جلی متن' مولانامحمدجہان یعقوب

تعلیمی اسنادمیں1982تاریخ پیدائش درج ہے۔اس سے دوتین سال پہلے کی پیدائش ہوگی،کیوں کہ گاؤں دیہات میں تاریخ پیدائش درج کرنے کا رواج نہیں ہے۔جب بچے کواسکول میں داخل کرتے ہیں تواندازے سے لکھوالیتے ہیں۔اسی کی دہائی میں برتھ سرٹیکفکیٹ کابھی رواج نہیں تھا۔1987میں اسکول کی کلاس اول ادنیٰ میں داخل کیاگیا۔اس وقت ضروری اردواورگنتی لکھناپڑھنااپنے والدبزرگوارسے سیکھ چکے تھے۔ان سے بڑے بھائی کھیل کودمیں مصروف ہوتے تھے اوریہ والدصاحب کے پاس بیٹھ کرتختی لکھاکرتے تھے۔خط اچھاتھا۔اس لیے اول ادنیٰ سے اول اعلیٰ یعنی کے جی ٹومیں ترقی دے دی گئی۔1988میں اٌنے بڑے بھائی کے ساتھ کراچی آئے تواسکولوں کی دوماہ کی گرمی کی تعطیلات ہوچکی تھیں۔یہ موقع غنمیت جان کرگھرپرپہلی ،دوسری کی کتابیں اٌنے بھائی،ماموں فرہادعالم اورکزن طارق عزیزسے پڑھناشروع کردیں،سب سے زیادہ اپنے ماموں فرہادعالم سے استفادہ کیا۔اگست میں اسکول کھل گئے توتیسری جماعت میں داخل کردیاگیا۔باقی مضامین میں توکوئی دقت نہیں تھی،لیکن سندھی کی کتاب سے بالکل اجنبیت تھی۔یہی وجہ تھی کہ سہ ماہی امتحان میں کلاس میں 10واں نمبرہونے کے باوجودسندھی میں رہ گئے۔اس کمی کودورکرنےکی کوشش کی،استانی نے بھی ہونہاربچے پرخاص توجہ دی اورشش ماہی امتحان میں ریسری پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعدسے میٹرک تک کبھی دوسری اورکبھی پہلی اورکبھی دوسری پوزیشن لیتے رہے،یہاں تک کہ 1996میں میٹرک اے پلس گریڈکے ساتھ پاس کیا۔1997میں جب مارکس شیٹ آگئی،توسائٹ کراچی کے علاقے میں واقع جامعہ بنوریہ عالمیہ میں داخلہ لے لیا۔

ذیل میں ایک کتاب میں شائع ہونے والاتعارف درج کیاجاتاہے جوحوصلہ رائٹرزویلفیئرایسوسی ایشن کے ظہیر ملک صاحب کودیاگیا:

تعارف: مولاناجہان یعقوب صاحب Molana Jahan Yaqoob

السلام علیکم! تعارفی سلسلے میں ہماری ملاقات ایک معروف ادیب سے ہے جنہوں نے اردو ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے.. بچوں کےبہت ادیب ہیں .کہانی کارہیں. مصنف ہیں. کالم نگار ہیں.اخبارکے ایڈیٹرہیں.مدرس ومفسرہیں اور امامت و خطابت کے منصب پربھی فائز ہیں... آپ کی پہلی تحریرروزامہ جنگ کے صفحہ "بچوں کاجنگ"میں جب شائع ہوئی توتیسری جماعت میں تھے.تب سے یہ تسلسل نہیں ٹوٹااوربچوں کے اخبارات ورسائل میں کہانیاں لکھتےرہے.جن میں ماہ نامہ ہمدردنونہال.ماہ نامہ ساتھی.ماہ نامہ معمارجہاں.ہفت روزہ اخبارجہاں.ہفت روزہ بچوں کاجنگ وغیرہ شامل ہیں. آپ نے اصلاحی مضامین لکھنے کاسلسلہ 1997ءمیں شروع کیاتھاجب کہ کالم نگاری 2011ءمیں شروع کی تھی۔الحمدللہ آپ نے تمام اصناف ادب میں لکھاہے۔یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے... ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناہے کہ یہ اندازہ لگانابہت مشکل ہے کہ کتنالکھا؟اورکہاں کہاں شائع ہوا۔پچاسیوں کہانیاں،سیکڑوں مضامین اورہزاروں کالم لکھ چکے ہیں ۔انٹرنیٹ پران کےکالموں اورمضامین کاکافی موادموجودہے۔ہماری ویب ڈاٹ کام نے آپ کی جو. ای بک ترتیب دی تھی اس میں آپ کی 200تحریریں شامل کی تھیں جب کہ یہ بھی دوسال قبل کی بات ہے.ان کی اکثرتحریریں دلیل ڈاٹ پی کے اورجسارت بلاگ پردیکھی جاسکتی ہیں. تو آئیے ملتے ہیں محترم سے اور جانتے ہیں ان کے بارے میں ان کی زبانی... بتاتے ہیں کہ آپ کا اصل نام محمدجہان ہے یہ نام آپ کے والد محترم نے رکھا تھا... قلمی نام کے بارے میں کہتے ہیں... میرااپنانام ہی قلمی نام ہے بس والدصاحب کی نسبت سے یعقوب کالاحقہ بڑھادیاہے۔تعلیمی اسنادمیں میرانام میاں محمدجہان صدیقی ہے.سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت کاحامل ہونےکی وجہ سے کبھی کبھی "نقشبندی"کی نسبت بھی لگاتاہوں. آپ 1982ءمیں گلگت بلتستان کے ضلع استورمیں واقع گاؤں ڈویاں میں پیدا ہوئے. والدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محترم کہتے ہیں میرے والدمحترم کانام محمدیعقوب ہے۔والدہ محترمہ کامیرے بچپن میں،جب ڈھائی تین برس کاتھا،انتقال ہوگیاتھا۔والدمحترم نے ہم بہن بھائیوں کو ماں کابھی پیاردیااورباپ کی شفقت بھی۔اللّٰہ ان کواپنی شان کے مطابق جزائے خیرعطافرمائے اوران کاسایہ تادیرسلامت رکھے۔والدہ کے نین نقش یادنہیں،مگریادبہت آتی ہیں۔ تحریری حوالے سے راہ نمائی وحوصلہ افزائی کرنے والے اپنے اساتذہ کے بارے میں محترم کہتے ہیں... چھٹی جماعت میں تھاتب ایک کہانی لکھ کراردواسلامیات کے استادعلامہ عبدالقادرسعیدی کودکھائی توانھوں نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔میٹرک میں اردوکے استادابوریحان غضنفرعلی خان بھی ادبی ذوق کے حامل تھے۔لکھنابچوں کے معروف رسالہ ہمدردنونہال اوربچوں کاجنگ کی تحریریں پڑھ کرسیکھا۔حکیم محمدسعیدؒ اورمسعوداحمدبرکاتیؒ کی حوصلہ افزائی نے آگے بڑھناسکھایا۔حکیم صاحب مرحوم کامعمول تھاکہ ہمدردنونہال میں جس بچے کی کوئی تحریرشائع ہوتی اس کی بذریعہ خط وانعامی کتاب حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے.برکاتی صاحب ہرردہونے والی تحریرواپس بھیج کرنہ صرف اس کے نقائص کی نشان دہی کرتے بلکہ.مزیدمحنت پرابھارتے تھے.اب ایسے لوگ کہاں! اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبالےکر اپنی تعلیم پیشے اور مشاغل کے بارے میں محترم کاکہنا ہے... میں نے میٹرک سائنس کے ساتھ کیاہے۔عالم دین ومفتی کاکورس کیاہے۔کمپیوٹراورصحافت کاڈپلوماکیاہے۔اس سال ایم فل لیڈنگ ٹوپی ایچ ڈی کامقالہ مکمل کیاہے۔مقالے کاعنوان تھا:دعوت نبویﷺاورمخالفت یہودونصاری:ماضی حال اورمستقبل کے آئینے میں.ایک مسجدمیں امام وخطیب ہوں۔بنوریہ ریسرچ سینٹرمیں بطورسینئرریسرچ اسکالرکام کررہاہوں۔جامعہ بنوریہ عالمیہ میں تفسیرکے شعبے کاانچارج ہوں۔ایک تفسیرکی تالیف سے منسلک ہوں۔ایک ہفت روزہ اخبار"اخبارالمدارس"تیارکرتاہوں.پاک وہندمیں مدارس دینیہ کایہ واحدومبفرداخبارہے.اس کی ویب سائٹ کے ویورزکی تعدادلاکھوں میں ہے. کوروناکی وبائی صورت حال نے فاصلاتی وآن لائن تعلیم کی ضرورت واہمیت کوبڑھادیاہے.اس تناظرمیں العربیہ اوپن یونی ورسٹی کے پینل آف ڈینزمیں شامل ہوکرصحافت کاایک سالہ پوسٹ گریجویٹ ڈپلوماکورس کرارہاہوں.قرآن پاک کی تفسیربھی آن لائن پڑھارہاہوں جس کی کوئی فیس نہیں ہے. اعلی کارکردگی پر ملنے والے ایوارڈز و اسناد کے بارے میں کہتے ہیں... تعلیمی میدان میں توہرسال ہی کتب بطورانعام ملتی رہیں۔ادبی وصحافتی خدمات پر2020ءمیں ملک گیرادبی تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن فارایجوکیشن (NAAFE)نے "ہمارافخرایوارڈ"سے نوازا۔کئی اداروں کی طرف سے اعزازی شیلڈزبھی ملتی رہیں۔ پسندیدہ موضوعات کے بارے میں محترم کہتے ہیں.... اخبارات ورسائل اورویب سائٹس پرمختلف دینی،اصلاحی،سیاسی موضوعات پرکالم ومضامین لکھتارہتاہوں۔جس موضوع پردل مطمئن ہواسی پرلکھتاہوں۔مقدارسے زیادہ معیارکوترجیح دیتاہوں۔تحدیث بالنعمۃ کے طورپراظہارکررہاہوں کہ ایساکوئی موضوع یادنہیں آرہاکہ جس پرلکھناچاہاہواورنہ لکھ پایاہوں۔ محترم اپنے دوستوں کے بارے میں کہتے ہیں... ہرشخص کی طرح عمرکے ہراسٹیج پردوست بنتے رہے۔شاگردوں کے ساتھ بھی دوستانہ رویہ رکھتاہوں کیونکہ اس سے افہام وتفہیم میں مددملتی ہے۔سخت گیراستادکافیض آسانی سے منتقل ہوتاہے اورنہ ہی پھیلتاہے۔اپنے بچوں کے ساتھ بھی دوستانہ رویہ رکھتاہوں۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کہتے ہیں... 2009ءمیں شادی ہوئی۔ازدواجی زندگی میں کھٹ پٹ سے گھبرانانہیں چاہیے۔یہ دلوں کامعاملہ ہوتاہے۔اس رشتے کواصولوں کاغلام بنانے والےلوگ ناکام رہتے ہیں۔ موجودہ مصروفیت اور مستقبل کے بارے میں محمد جہان یعقوب صاحب کہتے ہیں... امامت وخطابت۔تدریس۔تصنیف۔شعبہ تفسیرکی نگرانی۔اخبارکی ادارت.آن لائن خدمات. مستقبل میں اس سے بہترخدمات انجام دیناچاہتاہوں۔ ادبی تخلیقات کے بارے میں محترم کا کہنا ہے...پہلی تحریرجب شائع ہوئی توتیسری جماعت میں تھا۔بچوں کے اخبارات ورسائل میں کہانیاں لکھتارہا۔اصلاحی مضامین کاسلسلہ 1997ءمیں شروع کیاتھاجب کہ کالم نگاری 2011ءمیں شروع کی تھی۔الحمدللہ تمام اصناف ادب میں لکھاہے۔یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔یہ اندازہ لگانابہت مشکل ہے کہ کتنالکھا؟اورکہاں کہاں شائع ہوا۔پچاسیوں کہانیاں،سیکڑوں مضامین اورہزاروں کالم لکھ چکاہوں۔نیٹ پرکافی موادموجودہے۔ہماری ویب نے میری جو"ای بک" ترتیب دی اس میں 200تحریریں شامل کیں۔ درجنوں رسائل کے علاوہ میری دوکتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں.اس کے علاوہ دوسرے مصنفین کی کتب کی تصحیح وتبویب اورتدوین وترتیب کی خدمات بھی انجام دیتارہتاہوں. اپنی پسندیدہ کتب اور مصنفین کے بارے میں محترم کہتے ہیں...۔ہراچھی کتاب کامطالعہ کرتاہوں۔ہرادیب اورلکھاری کوپڑھتااورہرایک سے سیکھتاہوں۔ نئے لکھنے والوں کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں... لکھنے سے پہلےاس بات کاجائزہ لیں:کیوں لکھ رہےہیں؟ جولکھ رہے ہیں کیااس کاموادتشفی بخش موجودہے؟موادکے حصول کے لیے مطالعہ،مشاہدہ اورمکالمہ کوکام میں لائیں۔تحریرکوادبی واملائی اغلاط سے پاک کرنے کے لیے لغت کی کتب ہمیشہ ساتھ رکھیں۔لکھنے کے بعدکسی صاحب قلم کودکھائیں اوراپنی تحریرشائع ہوجانے کے بعداس کامطالعہ ضرورکریں. بطور ادیب آپ کو اپنی پہلی اشاعت میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں اس بارے میں کہتے ہیں... ابتداسے اس ذہن سے لکھاکہ اس تحریرکاشائع ہوناناگزیرنہیں۔معیاری ہوئی توچھپ جائے گی ورنہ ردہوجائے گی۔کبھی اپنی کسی تحریرکی اشاعت کے لیے کسی سے ذاتی رابطہ نہیں کیا۔جتناکچھ شائع ہوافقط معیارکی وجہ سے شائع ہوا۔ایک مدیرکے طورپراوروں کی تحریروں کی اشاعت کے لیے بھی معیارہی کوواحدوجہ ترجیح سجھتاہوں. پبلشرزاورمالکان کتب خانہ کے حوالے سے کہتے ہیں: تمام مصنفین کی طرح ان لوگوں کے ہاتھوں میں نے بھی متعددبارزخم کھائےاس لیے کئی کتب کے مسودے تیارہونے کے باوجوداشاعت کے لیے کسی پبلشرکونہیں دیے. "حوصلہ"کے بارے میں محترم کہتے ہیں... "حوصلہ"اچھاپلیٹ فارم ہے۔نئے لکھاریوں کے کئی پلیٹ فارمزہیں۔المیہ یہ ہے کہ مافیاٹائپ لوگ نئے لکھاریوں کوسکھانے کانعرہ تولگاتے ہیں مگراپناقداونچاکرکے سب وعدے بھول جاتے ہیں.ایسے میں "حوصلہ"جیسے پلیٹ فارم امیدکی کرن ہیں.خودمیں بھی ایسے ہرپلیٹ فارم کی تحسین کرتاہوں.رائٹرزورلڈاورمدارس میڈیاکی باقاعدہ سررستی کررہاہوں.اس کے علاوہ اسلامک رائٹرزموومنٹ پاسبان بزم قلم اوررائٹرزکلب سمیت تمام اروں کے ساتھ برادرانہ ومخلصانہ تعلق ہی نہیں تعاون بھی ہے. سب سے یہی کہوں گاکہ ہم سب کواپنےمقصدپرتوجہ دیتے ہوئے ذاتی تشہیرکے بجائے مقصدیت کواولیت دینی چاہیے۔