صارف:فرقان حمید/ریتخانہ

اسلام پسند اتاترک اس مضمون میں اتاترک کی زندگی کےمذہب کی جانب جھکاو کے بارے میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ پاکستانی قوم کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتی تھی یا پھر اتاترک کی زندگی کا یہ پہلو ان کی نظروں سے اوجھل تھا ۔ میرے اس کالم کے بعد بڑی تعداد میں ای میلز موصول ہوئیں جن میں زیادہ تر قارئین نے اتاترک کی زندگی کے اس پہلو سے بالکل بے خبر ہونے اور اتاترک کو آج تک وہ اینٹی اسلام شخصیت ہی سمجھے جانے سے آگاہ کیا ہے اور ان تمام قارئین نے اتاترک کے اس پہلو کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اپنے قارئین کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے آج کے اس کالم میں اتاترک کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گالیکن پہلے یہ بتاتا چلوں کہ اتاترک کی زندگی کے اس پہلو کو جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھا گیا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں نے اتاترک کی زندگی سے متعلق جو کتابیں بھی پڑھیں ہیں وہ زیادہ تر انگریز مصنفین کی تحریر کردہ کتابیں اور انگریز جنہوں نے زندگی میں پہلی اتاترک کے ہاتھوں شکست کھائی تھی ۔ اتاترک کی شخصیت کو جان بوجھ کر داغدار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انہوں نے اتاترک کے ہاتھوں اپنی شکست پر تو روشنی ڈال دی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اتاترک کے مذہبی پہلو کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا تاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بغاوت سے روکا جاسکے۔ انگریز یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اتاترک کو اپنے لیے بھی ایک نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو بہتری اسی میں ہے بغاوت کی اس آگ کو پھیلنے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ دوسری وجہ ہمارے رائٹرز کی جانب سے ترکی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے ترکی زبان میں اتاترک سے متعلق مواد تک رسائی حاصل نہ کرنا ہے۔ترک ہندوستان کے مسلمانوں کے ہمیشہ ہی دوست رہے ہین لیکن بدقسمتی سے دوستوں کی اس زبان کو کسی نے سیکھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اس طرح ہم اپنے دوستوں سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی بجائے انگریزوں کے ذریعے ہی رابطہ قائم کرنے میں مصروف رہے اور اس طرح ہم نے اتاترک سے متعلق اُردو زبان میں اسی مواد کو پیش کیا جسے انگریزوں نے ہم تک پہنچایا۔ حالانکہ اس دور کے مسلمانوں نے جس طرح جذبات میں بہہ کر اور اتاترک کی شان میں نظمیں لکھ کر اور گنگنا کر غازی مصطفےٰ کمال اتاترک اور ان کی فوجیوں کے لیے چندہ جمع کیا تھا( اس امداد کوترک باشندے آج بھی فراموش نہیں کرسکے ہیں ) اس کی دنیا بھر میں کوئی نظیرنہیں ملتی ہے۔

 پاکستان کے قیام کے طویل عرصے  بعد تک  لوگوں کے دلوں میں اتاترک  سے محبت  میں ذرہ بھر بھی کوئی کمی نہ دیکھی گئی  لیکن ضیاء الحق  کے اسلامی دور میں  جس طرح  ملک میں  فرقہ واریت کو ہوا دی گئی  اور انتہا پسندوں کو  نپنے  کا موقع دیا گیا اس دور ہی میں اتاترک کے سیکولر نظریات کو کافرانہ نظریات کے طور پر پیش کرتے ہوئے اتاترک کو بھی  کافر کہنے سے اجتناب نہ کیا گیا ( انہی حلقوں نے بانی پاکستان  قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی کافراعظم  جیسے القاب سے پکارنے میں   ذرہ بھر بھی عار محسوس نہ کی تھی )اتاترک اور  قائد اعظم  دونوں ہی  مسلمانوں کے لیے سیکولرازم کو مسلمانوں کے لیے سب سے مناسب  نظام تصور کرتے تھے اور اتاترک نے مسلمانوں ہی کی بہتری کے لیے اپنے ملک میں سیکولرازم کو متعارف کروایا تھا اور قائد اعظم اتاترک  کے متعارف کردہ اس نطام سے بڑے متاثر ہوئے تھے لیکن ہمارے مذہبی حلقوں نے  سیکولرازم  کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کردی تھی حالانکہ  سیکولرازم  کبھی کافرانہ نظام نہیں ہے بلکہ مذہبی حلقے جان بوجھ کر سیکولرازم کا ترجمہ لادین( جس کا کوئی دین نہ ہو)   کرتے ہوئے عوام کو ورغلاتے رہے ہیں جبکہ  سیکولرازم کی صحیح تعریف کچھ یوں ہے۔ "تمام مذاہب کے ساتھ رواداری ، غیر جانبداری اور ملکی نظم و نسق ،سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے ایک ہی فاصلے پر کھڑا ہونے اور کسی بھی مذہب اور فرقے کو کسی دیگر فرقے اور مذہب پر برتری  نہ دینے ، تمام مذاہب کے اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت دینے ہی کا نام سیکولرازم ہے۔" (اس سے قبل  راقم چوبیس اپرئل 2013ء،  یکم مئی 2013ء اور بائیس مئی 2013ء کو سیکولر ازم کے بارے میں تین عد کالم تحریر کرچکا  ہےجنگ آرکائیو  میں موجود ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے)

یہاں پر سیکولرازم کی تعریف پیش کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کہ سیکولرازم کوئی کافرانہ نظام نہیں ہے بلکہ اس نظام کاصحیح مقصد ملک میں فرقہ واریت کو ختم کرتے ہوئےاہم آہنگی سےملکی نظم و نسق چلانا ہے۔ اتاترک جنہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے دور میں اس وقت کے شیخ الاسلام کو انگریزوں کے ہاتھوں کھٹ پتلی بنتے ہوئے اور انگریزوں کی خواہشات کے عین مطابق فتوئے دیتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اسی وقت مستقبل میں شیخ الاسلام کو ملکی معاملات سے دور رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ اتاترک نے جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے فوراً بعد شیخ الاسلام کے عہدے کو ختم کرتے ہوئے اور ان کی طرف سے جاری کردہ تمام فتووں کو منسوخ کرتے ہوئے سیکولرازم کی بنیاد رکھ دی تھی۔انہوں نے سیکولرازم ہی کے زیر سایہ تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابلِ قبول قران کریم کا ترجمہ اور تفسیر محمد حامدی ایلمالیِلی کی قیادت میں عالمین کے وفد سے کروایا اورتمام فرقوں کے درمیان اس طریقے سے اختلافا ت کو دور کروانے میں کامیابی حاصل کی ۔ اتاترک نے مملکت کے اختیار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کے اقوال اور احادیث پر مبنی پوسٹ کارڈ تیار کروا کر تمام ترک باشندوں تک پہنچا کرمذہب اسلام سے اپنے لگاؤکا اظہار کردیا۔اتاترک کی مذہب ِ اسلام اور قران کریم سے محبت کا اندازہ ان کےان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ "قران کریم کی تلاوت سن کر طبعیت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے جسم میں نئی روح پھونک دی گئی ہو۔" اتاترک کوحضرت محمدﷺ سے اتنی گہری محبت تھی کہ 1926ء میں اُس وقت کی سعودی حکومت جس نے وہابی ازم اپنا رکھا تھا اس وہابی ازم کے تحت ملک بھر کے تمام مقبروں ،مزاروں اور درگاہوں وغیرہ کو مسمار کیا جانے لگا اور جب باری روضہ رسول کو مسمار کرنے کی آئی تو اتاترک اس وقت کے سعودی امیر کے سامنے ڈٹ گئے اور انہوں نے فوری طور پر سعودی امیر کو ٹیلی گرام روانہ کرتے ہوئے روضہ مبارک کو مسمار کرنے سے باز آنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں حجاز پر چڑھ دوڑنے کی دہمکی دے جس پر اُس وقت کے سعودی امیر نے فوری طور پر روضہ رسول کو مسمار نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا جس پر اتاترک نے سکھ کا سانس لیا اور حجاز پر حملے کے فیصلے کو واپس لے لیا۔یوں اتاترک نے تاریخ ساز اقدام اٹھا کر مسلمانوں کے دل جیت لیے۔( اتاترک کے اس ٹیلی گرام کی نقول ترکی کی قومی اسمبلی کی دستاویزات میں موجود ہے) حضرت محمد ﷺ سےاس قدر عقیدت ، احترام اور محبت کا اظہار بھلا اور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ہمیں اب اگر روضہ مبارک کی زیارت نصیب ہے تو یہ اتاترک ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اتاترک نے جب ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے انقلابات برپا کیے تو اس وقت ایک فرانسیسی اخباری نامہ نگار نےاپنے دورہ ترکی کے دوران اتاترک سے انٹرویو لیتے ہوئے جب اتاترک سے یہ سوال کیا کہ "آپ کے برپا کردہ انقلابات کیا مذہب کی نفی نہیں کرتے ہیں ؟" تو اتاترک نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا " نہیں ہر گز نہیں ، یہ انقلابات دراصل ترک عوام کو اسلام کی صحیح اور اصلی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کا موقع فراہم کریں گے اور ترک باشندے پہلے سے بہتر مسلمان بن کر نکلیں گےاور اس وقت وہ جن خرافات پر عمل درآمد کررہےان سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اسلام کے کس قدر سادہ مذہب ہونے سے آگاہی حاصل ہوگی۔"اتاترک نے محکمہ مذہبی امور قائم کرتے ہوئے ملک میں فرقہ واریت کو جڑ ہی سے اکھاڑ پھینکا تھا۔یہ ادارہ آج بھی ترکی میں تمام مذہبی امور، مساجد کے اماموں کی تعیناتی اور حج کے امور ادا کرتا ہے۔ اتاترک بلاشبہ انتہاپسندی اور ریڈیکل ازم کے سخت خلاف تھے ۔ اتاترک کواُس وقت اِن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جن حالات سے اِس وقت پاکستان گزرہا ہے۔ اس لیے پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اتاترک نے ملک میں انتہا پسندی کو ختم کرنے اور نام نہاد مولویوں کی گرفت کو ختم کرنےکے لیے ان سے چھٹکارہ حاصل کیا تھا۔اُس وقت بالکل پاکستان کی طرح سلطنتِ عثمانیہ پر بھی انتہا پسندوں نے اپنی گرفت قائم کرکھی تھی اور پھر یہی انتہا پسند ہی سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا بھی باعث بنا تھا ۔ اتاترک نے سات فروری 1923ء میں بالک ایسر کی پاشا جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے مذہب اسلام کو دنیا کا ایک مثالی مذہب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اسوہ حسنہ پر عمل درآمد کرنے کی نصحیت کی تھی۔اتاترک کا یہ خطبہ اتاترک کے مذہب کے معاملے میں کس قدراحساس ہونے کی بھی واضح عکاسی کرتا ہے۔اتاترک نے جمعہ کی نماز کے موقع پر خطبہ دے کرتاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام رقم کرلیا۔