مولانا سید ایمان احمد
مختصر تعارف
مولانا سید ایمان احمد تقوی کا ہندوستان کے معروف علماء،مجتہدین کے گھرانے سے تعلق ہے، آپ محقق کے ساتھ وائیس اوور آرٹسٹ (Voiceover artist) ہیں سوشل میڈیا پر اپنی آواز کی خاطر پہچانے جاتے ہیں،
آپ سماجی کارکن (Social activities)، کونسلر، سوشل میڈیا پرسنالٹی, موٹیویشنل اسپیکر اور لائف کوچ بھی ہیں۔
راہ ناب آرگنائزیشن کے بانی و صدر ہیں جس کا آغاز ۲۰۱۲ میں کیا تھا، آج یہ آرگنائزیشن مقبول ہونے کے ساتھ ہر جگہ علمی و سماجی کاموں میں مشغول ہے۔
Maulana Syed Iman Ahmad سید ایمان احمد | |
---|---|
لقب | Maulana |
ذاتی | |
پیدائش | |
مذہب | Usuli Shia Islam |
قابل ذکر کام | Health,Education,Humanity |
شغل | Maulana, Voice Artist, Motivational Speaker |
مرتبہ | |
مقام | India, Qom |
پیشہ | Maulana, Voice Artist, Motivational Speaker |
پیدائش و آغاز تعلیم
ترمیملکھنؤ کے ایک مذہبی گھرانے میں ۲۵/دسمبر ۱۹۹۶ء میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے حاصل کرکے حوزہ علمیہ قم،ایران چلے گئے، مدرسہ المہدی (قم) مین ہندوستان پاکستان، کشمیری طلاب کے مسئول(union president) تھے، وہاں تمام طلاب کو متحد رکھنے کی بہترین کوششیں انجام دی۔
اس کے امام خمینی یونیورسٹی چلے گئے، تعلیم کے ساتھ ساتھ عرفانی و روحانی علماء عظیم سے بھی رابطہ میں رہے استفادہ کیا۔
سماجی خدمات
ترمیمراہ ناب آرگنائزیشن کے بانی و صدر ہیں جس کا مقصد تعلیم کو فروغ دینا، بیروزگاری کو ختم کرنا ہے، سماج میں کسی اہم چیز کی ضرورت محسوس ہونے پر یہ آرگنائزیشن تحریک چلاتی ہے،
ایمان احمد اپنی علمی دینی اور قومی خدمات سے پہچانے جاتے ہیں، ایران میں شدید کرونا وباء کی پہلی لہر آنے کے وقت وہ ایران میں خدمت خلق کرنے میں مصروف تھے سخت ترینحالات میں اپنی جان کی پروا کرے بغیر لوگوں کو ہسپتال لے جانا انکی مدد کرنے میں ہر قسم کی کوشش جاری رکھی،[1]
جب انکا ہندوستان جانے کے لیے خصوصی ٹکٹ ہو گیا تو واپس جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا جب تک اپنے تمام ہندوستانی بھائیوں ,زائرین و دوستوں کو ان کے ملک نہیں بھیج دیتے اس وقت تک ہم بھی واپس نہیں جائیں گے کیونکہ ہمارا ضمیر انھیں تنہا چھوڑ کر جانا گوارا نہیں کرتا، [2]
ساتھ ہی ایران میں مختلف ملکو سے آئے ہوئے لوگوں کو بھی انکے ملک واپس پہنچانے میں پوری مدد فراہم کی، جب خبریں میڈیا و اخبارات تک پہنچی تو انہیں مسیحا قم کہا جانے لگا۔ [3]
ہندوستان واپس آنے کے بعد انہیں وہاں بھی کرونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس وقت بھی انہوں نے اپنی جان کی پروا کرے بغیر ضرورت مندوں اور مریضوں کی آکسیجن سلنڈر، و دوائیوں سے لیکر ہر طرح کی سہولت پہچانے کا کام کیا۔ ان کی تمام خدمات کو دیکھتے ہوئے مختلف تنظیموں نے انہیں آوارڈ دینے کی پیشکش کی تو انہوں نے کسی بھی قسم کے آوارڈ کو اپنانے سے یہ کہتے ہوئے منا کردیا کے یہ تمام کام ہم فقط خدا کے لیے کرتے ہیں . [4]