صوبہ ہزارہ کیوں ضروری ہے۔ تحریر: فرزندعلی شاہ

پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی ملک ہے جہاں مختلف قومیتیں، زبانیں اور ثقافتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ ان قومیتوں اور علاقوں کے حقوق کی منصفانہ تقسیم، ترقی، اور احساس محرومی کے خاتمے کے لیے نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔ انہی یونٹس میں سے ایک "صوبہ ہزارہ" ہے، جو نہ صرف ہزارہ کے عوام کے حقوق کی بحالی بلکہ ملک کی مجموعی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔

ہزارہ خطہ اپنی تاریخی، جغرافیائی اور معاشی اہمیت کے حوالے سے پاکستان کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ یہاں کے بے پناہ وسائل، بشمول معدنیات، جنگلات، اور سیاحت کے مواقع، خیبر پختونخوا کو ایک بڑی مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہزارہ کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہزارہ کے ریونیو کا 70 سے 80 فیصد باقی صوبے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ یہاں کے عوام کو صرف 5 سے 10 فیصد حصہ ملتا ہے، جو اکثر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور معمولی ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔

ہزارہ کے عوام ہمیشہ سے غیرت مند، محب وطن، اور قربانی دینے والے رہے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک، جس میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں کی کمی شامل ہے، نے احساس محرومی کو جنم دیا ہے۔ یہاں کے نوجوان، جو تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں، ملازمتوں اور ترقی کے مواقع سے محروم ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف علاقے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

آج صوبہ ہزارہ کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ نئے انتظامی یونٹس کی تشکیل نہ صرف ہزارہ بلکہ پورے ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہو گی۔ ہزارہ کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے گی۔ علاقائی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا۔

پورے ملک میں ہم آہنگی اور ترقی کا نیا باب شروع ہوگا۔

ہزارہ دلیروں اور بہادروں کی سرزمین ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو اپنی خودمختاری، عزت اور حقوق کے لیے ہمیشہ یکجا رہا ہے اور رہے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہزارہ کے عوام کی آواز کو سنا جائے اور ان کے مطالبے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ صوبہ ہزارہ کی تشکیل صرف ہزارہ کے عوام کا حق نہیں بلکہ یہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور ترقی کے سفر کو تیز کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔