یاسر علی باچہ
حضرت غازیِ آخوند سالاک بابا رح
اخون سالاک بابا کا اسم مبارک
اخون سالاک بابا رح صاحب آپ کا اسم مبارک تاریخ میں مختلف ہیں۔ محمد اکبر شاہ، عبدالاکبر شاہ، سید اکبر شاہ اور امان اللّٰہ آتے ہیں۔ کا تعلق دراصل ترکستان سے ہے اور اخون سباک ان کے بھائی ہیں۔ اسی طرح عقاب خٹک تذکرہ پیر سباک صفحہ 59 پر لکھتے ہیں پیر سباک (برادر اخون سالاک بابا) کے بزرگوں کا اصلی وطن بخارہ تھا۔ وہاں سے اٹھ کر خوست آئے اور مشکوہ کے قریب سکونت اختیار کی۔ ان میں بعض کوہاٹ چلے گئے اور بعض اکوڑہ خٹک کے قریب جا بسے لیکن بعض اصلی وطن خوست میں رہے۔
اخون سالاک کے اولاد کے پاس اخون سالاک کا شجرہ نسب محفوظ ہے جو تقریباً تین پشتوں کو احاطہ کرتی ہے۔ مذہبی تشخص اخون سالاک بابا امام ابوحنیفہ کے پیروکار تھے۔ لہذا اس بحث دو حصول میں تقسیم کرنا مناسب ہے۔ طریقت۔
اخون سالاک اور ان کے بھائی اخون سباک سید عبدالوہاب المعروف اخون پنجو بابا کے مرید تھے اور شیخ رحمکار کاکا صاحب کے ساتھ اچھے مراسم رکھتے تھے۔ اخون پنجو کے تصوفی مسلک کے بارے میں پروفیسر محمد اختر لکھتے ہیں کہ ”دونوں بھائی اخون سالاک بابا اور اخون سباک بابا حضرت مولانا شیخ عبدالوہاب المعروف اخون پنجو بابا کے مرید تھے۔“
شریعت
اخون سالاک بابا صاحب سیف کے ساتھ صاحب قلم بھی تھے، اپ قرآن و سنت اور فقہ حنفیہ کے جید عالم تصور کئے جاتے ہیں جیسا کہ محمد اختر صاحب اپنی کتاب تاجک دواتی کے صفحہ 53 پر لکھتے ہیں“ اخون سالاک ایک جیدہ عالم مصنف اور مورخ تھے۔“ اس بات کی تصدیق چراغ حسین اپنی کتاب ”تذکرہ پیر سباک“ کے صفحہ 71 پر لکھتے ہیں کہ اخون سالاک بابا مشہور عالم‘ غازی اور فقیر تھے۔ کئی کتابوں میں ان کا ذکر آیا۔ اس طرح خان روشن خان اپنی کتاب ”یوسفزئی قوم کی سرگزشت“ صفحہ نمبر59 پر لکھتے ہیں کہ اخون سالاک بابا ایک مشہور غازی‘ مجاہد اور صاحب تصانیف تھے۔ اپ کے تصانیف بحرالانساب، فتاویٰ عربیہ، غزویہ، اور مناقب آخون پنجو بابا مشہور ہیں۔ حضرت اسعماعیل شہید نے جب وادی پشاور میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو اکثر فیصلے اخون سالاک بابا کی کتاب فتاوہ عربیہ کے مطابق صادر کیا کرتے تھے۔ اختر صاحب اپنی اس کتاب کے صفحہ 50 پر لکھتے ہیں کہ آپ کی تصانیف میں (بہرالانساب) نامی کتاب نے کافی شہرت حاصل کی تھی۔ الغرض اخون سالاک بابا ایک غازی‘ علمی اور صوفی شخص تھے۔ اور وہ فقہ حنفیہ کے ایک جید عالم تھے۔
اخون سالاک بابا اخون درویزہ کے معتقد تھے اور فقہ حنفی کے پیروکار اور مبلغ تھے۔ مختصر یوں کہا جا سکتا ہے کہ اخون سالاک بابا ایک عالم فاضل شخص تھے۔ ان کا تعلق مغل بادشاہ شاہ جہان سے مخالفانہ نہیں تھا۔ ان کے تمام اساتذہ‘ مریدین اور دوست اخون درویزہ کے پروکار تھے۔ انہوں نے کبھی بھی سیاسی اختیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اپنی تمام تر توجہ غیر مسلموں کے خلاف جہاد اور مسلماں کی رہنمائی پر مرکوز رکھی۔ اخون سالاک بابا کا اصل نام سید اکبر شاہ ہے۔ جس کی دو حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ (الف) دستیاب کتابوں میں موصوف سید اکبر شاہ کے نام یاد کئے جاتے ہیں۔ (ب) اخون سالاک کی اولاد اخون خیل کے متعدد بزرگ کہتے ہیں کہ ان کے جد امجد یعنی اخون سالاک کا نام سید اکبر شاہ ہے۔ الغرض موجودہ شواہد اور روایات کی رو سے پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اخون سالاک بابا کا اصل نام سید اکبر شاہ ہے۔جس کی تصدیق دو حوالوں سے کی جا سکتی ہے۔ عقاب خٹک اپنی تصیف پیر سباک صفحہ 59 پر لکھتے ہیں مجملہ الانساب کا جو نسخہ ہے اس میں ایک جگہ پر پیر سباک وغیرہ کے ساتھ اکبر شاہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اخون سالاک کی اولاد موسوم بہ اخون خیل کے متعدد بزرگ کہتے ہیں کہ ان کے جد امجد یعنی اخون سالاک کا نام سیداکبر شاہ ہے الغرض موجود شواہد اور روایات کی رو سے پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اخون سالاک کا اصل نام سید اکبر شاہ ہے اخون سالاک کے نام کے ساتھ اخون کا صفتی نام ایک جزلازم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ پشتو میں اخون کے تلفظ سے لکھا اور بولا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پشتو میں جب لفظ کے آخر مین (ن) اور (و)ایک ساتھ ساکن حالات میں آتے ہیں تو آخری حرف یعنی ”و“ گرایا جاتا ہے جیسا کہ سیند‘ سین‘ فکر مند‘ فکر من‘ اور لوند‘ لون تلفظ کیا جاتا ہے اسی طرح اخوند بھی آخری حرف گرانے کی صورت میں اخون، کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اخون اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے۔
اخون سالاک کا زمانہ حیات
جیسا کہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ زندگی کی ابتدائی عمر میں یہ معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے کہ کوئی بندہ آگے چل کر ایک بڑی شخصیت کے طور پر ابھر سکتا ہے اس طرح عظیم شخصیات کی تاریخ پیدائش کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ہاں کچھ بڑی علمی شخصیات اپنی تحاریر میں اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں عموماً معلومات فراہم کرتی۔ شاہد اخون سالاک بابا نے بھی اپنی تاریخ پیدائش کی نشاندہی کی ہوگی۔ لیکن ان کی تصانیف کی عدم موجودگی کی وجہ سے میں ان تارخ پیدائش کا درست پر تعین کرنے سے قاصر ہوں البتہ اصول تحقیق کے مطابق کچھ دلائل و شواہد کی مدد سے قریب تر اندازہ کرنے کا امکانات رد نہیں کیا جا سکتے۔ یہی شواہد درجہ ذیل ہیں۔ (الف) اخون سالاک بابا کے خاندان میں یہ روایات چلیآ رہی ہے کہ اخون بابا تقریباً 80 سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ (ب) مختلف تاریخی تذکروں میں ان کی تاریخ وفات کا ذکر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تاجک سواتی”مملکت گبر کے صفحہ نمبر50 پر محمد اختر ان کی تاریخ وفات 1067ء بمطابق 1658ء اسی طرح اثر افغانی اپنی تصفیف روحانی تڑون کے صفحہ 504ء پر اخون سالاک بابا کی تاریخ وفات 1667ء متعین کرتے ہیں۔ (ج) اخون سالاک کے مرشد اخون پنجو بابا کی تاریخ پیدائش 1040 ہجری یعنی 1618ء ہے چونکہ اخون پنجو بابا اخون سالاک بابا سے عمر میں بڑے تھے اس لئے اخون پنجو کی وفات 1040 ہجری یعنی 1639ء کے بعد اخون سالاک بابا کی وفات قرین قیاس ہے یہ بات اس لئے یقینی ہے کہ اخون سالاک بابا کی تاریخ وفات 1658 ء محفوظ کی گئی ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اخون سالاک بابا لگ بھگ 1578ء میں پیدا ہوئے اور 1658ء میں اس دار فانی کو الوداع کہتے ہوئے رخصت ہو گئے۔ اخون سالاک بابا نے اپنی جہادی سرگرمیوں کو منظم طور پر ترتیب دینے کے لئے موضع کابل گرام ضلع سوات جو اس وقت کا ضلع شانگلہ کو جہادی حکمت عملی کے نقطہ نظر سے مناسب قرار دیتے ہوئے وہاں سکونت اختیار کی یہی کابل گرام جو موجودہ ضلع سوات میں ہے نے وہاں سکونت اختیار کی۔ ایک بیوی کی اولاد جس کے تین بیٹے اس کے ساتھ سوات میں رہائش پذیر ہو گئے اور ایک بیٹا اخون اولیاء شانگلہ میں سکونت اختیار کی اور یہاں جہادی سرگرمیوں کی نگرانی ان کے ذمے تھے۔ اس کے تین بیٹے تھے ایک نے کالا ڈھاکہ موجودہ ضلع تورغر میں سکونت اختیار کی۔ایک بیٹا اخون صبا نے وادی کونش میں رہائش اختیار کی اور یہاں پر جہادی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے تھے۔ جبکہ اس کی دوسری بیوی کی اولاد جو کہ اخون سالاک بابا کا خلوت خانہ جہاں پر وہ چلے کاٹا کرتے تھے گاؤں کوریا تحصیل مندنڑبونیر اور خبر پختونخواہ کے دیگر حصوں میں آباد ہے اور ساتھ ان کی وہ ذاتی رہائش گاہ بھی ابھی تک موجود ہے۔ اور اس طرح اخون سباک بابا کی اولاد بھی اسی علاقہ میں آباد ہے۔ اخون سالاک بابا نے ڈوما غیر مسلموں کے خلاف مسلح جدوجہد کا ارادہ کیا تو اسے اپنا آبائی گاؤں گاؤں چھوڑنا پڑا اور فتوحات کرتے کرتے کابل گرام جو اس وقت کابل گرام ضلع سوات پہنچے اس کے بعد ضلع شانگلہ پر مستقل ہیڈکوارٹر قائم کرکے وہاں سکونت اختیار کی آپ کی ایک بیوی کے بیٹے بھی آپ کے ساتھ کابل گرام آگئے اور جہادی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ ۔جہادی مہمات ختم ہونے کے بعد بہاکو خان کی سربراہی میں ایک عظیم جرگہ منعقد ہوا جس میں مفتوحہ علاقہ جات یوسفزئی قبائل کے مختلف ذیلی شاخوں میں تقسیم کئے گئے ان مفتوحہ علاقہ جات میں اخون سالاک بابا کو بھی حصہ دیا گیا۔ جن میں سوات کا علاقہ کابل گرام اور دیگر علاقے۔ شانگلہ‘ کالا ڈھاکہ۔ وادی کونش کے علاقے گاؤں کھکھو‘ ہروڑی پائیں‘ ہروڑی بالا‘ ملوکڑہ اور اس کا علاقے میں آباد ہیں۔ جن میں سے گاؤں کھکھو‘ ہروڑی بالا‘ ہروڑی پائیں۔ شنگریٹہ‘ ڈنہ‘ گلی‘ باٹی‘ نروٹی‘ میرا جو کہ وادی کونش میں واقع ہے یہاں پر اخون سالاک بابا کی اولاد آباد ہے۔ اسی طرح اخون سالاک بابا کو تھاکوٹ اور مانسہرہ وغیرہ کے مفتوحہ علاقہ جات میں بھی حصہ دیا گیا۔ جو اس نے دیگر لوگوں میں یہ زمین تقسیم کی جس میں دربند کے علاقہ جات ‘ سوسل کے علاقہ جات حتٰی کہ ضلع مانسہرہ کے بہت سے علاقہ جات شامل ہیں خون سالاک بابا نے اپنے بیٹوں کو مذکورہ علاقہ میں جائیداد میں حصہ دیکر بھیج دیا تاکہ وہ اپنی جائیداد کی نگرانی کریں۔ اخون سالاک بابا کی وفات کے بعد عبدالرحمان بابا نے کابل گرام میں بہاکو خان کی ریاستی حدود میں قابل توسیع واقع ہوئی اور عام یوسفزئی اور نڑقبائل لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک بن گئے۔
اخون سالاک بابا کی زمین جو کہ اس نے اپنے بیٹوں حصہ دیا یہ اتنی زیادہ تھی کہ ان سے سنبھالنا مشکل ہو گیا لہذا اس کا یہ نتیجہ نکالا گیا نے عام لوگوں میں ”اوگے“ (اوڈی) کے حساب سے عام لوگوں میں حصہ مقرر کیا۔ ان اوگے (اوڈیوں) سے جو آمدن حاصل ہوتی وہ جہادی اخراجات کی تیاریوں میں خرچ کرتے تھے‘ یہ روایت ابھی تک زندہ تھی جو کہ تقریباً دس سال پہلے ختم ہو چکی ہے۔
تاریخ کے متعدد کتابوں نے اخون سالاک کی تصانیف کا ذکر کیا ہے جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں اگرچہ یہ کتابیں زمانے کے ہاتھوں ضائع ہو چکی ہیں لیکن ان کے عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب انتہائی اہم موضوعات پر لکھے گئے تھے۔ ان کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے روشن خان ”یوسفزئی قوم کی سرگزشت صفحہ 59 پر لکھتے ہیں“ ان کی تصانیف میں فتاویٰ عربیہ‘ بحرالانساب‘ غزویہ اور مناقب زیادہ مشہور تھیں۔ یقیناً مختلف موضوعات پر اخون سالاک بابا کی طبع آزمائی ان کے علمی تجربہ کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کی کتابوں کی اسناد کا یہ عالم تھا کہ محمد اختر تاریخ تاجک کے صفحہ 53 پر یوں لکھنے پر مجبور ہوئے کہ ”حضرت اسماعیل شہید نے وادی پشاور میں ریاست کی بنیاد رکھی تو فہ فیصلے فتاویٰ عربیہ کے مطابق کیا کرتے تھے۔ ان تصانیف کے علاوہ بھی اخون سالاک بابا کی کئی دیگر تصانیف بھی خالق ہیں جو انہوں نے عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ پشتو میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ جیسا کہ ہیواومل لکھتے ہیں کہ اخون سالاک ایک مصنف تھے‘ فارسی‘ عربی زبانوں میں بھی ان کی تصانیف موجود ہیں۔ تذکرہ پیر سباک میں ان کی تین تالیفات بتائی ہیں۔ فتاوہ عربیہ بحرالنساب‘غزویہ اور مناقب اخون پنجو‘ پشاور عجائب گھر میں موجود ہیں۔ جس میں نماز‘ وضو دیگردینی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اخون سالاک کی کرامات
انبیاء‘ اولیاء کرام‘ مجاہدین و مصلحین کے سامنے سب سے بڑا اور واحد مقصد دین حق کا بول بالا کرنا‘ اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنا‘ روئے زمین پر عدل و انصاف کی فضاء فراہم کرنا اور اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہوتا ہے۔ یہ حضرات چونکہ اللہ تعالٰی کے چنے ہوئے خوش قسمت بندے ہوتے ہیں ان کو اگر ایک طرف علم و حکمت‘ فراست و دانائی اور دوسری متعلقہ خصوصیات سے نوازا جاتا ہے تو دوسری طرف ان کی سچائی ثابت کرنے اور لوگوں کو ان پر اعتماد بڑھانے کے لئے باطنی عنایات عطا کی جاتی ہیں۔ یہ باطنی عنایات اگر انبیاء سے مسنلک ہوں تو معجزات کہلاتی ہیں اور اگر شریعت کے زیور سے مزین اولیاء کرام سے منسلک ہوں تو کرامات کہلائی جاتی ہیں۔
اخون سالاک بابا چونکہ ایک جید عالم دین‘ شریعت محمدی کے پابند‘ دین اسلام کے مبلغ اور کفر و الہاد کے مخالف شخصیت تھی۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے انہیں نہ صرف جنگجو اور نڈر یوسفزئیوں‘ قدیم سواتیوں اور تنولیوں کی معاونت سے بہرہ مند فرمایا بلکہ باطنی تائید و مدد سے بھی سرفراز فرمایا۔ اخون سالاک اور ان کے بہادر ساتھیوں کی ہمت و حوصلہ برھانے کے لئے اللہ تعالٰی نے اخون سالاک بابا کے ہاتھوں کچھ ایسے کارنامے سرانجام دیئے جو ان کی کرامات ہو سکتے ہیں۔ یقیناً ان کی کرامات کی فہرست بہت لمبی ہے۔ جن کو لوگوں نے سینہ بہ سینہ‘ نسل در نسل منتقل کرکے ہمیں پہنچا دی۔ یا جو تاریخ کی کچھ کتابوں نے نے محفوظ کی ہوئی ہیں۔ ،ئئئئ********