کباڑی
ام الولد نے کباڑی چندا کہہ کر پکارا ہمیشہ، اور ابن المن نے کبڑیا پپو کہہ کر، آہستہ آہستہ بستی کے محلّوں میں نکلنا شروع کیا تو ابن المن کا دیا ہوا نام کبڑیا پپو کو مختصر کر کہ محض کبڑیا پکارا جانے لگا اور تمام یار دوست اسی نام سے آج بھی آوازیں لگاتے ہیں ماسوائے ام الولد کے جو آج بھی مجھے کباڑی چندا ہی پکارتی ہیں؛ مجھے بھی ان ہی کا پکارنا بھلا لگتا ہے ماں کے علاوہ کوئی اور مجھے چندا پکارے یہ میں برداشت نہیں کر پاتا اس لیے کباڑی چندا سے چندا نکال کر کباڑی نام اختیار کرلیا ہے۔
میں اکثر اپنی کباڑی کی دکان سے محلق چچا شبّن چائے والے کی دکان پر وقت زیادہ گذارتا ہوں؛ سبحانہ تعالٰی! کیا شان ہے اللہ کی کہ اس نے چچا شبّن کی چائے میں شراب کا سرور دیا ہے، چسکیاں لگاتے نہیں بنتی اور تمباکو کی لت کی طرح چچا شبّن کی چائے چھوڑے نہیں چھوٹتی!
جنت میں بھی اکل وشرب سے نہیں ہے نجات
دوزخ کا، بہشت میں بھی ہوگا دھندا
آپ حضرات یہاں مجھے اجازت دیں گے کہ میں مذکورہ بالا شعر میں اکل و شرب کا لفظ استعمال کر لوں؟ یا میرے اوپر پھر پابندی لگا دی جاوے گی؟ معلوم نہیں آپ مُتبحِّر العلوم حضرات کے مزاج کو کون سی بات بری لگ جاوے اور اس احقرالعلم کو پھر پابندی کے نیچے دبا دیا جاوے! کل بھی کسی منتظم نے پابندی لگائی تھی، آج تک سوچ ریا ہوں کہ آخر مجھ خادم کا جرم کیا تھا بھیا جی، جو پابندی ڈالی گئی تھی؟ کیا کباڑی ہونا جرم ہے؟ کیا کباڑی ہوتے ہوئے لکھنا جرم ہے؟ ویسے اس شعر میں اکل و شرب میں نے نہیں ایجاد کیا بلکہ آپ کے اسی دائرۃ المعارف پر خلوی اکل اور درون اکل کے الفاظ پائے جاتے ہیں؛ بلکہ اس دائرۃ المعارف کو رکھیے پرے! یہ شعر آج سے صدیوں قبل داغ نے کہا تھا اور مجھے یقین ہے کہ چچا شبّن کی چائے کی چسکیاں لگا کر ہی کہا ہوگا۔ ایک چسکی اس دنیاوی دوزخ سے جنت میں لے جاوے ہے چچا شبّن والی چائے کی! کباڑی۔