صارف:ABDULKARIMDOST/ریتخانہ
یہ صفحہ ABDULKARIMDOST کا تختہ مشق ہے۔ صفحہ تختہ مشق صفحہ صارف کا ایک جز ہوتا ہے، اور دائرۃ المعارف میں تحریری تجربہ کے لیے انتہائی مناسب جگہ ہے؛ یہاں صارفین ہر قسم کے تجربات آزادی سے کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ دائرۃ المعارف کا کوئی مضمون نہیں ہے۔ اپنے مخصوص تختہ مشق کی تخلیق کے لیے یہاں کلک کریں۔ دیگر تختہ ہائے مشق: عمومی تختہ مشق | تختہ مشق برائے سانچہ | اسکرپٹ کا تختہ مشق |
سید عبدالکریم دوست
سیّد عبدالکریم دوست 1995 ء میں بالگتر کیکور کے گاؤں سید آباد میں سیّؔد دوست اور بی بی پری کے گھر میں پیدا ہوئے ۔عبدالکریم دوست سیّد نصیر احمد مرحوم کے بھتیجے ہیں ۔پانچ جماعت تک سیّد آباد پرائمری اسکو ل میں تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد دسویں جماعت تک بالگتر ہائی سکو ل میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انٹر کے لیے عطاشاد ڈگری کالج تربت میں داخلہ لیا اور 2012 میں ایف ، اے کرلیا ۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتا ن میں منتقل ہوئے ۔جہاں چار سالہ بی ایس پروگرام شعبہ علوم اسلامیہ میں داخلہ لیا اور 2018 میں دوسری پوزیشن لے کر رخصت ہوئے ۔ اس وقت وہ شعبہ علوم اسلامیہ بلوچستان میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔
سیّد عبدالکریم دوست بچپن سے ہی دینی علوم ، ادب ، معاشرتی علوم میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ اسی طرح تاریخی علوم میں بھی شغف رکھتے ہیں بچپن سے ہی وہ سیّد نصیر احمد کے ہاں تربیت میں رہے لیکن بچپن ہی میں نصیر احمد مرحوم کا سایہ چھن گیا اس کے بعد اپنے نانی کے پاس قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی ۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق دامنگیر تھا اس لیے بچپن ہی سے سید نصیر احمد کے لائیبریری سے خواب استفادہ کیا ۔ اس کے بعد وہ تربت میں مقیم رہے جہاں عطا شاد ڈگری کالج تربت میں اچھے اساتذہ کی زیر تربت رہے ۔ بعد میں جب وہ ملتان منتقل ہوئے تو بڑے بڑے اہل علم سے استفادہ کیا ۔
سیّد عبدالکریم کی علمی خواہشوں کی بات کیجائے تو وہ ایک نامور کالم نگار ہیں مختلف اخبارات میں آپ کے علمی مضامین چھپتے رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ ایک کتاب بنام " پیغام امن " کے مصنف ہے جس میں اسلام بحیثیت ایک اصولی دین کانظریہ نہایت احسن انداز میں پیش کیا گیا ہے اس کتاب میں مصنف نے اسلام ایک عالمگیر دین کے ضمن میں آنے والے رکاوٹوں کا جواب نہایت علمی انداز میں دیا ہے۔ اسی طرح ذکری مذہب اور ان کے نظریات کے بار ے میں انہوں نے اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ کوئی شخص اگر ان کی ذاتی زندگی سے ناواقف ہوکر اس کتاب کا مطالعہ کرے تو وہ بمشکل یہ ماننے پر آمادہ ہوگا ،کہ یہ تحریر 22 سالہ عبدالکریم دوست کی ہے جس میں ان کی علمی پختگی کو دیکھ کر یقیناً یہ ماننا مشکل ہے کہ اس عمر میں انسان ذہنی پختگی کی اس حد تک پہنچ سکتی ہے ۔اس کے علاوہ وہ قدیم ذکری لٹریچیر پر کام کرنے میں مصروف عمل ہے سید نصیر احمد کی کتاب تفسیر ذکر وحدت کی اشاعت دوئم کی ذمہ داری کا فریضہ موصوف نے ادا کیا ۔ اس کے علاوہ سید نصیر احمد کی دوسری کتاب سماع ذکریت کی نظرثانی سمیت اشاعت کی تمام ذمہ داریوں کو انجام دیا جو ایک بہترین کتاب ہے جس سے اہل علم نے خواب استفادہ کیا ۔ حال ہی میں ایک اور کتاب " بنام ذکر وفکر کی اساس " کی تدوین کی ،اور حال پاکستان مسلم ذکری انجمن کے دوستوں کے تعاون سے اس کی اشاعت کی ۔ جو مارکیٹ میں موجود ہے اس کے علاوہ ان کی گرانقدر علمی خدمات میں قلمی نسخہ " دیوان حبیب اللہ " کی کتابت ہے جو فارسی اور بلوچی اشعار پر مشتمل ذکری بزرگ رہنما سیّد حبیب کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب کی کتابت کا کام مکمل ہے اور امید ہے کہ جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔
اس کے علاوہ ایک رسالہ " شمع بصیر ت "کے ایڈیٹر ہیں جس میں علمی مضامین شائع کیےجاتے ہیں اس میں اگر چہ دیگر اہل علم کے مضامین چھپتے ہیں لیکن اس رسالے کا حُسن ایڈیٹر کے خود اپنی تحریر ہیں نہایت علمی انداز میں عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ اپنی بات کو واضح کرتے ہیں کہ قارئین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔
اس کے علاوہ معاشی ، معاشرتی ، مذہبی ، سیاسی موضوعات پر اخبارات میں ان کے مضامین پڑھنے کے قابل ہیں بلا کسی تعصب کے اپنی بات کو بیان کرتے ہیں اور کسی طبقے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کا بیان ہر جگہ ان کے پیش نظر ہے مسائل کا گہراادراک رکھتے ہیں اور نہایت احسن انداز میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ادب و تاریخ سے بھی وابستہ ہیں تاریخ موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن ادب کے شعبہ میں ان کا دلچسپی زیادہ تر شاعری کی طرف ہے وہ نہ صرف شاعری کا مطالعہ شوق کے ساتھ کرتے ہیں بلکہ خود بھی شعر کہتے ہیں ان کے اس شعر نے مجھے بہت متاثر کیا ۔
جو تمہارے قید میں آیا میرا نہیں رہا ۔
یہ دل اب تمہارا ہے سنبھال لیجیے۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں
یادوں کے پرستش کے قائل ہی نہیں ہم
کب تمہیں بھولے ہیں کہ کبھی یاد کریں۔
سیّد عبدالکریم میں سب سے اہم ایک خوبی جو میں نے محسوس کیا وہ یہ ہے کہ مذہب سے متعلق ہر قسم کے سوالات کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے ہیں عقائد پر سوال اٹھانا ہے تو اٹھایئے ۔ خدا پر بات کرنا ہے تو کیجیے ۔ پیغمبر پر علمی سوالات اٹھانے ہیں تو اٹھایئے ۔ نہایت ادب کے ساتھ اپنی بات کہہ دیتا ہے اور آپ بھلے اسے جذبات میں لانے کی کوشش کریں لیکن وہ ہنستے مسکراتے لہجے میں اپنی بات کہہ دیتا ہے یہاں تک کہ اگر آپ ان کے سامنے ان کی ذات پر حملہ کیجئے تو ہنستے مسکراتے جواب دیے دیتا ہے لیکن کبھی بھی گستاخی سے کام نہیں لیتے۔ ۔ بعض اوقات محفل میں لوگوں نے ان کو برا بھلا کہا ہے اُن کے ساتھی اس موقع پر جذبات میں آتے تھے لیکن اس طرح کے موقعوں پر بھی وہ نہ صرف خود اخلاقی دائرے میں رہتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جدید ذہن اور وقتی تقاضوں کو دیکھتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں آپ کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ میں افلاطون کے زمانے میں رہ ر ہا ہوں بلکہ آپ کے ارد گرد ماحول و حالات کا ادراک رکھتے ہیں اور مثالوں سے اپنی بات کو واضح کرتے ہیں ۔
ذاتی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہایت نیک اور صاحب ورع شخص ہے نہ صرف مذہبی علوم سے دلچپسی رکھنے والے لوگ ان سے متاثر ہیں بلکہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں جس محفل میں بیٹھتے ہیں آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ہمارے نوجوان اس وقت سائنسی جنون میں مبتلا ہے اور مذہب کو ہچ سمجھتے ہیں لیکن میں نے ایسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو موصوف کے ساتھ ر ہے ہوں اور مذہب سے نالاں ہوں ۔ ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے دائرہ کار میں نوجوان جو مذہب سے باغی تھے مطمئن کیا اور اب وہ مذہب کی طرف میلان اور رجحان رکھتے ہیں ۔ غرضیکہ کہ وہ اس وقت عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہیں لیکن علمی پختگی کے حوالے سے بہت بڑے ہیں وہ دراصل ہمارا قومی اثاثہ ہے نہ صرف ذکری مکتبہ فکر کا ،بلکہ تمام بلوچوں کا قومی اثاثہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ذکری مکتب فکر میں اسے دینی امور کا نگران مقرر کیا جائے تو یقیناً ہم اس پستی سے نکلنے میں کامیاب ہوجائینگے ۔ اور مجھےیقین ہے یہ کارنامہ صرف عبدالکریم دوست ہی سر انجام دے سکتے ہیں ۔[www.zikri-info.com 1]