خلدون کے مطابق صوف (اون) کے کپڑے پہننے کا رجحان دنیا پرستانہ زندگی کی جانب رغبت کے ردعمل کے طور پر ہوا ،جب بزرگ اور نیک انسانوں نے قیمتی اور ریشمی لباسوں کی نسبت سادہ صوف کے لباس کو ترجیح دینا شروع کی- علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ شروع میں صوفیاء کتاب و سنت پر اعتماد کرتے تھے اور کوئی فعل ایسا کرنا ان کے نزدیک جائز نہ تھا جو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہو۔ حضرت سری سقطی کا قول ہے کہ جو شخص ظاہر میں احکام شریعت کی پیروی چھوڑ کر باطن کا دعوٰی کرے وہ غلطی پر ہے۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ ہمارا تصوف کتاب و سنت سے مقید ہے اور ہمارا علم کتاب و سنت سے بندھا ہوا ہے جس شخص کو کتاب اللہ یاد نہیں، حدیث نہیں لکھتا اور فقہ سے نابلد ہے اس کی پیروی نہ کی جائے۔ ابو بکر سقاف کہتے ہیں کہ جو شخص ظاہر میں امرونہی کی حدود ضائع کر دے وہ باطن میں مشاہدہ قلبی سے محروم رہے گا۔ بایزید بسطامی کا قول ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت، شریعت کی حمایت، جماعت کا التزام، جنازے کے ساتھ چلنا اور مریضون کی عیادت چھوڑ دے اور ثناء شان باطنی کا دعوٰی کرے وہ (بدعتی) ہے۔ (تلبس ابلیس، علامہ ابن جوزی صفحہ ٢٣٢) تصوف کی تعریف مختلف بزرگان دین سے اس طرح نقل کی گئی ہے کہ التصوف ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاھر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ(شرح شیخ الاسلام ابی یحییٰ زکریا الانصاری)”یعنی تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے، تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔“ حضرت ابوالحسن نوری فرماتے ہیں التصوف ترک کل حظ للنفس”تصوف تمام لذات نفسانی کو ترک کردیتے کا نام ہے۔“ حضرت ابو علی قزوینی کا ارشاد گرامی ہےالتصوف ھو الاخلاق المرضیۃ”تصوف پسندیدہ اخلاق (کو اختیار کرنے) کا نام ہے۔“ابومحمد جریری کا فرمان ہےالتصوف الدخول فی کل خلق سنی والخروج من کل خلق دنی”تصوف ہر اخلاق حمیدہ کو اختیار کرنے اور ہر اخلاق (شنیعہ) رذیلہ کو ترک کرنے کا نام ہے۔“ حضرت کتانی فرماتے ہیں کہ التصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق فقد زاد علیک فی الصفا”تصوف اچھے اخلاق کا نام ہے، سو جس کے اخلاق تیرے اخلاق سے زیادہ عمدہ ہیں وہ صفا (تصوف و قلبی صفائی) میں بھی تجھ سے زیادہ ہے۔“ ہر کسی نے اپنے ذوق کے مطابق جیسے محسوس کیا، تصوف کو الفاظ کے پیرہن میں مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی اور تعبیر اختیار کی،
تاہم تصوف کی آج تک کوئی جامع مانع تعریف سامنے نہ آسکی-
پروفیسر خلیق نظامی اپنی کتاب (تاریخ مشائخ چشت) میں لکھتے ہیں جب کوئی انسانی تحریک اپنے مولد سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پھیلتی ہے تو وہاں کی ذہنی آب و ہوا مخصوص اقتصادی اور جغرافیائی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ ہر تحریک نئے ملک اور نئے ماحول میں پہنچ کر اس جگہ کے ہم آہنگ عناصر کو ساتھ لینے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کو تقویت حاصل ہو اور نشو ونما کا صحیح موقع ملے۔ جب تصوف کی تحریک وسطی ایشیاء پہنچی تو ناگزیر تھا کہ بُدھ مذہب کے کچھ اثرات قبول کئے جائیں۔ حضرت علی ہجویری نے اپنی کتاب (کشف المحجوب) میں کچھ صوفی گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ غور سے پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ بدھ مذہب کے کتنے اثرات اس طبقے نے قبول کر لئے تھے۔ جب ہندوستان میں یہ تحریک پہنچی تو ناممکن تھا کہ یہاں کے ان قدیم مذہبی اصولوں کو جذب نہ کر لیتی جو اس کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکراتے ہوں۔ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری شطاری نے (بحرالحیات) میں اور شہزادہ داراشکوہ نے (مجمع البحرین) میں اسلامی تصوف اور ہندو فلسفہ کا اسی نظر سے مطالعہ کیا ہے۔(تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ٢٢، ٢٣)پروفیسر نظامی اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔کوئی انسانی تحریک خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط اورعمل درعمل کا بازیچہ بنتی ہے تو اس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی اور سماجی زندگی کو سنوارنے میں عظیم الشان کام کیا لیکن جب اس کو حیلہ بازیوں اور مکاریوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بے روح ہو کر رہ گئی۔ متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کے زد سے بچانے میں بڑی خدمت انجام دی لیکن جب علم کلام نے شکوک و شبہات پیدا کرنا مقصد بنا لیا تو مسلمانوں کی ذہنی زندگی میں بڑا انتشار پیدا ہوگیا۔ یہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ جب باطنی زندگی کو ظاہری سے الگ کر لیا گیا تو شریعت و طریقت کی تفریق پیدا ہوگئی۔ دنیا پرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی گئی۔ مجاز پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی، نغمہ و سرور کو روحانی ترقی کا لازمی جزء قرار دیا گیا۔ بیشک یہ سب گمراہیاں تصوف سے پیدا ہوئیں۔ ( تاریخ مشائخ چشت، پروفیسر خلیق احمد نظامی صفحہ ١١)،(ماخوذ: اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات، ڈاکٹر ابوعدنان سہیل) دیوبند کے ایک صوفی عالم اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان ، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ ؛ اعمالِ باطنی سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور، اعمالِ ظاہری سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں۔برصغیر میں دیوبندیوں کے ساتھ ساتھ بریلوی بھی تصوف میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور اس فرقے کے بانی احمد رضا خان کو، قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر فرقہ جات کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیئے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔ اہل تشیع کے مطابق تصوف ، عملی معرفت کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو۔ فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیئے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے، شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف ، اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے کہ جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف ، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے کہ جس میں روحانی نشوونما پر توجہ دی جاتی ہے۔ صوفیا تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔ -اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے اور جن کے بغیر تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہیں: صدق و صفا ، اخلاص و محبت،احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبرو رضا اور شکر وغیرہ اہل تصوف نے تصوف کی بنیاد کے لیے اقوال رسول کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی امر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے ---- جبکہ ناقدین حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف،سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور مروجہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی سلف صالحین کے ادوار میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔بات یہ نہیں ہے کہ تصوف کی بنیاد یا اہمیت کن کن عناصر پر قائم ہے یا یہ نام قدیم ہے یا جدید،محدثین کے دور میں رائج تها یا نہیں ؟بلکہ حقیقی جوابِ مطلوب یہ ہے کہ دین اسلام کے ہوتے ہوئے ایک علحدہ فلسفے یا نظریے کی ضرورت کیوں درپیش ہے ؟سوال یہ نہیں ہے کہ دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟ بلکہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔اگر احباب کو ناگوار خاطر نہ گزرے تو عرض ہے کہ ایک فرقہ وہ بھی ہے جس کا کلمۂ توحید وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے اور اسلام کے پانچ ارکان پر بھی اس کا ایمان ہے ۔۔۔ اس کے باوجود اس کی انفرادیت ختمِ نبوت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انکار کے سبب واضح ہوئی اور اس کو اسلام سے علحدہ ایک الگ مذہب قرار دیا گیا ۔ یہ فرقہ بھی تو وہی راگ الاپتا ہے کہ ہمارا کلمہ ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ہی کلمہ ہے ۔ پھر بھی یہ اپنی شناخت علحدہ بتانے پر مصر ہے ۔ایک دنیاوی مثال سے یوں بھی سمجھئے کہ بچوں کے دودھ کا پاؤڈر نیڈو بھی بناتا ہے اور اینکر بھی ۔ دونوں اقسام کے پاؤڈر کے اجزائے ترکیبی تقریباََ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی مقابلہ ہوتا ہے کہ ہمارا پراڈکٹ سب میں بہترین ہے ۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں اجزائے ترکیبی کوئی بھی بیان نہیں کرتا بلکہ وہ خصوصیات بتائی جاتی ہیں جو دوسرے میں نہیں ہوتیں ۔ یعنی یہ سارا نام کا کھیل ہے ۔ یعنی دنیا میں بس ہم خالص ہیں ۔دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟مسئلہ اخلاق و سلوک کا نہیں بلکہ ان بناوٹی طور طریقوں کا ہے جو روحانی ریاضتوں سے متعلق خالص عجمی اختراعات جو اسلام میں داخل کر دی گئی ہیں- اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟ کیا وہ دین کافی نا تها جس کی تکمیل کی گواہی یوں دی گئی کہ: اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا-
آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا (المائدہ:3)
ہم اس صوفیت کے متعلق بحث نہیں کریں گے جو ماضی کا حصہ تھیں جیسا کہ کہا جاتا ہے-بلکہ ہم موجود رائج تصوف پر تقابلی مطالعہ کریں گے-جب ہم صوفیت سے متعلق گفتگو کریں گے تو اس سے ہمارا مقصد صوفیت کا اصطلاحی معنی ہے، یعنی وہ تصوف جو مخصوص کتب اور مخصوص اصلاحات کا نام ہے اور جس پر آج بهی ایک خاص طبقہ بڑے زور شور سے عامل ہے- جاری ہے......
(قسط نمبر 3 )
تصوف کی اصطلاحات مناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اہل تصوف کی چند اصطلاحات کا معنی بیان کر دیں تاکہ بعد کی بحثوں میں ان کا مفہوم سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔ سیر: سفر ، نقل و حرکت یا پراگریس۔ اہل تصوف کے نزدیک "سیر" انسان کی اس سفر میں پراگریس کا نام ہے، جو اللہ تعالی کی جانب ہو۔ اسی کو "راہ سلوک" بھی کہا جاتا ہے۔ تصوف وہ فن ہے جس کی مدد سے یہ سفر طے کیا جاتا ہے۔ سالک: راہ سلوک پر چلنے والا۔ وہ شخص جو اللہ تعالی کی جانب سفر کرنے کا عزم کرے۔ مرشد: راہ سلوک میں راہنما۔ اسے ہماری عام زبان میں "پیر" یا "شیخ" بھی کہا جاتا ہے۔ مرید: وہ شخص جو راہ سلوک پر چلنے کے لیے کسی مرشد کی راہنمائی حاصل کرنے کے اس کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ اسے تصوف کی زبان میں "مسترشد" بھی کہا جاتا ہے جس کا معنی ہے ہدایت کا طالب۔ بیعت: بیعت کا لفظی معنی ہے بیچنا۔ اصطلاحی مفہوم میں اس کا مطلب ہوتا ہے کسی کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا جس میں اس کی حمایت کا عزم کیا گیا ہو۔ اہل تصوف کی اصطلاح میں بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جس میں ایک مرید، اپنے پیر کے ساتھ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کی پیروی کرے گا جبکہ پیر اس سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ راہ سلوک میں اس کی راہنمائی کرے گا۔ اس طرح مرید ، گویا خود کو پیر کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے۔ صحبت: ساتھ رہنا۔ اہل تصوف کے نزدیک اس کا مطلب صوفی حضرات کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ خانقاہ: یہ ایک تربیت گاہ یا ادارہ ہوتا ہے جہاں ایک صوفی شیخ اپنے مریدین اور سالکین کی تربیت کرتا ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں جو خانقاہیں بنیں، ان میں مسجد، مزار اور رہائشی کمرے موجود ہوتے تھے۔ ہر خانقاہ کا خاص حصہ لنگر ہوا کرتا تھا جو کہ ہر خاص و عام کے لیے جاری ہوتا اور کوئی بھی شخص یہاں آ کر کھانا کھا سکتا تھا۔ اب بھی متعدد خانقاہیں پائی جاتی ہیں مگر ان میں تربیت کا وہ سلسلہ اور معیار نہیں رہا جو قرون وسطی کی صوفی خانقاہوں میں ہوا کرتا تھا۔ عربوں کے ہاں خانقاہ کو "رباط" کہا جاتا ہے جبکہ شمالی افریقہ میں اس کا نام "زاویہ" ہے۔ شریعت: دین کے وہ احکام جو ظاہر و باطن دونوں کے لیے ہیں۔ طریقت: شریعت کے علاوہ وہ اضافی طریقے جن کے ذریعے اللہ تعالی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ان میں اذکار و اوراد، وظائف، مراقبہ وغیرہ شامل ہے۔ حقیقت: دل پر بعض اعمال اور اشیاء سے متعلق حقائق کے انکشاف کو حقیقت کہا جاتا ہے۔ معرفت: خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا ادراک۔ ان کے علاوہ اہل تصوف کی متعدد اصطلاحات ہیں، جن کی تفصیل ہم اپنے اپنے مقام پر بیان کریں گے۔
تصوف کا مقصد: اہل تصوف ، تصوف کا مقصد وہ بیان کرتے ہیں جو قرآن کریم کی ان آیات کریمہ میں بیان ہوا ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (10) نفس کی قسم اور اس [اللہ] کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس نے اس کی برائی اور اس کا تقوی اس کی جانب الہام کر دیا۔ جس نے اسے پاکیزہ کر لیا، وہ فلاح پا گیا اور جس نے اسے دبا دیا، وہ نامراد ہوا۔ (الشمس) اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اسی نفس انسانی کو سنوارنے اور اس کا تزکیہ کرنے کا نام تصوف ہے۔ تمام دینی احکام کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ مثال کے طور پر زکوۃ کو لیجیے۔ ایک اس کا ظاہری پہلو ہے جس میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کب دینی ہے؟ کتنی دینی ہے؟ کس مال پر زکوۃ عائد ہو گی اور کس پر نہیں؟ ان سب سوالات کا جواب "علم الفقہ" میں ملتا ہے۔ زکوۃ کا باطنی پہلو یہ ہے کہ زکوۃ خالصتاً اللہ تعالی کے لیے دی جائے۔ اس میں دکھاوا نہ ہو اور نہ ہی جس شخص کو مال دیا جائے، اسے ذلیل کیا جائے۔ اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ اس باطنی پہلو کی اصلاح "علم التصوف" کا کام ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے صوفی بزرگ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں: حقیقت میں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ظاہراً کرنے کے ہوتے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کہ دل کے اعمال ہوتے ہیں جن کا پتہ کسی اور کو نہیں چلتا اس کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو یا کرنے والے کو ہوتا ہے اور ان ہی اعمال پر ظاہری اعمال منحصر ہوتے ہیں۔اگر کسی کے یہ دل والے اعمال درست نہ ہوں تو چاہے اس کے ظاہر کے اعمال کتنے ہی درست ہوں وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ یا بعض دفعہ یہ ظاہری اعمال ان باطنی اعمال کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان باطنی یعنی دل کے اعمال کا درست کرنا بھی ضروری بلکہ اشد ضروری ہوا۔ پس وہ طور طریقے اختیار کرنا جن سے یہ دل والے اعمال درست ہوجائیں تصوف کہلاتا ہے۔ شریعت کے طور طریقوں کو چونکہ فقہ بھی کہتے ہیں لہٰذا ان معنوں میں تصوف کو فقہ الباطن بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اس کو کوئی زہد کہہ دے یا تقویٰ، احسان کہہ دے یا تصوف، اس میں کام دلوں کی صفائی کا کیا جاتا ہے۔دل میں کان ،زبان ،ناک اور ذہن کے ذریعے ہر دم جو آلودگیاں آتی ہیں ان کا تدارک اور تلافی کی جاتی ہے ،انسان کو انسان اور مسلمان کو مسلمان بنایا جاتا ہے۔دلوں سے تکبر ،عجب، حسد ،کینہ ، ریا ء،بدگمانی ،خود پسندی وغیرہ کو نکال کر اس میں تواضع ،مسکینی ،اخلاص، نیک گمانی، تفویض، توکل اور خو د احتسابی پیدا کی جاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انسان کے دل کو مادہ پرستی سے نکال کر خداپرستی کی طرف ڈالا جاتا ہے۔اس کو ہر دم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تو کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کیا ہوگا اور اس کے لئے کیا کرنا ہے ؟بس کرنا تو وہی شریعت کی اتباع ہے کہ ہمیں اسی کے لئے تو پیداکیا گیا ہے لیکن تصوف میں اس پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ سادہ الفاظ میں فاضل مصنف کے نزدیک تصوف کا معنی ہے، انسانی شخصیت میں موجود چھپی ہوئی برائیوں سے اسے پاک کرنا اور اس میں موجود نیکیوں کو نشوونما دینا۔ اسے قرآن مجید میں "تزکیہ نفس" کا نام دیا گیا ہے اور اسی کو دین اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے۔ تزکیہ نفس کے مفہوم میں غیر صوفی اور صوفی علماء کے مابین کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ غیر صوفی علماء کے نزدیک "تزکیہ نفس" سے مراد اپنی اصلاح کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے قلب کو برائیوں سے پاک کر کے ان میں نیکیوں کو نشوونما دے۔ اس کے برعکس صوفی بزرگوں کے نزدیک ، "تزکیہ نفس" صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے ہے۔ صوفیاء کے نزدیک تصوف ایک سفر ہے جو کہ اللہ تعالی کی طرف ہے۔ اسے وہ "سیر الی اللہ" کے عنوان سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مطلب ہے "اللہ کی جانب سفر"۔ عربی میں "سیر" نقل و حرکت، سفر یا آگے بڑھنے (Progression) کو کہتے ہیں۔ اس سیر کے دوران سالک (یعنی سفر کرنے والا) اپنے مرشد کی نگرانی میں اپنا تزکیہ نفس کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ ایک خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ "سیر فی اللہ" کہلاتی ہے یعنی "اللہ میں سفر"۔ اس کی کوئی حد ان کے نزدیک مقرر نہیں ہے۔اس مقام پر پہنچ کرسفر کرنے والا، جو کہ "سالک" کہلاتا ہے، اللہ تعالی کے انوار و تجلیات کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ سیر، صوفی حضرات کے نزدیک تزکیہ نفس کے مفہوم میں داخل ہے۔سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں: سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ [یعنی جو کچھ اللہ کے سوا ہے] سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ [یعنی کائنات کی حقیقتیں] اور حقائق اعمال شرعیہ [یعنی شرعی احکام کی حقیقتیں] سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین [یعنی دیکھ کر یقین کرنا] سے حق الیقین [یعنی تجربہ کر کے یقین کرنا] تک سفر کرتا رہتا ہے۔ اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید [کسی چیز کو اپنی طرف منسوب نہ کرنا] اور تجرید [دنیاوی و اخروی اغراض کو ترک کر دینا] کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے۔اس میں چاہے شیخ سے مرُید بڑھ جائے،یہ بھی ممکن ہے۔ جاری ہے....
(قسط نمبر 4)
صوفی سلسلے: تصوف میں پیر اور مرید کا رشتہ اساسی نوعیت کا حامل ہے۔ اہل تصوف کے نزدیک نسبت اور تعلق کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ ایک مرید اپنے مرشد سے وابستہ ہوتا ہے، وہ اپنے مرشد سے، اور وہ اپنے مرشد سے۔ اس طرح یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے۔ اسے تصوف کی اصطلاح میں "سلسلہ" کہا جاتا ہے۔ ہر سلسلے کو اپنے کسی مشہور بزرگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے صوفیاء میں زیادہ تر چار سلسلے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور سلسلہ چشتیہ ہے جو خواجہ معین الدین چشتی (535-627/1141-1230)سے منسوب ہے۔ اس کے علاوہ نقشبندی، قادری اور سہروردی سلسلے بھی پائے جاتے ہیں جو بالترتیب خواجہ بہاء الدین نقشبند(717-791/1318-1389)، شیخ عبدالقادر جیلانی (470-561/1077-1166) اور شیخ شہاب الدین سہروردی (543-632/1148-1234) سے منسوب ہیں۔چشتی، قادری اور سہروردی سلسلوں کا کہنا یہ ہےکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے اپنا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قائم کرتے ہیں جبکہ نقشبندی سلسلہ کے شیوخ کا موقف یہ ہے کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وساطت سے ایسا کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ وسطی ایشیا اور ترکی میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر سلسلے کی پھر متعدد شاخیں ہیں۔ مثلاً چشتی سلسلے کی دو بڑی شاخیں ہیں جو صابری اور نظامی کہلاتی ہیں۔ صابری، شیخ صابر کلیری (592-690/1196-1291)سے اور نظامی حضرت نظام الدین اولیاء (635-725/1238-1325) سے منسوب ہیں۔ نقشبندی سلسلے کی مشہور ترین شاخ مجددی ہے جو شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی (971-1034/1564-1624)سے منسوب ہے۔ برصغیر کے زیادہ تر نقشبندی حضرات کا تعلق مجددی شاخ سے ہوتا ہے۔ وسطی ایشیا میں اس کی اور شاخیں بھی پائی جاتی ہیں۔ جنوبی ایشیا سے باہر متعدد سلسلے پائے جاتے ہیں جن میں رفاعی، شاذلی، تیجانی، بختاشی، مولوی، سنوسی، تیجانی، نعمت اللہی، قلندری، نور بخشی سلسلے مشہور ہیں۔ شام، لبنان، کویت اور مصر میں بالعموم رفاعی اور شاذلی سلسلے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ترکی میں زیادہ تر مولویہ سلسلہ پایا جاتا ہے جو مولانا روم (603-671/1207-1273) سے منسوب ہے۔ شمالی افریقہ میں سنوسی اور تیجانی ، ایران میں نعمت اللہی، مشرقی یورپ میں بختاشی اور انڈونیشیا میں نقشبندی اور قادری سلسلے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض سلسلے، مشہور سلسلوں ہی کی شاخیں ہیں۔ ان معروف سلسلوں کے علاوہ ایک سلسلہ اویسیہ بھی ہے جس میں شامل شیوخ کا کہنا یہ ہے کہ وہ براہ راست حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی روح سے فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے۔ دیگر سلسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد بالعموم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اویسی سلسلے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک مرید ، صدیوں پہلے کے کسی شیخ سے براہ راست تعلق قائم کرنے کا دعوی کر سکتا ہے جبکہ باقی سلسلوں میں یہ ضروری ہے کہ مرید کسی ایسے شیخ سے تعلق رکھے، جو اس کے زمانے میں موجود ہو۔ ان صوفی سلسلوں میں تصوف کے بنیادی مقاصد کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بعض امور جیسے اوراد و اشغال، ذکر کے طریقے اور روحانی مشقوں کے بارے میں ان میں کچھ فرق پائے جاتے ہیں مگر ان تمام سلسلوں کےلوگ دوسرے سلسلوں کا احترام کرتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے اپنے سلسلوں ہی کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔اور اسی کے متعلق تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں-
تصوف کے مآخذ اور امہات کتب: اہل تصوف کی غالب اکثریت کا موقف یہ ہے کہ ان کے عقائد و نظریات اور اعمال کا ماخذ قرآن و سنت ہی ہے۔ اس کے علاوہ صوفیاء، سابق صوفی بزرگوں کی کتب ، حالات زندگی، واقعات، عمل اور ملفوظات (اقوال) کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ صوفیاء کے ہاں کتابیں لکھنے کا رواج کم ہی رہا ہے تاہم بعض بڑے صوفی بزرگوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان میں سے بعض کتب کو امہات فن (یعنی کسی فن کی اساسی کتب) کا مقام حاصل ہے۔ ان میں سے مشہور یہ ہیں: قوت القلوب یہ چوتھی صدی ہجری کے بڑے صوفی بزرگ ابو طالب مکی (d. 386/996) کی تصنیف ہے۔ مصنف نے اس کتاب کو قُوت القلوب یعنی دلوں کی غذا قرار دیا ہے۔ کتاب کے شروع کے ابواب میں فاضؒ مصنف نے تفصیل سے صوفیاء کے اشغال کا ذکر کیا ہے جن میں نفلی نمازیں، روزے، ذکر اور اوراد شامل ہیں۔ بعد کے ابواب میں انہوں نے صوفیانہ سفر کے مقامات، مراقبہ، عقائد، گناہ کبیرہ، شریعت کی پابندی، اخلاص، ترک دنیا وغیرہ جیسے امور پر روشنی ڈالی ہے۔ آخری ابواب میں انہوں نے دنیاوی زندگی کے اہم امور پر بحث کی ہے جن میں شادی، حمام میں نہانا، خرید و فروخت اور حلال و حرام سے متعلق معاملات شامل ہیں۔ یہ کتاب تصوف کی بنیادی کتب میں سے ایک ہے۔ رسالہ قشیریہ یہ پانچویں صدی ہجری کے ایک بہت بڑے صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری (376-465/986-1072) کی تصنیف ہے۔ انہوں نے کتاب کا آغاز توحید کے مباحث سے کیا ہے، پھر شریعت کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور اس کے ضمن میں بہت سے صوفی بزرگوں کے احوال درج کیے ہیں جنہوں نے شریعت کو اپنی زندگی میں اہمیت دی۔ اس کے بعد ایک باب میں انہوں نے تصوف کی اصطلاحات کی شرح و وضاحت کی ہے۔ بعد کے ابواب تزکیہ نفس سے متعلق ہیں جن میں توبہ، مجاہدہ، تقوی، زہد، خوف، رجاء، حسد، غیبت، توکل،فنا ،بقا ،قبض ،بسط ،وقت ،حال ،وجد ،وجود ،بے خودی ،اثبات ،تجلی ، محاضرہ ،کشف ،تکوین ،حقیقت وغیرہ سے متعلق ابواب ہیں۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے اہل تصوف کے آداب بیان کیے ہیں جن میں فقر، ترک دنیا، سماع، کرامات اور شیوخ کے ساتھ تعلق سے متعلق مباحث شامل ہیں۔ یہ کتاب فن تصوف میں بنیادی کتاب مانی جاتی ہے۔ کشف الْمحجوب یہ لاہور میں مدفون مشہور بزرگ حضرت علی ہجویری (c. 379-465/990-1072) کی تصنیف ہے جو کہ داتا گنج بخش کے لقب سے مشہور ہیں۔ اصل کتاب فارسی زبان میں ہے۔ یہ تصوف کی مشہور ترین کتب میں سے ایک ہے اور اس میں وہ تمام امور زیر بحث لائے گئے ہیں جن کی ایک صوفی کو ضرورت پڑتی ہے۔ منازل السائرین یہ عبداللہ انصاری الہروی (d. 481/1088) کی تصنیف ہے جو کہ شرعی علوم کے ایک بڑے عالم تھے اور شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔ مصنف نے کتاب کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے جن کے لیے وہ "قسم" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کا آغاز "قسم البدایہ" نامی حصے سے ہوتا ہے جس میں مصنف توبہ، محاسبہ، تفکر، ریاضت، ذکر جیسے مباحث زیر بحث لائے ہیں۔ دوسرے حصے "قسم الابواب" میں مصنف حزن، خوف، خشوع، زہد جیسےمعاملات پر بحث کرتے ہیں۔ پھر "قسم المعاملات" ہےجس میں مراقبہ، اخلاص، استقامت اور توکل جیسے مضامین پر گفتگو ہے۔ اس کے بعد "قسم الاخلاق" ہے جس میں صبر، شکر، حیاء، صدق، تواضع وغیرہ بیان کیے گئے ہیں۔ بقیہ اقسام میں متعدد نفسی امور زیر بحث آئے ہیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ بعض ناقدین تصوف کے ہاں بھی مقبول رہی ہے اور مشہور ناقد تصوف علامہ ابن قیم (691-751/1292-1350) نے اس کی شرح "مدارج السالکین" کے نام سے لکھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شیخ ہروی، علوم شرعیہ کے بھی بہت بڑے عالم تھے۔ احیاء العلوم الدین یہ مشہور ترین صوفی عالم ، ماہر نفسیات اور فلسفی امام غزالی (450-505/1058-1111)کی تصنیف ہے اور اس درجے کی تصنیف ہے کہ بعد کی صدیوں میں پورے ایک ہزار برس تک امت مسلمہ کے ذہین ترین افراد کے طرز فکر پر یہ کتاب چھائی رہی ہے۔ مصنف ایک اعلی درجے کے ماہر نفسیات تھے، اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے انسانی نفسیات سے متعلق اپنے علم کو تزکیہ نفس کے لیے استعمال کیا ہے۔ بعد کے صوفی حلقوں میں جہاں جہاں علم نفسیات کو تزکیہ نفس کے لیے استعمال کیا گیا، اس کی بنیاد اسی کتاب میں ملتی ہے۔ اس کتاب میں غالباً پہلی مرتبہ کسی مصنف نے دین اسلام کو ایک مکمل عقلی نظام کے طور پر پیش کیا۔ فاضل مصنف اپنی کتاب کا آغاز علم کی اہمیت سے کرتے ہیں اور اس سے متعلق مباحث کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی عقائد پر گفتگو کرتے ہیں۔ پھر دین کے ایک ایک حکم جیسے نماز، زکوۃ وغیرہ کو لے کر نہ صرف ان کے احکام بیان کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسرار اور حکمتیں بیان کرتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی علمی تاریخ میں غزالی غالباً پہلے عالم ہیں جنہوں نے احکام کی عقلی حکمتوں اور وجوہات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر کتاب لکھی۔ اس کے بعد مصنف اپنی کتاب کو فقہ کی کتابوں کے ابواب پر ترتیب دیتے ہوئے زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق ایسی ہی تفصیلات بیان کرتے چلے جاتے ہیں جن میں نماز، زکوۃ، روزہ، حج، نکاح و طلاق، امر بالمعروف، تجارت، معیشت، سیاست، حکومت، احتساب، خور و نوش وغیرہ تمام معاملات شامل ہیں۔ یہ موضوعات کتاب کی پہلی دو جلدوں پر محیط ہیں۔ مصنف نے ان امور سے متعلق محض فقہی مسائل ہی بیان نہیں کیے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفہ، علم مکاشفہ روح اور ان کی اخلاقی حدود و قیود پر بھی بحث کی ہے۔ اس اعتبار سے اس کتاب کا درجہ فقہ کی عام کتابوں سے کہیں بلند ہے۔ کتاب کا تیسرا حصہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور نفسیات سے متعلق مصنف کے علم کا شاہکار ہے۔ مصنف نہایت تفصیل کے ساتھ قلب انسانی کی بیماریوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا علاج تجویز کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس میں وہ تفصیل سے ان روحانی امراض پر بھی گفتگو کرتے ہیں جن میں ان کے دور کے مذہبی علماء گرفتار تھے۔ ان امراض میں تکبر، حسد، غیبت، اقتدار کی خواہش، مال کی محبت، ریاکاری وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ معاشرے کے دیگر طبقات جیسے امراء و سلاطین، تاجروں وغیرہ میں پائی جانے والی بیماریوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان روحانی امراض کے بیان تک ہی خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ ان امراض کی نفسیاتی وجوہات، علامات، اثرات اور نتائج سبھی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ کتاب کا چوتھا حصہ انسانی شخصیت میں مثبت قوتوں کے فروغ سے متعلق ہے۔ ان میں صبر، شکر، خوف خدا، امید، زہد، توکل، اخلاص، محاسبہ اور غور و فکر جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔ احیاء العلوم کو جہاں علمی حلقوں میں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا، وہاں اس پر شدید تنقید بھی ہوئی۔جس کی تفصیل آگے آئے گی، غزالی کے بعض ہم عصر علماء نے تو ان پر کفر کا فتوی تک عائد کیا۔ تاہم بعد میں یہ رجحان کم ہوا اور اس کتاب کو اس درجہ کی مقبولیت عامہ حاصل ہوئی کہ یہ مسلمانوں کی فکری قیادت کے دل و دماغ پر ایک ہزار برس سے چھائی رہی ہے۔ احیاء پر یہ اعتراض اب بھی کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت کثیر تعداد میں ایسی احادیث موجود ہیں جنہیں محدثین نے "ضعیف" یعنی غیر مستند قرار دیا ہے۔ان میں بعض روایات "موضوع" یعنی جعلی بھی ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض طالع آزماؤں نے اس میں کئی عبارات اپنی طرف سے ملا دی تھیں جس کے نتیجے میں کتاب میں بعض تضادات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کی مثال جلد دوم میں حلال و حرام کی بحث ہے۔ ایک جانب غزالی مشتبہ مال سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بیان کر دیتے ہیں کہ وسوسوں سے بچنا چاہیے اور ان کی بنیاد پر وہم میں نہیں پڑ جانا چاہیے۔ دوسری طرف وہ بعض بزرگوں کے ایسے واقعات کو بطور آئیڈیل بیان کرتے ہیں جو خود اس قسم کی وسوسوں کا شکار تھے۔ عوارف المعارف یہ سہروردی سلسلہ کے امام شیخ شہاب الدین سہروردی (543-632/1148-1234) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے تفصیل سے صوفیاء کے اخلاق پر بحث کی ہے اور دینی احکام کے اسرار پر گفتگو کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صوفیاء کے مخصوص معاملات جیسے سماع، صحبت اور روحانی احوال کو زیر بحث لائے ہیں۔ فصوص الحکم یہ ساتویں صدی ہجری کے بہت بڑے صوفی محی الدین ابن عربی (558-638/1164-1240) کی تصنیف ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس نے بعد کی صدیوں کے اہل تصوف کے عقائد و نظریات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور کم و بیش سات سو برس تک اہل تصوف کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔ یہ ایک نہایت ہی متنازعہ کتاب رہی ہے اور اس کی بعض عبارتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف ختم نبوت کا انکار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن عربی پر بعض بڑے علماء، جن میں امام ابن تیمیہ (661-728/1263-1327)بھی شامل ہیں، نے کفر کا فتوی عائد کیا۔ ابن عربی کے عقیدت مند ان عبارات کو "الحاقی" قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان عبارات کو بعد میں کسی شخص نے مصنف کی کتابوں میں شامل کر دیا ہے۔ ابن عربی اور بھی بہت سی کتب کے مصنف تھے۔ انہوں نے ہی وحدت الوجود کا وہ نظریہ پیش کیا جو کہ اہل تصوف پر تنقید کا باعث بنا۔ اس کی تفصیل کا مطالعہ ہم اگلی اقساط میں کریں گے۔ مثنوی مولانا روم یہ تصوف کی مقبول ترین کتاب ہے جو کہ مولانا جلال الدین رومی (603-671/1207-1273) نے فارسی زبان میں تصنیف کی۔ پوری کتاب ہزاروں اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم پر مشتمل ہے۔ مصنف ترکی کے ایک بہت بڑے صوفی اور عالم تھے۔ انہوں نے نہایت خوبصورت اسلوب میں صوفیانہ نکات کو چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔ بہت کم کتابوں کو اس درجے کی مقبولیت حاصل ہوئی ہو گی جو مثنوی کے حصے میں آئی۔ مصنف کے زمانے سے لے کر آج تک اہل تصوف اس کتاب کا درس دیتے چلے آئے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزالی کی احیاء العلوم اور مولانا روم کی مثنوی ، پچھلے آٹھ سو برس سے امت مسلمہ کی فکری قیادت کے دل و دماغ پر راج کرتی چلی آ رہی ہیں۔ مکتوبات امام ربانی یہ شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنے ساتھیوں اور مریدوں کو وقتاً فوقتاً لکھے۔ شیخ احمد "مجدد الف ثانی" کے نام سے معروف ہیں۔ اس میں تصوف کے بہت سے دقیق مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ مصنف ابن عربی کے وحدت الوجود کے مقابلے میں ایک الگ مسلک "وحدت الشہود" کے بانی تھے، اس وجہ سے ان کی اہل تصوف میں ایک خاص اہمیت ہے۔ ان کی کاوشوں سے تصوف کی دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا ہوا اور وحدت الوجود سے ہٹ کر ایک نئے طرز تصوف کی بنیاد پڑی۔ جنوبی اور وسطی ایشیا کے صوفیاء کے طرز فکر پر اس کتاب کے اثرات غیر معمولی ہیں۔اور اس وقت بهی برصغیر وغیرہ میں عقیدہ واحدت الوجود اور عقیدہ واحدت الشہود پر ایک بہت بڑا طبقہ کاربند ہے-جس کی بهی آگے آ رہی ہے- شاہ ولی اللہ (1703-1762) نے تصوف کے موضوع پر پانچ کتابیں لکھیں جس میں انہوں نے تصوف کے اہم مباحث اور اور اس کی تاریخ کا خلاصہ کر دیا ۔ ان کے پوتے شاہ اسماعیل (1779-1831)نے "عبقات" کے نام سے ان کی تمہید لکھی۔ ان کتب نے بھی برصغیر کے شریعت پسند صوفیاء کی فکر پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کتب کے علاوہ اہل تصوف کے ہاں تقریباً ہر اہم صوفی شیخ کے حالات و واقعات پر مبنی تذکروں کی کتابیں ملتی ہیں۔ ان میں ان بزرگ کے حالات زندگی اور کرامات وغیرہ درج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف شیوخ کے مریدین ان کی محفلوں میں ان کے قول و فعل کو نوٹ کر لیتے ہیں اور پھر اسے کتاب کی شکل میں شائع کر دیتے ہیں۔ انہیں "ملفوظات" کہا جاتا ہے۔ اہل تصوف عام طور پر اپنے سلسلے کے بزرگوں کے تذکروں اور ملفوظات کی کتب سے عام استفادہ کرتے ہیں۔ برصغیر کے چشتی سلسلہ کے صوفیاء میں حضرت نظام الدین اولیاء (635-725/1238-1325)کے ملفوظات پر مشتمل کتاب "فوائد الفوائد" کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے دیگر سلسلوں کے صوفیاء بھی تصوف کی امہات کتب میں شمار کرتے ہیں۔
ابو عبدالرحمن السلمی نے تصوف پر ایک کتاب "کتاب السنن" کے نام سے لکهی جس میں تصوف کی سنتوں، اس کے فرائض اور اس کے طریق کار کے بارے میں بحث کی گئی ہے-
ابو نصرالسراج نے بهی ایک کتاب "لمع الصوفیہ"کے نام سے لکهی جس میں مختلف قسم کے عقائد لکهے گئے جس کی تفصیل آگے آئے گی- ابو طالب مکی نے "قوت القلوب"کے نام سے ایک کتاب لکھی اس کتاب کو بهی ناقدین نے تنقید کا نشانہ بنایا-اس کتاب میں حضرت ابوبکر،حضرت عثمان،حضرت عمر،حضرت علی رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام کو صوفی کہا گیا ہے- محمد بن طاہر الممدسی نے ایک کتاب "صفوہ التصوف"کے نام سے لکهی- عبدالوہاب شعرانی اہل تصوف میں ایک سند کا درجہ رکهتے ہیں جو بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں "طبقات کبری"بڑی مشہور کتاب ہے-
اس کے علاوہ بے شمار کتب اور بهی ہیں لیکن یہ ذکر کردہ کتب اہل تصوف کی بنیادیں ہیں ان اقوال کی بنیاد پر اہل تصوف کی عمارت کهڑی ہے
جاری ہے....
(قسط نمبر 5)
تصوف سے متعلق نقطہ ہائے نظر تصوف سے متعلق بنیادی طور پر دو نقطہ ہائے نظر کا ہم مطالعہ کریں گے۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے ان کے ناقدین۔ اہل تصوف کو بھی ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک وہ صوفی حضرات جو شریعت کو مانتے ہیں اور اس کے بغیر کسی تصوف کے قائل نہیں ہیں۔ دوسرا گروہ ان صوفیاء کا ہے جو شریعت کو نہیں مانتے اور شرعی احکام کو بسا اوقات نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ ان دونوں گروہوں کا تصوف ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے، اس وجہ سے ہم ان دونوں گروہوں کے نظریات اور اعمال کا تقابلی مطالعہ بھی کریں گے اور اس کا ان حضرات کے نقطہ نظر سے موازنہ کریں گے جو تصوف پر تنقید کرتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا مطالعہ اس سلسلہ میں تین گروہوں کے عقائد و افکار پر محیط ہو گا: مخالف شریعت صوفی پابند شریعت صوفی ناقدین تصوف اب ہم ان گروہوں کا کچھ تفصیل سے تعارف کرواتےہیں۔ مخالف شریعت صوفی اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو تصوف کا دعوی تو کرتے ہیں اور خود کو اللہ تعالی کا نمائندہ قرار دیتے ہیں مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔ ان میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ غیر مخلص ہوتے ہیں اور تصوف کو محض دنیا داری کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ چونکہ صوفی اور پیر فقیر عام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور لوگ ان کے پاس دعا کروانے اور مرید ہونے کے لیے آتے ہیں، اس وجہ سے یہ حضرات تصوف کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور مریدوں کی آمدنی پر عیش کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی صوفیت میں مخلص تو ہوتے ہیں مگر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اصل دین باطنی اعمال ، چلے اور مراقبے ہیں جن سے "سیر فی اللہ" میں مدد ملتی ہے اور شرعی احکام محض عام لوگوں کے لیے ہیں۔ یہ حضرات شریعت کے احکام کو "ظاہر" کا نام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ظاہری احکام عام لوگوں کے لیے ہیں اور جو شخص تصوف کی منازل طے کرلے، اسے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں یہ اکابر صوفیاء کی کچھ عبارتوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض عبارات صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہوتی ہیں۔ چونکہ نیت کا حال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہےاور ہم کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، اس وجہ سے اس تحریر میں ہم مخلص اور غیر مخلص کی بحث میں پڑے بغیر سبھی گروہوں کے نقطہ ہائے نظر اور دلائل کا مطالعہ و موازنہ کریں گے ۔ پابند شریعت صوفی یہ وہ صوفیاء ہوتے ہیں جو شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میں بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ غیر مخلص لوگوں کا مقصد تو محض دنیا کمانا ہوتا ہے۔ جہاں وہ اس کے لیے اور طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں، وہاں کچھ ظاہری شرعی احکام کی پیروی بھی کر لیتے ہیں۔ مخلص افراد شریعت کی نہ صرف پیروی کرتے ہیں بلکہ اسی کو مدار تصوف قرار دیتے ہیں۔ یہ حضرات مخالف شریعت صوفیاء پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔ ایک جانب یہ قرآن و سنت اور اکابر صوفیاء کی کتب کی بنیاد پر مخالف شریعت صوفیوں پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ناقدین تصوف کے دلائل کا جواب دیتے ہیں۔ امت کی تاریخ کے بہت سے دینی علماء کا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ مشہور صوفی علماء میں امام غزالی (450-505/1058-1111)، شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) اور شاہ ولی اللہ (1703-1762) وغیرہ شمار ہوتا ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر دونوں اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیوبندی حضرات، بریلویوں سے کچھ امور پر اختلاف رائے رکھتے ہیں اور ان کے بعض معمولات کو بدعت قرار دے کر ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ بریلوی حضرات ان امور کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں۔ بریلوی حضرات کے ہاں تصوف کے حوالے سے دو بڑے گروہ پائے جاتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (1856-1921) کے سلسلہ بیعت سے تعلق رکھنے والے حضرات خود کو "رضوی" کہلاتے ہیں اور دوسرے مکاتب فکر سے متعلق معاملات میں بہت کٹڑ ہوتے ہیں۔ ان میں بعض حضرات سماع اور قوالی کو حرام سمجھتے ہیں اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں جبکہ بعض سماع و قوالی جائز بهی سمجھتے ہیں۔ دوسرا گروہ چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ان صوفی خانوادوں سے وابستہ ہے جن کا مرکز شمالی پنجاب کا علاقہ ہے۔ ان میں گولڑہ، سیال اور بھیرہ کے آستانوں سے وابستہ حضرات پائے جاتے ہیں۔ ان کی مشہور علمی شخصیات میں پیر مہر علی شاہ صاحب(1859-1937)، خواجہ قمر الدین سیالوی (1906-1981) اور پیر محمد کرم شاہ الازہری (1917-1998)شامل ہیں۔ اس دوسرے گروہ کی بعض شخصیات نے دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ سماع اور قوالی کو بھی یہ جائز سمجھتے ہیں تاہم شریعت کی پابندی کے معاملے میں ان کا موقف بھی دو ٹوک ہے۔ دوسری جانب دیوبندی مکتب فکر کی اکثریت بھی برصغیر کی صوفی روایت سے وابستہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (1832-1880) صوفی بزرگ تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (1817-1899) کے صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حاجی صاحب کا احترام بریلوی اور دیوبندی دونوں حلقوں میں کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے دیوبندی صوفیوں کی بہت بڑی تعداد مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943) کے حلقہ ارادت سے وابستہ ہے۔ ان کے صوفی علماء میں مولانا احمد علی لاہوری (1887-1961) ، مفتی محمد حسن(d. 1961) اور مولانا محمد تقی عثمانی (b. 1943)وغیرہ مشہور شخصیات ہیں۔ دیوبندی حلقوں کے ہاں مولانا تھانوی کو تصوف کا مجدد کہا جاتا ہے۔ ناقدین تصوف جو لوگ تصوف پر تنقید کرتے ہیں، ان میں بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں طرز کے افراد پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان میں مخلص افراد وہ ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کے کچھ اصول ، نظریات اور اعمال، دین اور شریعت سے متصادم ہیں۔ یہ حضرات ان امور پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی تنقید صرف مخالف شریعت صوفیاء کے اقوال و افعال تک ہی محدود رہتی ہے اور بعض اوقات اس کی زد میں پابند شریعت صوفیاء کے تصورات بھی آ جاتے ہیں۔ ناقدین تصوف زیادہ تر اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماورائے مسلک حضرات کی اکثریت بھی تصوف کی ناقد ہے۔ جن حضرات نے خاص طور پر تصوف کو موضوع بنا کر ان پر تنقید کی ہے، ان میں مولانا عبدالرحمن کیلانی(d. 1995)، علامہ احسان الہی ظہیر(1945-1987)، پیر محمد بدیع الدین راشدی، مولانا ابو الکلام آزاد (1888-1958)ِ، سید ابو الاعلی مودودی(1903-1979) اور مولانا امین احسن اصلاحی (1904-1997)وغیرہ شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود صوفی حلقوں میں بعض ناقدین تصوف پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں مولانا ابو الکلام آزاد اور پیر بدیع الدین راشدی صاحبان کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جو کہ صوفی خانوادوں کے چشم و چراغ تھے۔ امور تصوف تصوف چونکہ ایک عملی نوعیت کی چیز ہے، اس وجہ سے اس پر کتابیں کم لکھی گئی ہیں اور زیادہ تر
امور کو عملی صورت میں صوفی حلقوں اور خانقاہوں میں جاری کیا گیا ہے۔ اگلی اقساط میں ہم ان امور کا ذکر کریں گے جو کہ اہل تصوف کے علم اور عمل کا موضوع ہیں۔ یہ امور بنیادی طور پر متعدد انواع پر مشتمل ہیں جو کہ یہ ہیں:
تصوف کا مقصد ذرائع: مقصد کے حصول کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ذرائع کہلاتے ہیں۔ توابع: اس سے مراد وہ عارضی یا مستقل کیفیات ہیں جو غیر اختیاری طور پر ایک سالک کو لاحق ہو جاتی ہیں۔ موانع: یہ وہ امور ہیں، جو مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ تصوف کے مقصد پر ہم اوپر بحث کر چکے ہیں۔ بقیہ معاملات کو ہم علیحدہ علیحدہ کر کے ان کی تفصیل بیان کریں گے۔ اس معاملے میں ہماری بنیادی معلومات کا ماخذ سید شبیر احمد کاکا خیل کی کتاب "فہم التصوف" اور امام قشیری کی "الرسالۃ القشیریہ" وغیرہ ہے۔ جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 5)
تصوف سے متعلق نقطہ ہائے نظر تصوف سے متعلق بنیادی طور پر دو نقطہ ہائے نظر کا ہم مطالعہ کریں گے۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے ان کے ناقدین۔ اہل تصوف کو بھی ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک وہ صوفی حضرات جو شریعت کو مانتے ہیں اور اس کے بغیر کسی تصوف کے قائل نہیں ہیں۔ دوسرا گروہ ان صوفیاء کا ہے جو شریعت کو نہیں مانتے اور شرعی احکام کو بسا اوقات نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ ان دونوں گروہوں کا تصوف ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے، اس وجہ سے ہم ان دونوں گروہوں کے نظریات اور اعمال کا تقابلی مطالعہ بھی کریں گے اور اس کا ان حضرات کے نقطہ نظر سے موازنہ کریں گے جو تصوف پر تنقید کرتے ہیں۔ اس طرح سے ہمارا مطالعہ اس سلسلہ میں تین گروہوں کے عقائد و افکار پر محیط ہو گا: مخالف شریعت صوفی پابند شریعت صوفی ناقدین تصوف اب ہم ان گروہوں کا کچھ تفصیل سے تعارف کرواتےہیں۔ مخالف شریعت صوفی اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو تصوف کا دعوی تو کرتے ہیں اور خود کو اللہ تعالی کا نمائندہ قرار دیتے ہیں مگر شریعت کی پابندی نہیں کرتے ہیں۔ ان میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ غیر مخلص ہوتے ہیں اور تصوف کو محض دنیا داری کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ چونکہ صوفی اور پیر فقیر عام لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں اور لوگ ان کے پاس دعا کروانے اور مرید ہونے کے لیے آتے ہیں، اس وجہ سے یہ حضرات تصوف کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور مریدوں کی آمدنی پر عیش کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی صوفیت میں مخلص تو ہوتے ہیں مگر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اصل دین باطنی اعمال ، چلے اور مراقبے ہیں جن سے "سیر فی اللہ" میں مدد ملتی ہے اور شرعی احکام محض عام لوگوں کے لیے ہیں۔ یہ حضرات شریعت کے احکام کو "ظاہر" کا نام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ظاہری احکام عام لوگوں کے لیے ہیں اور جو شخص تصوف کی منازل طے کرلے، اسے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں یہ اکابر صوفیاء کی کچھ عبارتوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض عبارات صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہوتی ہیں۔ چونکہ نیت کا حال اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہےاور ہم کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، اس وجہ سے اس تحریر میں ہم مخلص اور غیر مخلص کی بحث میں پڑے بغیر سبھی گروہوں کے نقطہ ہائے نظر اور دلائل کا مطالعہ و موازنہ کریں گے ۔ پابند شریعت صوفی یہ وہ صوفیاء ہوتے ہیں جو شریعت کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میں بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ غیر مخلص لوگوں کا مقصد تو محض دنیا کمانا ہوتا ہے۔ جہاں وہ اس کے لیے اور طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں، وہاں کچھ ظاہری شرعی احکام کی پیروی بھی کر لیتے ہیں۔ مخلص افراد شریعت کی نہ صرف پیروی کرتے ہیں بلکہ اسی کو مدار تصوف قرار دیتے ہیں۔ یہ حضرات مخالف شریعت صوفیاء پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں۔ ایک جانب یہ قرآن و سنت اور اکابر صوفیاء کی کتب کی بنیاد پر مخالف شریعت صوفیوں پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ناقدین تصوف کے دلائل کا جواب دیتے ہیں۔ امت کی تاریخ کے بہت سے دینی علماء کا شمار اسی گروہ میں ہوتا ہے۔ مشہور صوفی علماء میں امام غزالی (450-505/1058-1111)، شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) اور شاہ ولی اللہ (1703-1762) وغیرہ شمار ہوتا ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر دونوں اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیوبندی حضرات، بریلویوں سے کچھ امور پر اختلاف رائے رکھتے ہیں اور ان کے بعض معمولات کو بدعت قرار دے کر ان سے اجتناب کرتے ہیں۔ بریلوی حضرات ان امور کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں۔ بریلوی حضرات کے ہاں تصوف کے حوالے سے دو بڑے گروہ پائے جاتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (1856-1921) کے سلسلہ بیعت سے تعلق رکھنے والے حضرات خود کو "رضوی" کہلاتے ہیں اور دوسرے مکاتب فکر سے متعلق معاملات میں بہت کٹڑ ہوتے ہیں۔ ان میں بعض حضرات سماع اور قوالی کو حرام سمجھتے ہیں اور اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں جبکہ بعض سماع و قوالی جائز بهی سمجھتے ہیں۔ دوسرا گروہ چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ان صوفی خانوادوں سے وابستہ ہے جن کا مرکز شمالی پنجاب کا علاقہ ہے۔ ان میں گولڑہ، سیال اور بھیرہ کے آستانوں سے وابستہ حضرات پائے جاتے ہیں۔ ان کی مشہور علمی شخصیات میں پیر مہر علی شاہ صاحب(1859-1937)، خواجہ قمر الدین سیالوی (1906-1981) اور پیر محمد کرم شاہ الازہری (1917-1998)شامل ہیں۔ اس دوسرے گروہ کی بعض شخصیات نے دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ سماع اور قوالی کو بھی یہ جائز سمجھتے ہیں تاہم شریعت کی پابندی کے معاملے میں ان کا موقف بھی دو ٹوک ہے۔ دوسری جانب دیوبندی مکتب فکر کی اکثریت بھی برصغیر کی صوفی روایت سے وابستہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (1832-1880) صوفی بزرگ تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (1817-1899) کے صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حاجی صاحب کا احترام بریلوی اور دیوبندی دونوں حلقوں میں کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے دیوبندی صوفیوں کی بہت بڑی تعداد مولانا اشرف علی تھانوی (1863-1943) کے حلقہ ارادت سے وابستہ ہے۔ ان کے صوفی علماء میں مولانا احمد علی لاہوری (1887-1961) ، مفتی محمد حسن(d. 1961) اور مولانا محمد تقی عثمانی (b. 1943)وغیرہ مشہور شخصیات ہیں۔ دیوبندی حلقوں کے ہاں مولانا تھانوی کو تصوف کا مجدد کہا جاتا ہے۔ ناقدین تصوف جو لوگ تصوف پر تنقید کرتے ہیں، ان میں بھی مخلص اور غیر مخلص دونوں طرز کے افراد پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان میں مخلص افراد وہ ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کے کچھ اصول ، نظریات اور اعمال، دین اور شریعت سے متصادم ہیں۔ یہ حضرات ان امور پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی تنقید صرف مخالف شریعت صوفیاء کے اقوال و افعال تک ہی محدود رہتی ہے اور بعض اوقات اس کی زد میں پابند شریعت صوفیاء کے تصورات بھی آ جاتے ہیں۔ ناقدین تصوف زیادہ تر اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماورائے مسلک حضرات کی اکثریت بھی تصوف کی ناقد ہے۔ جن حضرات نے خاص طور پر تصوف کو موضوع بنا کر ان پر تنقید کی ہے، ان میں مولانا عبدالرحمن کیلانی(d. 1995)، علامہ احسان الہی ظہیر(1945-1987)، پیر محمد بدیع الدین راشدی، مولانا ابو الکلام آزاد (1888-1958)ِ، سید ابو الاعلی مودودی(1903-1979) اور مولانا امین احسن اصلاحی (1904-1997)وغیرہ شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود صوفی حلقوں میں بعض ناقدین تصوف پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں مولانا ابو الکلام آزاد اور پیر بدیع الدین راشدی صاحبان کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جو کہ صوفی خانوادوں کے چشم و چراغ تھے۔ امور تصوف تصوف چونکہ ایک عملی نوعیت کی چیز ہے، اس وجہ سے اس پر کتابیں کم لکھی گئی ہیں اور زیادہ تر
امور کو عملی صورت میں صوفی حلقوں اور خانقاہوں میں جاری کیا گیا ہے۔ اگلی اقساط میں ہم ان امور کا ذکر کریں گے جو کہ اہل تصوف کے علم اور عمل کا موضوع ہیں۔ یہ امور بنیادی طور پر متعدد انواع پر مشتمل ہیں جو کہ یہ ہیں:
تصوف کا مقصد ذرائع: مقصد کے حصول کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، وہ ذرائع کہلاتے ہیں۔ توابع: اس سے مراد وہ عارضی یا مستقل کیفیات ہیں جو غیر اختیاری طور پر ایک سالک کو لاحق ہو جاتی ہیں۔ موانع: یہ وہ امور ہیں، جو مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ تصوف کے مقصد پر ہم اوپر بحث کر چکے ہیں۔ بقیہ معاملات کو ہم علیحدہ علیحدہ کر کے ان کی تفصیل بیان کریں گے۔ اس معاملے میں ہماری بنیادی معلومات کا ماخذ سید شبیر احمد کاکا خیل کی کتاب "فہم التصوف" اور امام قشیری کی "الرسالۃ القشیریہ" وغیرہ ہے۔ جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 6)
تصوف کے ذرائع جیسا کہ ہم پچھلی اقساط میں بیان کر چکے ہیں کہ تصوف کا مقصد "وصول الی اللہ" یعنی اللہ تعالی تک پہنچنا ہے۔ ذرائع سے مراد وہ عملی اقدامات اور تدابیر ہیں جنہیں اس مقصد کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اہل تصوف کا کہنا یہ ہے کہ وصول الی اللہ کے راستے تین قسم کے ہیں: طویل ترین: نماز روزے کی کثرت، تلاوت قرآن مجید، حج، جہاد یعنی شریعت کے احکام کے نتیجے میں انسان اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے مگر یہ راستہ طویل ترین ہے۔ یہ راستہ اخیار (اچھے لوگوں) کا ہے۔ اوسط: اس راستے میں سفر جلدی طے ہو جاتا ہے مگر شرعی احکام کے علاوہ کچھ اور مجاہدات کرنا پڑتے ہیں۔ یہ راستہ ابرار (نیک لوگوں) کا ہے۔ اقل و اقرب: یہ طریق عشق ہے جس میں سالک دنیا کو چھوڑ کر خلق سے دور چلا جائے اور اپنی زندگی ذکر، فکر، درد، شوق اور محبت الہی میں گزار دے۔ اس راستے سے سالک بہت جلد اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس تصور کو سمجھانے کے لیے اہل تصوف ٹرین کی مثال دیتے ہیں۔ بعض ٹرینیں تیز رفتار ہوتی ہیں اور بعض نارمل رفتار سے چلتی ہیں۔ سالک اگر تیز رفتار ٹرین پر سوار ہوجائے تو اس کا سفر جلدی طے ہو جاتا ہے مگر اس کا ٹکٹ زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر سالک اوسط یا مختصر راستے پر سفر کرتا ہے تو اسے اس کی اضافی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ وصول الی اللہ کے لیےجو ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں:
مجاہدہ اور فاعلہ۔ مجاہدے سے مراد نفس کو کنٹرول کرنے کے لیے اسے اذیت دینا ہے اور فاعلہ سے مراد کچھ اضافی تراکیب ہیں جو روحانی قوتوں میں اضافہ کے لیے صوفیاء سر انجام دیتے ہیں۔ ان میں ذکر، شغل اور مراقبہ سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سماع، تصور شیخ اور عشق مجازی بھی انہی میں شامل ہیں۔ ان سب کی تفصیل یہ ہے:
مجاہدہ مجاہدہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے جسم کو اذیت دی جائے تاکہ نفس قابو میں آ جائے۔ تمام برائیوں کا منبع چونکہ انسانی نفس اور شیطان ہیں اور یہی دونوں انسان کو برائیوں پر اکساتے ہیں، اس وجہ سے ضروری ہے کہ انہیں کنٹرول کیا جائے۔ انسانی نفس کی خواہشات اندھی ہوتی ہیں، اس وجہ سے یہ آسانی سے شیطان کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ انسانی نفس کی تہذیب کر کے اس پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے تاکہ شیطان اس نفس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ نفس کو کنٹرول کرنے سے متعلق اہل تصوف گھوڑے کو سدھانے کی مثال پیش کرتے ہیں۔ جیسے گھوڑا اگر اڑیل ہو اور انسان کے قابو میں نہ آ رہا ہو تو اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ کبھی اسے پیار کیا جاتا ہے تو کبھی مارا جاتا ہے، کبھی دانہ دیا جاتا ہے اور کبھی بھوکا رکھا جاتا ہے، کبھی اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور کبھی اس پر بوجھ لادا جاتا ہے تاکہ یہ مالک کے اشاروں پر چلنے لگے۔ بالکل اسی طرح جب نفس قابو میں نہ آئے تو اسے قابو میں لانے کے لیے اسے اذیتیں بھی دی جاتی ہیں اور کبھی اس کی بات مان بھی لی جاتی ہے۔ اسے صوفیاء کی اصطلاح میں "مجاہدہ" کہا جاتا ہے۔ مختلف صوفی سلسلوں میں مجاہدے کی متعدد شکلیں ہوتی ہیں: کبھی نفس کا پسندیدہ کھانا بند کر دیا جاتا ہے، کبھی طویل عرصے تک روزے رکھے جاتے ہیں، کبھی چپ کا روزہ رکھ لیا جاتاہے، کبھی نیند کم کر دی جاتی ہے، کبھی جنسی تعلق کو منقطع کر دیا جاتا ہے، کبھی ساری ساری رات عبادت کی جاتی ہے، کبھی لاکھوں کی تعداد میں ذکر و درود کا ورد کیا جاتا ہے، کبھی جوتا پہننا چھوڑ دیا جاتا ہے، تو کبھی گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں ٹھنڈے علاقے میں بے سرو سامانی میں وقت گزارا جاتا ہے۔کبهی لباس اتار کر مختصر لباس پہنا جاتا ہے-کبهی جسم کے مختلف وہ حصے جو بڑهتے ہیں مثلاً بال ناخن وغیرہ ان کو کئی کئی سال تک کاٹا نہیں جاتا-کبهی کئی کئی سال غسل نہیں کیا جاتا-کبهی کئی کئی سال کسی سے ملا نہیں جاتا وغیرہ بعض صوفی بزرگ مجاہدے کے تین اصول بیان کرتے ہیں: تقلیل طعام، تقلیل منام (سونا) اور تقلیل کلام۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ان چیزوں سے نفس نرم پڑ کر قابو میں آ جاتا ہے۔ صوفیاء کی کتب میں ان کے واقعات پڑھے جائیں تو ان کے ہاں بڑے غیر معمولی مجاہدوں کا ذکر ملتا ہے۔ امام غزالی کی تصانیف ایسے مجاہدوں کے ذکر سے بھری ہوئی ہیں۔ بعض صوفی کئی کئی سال تک سوئے نہیں تو کئی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ایک عرصے تک کبھی بات نہیں کی۔ ایک صوفی ساری عمر ننگے پاؤں رہے۔ ایک اور صوفی کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنا پسندیدہ کھانا ترک کر دیا اور ساتھ ہی اپنے نفس سے وعدہ کر لیا کہ اگر وہ انہیں تنگ نہ کرے تو وہ دس سال بعد اسے کھانے کو وہی پسندیدہ کھانا دیں گے۔ دس سال بعد جب وہ اپنا وعدہ پورا کرنے لگے تو نفس نے کہا کہ میں آخر دس سال بعد جیت ہی گیا۔ انہوں نے وہیں اس کھانے کو پھینک دیا اور نفس کی خواہش پوری نہ کی۔ مجاہدات کے ضمن میں صوفیاء کا کہنا یہ ہےکہ سالک کو مجاہدہ خود نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے اپنے مرشد سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ مرشد کو بھی چاہیے کہ وہ سالک کی جسمانی صحت، نفسیاتی حالت اور سماجی و معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مناسب مجاہدہ تجویز کرے۔ مجاہدے کا یہ تصور دیگر مذاہب کے تصوف میں بھی ہے بلکہ عیسائی، بدھ اور ہندو راہبوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں اس معاملے میں غیر معمولی شدت پائی جاتی ہے۔ کئی کئی سال نہ سونا، خارش کر دینے والا لباس پہنے رکھنا، ہمہ وقت زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے رہنا، چالیس چالیس دن تک بغیر افطار کیے روزہ رکھنا، سالوں کسی دوسرے شخص کا منہ نہ دیکھنا-پوری زندگی برہنہ رہنا-جسم کے بعض اعضاء کو حرکت نہ دینا-سر داڑھی کے بالوں کو اپنے ہاتھ سے نوچنا یعنی کهنیچ کھینچ ختم کر دینا وغیرہ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے- اور اس قسم کے بے شمار مجاہدات ان کے ہاں ملتے ہیں۔ مسلم صوفیاء کے حالات زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بعض حضرات کے ہاں اسی درجے کے مجاہدات کا ذکر ملتا ہے مگر کئی صوفیاء کے ہاں اس معاملے میں اعتدال پایا جاتا ہے۔ فاعلہ فاعلہ سے مراد وہ تراکیب ہیں جن میں اہل تصوف روحانی قوت میں اضافہ کے لیے مشغول رہتے ہیں۔ ان میں ذکر، شغل اور مراقبہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض طریقے اور بھی ایسے ہوتے ہیں جن کا شمار فاعلہ میں کیا جاتا ہے مگر ان کے بارے میں پابند شریعت صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ ان سے نقصان بھی ہو جاتا ہے، اس وجہ سے ان کا استعمال مرشد کے حکم سے ہی کرنا چاہیے۔ ان میں سماع، عشق مجازی اورتصور شیخ شامل ہیں۔ مناسب ہو گا کہ انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے۔ ذکر عام علماء کے نزدیک نماز، تلاوت قرآن مجید اور وہ اذکار جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے، ذکر میں داخل ہیں۔ ناقدین تصوف کے نزدیک یہی اذکار کافی ہیں۔کیونکہ محدثین کا ان اذکار پر ہی عمل اور اجماع رہا ہے اس کے علاوہ کسی نئے اذکار کی ضرورت نہیں ہے- صوفیاء بھی انہیں "ذکر مسنون" کہتے ہیں مگر ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ تمام اذکار انسان کے لیے غذا کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم جو شخص اپنا تزکیہ نفس کرنا چاہے، اسے اضافی اذکار کرنے چاہییں۔ یہ اذکار اس کے لیے دوا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اذکار میں ذکر کے ساتھ ساتھ کچھ خاص روحانی نوعیت کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ یہاں ہم سید شبیر احمد صاحب کی کتاب فہم تصوف میں سے کچھ اذکار کا طریقہ درج کر رہے ہیں: ذکر کا مقصد چونکہ بندے کا نفس کی غلامی سے نکل کر نفس کے مالک کا بندہ بننا ہے اس لئے اس میں ترتیب کے ساتھ بندے کو نفس سے نکالنے اور اس کو حق کے پاس لے جانے کا خیال رکھا جاتا ہے جس کے چار مرحلے ہیں ۔ بعض حضرات کے نزدیک اول مرحلہ نفی و اثبات لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲ، دوسرا اثبات اِلاَّ ﷲ،تیسرا ﷲ،اور چوتھا ھو ہے۔ پہلے کو ناسوتی ، دوسرے کو ملکوتی تیسرے کو جبروتی اور چوتھے کو لاہوتی کہتے ہیں۔ جیسا کہ عالم بھی چار ہیں ۔ (1) ناسوت (2)ملکوت (3)جبروت (4)لاہوت بعض مشائخ کے نزدیک پہلے دو ذکر تو اسی طرح ہیں لیکن تیسرا ذکر اللہُ اللہ (پہلے لفظ ذکر کے آخر میں پیش ہے اور دوسرے کے آخر میں جزم )اور چوتھا صرف اسم ذات بسیط بلاتکرار اللہ(جزم کے ساتھ) ہے ۔ بعض نے ذکر لسانی کو ناسوتی ،ذکر قلبی کو ملکوتی ،ذکر روح کو جبروتی اور ذکر سر کو لاہوتی کہا ہے۔ بعض نے ذکر لسانی کو جسمی، فکر کے ذکر کو نفسی، مراقبہ کو ذکر قلبی ، مشاہدہ کو ذکر روحی اور معائنہ کو ذکر سرّی کہا ہے۔ ذکر ناسوتی لآ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ ہے کہ اس میں ناسوتی اُمور ،شہوات و لذات و خواہشات یعنی جو جو عالم دنیا سے متعلق ہیں اور نفس کو خود میں مشغول رکھتے ہیں ،سے نفی ہے ۔اس سے نکل جانا اوراللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہونا ہے یعنی لا الہ کی تلوار سے غیر اللہ کو فنا کرنا اور الااللہ کی ضرب سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا حاصل کرنا ہے۔ ذکر ملکوتی یعنی اِلاَّ ﷲ سے اس حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہے کہ ہم تو صرف اللہ کے لئے ہیں جیسا کہ فرشتے صرف اللہ تعالیٰ کے امر کے مطابق سب کچھ کرتے ہیں اور ان کا کسی اور طرف دھیان ہی نہیں ہوتا تو اس طرح ہمارا بھی دھیان صرف اللہ کی طرف ہو اور غیر اللہ کی طرف التفات کا شائبہ بھی نہ ہو حتی کی اس کی نفی کی طرف بھی خیال نہ ہو۔ ذکر جبروتی ﷲُ ﷲْ سے مراقبہ ذات مع صفات عظمت و احسان و رحمت و شفقت وغیرہ ہو یعنی حق کا ادراک دما دم ایسا ہو کہ ہر دم اس ادراک میں ترقی ہو اور قلب و ذہن اس میں مشغول ہو۔ ذکر لاہوتی ﷲ کا مقصد محض اللہ کی ذات کی طرف ایسی توجہ ہے کہ اس کی صفات کی طرف بھی دھیان نہ ہو ۔ بعض حضرات ذکر جبروتی "اللہ " کے ذکر کو اور ذکر لاہوتی "ہو " کے ذکر کو قرار دیتے ہیں۔ پہلا طریقہ عموماً اہل چشت کے ہاں ہوتا ہے اس کو بارہ تسبیح بھی کہتے ہیں ۔یہ حضرات پہلے دو سو بار ذکر ناسوتی ،چار سو بار ذکر ملکوتی ،چھ سو بار ذکر جبروتی اور سو بار لاہوتی کراتے ہیں لیکن ذکر لاہوتی میں سالک کی استعداد کے مطابق روز افزوں ترقی کراتے کراتے اس کو بعض اوقات 24 ہزار تک بھی لے جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ عموماً قادریہ حضرات کے نزدیک چلتا ہے ۔ ذکر علاجی میں اجتہاد جاری ہے ۔ ایک انتہائی ضروری امر کی تشریح یہاں پر کرنا ضروری ہے کہ یہ تمام طریقے اجتہادی ہیں ۔جیسے طب میں ہر حکیم مجتہد ہوتا ہے اس طرح طب روحانی یعنی تصوف میں ہر شیخ مجتہد ہوتا ہے یعنی وہ تصوف کے مسلمہ قواعد سے کام لے کر وقت اور سالک کی استعداد کو پیش نظر رکھ کر اس کے لئے جو مفید سمجھتا ہے تعلیم کرتا ہے اس لئے اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں البتہ یہ شیخ کے اپنے فائدے کی بات ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کرنے کے لئے اگر دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائے تو اس سے فائدہ ممکن ہے ۔اسی مقصد کے پیش نظر کتابیں لکھی جاتی ہیں جس میں یہ کتاب بھی ہے۔ ذکر نفی و اثبات یعنی لاالہ الا ﷲ کا طریقہ:کتابوں میں جو طریقہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ لآ اِلٰہَ کے لآ کو ناف سے ذرا طاقت سے کھینچ کر لفظ اِلٰہَ کو داہنے بازو تک لے جا کر سر کو پیٹھ کی طرف تھوڑا سا جھکا کر یہ خیال کرے کہ میں نے غیر سے اپنے دل کو پاک کر کے تمام اغیار کو پس پشت ڈال دیا پھر اِلاَّ ﷲْ کی ضرب ذرا زور سے دل پر لگائے یہ دو سو بار کہے اس طرح کہ ہر دس بار یا سانس ٹوٹنے پر محمد الرَّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر ہمارے شیخ مولانا محمد اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس میں یہ ترمیم فرماتے تھے کہ لا کو ناف سے طاقت کے ساتھ کھینچ کر الا اللہ سے دل کو دائیں بائیں یوں ہلائے کہ جس سے نفی کی قلبی کیفیت پیدا ہوجائے یعنی اس کے ساتھ ہی یہ سوچے کہ میرے دل سے غیر اللہ کی محبت نکل گئی اور الا اللہ سے دل پرسینے کی اندرون سے ایسی ضرب لگائی جائے کہ اس سے یہ کیفیت پیداہوجائے کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگئی۔حضرت فرماتے تھے کہ آج کل لوگ خارجی ضرب کے متحمل نہیں۔ وضاحت لآ اِلٰہَ کہتے وقت مبتدی [آغاز کرنے والا] لا معبود سوچے، متوسط [درمیانے درجے کا سالک] لا مقصود یا لا مطلوب سوچے اور منتہی کامل [جو اپنے روحانی سفر کی آخری اسٹیج پر ہو] لا موجود کا تصور کرے اور تھوڑی دیر مراقب ہو کر خیال کرے کہ فیوضات الٰہیہ قلب میں مسلسل حاصل ہو رہے ہیں اور تصور کرے کہ فیضان الٰہی عرش سے میرے سینہ میں آ رہاہے خواہ چوکڑی بھر کر بیٹھے یا دو زانو جس میں سہولت ہو،ذوق کے مطابق کرے ۔ ذکر الاّ ﷲ کا طریقہ : کتابوں میں اِلاَّ ﷲ کے ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی بار لآ اَلٰہَ کہتے وقت ناف سے کھینچ کر سر کو دائیں شانہ کی طرف لے جا کر اِلاَّ ﷲ کی ضرب دل پر لگائے ۔اور پھر دل پر ہی بائیں جانب ضرب لگاتا رہے ۔ یہ ذکر چار سو بار کرے پھر نفی و اثبات کی طرح مراقبہ کرے ۔آج کل کے حالات کے پیش نظر یہ مناسب ہے کہ الااللہ کہتے ہوئے ضرب دائیں شانے کی جانب سے لیکن سینے میں دل کے قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔اس میں مراقبہ ملکوتی ہی مناسب ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے بندے ہیں ۔اس طریقے سے نہایت آسانی کے ساتھ مطلوبہ کیفیت حاصل ہوجاتی ہے ۔اس لئے بہت زور دار ضرب لگانے کی آج کل ضرورت نہیں بلکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ ذکر اسم ذات دو ضربی ﷲُ ﷲْ اول "ہ" پیش کے ساتھ اور دوسری "ہ" جزم کے ساتھ۔اس کا کتابوں میں لکھا ہوا طریقہ یہ ہے کہ دونوں آنکھیں بند کر کے سر داہنے کندھے کی طرف لے جا کر ﷲُ پیش کے ساتھ دل پر ضرب لگایا جائے اور دوسرے لفظ ﷲْ (جزم کے ساتھ) سے بھی دل پر ضرب لگایاجائے ۔ یہ چھ سو بار ہے ۔پھر اس طرح مراقبہ کرے کہ ہر دس یا زائد کے بعد ﷲُ نَاظِرِي ﷲُ حَاضِرِي ﷲُ مَعِي کہتا رہے تاکہ کیفیت و لذت اس کی حاصل ہو ۔اس میں بھی آج کل بہتر یہی ہے سر کو ہلائے بغیر جہاں سے الا اللہ کے ضرب کا بتایا گیا وہیں سے یعنی سینے میں دائیں شانے کی جانب سے مگر قریب سے دل پر ضرب لگائی جائے ۔ ذکر اسم ذات یک ضربی اس کا طریقہ کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ لفظ اﷲْ جزم کے ساتھ سر کو بائیں جانب لے کر دل پر ضرب کرے ۔یہ سو بار ہے ۔پھر مراقب ہو کر اس طرح کہے ، ﷲُ نَاظِرِي [اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے ]، ﷲُ حَاضِرِي [اللہ میرے پاس ہے ]، ﷲُ مَعِي [اللہ میرے ساتھ ہے ]۔اور معنی کا خیال کرے ۔ آج کل اس کے لئے بھی مناسب یہ ہے کہ یہ مراقبہ کرے میرا اللہ میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور میرا دل بھی اس کی طرف متوجہ ہے اور میری زبان کے ساتھ مل کر اللہ اللہ شوق میں کررہا ہے ۔ اس میں اوپر کے مراقبے بھی آگئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ قلبی بھی حاصل ہوگئی۔جو تصور ذات بخت کا پیش خیمہ بنے گا انشاء اللہ۔ ایک اور تشریح بعض مشائخ نے اس کی تشریح یوں بھی کی ہے کہ سالک ذکر نفی و اثبات لآ اِلٰہَ اِلاَّ ﷲُ میں اس قدر مشغول ہو کہ سوائے ذکر کے کچھ نہ رہے ۔کوئی سانس بغیر ذکر نہ نکلے ۔جب اس حالت کو سالک پہنچ گیا تو عالم مادیت ،عالم اجسام سے تجاوز کر کے مرتبہ لطیفہ پر پہنچ جائے اور اب بجز اِلاَّ ﷲ کے اثبات کے تمام کی نفی ہو جاتی ہے ۔ اب یہ مرتبہ نفس سے نکل کر لطیفہ قلب کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے ۔چونکہ یہ ذکر اِلاَّ ﷲ دل کا ذکر ہے اس لئے اب اِلاَّ ﷲ کا تصور بحضور قلب چاہئے کہ اپنی ذات و صفات کو اللہ کی ذات و صفات کے ساتھ ربط ہو جاوے ۔جب سالک اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے تو مرتبہ دل سے گذر کر مرتبہ روح پر پہنچ جاتا ہے۔اور روح کا ذکر اسم ذات اللہ کا ذکر ہے اس واسطے اس ذکر اسم ذات میں اس طرح انہماک ہو کہ الف لام جو اللہ پر داخل ہے باقی نہ رہے صرف ھو رہ جائے ۔اس مرتبہ پر پہنچنے سے سالک سراپا ذکر ہو جائے گا اور روح سے ترقی کر کے مرتبہ سر پر پہنچ جائے گا اور مقام فناء الفناء پر فائز ہو جائے گا۔ اب سالک کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ اب وہ مصداق حدیث شریف "بِيْ يَسْمَعُ وَبِي يبْصر" ہو گا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب وہ میرے ساتھ سنتا ہے میرے ہی ساتھ دیکھتا ہے "وَبِیْ يَبْطِشُ" میرے ہی ساتھ پکڑتا ہے "وَبِيْ يَمْشِیْ" میرے ہی ساتھ چلتا ہے یعنی اس کا ہر حرکت و سکون خدا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے ۔ [دیکھنے میں بشر ہے لیکن بے شر ہے ،سراپا نور ہے ]اب اس کو لا الہ الا اللہ کی خوب معرفت ہو جائے گی، عبدیت کاملہ حاصل ہو جائے گی، عبدیت میں درجہ کمال اور بصرف ہمت عبادت میں مشغول ہو گا، حفظ مراتب اور احکام شریعت کا امراً و نہیا اُمتثال کرے گا۔ صوفیاء عام طور پر ان اذکار کی انفرادی یا اجتماعی طور پر مشقیں کرتے ہیں۔ ذکر کرتے ہوئے عام طور پر ذہن کو ایک خاص نکتے پر مرکوز کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی سر کو گھما کر اس کی ضرب دل پر لگانے سے اس نکتے میں غیر معمولی زور پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے فاضل مصنف نے بیان کیا کہ ابتدائی درجے کا سالک "لا الہ" کہتے وقت ، "لا معبود" سوچے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ذہن میں پوری توجہ سے "کوئی معبود نہیں، کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کر رہا ہو گا۔ اس تکرار کے ساتھ ساتھ دل پر ضرب لگانے سے اس نکتے کی پروگرامنگ اس کے ذہن میں ہوتی چلی جائے گی۔ جب وہ طریقت کے سفر میں کچھ آگے بڑھے گا تو "کوئی مطلوب نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کرنے لگے گا۔ اعلی لیول پر پہنچ کر وہ "کوئی موجود نہیں سوائے اللہ کے" کی تکرار کرے گا۔ یہ ایک قسم کا ذہن کی پروگرامنگ کا ایک طریقہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اعلی سطح پر پہنچ کر سالک کا ذہن اللہ کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اسی کیفیت کو "وحدت الوجود" یا "وحدت الشہود" کا نام دیا جاتا ہے۔ ذکر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک کو ذکر خفی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو ذکر جلی یا ذکر بالجہر۔ ذکر جلی بلند آواز میں ہوتا ہے۔ لا الہ کہتے ہوئے سر کو دائیں جانب سے گھما کر بائیں جانب لایا جاتا ہے اور الا اللہ کی ضرب دل پر لگائی جاتی ہے۔ ذکر خفی میں ذہن کو لا الہ الا اللہ پر مرکوز کرتے ہوئے زبان نہیں ہلائی جاتی بلکہ سانس کی آمد و رفت سے وہی کام لیا جاتا ہے اور سانس باہر نکالتے ہوئے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ قادری اور چشتی سلسلوں میں بالعموم ذکر بالجہر رائج ہے اور نقشبندی سلسلے میں ذکر خفی- (راقم الحروف ان تمام اذکار کی مجالس میں شرکت کر کے یہ ذکر کے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر چکا ہے-) جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 7)
شغل
شغل سے مراد کچھ روحانی نوعیت کی مشقیں ہیں جن کی مدد سے ذہن کو ایک نکتے پر مرکوز کرنے کی مشقیں کی جاتی ہیں تاکہ انسان کو اپنے ذہن پر کنٹرول حاصل ہو اور اس کی توجہ ادھر ادھر نہ بھٹکے۔ یہ مشقیں بڑی حد تک یوگا سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اس کی بعض مثالیں بیان کرتے ہوئے سید شبیر احمد لکھتے ہیں: شغل کی حقیقت اتنی ہے کہ اگر ذکر میں وساوس تنگ کریں اور کسی طرح دور نہ ہوں تو دل کو کسی تدبیر سے جب کسی ایسی چیز کی طرف مائل کیا جائے کہ اس سے یکسوئی حاصل ہو اور وساوس دور ہوں شغل کہلاتا ہے ۔ یاد رکھیئے کہ یہ مقصود نہیں لیکن معاون فی المقصود ہوسکتا ہے ۔اس کی اصل نماز میں نظر کا محبوس کرنا ۔بکاء کی کیفیت کو ضبط کرنا اور سترہ وغیرہ ہے۔حبس کی دم بھی اس کی ایک قسم ہے ۔یہ گو کہ جوگیوں سے لیا گیا ہے لیکن یہ ان کا کوئی مذہبی شعار نہیں تھا اس لئے ایک تدبیر کے طور پر اس کا لینا جائز تھا جیسا کہ جنگ خندق میں خندق کا کھودنا۔ شغل اسم ذات کاغذ کے ایک ٹکڑے پر دل کی تصویر بنا کر اس پر لفظ ’’اللہ ‘‘ خوبصورت لکھا جائے اور پھر اس کو بغور مسلسل دیکھا جائے حتی ٰ کہ اس کا نقش دل پر جم جائے ۔یا دل پر ایک خیالی قلم سے لفظ اللہ لکھنے کی کوشش کی جائے ۔عموماً اس میں پہلا طریقہ آسان اور دوسرا مشکل ہوتا ہے۔ سلطان الاذکار اس کے کئی طریقے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے سے حجرہ میں جہاں شور و غل نہ ہو داخل ہو کر درود شریف اور استغفار اور اعوذ باﷲ پڑھ کر "اللهم اَعْطِیْ نُوْراً وَّ اجْعَل لِّي نُوْراً وَّ اَعْظِمْ لِي نُوْراً وَّ اجْعَلْنِي نُوْراً" تین بار حضور قلب وتصور کے ساتھ کہے پھر خواہ لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر بدن کو ہلکا کرے اور مردہ تصور کرے اور پورا متوجہ اور باہمت ہو جاوے اس کے بعد سانس لیتے وقت اللہ کا اور سانس باہر نکالتے وقت ہو کا تصور کرے اور خیال کرے کہ سانس لیتے وقت اور باہر نکالتے وقت ہر بال بال سے ہو نکل رہا ہے ۔یہاں تک مشغول ہو کے کہ اپنا خیال تک بھی جاتا رہے اور "هو الْحَي الْقَيّومْ" کا ہر وقت تصور قائم ہو جاوے انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح سے کچھ عرصہ بعد جسم کا ہر رواں رواں ہر ہر بال ذاکر ہو جائے گا ۔اور انوار تجلی سے منور ہو جائے گا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حواس خمسہ کو روئی سے یا انگلیوں سے اس طرح بند کرے کہ دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے سوراخوں میں دے اور دونوں انگلیاں شہادتین کی دونوں آنکھوں کے پپوٹے پر رکھے اور دونوں انگلیاں بیچ کی دونوں نتھنوں پر رکھے اور دونوں انگلی چھنگلی کے پاس کی اوپر کے ہونٹ پر اور چھنگلی نیچے کے ہونٹ پر رکھے اوراکڑوں بیٹھ کر یا جس طرح بیٹھنے کی سہولت ہے بیٹھ کر زبان کو تالوے سے لگائے اور آہستہ آہستہ سانس لے کر حبسِ دم کرے یعنی سانس کو روکے اور لفظ اللہ خیال سے بلا حرکت لسان ناف سے کھینچ کر ام الدماغ یعنی بیچ سر میں روکے ۔جب تک بلا تکلف رک سکے اور وہاں سے دل مُدَوَّر میں لے جا کر اسم ذات ’’اللہ ‘‘خیال سے کہتا رہے ۔جب سانس لینے کا تقاضا ہو تو صرف نتھنوں سے انگلیاں ہٹا کر ناک سے آہستہ سانس چھوڑے تین سانس لے کر پھر حبس دم کرے اور پھر ایک ایک سانس بڑھا کر تحمل کی مقدار کو پہنچا دے ۔ شغل سلطاناً نصیراً اس کا طریقہ یہ ہے کہ صبح شام رو بقبلہ دونوں زانوں بیٹھے اور اطمینان خاطر سے دونوں آنکھیں یا ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ سے ناک کے نتھنے پر نظر ڈالے اور بغیر پلک جھپکائے جس طرح چراغ یا ستارہ کی روشنی کو دیکھتا ہے غیر معین نور کا تصور کرے اور استغراق ایسا ہو کہ وہ محو ہو جائے ۔ ابتداء میں تو آنکھوں میں ضرور تکلیف ہو گی اور پانی بہے گا لیکن چند دن کے بعد جب عادت ہو جائے گی تو یہ تکلیف جاتی رہے گی اور اس کو اپنی صورت جس طرح آئینہ میں نظر آتی ہے نظر آنے لگے گی اور نور الٰہی سے منور ہو جائے گا ۔خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا ہے کہ اس شغل کے فوائد بہت ہیں خصوصاً خطرات کے انسداد میں عجیب و غریب تاثیر رکھتا ہے ۔ شغل سلاطاناً محموداً اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح سلطاناً نصیراً کے ذکر میں نتھنوں پر نظر رکھتے ہیں اسی طرح اس شغل میں دونوں بھنوؤں کے بیچ نظر رکھتے ہیں ۔ اس شغل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذاکر کو اپنا سر نظر آنے لگتا ہے اور جب سر نظر آنے لگتا ہے تو عالم بالا کے حالات سے مطلع ہو جاتا ہے ۔ شغل سہ پایہ شغل سہ پایہ "ﷲُ سَمِیْعٌ " "ﷲُ بَصِیْرٌ" "ﷲُ عَلِیْمٌ" کا ذکر ہے ۔طریقہ اس کا یہ ہے کہ چار زانو بیٹھ جائے اور سلطاناً نصیراً کا تصور کرے اور سانس روک کر ناف سے لے کر ام الدماغ تک پہنچائے جب سانس ام الدماغ میں پہنچے تو "ﷲُ سَمِیْعٌ" کہے اور " بِیْ یَسْمَعُ" کا تصور کرے پھر "ﷲُ بَصِیْرٌ " کہے اور " بِیْ یَبْصُرْ " کا تصور کرے پھر ناف پر "ﷲُ عَلِیْمٌ " کہے اور " بِیْ یَنْطِقُ " کا تصور کرے پھر اس کے بعد اس طرح شروع کرے کہ ام الدماغ میں "ﷲُ عَلِیْمٌ " اور ناف پر "ﷲُ سَمِیْعٌ " عروج و نزول کے طریقہ پر کہے یہاں تک کہ ایک سانس میں ایک سو ایک بار شغل سہ پایہ کرنے لگے ۔ تحقیق: یہ شغل لکھ دئے ہیں جس کی صحت عمدہ ہو ،اعصاب میں ضعف نہ ہو اور سالک چاہے تو کرے لیکن شیخ کی تجویز ہر حالت میں ضروری اور مقدم ہے ،اطلاع اور اتباع اصل ہے ۔ ذکر و شغل یک ضربی ،چہار ضربی ،پنج ضربی شش ضربی اور ہفت ضربی بھی ہے ۔ لیکن اب بس یک ضربی اور دو ضربی پر کفایت ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حسب بیانِ سابق کافی و وافی ہے ۔ ان اشغال سے متعلق فاضل مصنف نے چھ لطائف کا ذکر بھی کیا ہے۔ لطیفہ سے مراد یہاں ہنسی مذاق والا لطیفہ نہیں بلکہ جسم انسانی کے وہ مخصوص مقامات ہیں جہاں ذکر و شغل کے دوران ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ ان میں ناف کے نیچے، عین دل کا مقام، دماغ کا درمیانی حصہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان مقامات پر توجہ کرنے اور ضربیں لگانے سے انسانی ذہن کی پروگرامنگ میں مدد ملتی ہے۔ زیادہ مشقوں کے نتیجے میں ان مقامات کی جلد پر کچھ رنگ بھی ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں۔ مراقبہ ذکر اور شغل کے علاوہ اہل تصوف مراقبہ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی ذہن کو کسی مخصوص نکتے پر مرکوز کرنے کی مشق ہوتی ہے۔ مراقبے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے مقام پر بیٹھا جائے جہاں سالک کو کوئی چیز ڈسٹرب نہ کر سکے۔ مراقبوں کی بعض مثالوں کو سید شبیر احمد کاکا خیل اس طرح بیان کرتے ہیں: جب ذکر ضربی یا سری [ذکر جلی یا خفی] کی تکثیر سے سالک منور ہو جاتا ہے اور اس کی رگ رگ ،رونگٹے رونگٹے میں ذکر سرایت کر جاتا ہے اور ایک محویت کی سی حالت پیدا ہو جاتی ہے تب مراقبات کی تعلیم کی نوبت آتی ہے ۔اصل یہی ہے ۔ لیکن اب عوارض کے سبب ذکر کے ساتھ ساتھ ہی مراقبات بھی تعلیم کر دیئے جاتے ہیں۔کسی ایسے مضمون کو سوچنا جواللہ جلّ شانہُ تک پہنچانے والی ہو اس کے خیال رکھنے کو مراقبہ کہتے ہیں ۔لہٰذا مراقبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مد نظر رکھنے کو کہتے ہیں۔ اور مراقبہ خاص یہ ہے کہ خدا کی ذات میں اس قدر فکر کرے کہ اپنے سے بے فکر و بے خبر ہو جاوے ۔کبھی یاد دل سے نہ اترے خواہ جمال کے لحاظ سے ہو یا جلال کے لحاظ سے ہو ۔انس کے طور پر ہو یا خشیت کے ساتھ ہو ،خوف کے ساتھ ہو یا رحمت کے ساتھ ،محبت کے ساتھ ہو یا اس کے ساتھ ملنے کے شوق کے ساتھ۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ دو زانو نمازی کی طرح سر جھکا کر بیٹھے اور دل کو غیر اللہ سے خالی کر دے اور اللہ جل شانہ کی حضوری میں حاضر کر دے اور اعوذ و بسم اﷲ پڑھ کر تین بار ﷲُ حَاضِریْ ،ﷲُ نَا ظِرِی اور ﷲُ مَعِیْ زبان سے کہہ کر ان کے معنوں کو دل میں ملاحظہ کرے ،تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ حاظر و ناظر ہے اور میرے پاس ہے ،اس جاننے اور تفور کرنے خیال کرنے میں اس قدرر محو ہو کہ غیر حق کا تصور نہ رہے حتیٰ کہ اپنی بھی خبر نہ رہے ۔ مراقبہ کی قسمیں مراقبہ کے متعدد طریقے ہیں جس طریقے سے جس قسم سے طالب کو نفع ہوا ہو ،منزل مقصود تک پہنچائے ،اس کے ساتھ کوشش کرے ۔چند اہم قسمیں یہ ہیں ۔ مراقبہ رویت، مراقبہ معیت، مراقبہ اقربیت، مراقبہ وحدت، مراقبہ فناء۔ مراقبہ رویت خدا کی رویت کا تصور کرے "اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ ﷲَ يَریٰ" [کیا نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے ۔] اس پر غور کرے اور اس پر مواظبت [یعنی مسلسل ] کرے اور یہاں تک مشغول ہو کہ یہ مراقبہ پکا ہو جائے ۔ مراقبہ معیت "هو مَعَکُمْ أيْنَمَا کُنْتُمْ" [تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ]اس کے معنی کے ساتھ تصور اور یقین کرے کہ خلوت اور جلوت ،بیماری تند رستی ہر حالت میں اللہ میرے ساتھ ہے ۔اسی خیال سے مستغرق ہو جاوے ۔ مراقبہ اقربیت "نَحْنُ أَقْرَبُ اِلَيه مِنْ حَبْلٍ الْوَرِيد" [ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں] اس آیت پر معنی کے ساتھ غور کرے اور اس خیال میں محو ہو جاوے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریب ہے ۔ مراقبہ وحدت "ھُوَ الْاَوَّلُ وَالاٰخِرْ [اس کا وجود ہر جگہ جلوہ فرما ابتداء اور انتہا میں وہی ہے] اس کو زبان سے کہے اور تصور کرے کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اسی خیال میں مستغرق ہو جاوے ۔ مراقبہ فناء "کُلُّ مَنْ عَلَيهَا فانٍ" [دنیا کی تمام چیزیں فانی ہیں اور اللہ بزرگ و برتر باقی رہے گا ۔] اس کے معنی کا تصور کرے کہ تمام چیزیں فناء ہو جائیں گی اور ذات باری ہی ہمیشہ رہے گی اور دل کی آنکھ سے دیکھے اور اس خیال میں محو ہو جائے تاکہ اس کے معنی خوب منکشف ہو جائیں اور اپنے وجود کو فنا اور علم و عقل کو اضمحلال [کمزوری] ہو ۔ ذکر، شغل اور مراقبہ کے دوران جب سالک اپنے ذہن کو مخصوص نکات پر مرکوز کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے کچھ انوار و تجلیات نظر آتے ہیں۔ یہ انوار اللہ تعالی کی جانب سے بھی ہو سکتے ہیں اور شیطان کی طرف سے بھی۔ ان سے متعلق فاضل مصنف لکھتے ہیں: جب ذاکر باہتمام تقویٰ خدا کا ذکر کرنے لگتا ہے اور ذکر تمام اعضاء میں سرایت کر جاتا ہے اور غیر خدا سے دل پاک و صاف ہو جاتا ہے اور روحانیت سے تعلق خاص پیدا ہو جاتا ہے تو انوار الٰہی کا ظہور ہونے لگتا ہے اور وہ انوار کبھی خود اپنے میں دکھائی دینے لگتے ہیں اور کبھی اپنے سے باہر ۔اچھے انوار وہی ہیں جن کو سالک دل سینہ و سر یا دونوں طرف اور کبھی تمام بدن میں پائے یا کبھی داہنے بائیں کبھی سامنے سر کے پاس ظاہر ہوں وہ بھی اچھے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئے کہ کہیں لطف اندوز و متلذذ ہو کر خسارہ اٹھائے ۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد علامات ایسی بیان کی ہیں جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ انوار اللہ تعالی کی جانب سے ہیں یا شیطان کی طرف سے۔ ان علامات کی بنیاد صوفیاء کے تجربات ہیں۔ جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 8)
یاد رہے فکر اور تفکر بهی مراقبہ ہی کا نام ہے۔ ابتدائی مراقبہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے ذہن کو کسی ایک نقطہ پر یکسو کیا جاتا ہے اور عارفین کا مراقبہ یہ ہے کہ کھلی آنکھوں سے ہر چیز کا نظارہ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی کا فرمان ہے کہ میں چالیس سال تک اللہ تعالیٰ سے محو کلام رہا لوگ یہ سمجھتے رہے کہ میں ان سے باتیں کر رہا ہوں۔(شمس الفقرا) حضرت سخی سلطان باھو نے اپنی تصنیفات میں غور و فکر کے بارے میں بہت سی اصطلاحیں استعمال فرمائی ہیں۔مثلاً1۔مراقبہ2۔ فکر 3 ۔ تفکّرمراقبہ تفکّر ہی کی ایک قسم ہے لیکن مراقبہ اور تفکّر میں فرق صرف یہ ہے کہ مراقبہ کے لیے خلوت کا ہونا، آنکھیں بند کرکے قلب کو ایک نکتہ پر یکسو کرنا ضروری ہے۔ جب اس طریقہ سے تفکّر پختہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ راز اس شخص پر عیاں کر دیتا ہے جس کے بارے میں تفکّر کیا جارہا ہوتا ہے لیکن فکر یا تفکّر کے لیے خلوت کا ہونا یا آنکھیں بند کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں طالب ہر لمحہ ہر آن، تنہائی میں، ہجوم میں، دنیا کے معاملات کے وقت ایک ہی بات پر غور و فکر یا سوچ بچار کر رہا ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس پر وہ راز عیاں کرتا چلا جاتا ہے جس کے بارے میں وہ تفکّر کرتا رہتا ہے۔ یعنی کھلی آنکھوں سے ہر شے کو دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے رازوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہ مراقبہ سے اعلیٰ مرتبہ ہے آپ یوں کہہ سکتے ہیں مراقبہ ابتدا ہے اور تفکّر انتہا ہے۔ فقر کا راستہ تفکّر ہی کا راستہ ہے۔ تفکّر سے ہی اس راہ کے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے طالبِ مولیٰ ہر لمحہ تفکّر میں گم رہتا ہے ۔ اور ہر لمحہ نئی منزل تفکّر کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔مراقبہ میں استغراق یا غیب کی کیفیت بظاہر خواب سے ملتی جلتی ہے اور عام طور پر احوال بھی یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ خواب میں دل کی نگہبانی و حفاظت میں اس قدر احتیاط نہیں رہتی اس لئے مراقبہ خواب سے زیادہ قوی اور کہیں زیادہ غالب ہوتا ہے۔حضرت سخی سلطان باھو فرماتے ہیں :خواب و مراقبہ کی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے بلکہ مراقبہ خواب سے زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ صاحبِ خواب تو شورو غوغا سے بیدار ہو جاتا ہے لیکن جس پر مراقبہ غالب آ جاتا ہے وہ نورِ وحدانیتِ ذات کے مشاہدہ میں غرق ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی تن سے اس کا سر بھی اڑا دے تو اسے خبر نہیں ہوتی۔ لیکن موت کی مثل ہوتے ہوئے بھی صاحبِ مراقبہ میں شعور بیدار رہتا ہے اور جواب باصواب پاتا رہتا ہے۔ مراقبہ سے عارفوں کو نورِ معرفت کی سرفرازی نصیب ہوتی ہے۔
تصور شیخ: تصور شیخ کا مطلب ہے آنکھیں بند کر کے شیخ کا اس طریقے سے تصور کرنا کہ گویا انسان شیخ کی مجلس میں بیٹھا اس کی باتیں سن رہا ہے۔ عام طور پر صوفیاء کے ہاں اس کا جو طریقہ رائج ہے، اسے بیان کرتے ہوئے مشہور صوفیانہ تحریک "دعوت اسلامی" کے مقالہ نگار مولانا احمد رضا خان بریلوی (1856-1921) کے حوالے سے لکھتے ہیں: خلوت [یعنی تنہائی] میں آوازوں سے دور، رو بہ مکان شیخ [یعنی مرشد کے گھر کی طرف منہ کر کے]، اور وصال ہو گیا ہو تو، جس طرف مزار شیخ ہو ادھر متوجہ بیٹھے۔ محض خاموشی، باادب، بکمال خشوع و خضوع، صورت شیخ کا تصور کرے اور اپنے آپ کو ان کے حضور جانے، اور یہ خیال جمائے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے انوار و فیض، شیخ کے قلب پر فائض ہو رہے ہیں۔ اور میرا قلب، قلب شیخ کے نیچے، بحالت دریوزہ گری [یعنی گداگری] میں لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سے، انوار و فیوض، ابل ابل کر، میرے دل میں آ رہے ہیں۔ اس تصور کو بڑھائے، یہاں تک کہ جم جائے اور تکلف کی حاجت نہ رہے۔ اس کی انتہا پر، صورت شیخ [یعنی پیرومرشد کا چہرہ مبارک] خود متمثل ہو کر مرید کے ساتھ رہے گی۔ اور ان شاء اللہ عزوجل [اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا سے] ہر کام میں مدد کرے گی۔ اور اس راہ میں جو مشکل اسے پیش آئے گی اس کا حل بتائے گی۔ بریلوی مکتب فکر کے صوفی حلقوں میں تصور شیخ سے بالعموم کام لیا جاتا ہے اور اسے بڑی برکت کا باعث سمجھا جاتا ہے البتہ دیوبندی مکتب فکر کے حلقوں میں اس سے پرہیز کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں تصور شیخ بعض خطرات کا باعث ہے، اس وجہ سے اس سے بچنا چاہیے۔ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں: اس میں خطرہ شیخ کو حاظر ناظر سمجھنے کا ہے۔کیونکہ سالک اپنے محبوب شیخ کے ساتھ محبت میں بہت کچھ وابستہ کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جب سالک کے اخلاص اور طلب کی وجہ سے کسی موقعہ پر مدد کرتا ہے تو سالک اس کو شیخ کی طرف سے سمجھنے لگتا ہے جو آہستہ آہستہ شرک کی طرف چلا جاتا ہے۔تصویر کو بھی تو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ آہستہ آہستہ شرک میں بدلنے لگتی ہے۔ یہ محبت ایسی چیز ہے کہ عقل کو سلب کردیتی ہے اور شیخ کے ساتھ محبت فطری ہے اس لیے اگر اس کی تصویر دل میں بسا لی جائے تو یہ بھی آہستہ آہستہ خطرے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک یہ شغل خواص کے لیے تو مفید ہے لیکن عوام کے لیے سخت مضر کیونکہ اس میں صورت پرستی تک بات جا سکتی ہے جو کہ شرک کا زینہ ہے۔ کثرت تصور سے بعض اوقات کوئی صورت مثالیہ ظاہر ہو سکتی ہے جو بعض اوقات محض خیال ہوتا ہے اور بعض دفعہ کوئی لطیفہ غیبی اس شکل میں متمثل ہو جاتا ہے جس کا بسا اوقات شیخ کو پتہ بھی نہیں ہوتا، لیکن سالک اس کو حاضر ناظر سمجھ کر اپنا نقصان کر سکتا ہے، اس لیے اس سے بچنا اولی ہے۔ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ملفوظات اور کتابیں پڑھے یا پھر اپنے پیر بھائیوں [اپنے پیر کے دوسرے مرید] سے اس کا تذکرہ کرے۔ عشق مجازی: بعض اہل تصوف کے ہاں یہ تصور موجود ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کی سیڑھی ہے۔ عشق مجازی سےمراد وہ عشق ہے جو انسان کو کسی اور انسان سے ہو جاتا ہے اور عشق حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جو انسان کو اللہ تعالی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر عشق مجازی صنف مخالف سے ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی جنس کے دوافراد کے مابین ایسا عشق ہو جائے۔ اپنے پیرومرشد سے سبھی صوفی عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ صوفی خانقاہوں میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ آتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑی عمر کا کوئی شخص کسی کم عمر خوبصورت لڑکے پر عاشق ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے شیخ کے لیے ایک مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ تربیت میں امرد پرستی (خوبصورت لڑکوں سے عشق) کی مذمت پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ بعض صوفی بزرگوں کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ کسی خاتون یا لڑکے کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے زبردست قسم کی شاعری کر دی۔ بعض صوفی بزرگوں سے عشق مجازی کی تعریف میں اشعار بھی منقول ہیں جیسے مولانا جامی کا شعر ہے: متاب از عشق رد گرچہ مجازیست۔۔۔۔ کہ آن بہر حقیقت کارساز یست۔ یعنی عشق سے اعراض نہ کرو چاہے مجازی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ عشق حقیقی کے لیے سبب ہے۔ اس کے متعلق سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں: ان بزرگوں کا عشق مجازی کی تائید سے صرف اتنا مراد ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کو عشق مجازی ہو جائے تو پھر اس سے کام لینا چاہیے تاکہ اس کو ہی عشق حقیقی کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس مردار [معشوق] کے ساتھ تو بالکل تعلق نہ رکھا جائے بلکہ ہو سکے تو تعلق توڑ دیا جائے اور اس سے جو سوز و گداز پیدا ہو، اس کو عشق حقیقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ سب سے بہتر طریقہ تو اس میں یہ ہے کہ اگر شیخ کامل ہو تو اس کی راہنمائی حاصل کی جائے، ورنہ وضو کر کے خوشبو لگا کر خوب دل کے ساتھ 500 سے ایک ہزار تک ذکر نفی اثبات اس طرح کرے کہ لا الہ کے ساتھ سوچے کے میں نے اس مردار کی محبت کو دل سے نکال دیا اور الا اللہ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ اپنے دل میں اللہ تعالی کا محبت داخل کیا۔ اس میں ضرب بھی ہو ۔ سماع اہل تصوف بالخصوص چشتی اور سہروردی سلسلے کے صوفیاء میں سماع کو غیر معمولی حیثیت حاصؒل ہے۔ سماع کا مطلب ہے اچھی آواز میں گانا اور رقص کرنا۔ اس کی مختلف شکلیں رائج ہیں جیسے برصغیر میں سماع عام طور پر قوالی کی شکل میں ہوتا ہے جس میں سازوں کےساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔ دعوت اسلامی کے حلقوں میں یہ اجتماعی نعت خوانی کی شکل میں رائج ہے۔ اس سماع میں لوگ بے حال ہو کر رقص بھی کرنے لگتے ہیں اور کبھی بے خود ہو کر تڑپنے لگتے ہیں۔ اسے "حال کھیلنا" کہتے ہیں۔ ترکی کے صوفی درویش لمبے لمبے فراک پہن کر باقاعدہ گردش کرتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔جبکہ یہ طریقہ برصغیر کی خانقاہوں پر بهی دیکها جا سکتا ہے- مشہور صوفی بزرگ امیر خسرو (650-725/1253-1325) کو کئی سازوں جیسے ستار وغیرہ کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ سازوں والی موسیقی کے ساتھ سماع کے معاملے میں پابند شریعت صوفیاء کے دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ان میں سے جو لوگ سازوں کو مطلقاً حرام سمجھتے ہیں، وہ سازوں کے ساتھ قوالی کو بھی حرام ہی قرار دیتے ہیں۔ جن اکابر صوفیاء سے سماع ثابت ہے، ان کے اقوال کی وہ یا تو تاویل کرتے ہیں یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان اقوال و افعال کو ان کی جانب غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس صوفیاء کا دوسرا گروہ، جس میں زیادہ تر چشتی سلسلہ کے صوفی علماء شامل ہیں، موسیقی کے ساتھ(طبلہ، سرنگی، ڈهول، گٹار،تالی وغیرہ موجودہ دور کے جدید آلات) سماع کو جائز سمجھتے ہیں۔ جس کی وہ دلیل بخاری ، کتاب الاشربہ ، حدیث 5268-بخاری کتاب العیدین، حدیث 907-بخاری کتاب المغازی، حدیث نمبر3779-ان احادیث سے موسیقی کے جواز کے قائلین یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کی اگر موسیقی میں فحاشی یا کوئی اور برائی نہ ہو تو سازوں کا استعمال جائز ہے-جس میں صوفیاء اور معتدل جدید علماء کا طبقہ شامل ہے- جبکہ ناقدین سورہ لقمان:31:6-بخاری کتاب الاشربہ ،حدیث 5268-ترمذی ،کتاب التفسیر، حدیث3195-وغیرہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں-مفسرین نے اس سے مراد ہر وہ چیز لی ہے جس میں انسان مگن ہو کر غافل ہو جائے-گانا قوالی اس کی مثال ہے-اس پر تفصیلی تقابلی بحث مبشر نذیر کی کتاب فکری،ثقافتی،معاشی اور قانونی مسائل ماڈیول CS07 میں موسیقی کی بحث میں ملاحظہ کریں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتی (535-627/1141-1230) اور ان کے مریدین نے سماع کی مدد سے بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اسلام کی جانب راغب کیا کیونکہ ان کے ہاں موسیقی کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔
رقص اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، وہ علماء و صوفیاء جو موسیقی کے جواز کے قائل ہیں وہ ایسے رقص کے جواز کے بهی قائل ہیں-جبکہ ناقدین اس کی بهی پر زور مذمت کرتے ہیں-جس کی تفصیلی بحث آگے آ رہی ہے- قسط نمبر 7اور8کے حوالہ جات: سید شبیر احمد کاکا خیل۔ فہم التصوف۔ ص 147۔ راولپنڈی: خانقاہ امدادیہ۔ www.tazkia.org (ac. 24 Apr 2011)
حوالہ بالا۔ ص 180
حوالہ بالا۔ ص 199-203 حوالہ بالا۔ ص 204-206 حوالہ بالا۔ ص 220-221 حوالہ بالا۔ ص 221 مجلس علمی۔ آداب مرشد کامل۔ حصہ 3، ص 9۔ www.dawateislami.net سید شبیر احمد کاکا خیل۔ تصوف کے بارے میں عام پوچھے جانے والے سوالات۔ www.tazkia.org (ac. 24 Apr 2011) سید شبیر احمد کاکا خیل۔ فہم تصوف۔ ص 224 حوالہ بالا۔ ص 224-225.
مراقبہ تفکر کی مزید تفصیلات www.sultan-bahoo.com جاری ہے....
*اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 9)
تصوف کے دیگر امور اہل تصوف کو دوطرح کے امور سے واسطہ پڑتا ہے: ایک توابع اور دوسرے موانع۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔ توابع توابع سے مراد وہ امور اور کیفیات ہیں جن سے ایک سالک (راہ تصوف میں سفر کرنے والا) کو واسطہ پڑ سکتا ہے۔ ان میں بعض امور ایسے ہوتے ہیں، جن میں سالک یا کسی اور کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور بعض امور ایسے ہوتے ہیں جن میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ امور یہ ہیں: وحدت الوجود ؛ سکر اور صحو؛ کشف اور الہام؛ استغراق؛ تصرف؛ قبض و بسط؛ کرامت؛ مشاہدہ؛ وجد؛ دعاؤں کا قبول ہونا اور فہم و فراست؛ اچھے خواب؛ فناء و بقاء؛ عملیات۔ اب ہم انہیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں:
- وحدت الوجود (Pantheism)*
وحدت الوجود ایک فلسفہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی وجود حقیقی ہے اور وہ اللہ تعالی کی ہستی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی کائنات ہمیں نظر آتی ہے، یہ سب محض ایک وہم اور دھوکہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ فلسفہ درست ہے تو پھر نہ تو انسان کا کوئی حقیقی وجود ہے اور نہ ہی شیطان کا۔ اس کے بعد نہ تو دین کا کوئی تصور باقی رہ جاتا ہے، نہ رسالت کا اور نہ آخرت کی جزا و سزا کا۔ اس کے بعد نعوذ اللہ رحمان اور شیطان بھی ایک ہو جاتے ہیں اور تمام کے تمام انسان، حیوانات، جمادات سبھی اسی ایک وجود باری تعالی کا حصہ بن جاتے ہیں اور نہ کوئی خالق رہتا ہے اور نہ مخلوق۔ اکثر ہندوؤں کا بھی یہی عقیدہ ہے جس کے باعث وہ بہت سے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں بھگوان ہی ایک شکل (Incarnate) قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے ساتھ اس کھلے تصادم کے باوجود صوفیاء کے ایک بڑے حلقے میں اس فلسفے کا بڑا زور رہا ہے اور اب تک ہے۔ بعض صوفی بزرگ اس نظریے کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ جب ایک سالک صوفیانہ طریق پر فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچتا ہے تو پھر اس پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ معاملہ حقیقت نہیں ہوتا بلکہ محض اس سالک کی کیفیات ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحقیقت ان تمام مخلوقات کا اپنا ایک وجود ہے اور یہ اللہ تعالی کی تخلیق ہیں۔ سالک پر فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچ کر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اسے اللہ تعالی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا ہے مگر فی الحقیقت وہ سب موجود ہوتا ہے۔ اس تصور کو مشہور صوفی بزرگ شیخ احمد سرہندی معروف مجدد الف ثانی (971-1034/1564-1624) نے "وحدت الشہود" کا نام دیا۔ بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ دونوں اصطلاحات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔حقیقت ان کی ایک ہی ہے- وحدت الوجود کے بارے میں صوفیاء کے ہاں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ان کا ایک گروہ تو وحدت الوجود پر ایمان رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ فی الواقع صرف ایک ہی وجود ہے۔ یہی تصور ان کی تحریروں و افکار میں چھلکتا ہے۔
دوسرا گروہ وحدت الشہود پر یقین رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ معاملہ صرف ایک سالک کی کیفیات کا ہے، فی الحقیقت ایک وجود کا یہ گروہ قائل نہیں ہے۔زمانہ قدیم سے نظریہ وحدۃالوجود کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے ۔ البتہ اس کو پوری شرح و بسط کے ساتھ ابن عربی نے پیشں کیا-
جبکہ ناقدین کا کہنا ہے؛مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے، اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں، اس عقیدے کو “وحدت الشہود“ یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے، عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہانسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کو اور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء) قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (مولانا اقبال کیلانی:کتاب التوحید اور شریعیت و طریقت-) امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160) وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود:وحدۃالوجود کی سادہ اور آسان تعریف کریں تو اس سے مراد "ایک ہو جانا" ہے یعنی اللہ تعالی کی ہستی میں گم ہو جانا۔اور وحدۃالشہود سے مراد "ایک دیکھنا ہے"یعنی چاروں طرف" تو ہی تو "ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے-
عقیدہ وحدۃالوجود اور وحدۃ الشھود تفصیلی بحث آگے آرہی ہے-
سکر اور صحو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک سالک جب فنا کے مقام پر پہنچتا ہے تو اس پر بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اسے "سکر" کہا جاتا ہے۔ سکر سے باہر نکل کر نارمل ہونے کو "صحو" کہا جاتا ہے۔ اگر سکر کی حالت مستقل رہے تو ایسا صوفی "مجذوب" کہلاتا ہے۔ مجذوب حضرات دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں، کبھی برہنہ ہو کر گلیوں میں گھومتے ہیں اور پوشیدہ اعضاء کی نمائش بھی کر دیتے ہیں، کبھی سخت گرمی میں آگ کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں، کبھی غلیظ گالیاں دیتے ہیں اور کبھی ایسی گفتگو کرتے ہیں جو کسی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسے مواقع پر بعض صوفیاء خدا ہونے کا دعوی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ صوفیاء کا وہ گروہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اس بات کو حقیقی سمجھ بیٹھتا ہے اور ان کے خدائی کے دعوے کو درست سمجھ بیٹھتا ہے۔ مشہور صوفی منصور حلاج (244-309/858-922)نے انا الحق یعنی "میں خدائے حق ہوں" کا نعرہ لگایا جس کی پاداش میں انہیں موت کی سزا دی گئی لیکن یہ بات معلوم و معروف ہے کہ وہ حالت سکر میں نہیں تھے ورنہ انہیں یہ سزا نہ دی جاتی کیونکہ اس حالت میں تو بے شمار صوفیاء نے ایسے دعوے کیے ہیں۔ ایک صوفی بزرگ ابو یزید بسطامی (188-260/804-874) کے بارے میں صوفیاء کی کتب میں لکھا ہے کہ انہوں نے "سبحانی ما اعظم شانی" یعنی "میں پاک ہوں، میری شان کیا بلند ہے!" کا اعلان کر دیا۔ جب ان کی کیفیت درست ہوئی تو انہوں نے ان کلمات سے اظہار براءت کیا۔ جو گروہ وحدت الشہود کا قائل ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ وحدت الوجود میں اگر کوئی شخص بے خودی یا سکر کی کیفیت میں ہو، تو اسے معذور سمجھنا چاہیے اور اس کی باتوں کو محض "دیوانے کی بڑ" سمجھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بے خودی کے عالم میں وحدت الوجود کی کیفیت کو مضر سمجھتے ہیں، ہاں اگر بے خودی کی کیفیت نہ ہو، تو پھر اس کیفیت میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کشف اور الہام کشف الہی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات سے متعلق علوم، اسرار و معارف کا انسان کے قلب پر وارد ہونا۔ کشف کونی سے مراد یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو حالت کشف یا خواب میں دیکھنا جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتیں جیسے مستقبل کا کوئی واقعہ، ماضی کا کوئی پوشیدہ راز وغیرہ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ باطن کی آنکھ سے کچھ چیزوں کا مشاہدہ کر رہا ہے یا پھر ہاتف غیبی سے آنے والی آواز اس کی راہنمائی کر رہی ہے۔ اسے حالت بیداری یا خواب میں مستقبل کے واقعات دکھائے جا رہے ہوتے ہیں، اور غیبی آواز اس سے کلام کر رہی ہوتی ہے۔ بہت سے صوفیاء کو دیکھا گیا ہے کہ وہ کشف کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے بھی اپنے دعوی نبوت کی بنیاد کشف پر ہی رکھی تھی۔جس طرح احمدی مذہب برصغیر کے اندر اہل سنت کے اندر پیدا ہوا اسی طرح بہائی مذہب ایران میں اہل تشیع کے اندر پیدا ہوا-جیسے احمدی مذہب کا آغاز 1891ء مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت(نبوت)سے ہوا ، بالکل اسی طرح بہائی مذہب کا آغاز 1863ء میں بہاء اللہ صاحب کے دعویٰ نبوت سے ہوا- مزید اسی طرح اٹھارویں صدی میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی تحریک شروع ہوئی جو ڈیڈھ دو سو برس کی جدوجہد کے بعد 1860ء کے عشرے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی 1930ء کے عشرے میں عظیم معاشی ڈپریشن کے نتیجے میں امریکہ میں غربت کا اضافہ ہوا-ویلس ڈی فرڈ محمد(c.1877- 1934 )ایک سیاہ فام سیلز مین تهے جنہوں نے اس زمانے میں سیاہ آبادی کو اکهٹا کیا اور انہیں منظم کر کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ کی-ویلس ڈی فرڈ محمد 1934ء میں اچانک غائب ہو گئے -کہا جاتا ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے انہیں ہلاک کر دیا تها-ان شاگرد علی جاہ محمد (1995-1897ء) نے 1935ء میں نیشن آف اسلام (NOI)کی بنیاد رکهی-انہوں نے خود کو اللہ کا پیغمبر قرار دیا-اور دعویٰ کیا کہ عیسائی اور یہودی جس مسیحا کے منتظر ہیں وہ میں ہی ہوں-NOI کے حلقوں میں احمدیوں کے لاہوری فرقہ کا بانی مولانا محمد علی کا ترجمہ قرآن ، مجموعہ حدیث اور دیگر کتب ذوق و شوق سے پڑهی جاتی ہیں- ان تینوں گروہوں کی شخصیات کا دعویٰ نبوت کی بنیاد کشف اور الہام ہی تهی-(جس کی مکمل تفصیلات کے لئے کتاب؛بہائیت اور معتقدات مصنف پروفیسر نذیر احمد بهٹی اور انکار سنت ، انکار ختم نبوت اور اسلام مصنف محمد نذیر کا مطالعہ کریں)
پابند شریعت صوفیاء کشف کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اس بات کو مانتے ہیں کہ کشف کو تبھی درست مانا جائے گا جب یہ شریعت کے مطابق ہو۔ سید شبیر احمد کاکا خیل لکھتے ہیں:
کشف کسی پردے والی چیز کے ظاہر ہونے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزیں پیدا کی ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں یا بہت سارے واقعات ہوئے ہیں، ہو رہے ہیں یا ہوں گے اور ان پر پردے پڑے ہوئے ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو کسی پر ظاہر کردیں تو یہ "کشف کونی" کہلاتا ہے۔اس میں کافر و مسلمان کی بھی تخصیص نہیں۔کیونکہ یہ دنیا کی چیزیں ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بعض کی نظر تیز اور بعض کی کم رکھتے ہیں اسی طرح کسی پر زیادہ چیزوں اورواقعات کو ظاہر کرتے ہیں کسی پر کم۔ اس طرح بہت سے علوم و معارف اور اسرار ہیں جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں اور بعض خوش قسمتوں کو ان میں سے کچھ عطا فرما دیتے ہیں۔اس کو "کشف الٰہی" کہتے ہیں۔ یہ البتہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن غیراختیاری ہونے کی وجہ سے کوئی اس کے بھی درپے نہ ہو کیونکہ قبولیت کا دارومدار معلوم چیزوں میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر ہے۔ پس جتنا علم ضروری ہے اس کا تو حاصل کرنا ضروری ہے اور وہ کسبی اور اختیاری ہے اور جو غیر اختیاری ہے اس کے بارے میں فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ عمل شریعت کے مطابق ہونا چاہیئے، چاہے اس کو کشف ہو یا نہ ہو کیونکہ شریعت وحی سے ہے اور ہمارے کشف کا کوئی اعتبار نہیں۔ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ۔پس یقینی کے مقابلے میں ظنی کی کیا حیثیت ہے! استغراق: استغراق ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں سالک خود کو اور اپنے ماحول کو فراموش کر کے اپنےصوفیانہ مشاہدات میں غرق ہوتا ہے۔ ایک صوفی بزرگ عبدالقدوس گنگوہی (d. 943/1537) کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اتنے مستغرق رہا کرتے تھے کہ انہیں نماز کے اوقات کا علم بھی نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے ایک خادم کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہر نماز کے وقت ان کے کان میں "حق، حق" کہے۔ اسے سن کر وہ استغراق سے باہر آتے اور نماز ادا کرتے۔ جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 10)
- تصرف*
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک صوفی کو یہ قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ذہن کی طاقت کو مرکوز کر کے کسی دوسرے شخص کے ذہن پر اثر انداز ہو سکے۔ عام طور پر صوفیاء لوگوں کے ساتھ ایسے تصرفات کرتے رہتے ہیں جس سے یہ لوگ ان کے مرید ہو جاتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس توجہ کی مدد سے وہ مرید کا کوئی مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور اسے کسی نفسیاتی بیماری سے نجات دلا دیتے ہیں، کبھی وہ اسے کسی مقدس مقام جیسے خانہ کعبہ کا دیدار کروا دیتے ہیں، اور کبھی اس کے خوابوں پر اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ جو شخص ان کے تصرف اور توجہ سے متاثر ہوتا ہے، اسے ان سے غیر معمولی عقیدت ہو جاتی ہے اور وہ انہیں ولی اللہ سمجھنے لگتا ہے۔ پابند شریعت صوفیاء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ تصرف ہپنا ٹزم اور مسمریزم کی طرح محض ایک نفسیاتی عمل ہے۔ جو شخص بھی کچھ مخصوص مشقیں کرے، اسے یہ تصرف حاصل ہو جاتا ہے۔اس کا ولایت اور بزرگی سے کوئی تعلق نہیں۔ بہت سے غیر مسلم جوگی بھی اس کے ذریعے متعدد کمالات دکھا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ وہ اس تصرف کی قوت کو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب مرید کا کوئی مسئلہ حل کرنا مقصود ہو۔ اس کے لیے وہ گاڑی کی مثال دیتے ہیں کہ اگر کوئی گاڑی کسی گڑھے میں پھنس جائے تو دھکا لگا کر اسے نکالا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح مرید اپنے روحانی سفر میں اگر کسی مقام پر پھنس جائے تو اس کی مدد کی جاتی ہے۔
- قبض اور بسط*
قبض کو سادہ زبان میں ڈپریشن کہا جاتا ہے، بسط اس کا متضاد ہے۔ جیسے دنیاوی امور میں انسان پر ڈپریشن بھی طاری ہوتا ہے اور وہ اس صورتحال سے نکلنے پر بڑا سرور محسوس کرتا ہے، ویسے ہی روحانی امور میں اس کے ساتھ یہی معاملہ پیش آ جاتا ہے۔ سید شبیر احمد لکھتے ہیں: واردات [یعنی انوار و تجلیات کا وارد ہونا] کا انقطاع جو کسی مصلحت سے ہوتا ہے، قبض کہلاتا ہے اور ان واردات کا حاصل ہونا بسط۔جب محبوب کی تجلی جلالی سالک کے قلب پر پڑتی ہے تو اس سے سالک دہشت میں آجاتا ہے اور عالم خوف میں دل گرفتہ ہوجاتا ہے جس سے اس کے دل کا سرور اور اطمینان تہس نہس ہوجاتا ہے اور سالک اپنے آپ کو مردود خیال کرکے زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے کیونکہ جس کے لیے اس نے سب کو چھوڑا تو اب بظاہر اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس محبوب نے مجھے چھوڑدیا۔اس سے غموں کا پہاڑ اس کے دل پر آجاتا ہے جس سے بعض اوقات خود کشی تک کی نوبت آسکتی ہے۔اس وقت شیخ کامل کی بڑی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تسلی اور توجہ سے مدد کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اس حالت سے نکل نہ جائے۔ واضح رہے کہ صوفیاء کے ہاں واردات ایک خاص اصطلاح ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مخصوص انوار و تجلیات یا خیالات اس کے ذہن پر وارد ہوں۔
- کرامت*
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صوفی(مرشد) سے کچھ ایسے امور صادر ہو جاتے ہیں جو کہ خلاف عادت ہوتے ہیں، انہیں کرامت کہا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ صوفی ہوا میں چلنے لگتا ہے یا آگ میں سے گزر جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان کرامات کو صوفی صاحب کے ولی ہونے کی نشانی کے طور پر پیش کرتے ہیں تاہم پابند شریعت صوفی مانتے ہیں کہ خلاف عادت امور ولایت کی دلیل نہیں ہوا کرتے کیونکہ غیر مسلم جوگی بھی ایسے بہت سے کام کر دکھاتے ہیں جس کے لیے وہ "استدراج" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ایک عام شخص کے لیے کرامت اور استدراج میں فرق کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
- مشاہدہ حق*
صوفیاء کے مختلف حلقوں میں مشاہدے کے مختلف مفاہیم پائے جاتے ہیں۔ بعض صوفیاء کے تذکروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشاہدہ حق سے ان کی مراد اللہ تعالی کا دیدار ہے۔ اس پر تو یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار تو اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ، یعنی "آنکھیں اس [اللہ] کا ادراک نہیں کر سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ نہایت ہی باریک بین اور باخبر ہے۔" اسی طرح سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے اللہ تعالی کے دیدار کی خواہش کی تو جب ان کے سامنے محض ایک تجلی آئی تو اس سے وہ بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد کون صوفی ایسا ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کا دیدار کر سکے۔ پابند شریعت صوفیاء مشاہدہ حق کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں انسان خود کو اللہ تعالی کے سامنے حاضر محسوس کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ بخاری و مسلم اس مشہور حدیث کی مثال دیتے ہیں جس میں حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسی حالت میں نمازکہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر یہی کیفیت طاری کر لو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ روحانی مشقوں سے یہ کیفیت نماز کے علاوہ بھی انسان پر طاری ہو جاتی ہے جس سے وہ خود کو ہر وقت اللہ تعالی کے حضور میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالی کے حضور کی اس کیفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
- فناء اور بقاء*
فناء کا مطلب ہے بالکل ہی ختم ہو جانا۔ اہل تصوف کی اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں برے اوصاف بالکل ختم ہو جائیں اور نیک اوصاف باقی رہ جائیں۔ ایسا مشاہدہ حق کی کیفیت کی وجہ سے ہوتا ہے جب انسان خود کو اللہ تعالی کے حضور میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر بعض صوفیاء ہوش و حواس کی حدود سے نکل کر مجذوب ہو جاتے ہیں۔ فناء کے مقام پر پہنچ کر بعض صوفیاء نارمل کیفیت میں آ جاتے ہیں تاکہ دیگر لوگوں کی راہنمائی کا کام کر سکیں۔ اس حالت کو بقاء کہا جاتا ہے۔
- وجد*
وجد سے مراد ایسی کیفیت ہے جس کا اثر جسم پر ظاہر ہو۔ اس میں بے ہوشی، چیخنا چلانا، ناچنا، تڑپنا، اچھلنا اور رونا وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ تلاوت قرآن مجید ، صوفیانہ کلام کے سماع یا کسی ذکر وغیرہ کے نتیجے میں صوفیاء پر ان میں سے کوئی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ خاص کر سماع کے دوران تڑپنا ، اچھلنا اور رقص کرنے کی کیفیت پیش آ جاتی ہے جسے عام زبان میں "حال کھیلنا" کہا جاتا ہے۔ قوالیوں کے دوران یہ کیفیت عام دیکھی جا سکتی ہے۔ بعض لوگوں پر یہ کیفیت فی الواقع طاری ہوتی ہے جبکہ بعض لوگ اس کیفیت کا ڈرامہ رچا رہے ہوتے ہیں۔
- اجابت دعا اور فہم و فراست*
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی صوفی کی دعائیں بہت زیادہ قبول ہونے لگ جاتی ہیں۔ اگر یہ دعائیں دوسروں کے لیے ہوں تو ایسے صوفی کے پاس دعا کروانے والوں کو بڑا مجمع لگ جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض دینی یا دنیاوی معاملات کا غیر معمولی فہم ایک سالک کو عطا ہو جاتا ہے جسے فراست کہا جاتا ہے۔ اسی فراست کی بدولت وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے لگ جاتا ہے۔
- اچھے خواب اور الہام*
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صوفیاء کا اچھے خواب آنے لگ جاتے ہیں اور ان کے ذریعے کچھ راہنمائی مل جاتی ہے۔ الہام خواب میں بھی ہو سکتا ہے اور بیداری کے عالم میں بھی کوئی بات اچانک ذہن میں آ جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے بھی ہو سکتا ہے اور محض ایک شیطانی وسوسہ بھی ہو سکتا ہے۔بعض صوفیاء الہامات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان پر عمل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پابند شریعت صٓوفیاء اس کے برعکس رحمانی اور شیطانی الہامات میں فرق کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ الہام شریعت کے مطابق ہے یا نہیں۔
- عملیات*
بہت سے صوفی عملیات یعنی تعویذ دھاگے دینے، جن نکالنے اور اسی قسم کے دیگر امور میں مشغول رہتے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کام پورا ہونے پر ان کے ولی اللہ ہونے پر ایمان لے آتے ہیں۔ کام پورا نہ ہونے کی صورت میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی مرضی نہ تھی۔ مخالف شریعت صوفی ان کے ذریعے بہت سے لوگوں کو اپنا مرید بناتے ہیں۔ پابند شریعت صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ عملیات کا دین یا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ محض ایک فن ہے اور جو شخص بھی اسے سیکھ لے، اس کی پریکٹس کر سکتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 11)
*تصوف پر تنقید*
پچھلے تین اسباق میں ہم نے تفصیل سے تصوف اور اس کے معاملات کا مطالعہ کر لیا ہے۔ اب ہم تصوف کی اساسات(بنیاد) کو سمجھ چکے ہیں۔
اب ہم تفصیل سے اس تنقید کا جائزہ لیں گے جو ناقدین تصوف، صوفیانہ امور پر کرتے ہیں اور یہ دیکھیں گے کہ اہل تصوف اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ اس تنقید کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: صوفیانہ عقائد اور تصورات پر تنقید اور عملی تصوف پر تنقید۔
اہل تصوف کے تقریباً تمام عقائد و نظریات پر ہی ناقدین تنقید کرتے ہیں لیکن ہم خاص خاص عقائد و نظریات کا ذکر کریں گے-جو مندرجہ ذیل ہیں-
- وحدت الوجود اور عقیدہ حلول*
- اللہ تعالی سے براہ راست تعلق کا دعوی*
- امور آخرت کا استخفاف*وغیرہ. ...
عملی تصوف پر تنقید ان پہلوؤں سے کی جاتی ہے:
- نفسیاتی غلامی*
- رہبانیت اور ترک دنیا*
- تزکیہ نفس کے طریقے*
- مخالفت شریعت*
ان کے علاوہ اور بھی ضمنی اعتراضات ہیں جن کا مطالعہ ہم الگ الگ اقساط میں کریں گے۔
- عقیدہ وحدت الوجود*
صوفیاء کے عقائد میں جو عقیدہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا ہے، وہ وحدت الوجود کا عقیدہ ہے۔ اسی سے متعلق حلول کا عقیدہ ہے جو بعض صوفیاء کے ہاں پایا جاتا ہے۔ وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول جیسا کہ ہم پچھلے اسباق میں بیان کر چکے ہیں کہ وحدت الوجود کا عقیدہ صوفیاء کے اندر تقریباً متفق علیہ نظریہ ہے تاہم اس کی تفصیل کے بارے میں ان کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عقیدہ حلول بھی بعض صوفیاء کے اندر پایا جاتا ہے جبکہ بعض اس سے انکار کرتے ہیں۔ وحدت الوجود کے فلسفے کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے اللہ تعالی۔ اس کی ذات کے علاوہ کوئی اور وجود نہیں پایا جاتا ہے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان، حیوانات،نباتات، بے جان اشیاء، حتی کہ غلاظت اور شیطان بھی نعوذ باللہ، اللہ تعالی ہی کے وجود کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام اور کفر اور حلال و حرام میں بھی فرق کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کیونکہ حلال و حرام معاذ اللہ سبھی خدا ہی ہیں۔ حلول کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ اس عقیدے کو اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو پھر خدا ہر چیز کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے ہاں بہت سے جانوروں جیسے گائے، سانپ ، ہاتهی اور بندر وغیرہ کا بڑا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نقطہ نظر کے مطابق بھگوان ان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے ہاں یہ تصور بھی موجود ہے کہ بھگوان اپنے خاص بندوں کے اندر حلول کر جاتا ہے جو کہ "اوتار" کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو پیروں فقیروں، جوگیوں اور سادھوؤں کی انتہائی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی عقیدت کا یہ معاملہ ان کے اپنے بزرگوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ وہ دیگر مذاہب کے صوفیاء کی بھی ویسی ہی تعظیم کرتے ہیں۔ پابند شریعت صوفیاء حلول کے عقیدے سے انکار کرتے ہیں اور وحدت الوجود کے عقیدے کی مختلف تشریح کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صوفی اکابرین کی جن عبارتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ یا تو ان کی تاویل کرتے ہیں اور یا پھر انہیں الحاقی قرار دیتے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ مختلف فریقوں کے نقطہ ہائے نظر بیان کرنے سے پہلے وحدت الوجود اور حلول سے متعلق اکابر صوفیاء کی عبارتیں پیش کر دی جائیں تاکہ اس نظریے کی وضاحت ہو جائے۔ ہم یہاں ترجمے کے ساتھ ساتھ اصل عربی عبارات تاکہ عربی دان حضرات یا دینی مدارس کے طلبہ و طالب خود ان کا مطالعہ فرما لیں۔ شیخ عبداللہ الہروی (d. 481/1088) کی کتاب منازل السائرین میں یہ بات لکھی ہوئی ہے: والتوحيد على ثلاثة وجوه: الوجه الأول توحيد العامة الذي يصح بالشواهد والوجه الثاني توحيد الخاصة وهو الذي يثبت بالحقائق والوجه الثالث توحيد قائم بالقدم وهو توحيد خاصة الخاصة فأما التوحيد الأول فهو شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحدَ. هذا هو التوحيد الظاهر الجلي الذي نفى الشرك الأعظم وعليه نصبت القبلة وبه وجبتالذمة وبه حقنت الدماء والأموال وانفصلت دار الإسلام من دار الكفر ... وأما التوحيد الثاني الذي يثبت بالحقائق فهو توحيد الخاصة وهو إسقاط الأسباب الظاهرة والصعود عن منازعات العقول وعن التعلق بالشواهد وهو أن لا تشهد في التوحيد دليلا ولا في التوكل سببا... وأما التوحيد الثالث فهو توحيد اختصه الحق لنفسه واستحقه بقدره وألاح منه لائحا إلى أسرار طائفة من صفوته وأخرسهم عن نعته وأعجزهم عن بثه والذي يشار به غليه على ألسن المشيرين أنه إسقاط الحدث وإثبات القدم. توحید کے تین درجے ہیں: پہلا درجہ عام لوگوں کی توحید ہے جس کی صحت دلائل پر مبنی ہے۔ دوسرا درجہ خاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ حقائق [یعنی روحانی تجربات] سے ثابت ہوتی ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ خاص الخاص لوگوں کی توحید ہے جو کہ ذات قدیم [اللہ تعالی ] ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔ جہاں تک پہلی توحید کا تعلق ہے جو کہ یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا کوئی بھی شریک نہیں، وہ بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ ظاہر روشن توحید ہے جو کہ بڑے شرک کی نفی پر مبنی ہے۔ اسی کی بنیاد پر قبلہ کو نصب کیا گیا اور [غیر مسلموں] کو ذمی قرار دیا گیا۔ اسی کی وجہ سے خون اور مال محفوظ ہوتے ہیں اور دار الاسلام، دار الکفر سے الگ ہوتا ہے ۔۔۔۔ دوسری قسم کی توحید وہ ہے جو حقائق پر مبنی ہے۔ یہ خاص لوگوں کی توحید ہے اور اس میں ظاہری اسباب کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور عقلی دلائل اور شواہد کے ساتھ تعلق سے بلند ہو کر دلیل کے بغیر توحید کو مانا جاتا ہے اور توکل کے لیے کسی سبب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس حق تعالی نے اپنے لیے خاص کر لیا ہے اور بقدر ضرورت اس کے اسرار کو منتخب افراد پر ظاہر کرتا ہے۔ اس کی صفات بیان کرنےاور [اس کی تفصیلات] پھیلانا ممکن نہیں ہے۔ جس کی طرف اشارہ کرنے والوں نے یہ اشارہ کیا ہے کہ یہ حادث [مخلوق] کی نفی اور قدیم [اللہ تعالی] کا اثبات ہے۔ شیخ ابن عربی (558-638/1164-1240) کی کتاب "ٖفصوص الحکم" میں درج ہے: وأن نفيها عين إثباتُها، علم أن الحق المنزة هو الخلق المشبه، وإن كان قد تميز الخلق من الخالق. فالأمر الخالق المخلوق، والأمر المخلوق الخالق. كل ذلك من عين واحدة، لا، بل هو العين الواحد وهو العيون الكثيرة. فانظر ما ذا ترى "قال يا أبت افعل ما تؤمر": والولد عين أبيه. فما رأى يذبح سوى نفسه. "وفداه بذبح عظيم" فظهر بصورة كبش من ظهر بصورة إنسان. وظهر بصورة ولد: لا، بل بحكم ولد من هو عين الوالد. "وخلق منها زوجها": فما نكح سوى نفسه. فمنه الصاحبة والولد والأمر واحد في العدد.... فالحق خلق بهذا الوجه فاعتبروا ..........وليس خلقا بذاك الوجه فادكروا من يدر ما قلت لم تخذل بصيرتهَ.......... وليس يدريه إلا من له بصر جمع وفرق فإن العين واحدة ............وهي الكثيرة لا تبقي ولا تذر اس کی نفی عین اثبات ہے۔ وہ جان گیا کہ حق منزہ ہی خلق مشبہ ہے اگرچہ وہ خلق کو خالق سے بظاہر علیحدہ سمجھتا ہو۔ تو معاملہ یہ ہے کہ خالق کا معاملہ مخلوق ہے اور مخلوق کا معاملہ خالق ہے۔ یہ سب ایک ہی سرچشمہ سے ہیں۔ نہیں بلکہ یہی ایک سرچشمہ ہےجو ان سب کثیر حقائق میں موجود ہے۔ دیکھیے آپ کی کیا رائے ہے؟ [اللہ تعالی نے ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا] "وہ [اسماعیل علیہ السلام] بولے: اباجان! جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، کرگزریے۔" تو بیٹا عین اپنا باپ ہے، تو انہوں نے کیا دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو ذبح کر رہے ہیں۔ "پھر ہم نے اس کے فدیہ میں ایک بڑی قربانی کر دی۔" تو دنبہ کی صورت میں وہی ظاہر ہوا جو کہ انسان کی صورت میں ظاہر ہوا یعنی بیٹے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نہیں، بلکہ وہ بیٹے کے حکم میں ظاہر ہوا کہ وہ عین وہی تھا جو کہ والد ہے۔" اور اس (آدم) میں سے اسی کا جوڑا تخلیق کیا"۔ تو انہوں نے اپنے علاوہ کس سے نکاح کیا۔ انہی میں سے ان کی بیوی، اولاد سبھی نکلے۔ تو ان متعدد انسانوں میں اصل معاملہ ایک ہی ہے۔۔۔۔ تو جان لو کہ اس اعتبار سے حق [تعالی] مخلوق ہے اور اُس اعتبار سے مخلوق نہیں ہے۔ اس بات کو یاد کر لو۔ جو میں کہہ رہا ہوں، اسے جو جانتا ہے، وہ اپنی بصیرت کو رسوا نہ کرے گا۔ اسے وہی جانتا ہے جس کے پاس "نگاہ" موجود ہے۔ اس نے اسے اکٹھا اور علیحدہ کیا کہ وہ سرچشمہ ایک ہی ہے اور یہ کثرت باقی نہ رہے گی اور نہ ہی چھوڑ دی جائے گی۔ ابن عربی سے تین صدیاں پہلے منصور حلاج (244-309/858-922) کا واقعہ بہت مشہور ہے اور تمام کتب تصوف میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے خدائی کا دعوی کرتے ہوئے "انا الحق" یعنی "میں حق ہوں" کہا تھا۔ اگر وہ محض ایک آدھ بار غلبہ سکر میں ایسا کر دیتے تو کچھ نہ ہوتا مگر وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اس دعوے کی باقاعدہ تبلیغ کرتے رہے۔ بادشاہ کے حکم سے انہیں گرفتار کر کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا مگر وہ اپنے دعوی پر قائم رہے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی سزا دی گئی۔اس وقت سے لے کر آج تک وہ تمام صوفیاء، خواہ وہ مخالف شریعت ہوں یا پابند شریعت، کے ہیرو اور شہید سمجھے جاتے ہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور قوالی کا شعر ہے ؎ جیہڑے نشہ عشق وچ رہندے او انا الحق ہی کہندے ان کے اس طرز عمل کی توجیہ کرتے ہوئے بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ منصور نے یہ دعوی خود نہیں کیا تھا بلکہ وہ ذات باری تعالی کے مشاہدے میں اس درجے میں غرق تھے کہ اللہ تعالی نے ان کی زبان کو آلہ بنا کر خود یہ الفاظ کہے تھے۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے ریڈیو میں سے آواز نکلتی ہے مگر بولنے والا اس کے اندر نہیں بیٹھا ہوتا۔ اسی طرح منصور کی زبان ایک ایسا ریڈیو تھا جس میں سے اللہ تعالی کی آواز آئی تھی۔ علامہ ابن قیم (691-751/1292-1350)نے حلولی صوفیاء سے متعلق لکھا ہے کہ یہ اصؒل میں ایرانی النسل تھےاور انہیں "نساک" کہا جاتا تھا۔ یہ زمانہ قدیم سے ہی حلول کے عقیدے کے قائل تھے۔ اسلام لانے کے بعد یہ گروہ مسلم صوفیاء کے ساتھ مل گیا اور ان کے اندر حلول و اتحاد کا نظریہ پیدا کردیا۔ (دیکھیے مدارج السالکین، باب التوحید) جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 12)
- مخالف شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
مخالف شریعت صوفیاء کے ہاں وحدت الوجود اور حلول کے عقیدے کے وہی نتائج برآمد ہوتے ہیں جو کہ اس کا منطقی تقاضا ہے۔ جب اس کائنات کی ہر ہر چیز کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک ہی وجود کا حصہ ہے تو پھر ہر ہر خدا ہی ہوئی۔ پھر ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ اس کے بعد نہ تو کسی حلال کی ضرورت رہتی ہے اور نہ حرام کی اور شریعت کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ یہ وحدت الوجود کے عقیدے کا منطقی تقاضا ہے۔ مخالف شریعت صوفیاء نے اس عقیدے کو اسی طرح سمجھا ہے۔ بعض صوفیاء کے متعلق ان کی اپنی کتب میں درج ہے کہ وہ پاخانہ تک کھا لیا کرتے تھے اور ماں اور بہن سے ازدواجی تعلق قائم کرنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے اور خود اپنی ذات کو خدا سمجھا کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ہر چیز ہی خدا ٹھہری تو پھر خدا کا ایک حصہ دوسرے حصے سے جو بھی معاملہ کرے، وہ درست مانا جاتا ہے۔ ابن عربی کے شاگرد ابن فارض کے چند اشعار صوفیانہ حلقوں میں بہت مشہور ہیں: لها صلاتي بالمقام أقيمها وأشهد أنها لي صلت كلانا مصل عابد ساجد إلى حقيقة الجمع في كل سجدة وما كان صلى سواي فلم نكن صلاتي لغيري في إذاء كل ركعة وما زلت إياها وإياي لم تزل ولا فرق بل ذاتي لذاتي أحبت ففي الصحو بعد المحو لم أك غيرها وذاتي بذاتي إذا تحلت تجلت جس مقام پر میں فائزہوں، اس پر فائز رہتے ہوئے یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس ّ[اللہ] کے لیے نماز پڑھی اور [نعوذ باللہ] اس نے میرے لیے۔ ہم دونوں ہی نماز پڑھنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، اور ہر سجدے میں ایک متحد حقیقت کو سجدہ کرنے والے ہیں۔اس نے میرے سوا نماز نہ پڑھی تو ہر رکعت کی ادائیگی میں میری نماز میرے علاوہ کسی کے لیے نہ تھی۔ میں وہ رہا، اور وہ میں رہا۔ کوئی فرق نہیں بلکہ میری ذات میری ہی ذات سے محبت کرتی ہے۔ فنا ہونے کے بعد ہوش میں آ کر بھی میں اس سے الگ نہیں اور میری ذات جب میری ہی ذات میں حلول کرتی ہے تو آشکار ہو جاتی ہے۔ حلول کے عقیدے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ مان لیا جائے کہ اس میں خدا حلول کر گیا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جانا چاہیے جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی ویسی ہی تعظیم کی جائے گی، اسے سجدے کیے جائیں گے، اس کے حکم پر بلا چون و چرا عمل کیا جائے گا، اس کے اشارہ ابرو پر جان بھی قربان کی جائے گی، مال و دولت کو اس کی نذر کیا جائے گا اور زندگی کا ہر معاملہ اس کے حکم کے مطابق چلایا جائے گا۔ اہل تشیع میں اسماعیلی حضرات کا یہ نقطہ نظر ہے کہ خدا ان کے امام میں حلول کر جاتا ہے، چنانچہ وہ اپنے ائمہ کے ساتھ یہی معاملہ کرتے تھے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بہت سے صوفیاء کا ہے جن کا بظاہر دعوی ہے کہ وہ حلول کے عقیدے کے قائل نہیں ہیں مگر وہ یہ سب معاملات اپنے پیرو مرشد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان واقعات کے لیے کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا مشاہدہ پنجاب یا سندھ کے کسی بھی آستانے کے بزرگ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
- پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر*
وحدت الوجود کے ضمن میں پابند شریعت صوفیاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس نظریے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ حضرات وحدت الوجود اور توحید کے متضاد نظریات کو ہم آہنگ (Reconcile) کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کے ہاں دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر وحدت الوجود کی ایسی تشریح کا ہے جو خلاف شریعت نہ ہو اور دوسرا نقطہ نظر "وحدت الشہود" کے ماننے والوں کا ہے۔ پہلے نقطہ نظر کے تحت وجود باری تعالی کو حقیقی اور مخلوقات کے وجود کو مجازی مان لیا جاتا ہے۔ اہل تصوف کا دوسرا گروہ "وحدت الشہود" کا قائل ہے۔ اسے وہ "وحدت الوجود" کا حقیقی مطلب قرار دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ ایک سالک کو اللہ تعالی کی عظمت کے مشاہدے میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کوئی مخلوق نظر ہی نہیں آتی۔ ایسے موقع پر اس کی زبان سے "لا موجود الا اللہ" قسم کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر شیخ احمد سرہندی (971-1034/1564-1624) نے پیش کیا اور اسے "وحدت الشہود" کا نام دیا۔ اس کے لیے وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ جب سورج نکل آئے تو ستارے نظر نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح سالک جب مشاہدہ الہی میں غرق ہو جاتا ہے تو پھر اسے مخلوق نظر نہیں آتی۔ صوفیاء کے ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حلول و اتحاد سے متعلق یہ عبارتیں صوفیاء کی کتب میں داخل کی گئی ہیں۔ شامی صوفی شیخ عبدالقادر عیسی (1919-1991) لکھتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ [حلول و اتحاد] کا یہ نظریہ صریح کفر ہے اور امت کے عقائد کے خلاف ہے۔ صوفیاء جو اسلام، ایمان اور احسان کے حصول کے لیے سرگرداں تھے اس گمراہی و کفر میں پڑنے والے نہ تھے۔ کسی انصاف پسند صاحب ایمان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ بغیر تحقیق و ثبوت کے اور ان کی بات کو سمجھے ان پر اس کفر کا الزام لگائے۔
- ناقدین تصوف کا نقطہ نظر*
ناقدین تصوف وحدت الوجود کے عقیدے پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور اسے توحید کا مخالف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس نظریے کو کسی بھی طریقے سے توحید سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عقیدہ "وحدت الوجود" کے باطل ہونے پر ناقد علماء و مفسرین کا اتفاق ہے اور متفقہ طور پر یہ عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہے، چونکہ یہ عقیدہ ایسے نظریات پر مشتمل ہے جو حقیقی عقیدہ توحید جو کہ دین اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے اسے ختم کر دیتا ہے، اس لئے علما اس عقیدہ کو ختم کرنے اور اس کے خلاف محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہیں اس نظریے کہ باطل ہونے کے دلائل قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم سے بے شمار تعداد میں ملتے ہیں، اللہ عزوجل فرماتا ہے:{ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءاً إِنَّ الإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ} ترجمہ :اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا، بلاشبہ انسان صریح کفر کا مرتکب ہے ۔ [الزخرف:15]ایک جگہ فرمایا:{ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ. سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ }ترجمہ: نیز ان لوگوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا ڈالی، حالانکہ جن خوب جانتے ہیں کہ وہ[مجرم کی حیثیت سے]پیش کئے جائیں گے ، اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۔[الصافات:159] ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ وحدت الوجود کا عقیدہ رکھے حالانکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، وہ کیسے قدیم اور ازلی خالق کو اور نو پید مخلوق کو ایک کہہ سکتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئاً}ترجمہ: پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا حالانکہ تم معدوم تھے [مریم :9] چنانچہ جو اس حقیقت کی مخالفت کرتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی حتمی اور فیصلہ کن نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔ صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کیے ہوئے ہے، ناقابل فہم ہے اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ ہے اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے، اگر امر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے اور مسجود کون؟مرنے والا کون اور مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون اور زندہ کرنے والا کون؟ روز جزا حساب لینے والا کون ہے اور دینے والا کون؟اور پھر جزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون؟ اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان کی تخلیق اور یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟ اگر اللہ تعالی کے ہاں یہ عقیدہ قابل ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟ مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟ وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا) یا اللہ تعالی کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا شرک ہے جس کا دین اسلام سے دور دور کا بهی واسطہ نہیں ہے-
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "یہ کہنا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالی کا وجود ہی ہے، یہ لادینیت کی انتہا ہے، مشاہدات، عقل اور شریعت سے اس عقیدے کی خرابی واضح ہے، اس قسم کی لا دینیت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفات کو ثابت کیا جائے اور اس کی مخلوقات سے مشابہت کی نفی کی جائے، یہی اللہ پر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کا دین اور طریقہ کار ہے ""درء تعارض العقل و النقل "(1/283)
مزید فرمایا:عقیدہ "وحدت الوجود "جس کے مطابق خالق اور مخلوق کا وجود ایک ہی ہے ، ابن عربی ،ابن سبعین ،تلمسانی اور ابن فارض وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس قول کا شرعی اور عقلی لحاظ سے باطل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے" "مجموع الفتاوی"(18/222) امام ابن تیمیہ وحدت الوجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ نت نئی چیزیں ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کے دور میں نہ تھیں۔ لہٰذا پیروان ابن عربی کے متعلق ایک جگہ پر فرمایا۔ ان لوگوں کے عقائد اس بنیاد پر قائم ہیں کہ تمام مخلوقات عالم جن میں شیطان، کافر، فاسق، کتا، سور وغیرہ خدا کا عین ہیں۔ یہ سب چیزیں مخلوق ہونے کے باوجود ذات خدا وندی سے متحد ہیں اور یہ کثرت جو نظر آرہی ہے فریب نظر ہے۔ (رسالہ حقیقۃ مذہب الاتحادین ، ص 160)اسی رسالے میں انہوں نے ابن عربی کا ایک شعر نقل کیا ہےالرب حق“ و العبد حق“یا لیتَ شعری مَن المکلف“جس کا ترجمہ ہے کہ رب بھی خدا ہے اور انسان بھی خدا ہے۔ کاش! مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اسی جیسے عقائد کی بنا پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ"ابن عربی کو کافر قرار دیتے ہیں مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں:بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جز سمجھنے لگتا ہےاس عقیدے کو وحدت الوجود کہاجاتاہے۔عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے،اور وہ دونوں(خدا اور انسان) ایک ہوجاتے ہیں،اس عقیدے کو وحدت الشھود یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے،عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہاجاتاہے۔ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہرزمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار بدھ مت کے عقیدہ نرواں اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔ (یہودی اسی فلسفہ حلول کے تحت عزیر کواور عیسائی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا(جزء)قرار دیا دیکھیں [سورۃ التوبۃ:30) اہل تصوف کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے لہ جات ملاحضہ ہوں۔ ( مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید، حدیث پبلیکیشنز،2شیش محل روڈ لاہور، ص: 70-71) مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: انسان چلہ کشی اور ریاضتوں کے ذریعہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں خدا نظر آنے لگتا ہے، بلکہ وہ ہر چیز کو خدا کی ذات کا حصہ سمجھنے لگتاہے، اس قدر مشترک کے لحاظ سے ایک بدکار انسان اور ایک بزرگ،ایک درخت اور ایک بچھو، لہلہاتے باغ اور ایک غلاظت کا ڈھیر سب برابر ہوتے ہیں،کیونکہ ان سب میں خدا موجود ہے۔ مولانا عبد الرحمن کیلانی، "۔دین طریقت کے نظریات وعقائد"، شریعت وطریقت، 1، مکتبۃ السلام۔سٹریٹ20 وسن پورہ لاہور، ص: 63-64) شیخ عبد الرحمن عبد الخالق لکھتے ہیں کہ:- اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے،یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے، یہ حلاج صوفی کا عقیدہ تھا۔ایک عقیدہ وحدت الوجود کا ہے یعنی خالق مخلوق جدا نہیں، یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا، اور آخر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہوگیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی ، ابن سبعین ، تلمسانی ، عبد الکریم جیلی ، عبد الغنی نابلسی ہیں۔ اور جدید طرق تصوف کے افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔ .. (شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں، مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان، ص: 27) ڈاکٹر ابوعدنان سہیل لکھتے ہیں:- عقیدۂ وحدت الوجود کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقیدۂ تثلیث ہی کی بدلی ہوی شکل ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ،روح القدس اور عیسی علیہ السلام ایک ہیں،اور گمراہ مسلمان کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ ہے۔ کم علم زاہدوں اور عبادت گزاروں نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر عابد اور معبود، خالق اور مخلوق اور حق اور باطل کے مطلب ہی کو سرے سے بدل دیا، ان کے نزدیک جو کچھ دکھائی دیتا ہے،وہ اللہ تعالی ہی کے مختلف مظاہر ہیں اور دنیا میں پائے جانے والے تمام ادیان ومذاہب رب تک پہنچنے کے مختلف بر حق راستے ہیں،۔ ایسے ہی ایک کم علم زاہد کا قول ہے: چونکہ ہر شئے میں اسی کا جلوہ ہے ، ساری کائنات اسی کی جلوہ گاہ ہے، ہر شئی سے وہی ظاہر ہو رہا ہے، اس لیے ہر انسان مظہرِ ذات الہی ہے اور اس کی صفات انسان میں جلوہ گر ہیں ۔ اگر ہندو میں اس کا جلوہ ہے تو مسلمان میں بھی وہی اللہ جلوہ گر ہے، اس لیے صوفی، جملہ انسانی افراد کو مظاہر ذات سمجھ کر سب سے یکساں محبت کرتاہے، اسی لیے مسجد کے علاوہ گرجے، صومعے اور مندر کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔(ڈاکٹر ابو عدنان سہیل، اسلام میں بدعت ع ضلالت کے محرکات) مزید تفصیلات کے لیے ان کتب کا مطالعہ کریں:تصوف کی حقیقت، مصنف پرویز شائع کردہ طلوع اسلام ٹرسٹ-اللہ موجود نہیں؟ تالیف؛ امیر حمزہ، شائع کردہ دار السلام-شریعت و طریقت،مصنف؛ مولانا عبدالرحمن کیلانی، مکتہ السلام-شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کویت ، مترجم:مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، اہل تصوف کی کارستانیاں- مولانا اقبال کیلانی، کتاب التوحید-شیخ محمد بن صالح عثیمین کتاب "القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسمائہ الحسنی- اللہ کہاں ہے؟مؤلّف؛عادل سهيل ظفر،وغیرہ- جاری ہے....
- اسلام اور تصوف*
(قسط نمبر 13)
وحدت الوجود (Pantheism) اورعقیدہ حلول سے متعلق دلائل
- مخالف شریعت صوفیاء کے دلائل*
مخالف شریعت صوفیاء چونکہ شریعت کو محض چھلکا قرار دے کر اپنے صوفیانہ اشغال کو مغز کا درجہ دیتے ہیں، اس وجہ سے وہ قرآن و سنت سے دلائل پیش نہیں کرتے۔ ان کی دلیل زیادہ سے زیادہ کچھ آیات کے باطنی مطالب ہوتے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے کشف اور الہام کی بنیاد پر اخذ کیے ہوتے ہیں یا پھر وہ اکابر صوفیاء کے کچھ اقوال کا سہارا لیتے ہیں۔ چونکہ ان صوفیاء کا کشف و الہام، باطنی مطالب اور سابق صوفیاء کے اقوال ناقدین تصوف کے لیے حجت نہیں ہیں، اس وجہ سے انہیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
- بعض صوفیاء کے دلائل*
بعض صوفیاء جو شریعت کی پابندی کی اہمیت دیتے ہیں، کچھ آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہیں جو کہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
- کلمہ طیبہ*
بعض صوفیاء کلمہ طیبہ ہی کو وحدت الوجود کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں: لا إِلَهَ إِلاَّ الله. اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہاں صوفیاء لفظ "الہ" سے مراد "موجود" لیتے ہیں۔ اس طرح ترجمہ یہ بنتا ہے کہ "اس کے سوا کوئی موجود نہیں۔" اسے صوفیاء اخص الخواص کی توحید قرار دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ عربی زبان میں کسی چیز کا وہی معنی مراد لیا جا سکتا ہے جو کہ اہل عرب کے ہاں نزول قرآن کے وقت رائج ہو۔ دور جاہلیت کے پورے لٹریچر کا مطالعہ کرتے چلے جائیے تو ان کے ہاں "الہ" کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا تھا جسے ہم اردو میں معبود، خدا، لائق پرستش وغیرہ سے ادا کرتے ہیں۔ کبھی بھی عربی زبان میں اس لفظ کو "موجود" کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اگر اس طرح سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو پھر کسی بھی لفظ کا کوئی بھی مطلب بیان کیا جا سکتا ہے۔ فرقہ باطنیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
- وجہ اللہ*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ. تم جہاں بھی رخ کرو، تو اللہ کے وجہ کو اسی جانب پاؤ گے۔ (البقرۃ 2:115) وہ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بھی رخ کیا جائے، وہی اللہ ہے۔ گویا کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں اللہ موجود ہے۔ ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ آیت کریمہ کے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات ہی بالکل مختلف ہے۔ یہاں اہل کتاب کے باہمی اختلافات زیر بحث ہیں اور ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر اختلافات کو کس طرح ہوا دیتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو تباہ کرتے ہیں، کبھی بیت المقدس کے مشرقی اور مغربی حصے کو قبلہ ٹھہرا کر اس پر مباحثہ کرتے ہیں اور کبھی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا مان لیتے ہیں۔ آیت کا پورا سیاق یہ ہے: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114) وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (115) وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَداً سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116). اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے اور انہیں برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے لیے تو صرف یہی مناسب تھا کہ وہ ان میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لیے ہے، تم جس جانب بھی رخ کرو، اللہ ہی کو پاؤ گے، یقیناً اللہ وسعت اور علم والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ اس سے پاک ہے، بلکہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، اسی کا ہے اور یہ سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ (البقرۃ )
- اول و آخر*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں: هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ. وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے۔ (الحدید 57:3) صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی اول، آخر، ظاہر، باطن سبھی کچھ ہے۔ یہ مخلوقات اللہ تعالی کے وجود ہی کا محض ایک اظہار ہے۔ اس کے جواب میں ناقدین تصوف کہتے ہیں کہ آیت کریمہ کے پورے سیاق و سباق کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں تو اس سے بالکل مختلف بات بیان ہو رہی ہے اور وہ یہ ہے: سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الأُمُورُ (5) ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اللہ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے۔ وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی حکومت اسی کی ہے، وہی زندہ کرتا اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی اول، آخر، ظاہر اور باطن ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دن میں کی، پھر عرش پر استوا فرمایا۔ جو کچھ زمین میں داخل اور اس سے خارج ہوتا ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا اور اس کی جانب چڑھتا ہے، وہ اسے جانتا ہے۔ تم جہاں جاؤ، وہ تمہارے ساتھ ہے اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ کی جانب ہی تمام امور لوٹائے جاتے ہیں۔ (الحدید) ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات کا خالی الذہن ہو کر مطالعہ کیا جائے تو یہ پکار پکار کر اللہ تعالی کی تخلیق، علم اور قدرت کو بیان کر رہی ہیں۔ اگر یہ کائنات اللہ تعالی کے وجود ہی کا ایک حصہ ہے تو پھر اسے تخلیق کرنے کا کیا مطلب؟
- کائنات کا نور*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ آیت بھی پیش کرتے ہیں: اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ. اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ (النور 24:35) صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا نور ہے۔ اس کے جواب میں ناقدین تصوف یہ کہتے ہیں کہ پوری آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک تمثیل بیان ہوئی ہے جس میں اللہ تعالی کی ہدایت کا نور زیر بحث ہے۔ اسی کے نور ہدایت سے آسمان و زمین درست راستے پر چلتے ہیں۔یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ پوری کائنات معاذ اللہ، اللہ تعالی کے نور کے میٹیریل سے بنی ہوئی ہے۔ اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ. اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق میں رکھے ہوئے چراغ کی سی ہے۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور فانوس ایسا ہو گویا کہ وہ موتی کی مانند چمکتا ہوا ستارہ ہو۔ وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی اور جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا جاتا ہو اگرچہ آگ اس کو نہ لگے۔ یہ نور پر نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ اللہ لوگوں کے لیے مثالوں کو بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النور 24:35)
- روح*
حلول کے قائل صوفیاء یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی روح انسان میں پھونکی، گویا انسان اللہ کی روح پر مبنی ایک وجود ہوا جو کہ وجود باری تعالی کا ایک حصہ ہے: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ. پھر جب میں نے اسے ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدہ میں گر جانا۔ (ص 38:72) ناقدین تصوف کا کہنا یہ ہے کہ روح پھونکنے سے مراد انسان میں زندگی پیدا کرنا ہے، معاذ اللہ اس کے اندر حلول کر جانا نہیں ہے۔ آیت کریمہ سے ہی واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالی انسان کو تخلیق کرنے کا ذکر فرما رہا ہے، نہ کہ اس میں حلول ہو جانے کا۔
- اللہ کی بندے سے محبت*
صوفیاء اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں: حدثني محمد بن عثمان بن كرامة: حدثنا خالد بن مخلد: حدثنا سليمان بن بلال: حدثني شريك بن عبد الله بن أبي نمر، عن عطاء، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن الله قال: من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب، وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه، وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه، فإذا أحببته: كنت سمعه الذي يسمع به، وبصره الذي يبصر به، ويده التي يبطش بها، ورجله التي يمشي بها، وإن سألني لأعطينَّه، ولئن استعاذني لأعيذنَّه، وما ترددت عن شيء أنا فاعله ترددي عن نفس المؤمن، يكره الموت وأنا أكره مساءته. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی فرماتا ہے: "جس نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرے قریب ہوتا ہے، ان میں کوئی عبادت میرے لیے اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کی قوت سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی قوت بصارت بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس ضرور عطا کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں جس کام کو کرنا چاہوں ، اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی جان کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو ناپسند کرتا ہے جبکہ مجھے بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، حدیث 6137) ناقدین تصوف اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ معاذ اللہ اللہ بندے کے اندر حلول کر جاتا ہے کیونکہ اسی حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ اللہ سے مانگا جائے اور اسی کی پناہ طلب کی جائے۔ ہاتھ ، پاؤں بننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت کے باعث اس شخص کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ معاذ اللہ، اللہ تعالی کی ذات اس شخص کے وجود میں حلول کر جاتی ہے۔ ناقدین تصوف کے دلائل اگلی قسط میں پڑهیں جاری ہے....