منتظربُٹّر (اصل نام اللہ دتہ ولد ناظر حسین قوم بُٹّر جٹ )اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے شاعر ہیں .اردو شاعری کی ایک کتاب چھپ چکی ہے ۔ جس کا نام "کوئی سپنا نہیں رکھنا" ہے ۔

((((موجودہ رہائش)))) 173 گ ب سنیاری تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد

  • خاندان کے بارے معلومات* ۔

منتظربُٹّر کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے بھارتی پنجاب کے ضلع گورداس پور کی تحصیل بٹالہ کے ایک موضع دیال گڑھ میں رہائش پذیر تھا ۔ منتظر بُٹّر کے دادا کا نام نواب بُٹّر تھا ۔ دیال گڑھ وہی گاؤں ہے جہاں محدث اعظم پاکستان مولانا سردار محمد احمد سیہول پید ہوئے ۔ تقسیم پاکستان کے بعد منتظر بُٹّر کا کنبہ فیصل آباد کے ایک قصبے ڈجکوٹ کے ایک گاؤں 271 ر ب میں سکونت اختیار کر گیا۔

نمونہء کلام : غزل ۱۔ میں سارے خواب بیچوں گا کوئ سپنا نہیں رکھنا اسے اپنا نہیں کہنا کوئی رشتہ نہیں رکھنا

جلا کر آگ ہاتھوں سےجلا ڈالوں گا ، خط سارے کوئ جھوٹا نہیں رکھنا،کوئی سچا نہیں رکھنا

کہاں تک میں نبھاؤں گا گا تنِ تنہا ،یہ سوچا ہے تعلق مر ہی جائے اب اسے زندہ نہیں رکھنا

کھلا اظہارِ نفرت اب کریں گے ، یہ ہوا ہے طے نہیں ناراض اب ہوناکوئی غصہ نہیں رکھنا

سفر میں ہم سفر ہوگا ، نہ کوئ راہبر اب کے کوئی منزل نہیں ہو گی کوئی رستہ نہیں رکھنا

         منتظربُٹّر

_______________________________

۲۔ اسے اتنی سہولت کون دیتا ہے محبت پر محبت کون دیتا ہے

تمہارے بارے میں اب پوچھتے ہیں لوگ بتا دوں کیا؟ اذیت کون دیتا ہے

فقیروں کو ملے گا بھوک میں کھانا فقیروں کو ریاست کون دیتا ہے

سدھرنے کی طلب ہونا ضروری ہے نہ مانگو تو ہدایت کون دیتا ہے

ضرورت پوری کرنے میں مدد دے گا مگر پوری ضرورت کون دیتا ہے

مجھے پھر یاد کرنے لگ گیا ہے وہ اسے اب اتنی فرصت کون دیتا ہے

_______________________

۳- غزل

اندھیرا ہو نہ جائے روشنی بڑھنے لگی ہے دیا ہونے لگی ہے تیرگی بڑھنے لگی ہے

ہوئے تم یار کیا میرے رہا نہ دوست کوئی کی تم سے دوستی کیا دشمنی بڑھنے لگی ہے

دعا تیری لگی ہے بد دعا کی طرح ہم کو اذیت بن گئی ہے زندگی بڑھنے لگی ہے

تجھےخوابوں میں لے جاتی ہیں ساتھ اپنے کہیں دُور مری آنکھوں کی اب آوارگی بڑھنے لگی ہے

اضافہ ہوتا ہے ہم نے سنا ہے وقت کے ساتھ مگر تیری محبت میں کمی بڑھنے لگی ہے

۴- غزل

وہ رکھ لے قید یا مجھ کو رہائی دے مگر پہلے وہ خود تک تو رسائی دے

تری آواز سے زندہ سماعت ہے تجھے سنتا رہوں تو سب سنائی دے

تری صورت میں مضمر میری بینائی تجھے دیکھوں تو مجھ کو سب دکھائی دے

حمایت میں تری خود بول اٹھتا ہے یہ میرا دل مجھے تیری صفائی دے

ہے تجھ سے فیض ملتا جب زمانے کو ترا بیمار تیری کیوں دہائی دے ________________________________

۵۔ غزل

نہیں گر ملنے دیتی چاہتیں  ہم کو 
جدا بھی کر سکی نہ رنجشیں ہم کو 

چلے آؤ کہ پھر مصروف ہوجائیں ابھی جب مل گئ ہیں فرصتیں ہم کو

وہ اجڑے ہیں کہ ہم میں ہے وہ تنہائ بسانے آئ ہیں خود رونقیں ہم کو

لگیں الزام کچھ تو بات بن جائے قریب ان کے کریں گی تہمتیں ہم کو

زمانہ الجھنوں سے بھاگتا ہے نا ! ادھر سلجھا رہی ہیں الجھنیں ہم کو

ہمارے درمیاں ہے ہجر ہی رشتہ کریں مضبوط اب تو سرحدیں ہم کو

نظر دہلیز پر ہے منتظر تیری نہیں سونے بھی دیتیں آہٹیں ہم کو

Muntazir Batalavi Buttar