فیصل یعقوب علی
ریختہ
’ہندوی ‘کے بعداردو کا دوسرامقبول نام ’ریختہ ‘ ہے۔ لغت میں ’ ریختہ ‘کے متعدد معنی ہیں مثلاََ بننا، ایجاد واختراع کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا اور موزوں کرنا، پریشان و گری پڑی چیز وغیرہ۔ آب حیات میں مولانا محمدحسین آزادلکھتے ہیں : ’’مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے جیسے دیوار کو اینٹ، مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ پختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری، پڑی پریشان چیز۔ ‘‘ لیکن شروعات میں ریختہ کا استعمال بالکل الگ معنی میں ہوایعنی مقامی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں جو اختراع وجود میں آئی اس کو’ ریختہ ‘کہا گیا۔ اسی لیے مختلف زبانوں اور بولیوں کے امتزاج کی بنا پر استعارۃََ اردو بھی ریختہ کہلائی۔ زبان کے لیے ’ ریختہ‘ شہنشاہ اکبر کے عہد میں غالباََ پہلی بار استعمال ہوا مگر یہ استعمال صرف شاعری تک محدود تھا۔ بولی جانی والی زبان یا نثری کاوشوں کے لیے ’ہندی‘ کا ہی استعمال ہوتا رہا۔ اس کی وجہ بھی غالباََ موسیقی تھی کیوں کہ بعض قدیم غزلوں میں فارسی اور ہندوی کا پر لطف امتزاج ملتا ہے۔ حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں : ’’ریختہ سے مراد اگرچہ ولی اور سراج کے ہاں نظم اردو ہے لیکن دہلویوں نے باالآخر اس کو زبان اردو کے معنی دے دیے اور یہ معنی قدرتاً پیدا ہو گئے اس لیے ان ایام میں اردو زبان کا تمام تر سرمایہ نظم ہی میں تھا۔ جب نثر پیدا ہو گئی تو یہی اصطلاح اس پر ناطق آگئی اس طرح ریختہ قدرتاً اردو زبان کا نام ہو گیا۔ ‘‘ یوں تو ’ریختہ‘ کی اصطلاح ایک خاص قسم کی شاعری کے لیے مستعمل تھا لیکن کچھ عرصہ بعد ریختہ کا لفظ تمام شاعری کے لیے مقبول ہو گیا۔ بیشتر قدیم شعرا نے شاعر ی یا اردو زبان کے لیے ریختہ کا لفظ استعمال کیا۔ چنانچہ شاہ حاتم، قائم، مرزا قتیل، میر تقی میر، سودا، مصحفی، سوزاور جرأت سے مرزا غالب کے وقت تک سبھی کے کلام میں یہ لفظ ملتا ہے اور سبھی نے اسے شاعری کا مترادف جانا۔
بقول غالب:
ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا