زین العابدین (عربی میں: زين العابدين) خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں مقامی زبان میں نام (P1559) ویکی ڈیٹا پر معلومات شخصیت پیدائش 4 جنوری 659 خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں تاریخ پیدائش (P569) ویکی ڈیٹا پر کوفہ خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں مقام پیدائش (P19) ویکی ڈیٹا پر وفات 20 اکتوبر 713 (54 سال) خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں تاریخ وفات (P570) ویکی ڈیٹا پر مدینہ منورہ خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں مقام وفات (P20) ویکی ڈیٹا پر وجۂ وفات زہر خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں وجۂ وفات (P509) ویکی ڈیٹا پر مدفن جنت البقیع خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں مقام دفن (P119) ویکی ڈیٹا پر شہریت Umayyad Flag.svg خلافت امویہ خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں شہریت (P27) ویکی ڈیٹا پر مذہب اسلام زوجہ فاطمہ بنت حسن خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں شریک حیات (P26) ویکی ڈیٹا پر اولاد محمد باقر، وزید بن علی خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں اولاد (P40) ویکی ڈیٹا پر والد حسین ابن علی خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں والد (P22) ویکی ڈیٹا پر والدہ شہر بانو خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں والدہ (P25) ویکی ڈیٹا پر بہن/بھائی فاطمہ صغریٰ، ورقیہ بنت حسین، وسکینہ بنت حسین، وعلی اصغر، وعلی اکبر خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں بہن/بھائی (P3373) ویکی ڈیٹا پر عملی زندگی استاد حسین ابن علی خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں استاد (P1066) ویکی ڈیٹا پر قابل ذکر طلبا محمد باقر خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں شاگرد (P802) ویکی ڈیٹا پر پیشہ الٰہیات دان خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں پیشہ (P106) ویکی ڈیٹا پر پیشہ ورانہ زبان عربی[1] خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں زبانیں (P1412) ویکی ڈیٹا پر کارہائے نمایاں دمشق میں زین العابدین کا خطبہ خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں کارہائے نمایاں (P800) ویکی ڈیٹا پر عسکری خدمات لڑائیاں اور جنگیں واقعہ کربلا خاصیت کی حیثیت میں تبدیلی کریں لڑائی (P607) ویکی ڈیٹا پر ترمیم سانچہ دستاویز دیکھیے

جنت البقیع کا تاریخی مقبرہ جہاں زین العابدین مدفون تھے، سنہ 1925ء میں مسمار کر دیا۔ علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 659ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والون کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، چچا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری شیعیت میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچد دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔[6]

نام ونسب ترميم زین العابدین کے لقب سے معروف کی نسبت خاندان نبوت کی طرف ہے، یہ علی بن ابی طالب کے صاحبزادے سیدنا حسین کے بیٹے ہیں، علی بن حسین ان کا نام ہے، قرشی اور ہاشمی ہیں، ابوالحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن، ابو محمد اور ابو عبد اللہ بھی کہا جاتا ہے۔[7] سیدنا امام حسین پنے والدِ ماجدعلی سے اظہارِ عقیدت کے لیے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے زین العابدین کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد ،ابوالحسن، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔[8]

ولادت با سعادت ترميم

علی ابن حسین کی ولادت علامہ ذہبی نے [9]میں یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن [10] میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی نے بھی [11] یعقوب بن سفیان سے سن ولادت33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔

والدہ کا نام ترميم علی بن حسین کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے، جو اس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں، سیدنا عمر فاروق کے زمانہٴ خلافت میں ایران فتح ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھی۔،[12] ابن سعد نے اس کا نام ” غزالہ“ نقل کیا ہے [13] بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبد الملک کی پھوپی تھی۔[14] آپ کی والدہ کا نام شہر بانو تھا جو ایران کے بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھیں جو نوشیروان عادل کا پوتا تھا۔

علی اوسط کا نام ترميم ان کو علی اوسط کہا جاتا ہے، ان کے دوسرے بھائی جوان سے عمر میں بڑے تھے، ان کو علی اکبر کہا جاتا تھا، جو معرکہٴ کربلا میں اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔[15]علی اوسط یعنی علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة اللہ علیہ بھی اپنے والد گرامی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ معرکہٴ کربلا میں شریک تھے۔[16]

کربلا میں بچ جانے کی وجہ ترميم اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو، شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان اللہ! کیا تم ایسے جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمروبن سعد بن ابی وقاص آیا او ر کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی اوسط سے کوئی تعرض نہ کرے، اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا اورعزت کے ساتھ ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا۔[17]

زین العابدین اورحضرات خلفائے راشدین ترميم ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس روضہ میں حاصل ہے ایسا ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی تھا۔[18] محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمر کا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿لِلْفُقَرَاء الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُون﴾َ ․ (الحشر:8) اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ․(الحشر:9) اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں اللہ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․(الحشر:10)، پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ، اللہ تمھارا گھر قریب نہ کرے،تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے ہو جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔[19] جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے لگا مجھے ابوبکر وعمر کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انہیں”صدیق“ کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کر دے! مجھ سے بہتر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمہاجرین وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، اللہ اس کی بات کو سچا نہ کرے، جاؤ! ابوبکر وعمر سے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری گردن پر ہے۔[20]یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! حضرت عثمان کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔[21]

تحصیل علم اور علمی مقام ترميم زین العابدین نے کبار صحابہٴ کرام وتابعین عظام سے کسب فیض کیا، آپ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ، اپنے والد حضرت حسین، اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس اور ابو رافع، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ، مروان بن حکم، ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبید اللہ بن ابی رافع وغیرہ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔[22] ابن عساکرمیں ہے کہ نافع بن جبیر نے علی بن حسین سے کہا: آپ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے جواباً فرمایا: میں ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے ۔[23] ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم کے لیے ) بیٹھا کرتے تھے، ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو چھوڑ بنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔[24] ابو نعیم نے حلیہ میں عبد الرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان میں سے ہوتے ہوئے زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے، نافع بن جبیر نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لیے آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔[25] ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسین او رسلیمان بن یاسر کو منبر اور روضہ شریف کے درمیان میں چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے دیکھا، جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو عبد اللہ بن ابی سلمہ قرآن پاک کی کوئی سورت تلاوت کرتے، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔[26] علی بن حسین سے بہت سارے تابعین عظام نے فیض حاصل کیا ہے، آپ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں ان کے چار بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین، زید بن علی بن حسین، عبد اللہ بن علی بن حسین، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبید اللہ بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔[27] آپ سفید رنگ کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب لٹکا دیتے تھے۔[28]

زہد و تقوی ترميم

علی بن حسین بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہا وعابدین میں سے تھے اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں ” سید العابدین“ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا، ان کی اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ” زین العابدین“ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا۔[29] امام مالک نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی بن حسین کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“ کہا جاتا تھا۔[30]امام زہری علی بن حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے۔[31]ابو نعیم نے ” حلیہ “میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق تھے۔[32] ابن عیینہ نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے۔ امام مالک نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں؛ حالانکہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے۔[33] زین العابدین جب نماز کے لیے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ جاتا اور وضو واقامت کے درمیان میں ان کے بدن پر ایک کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی تھی، کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی اللہ تعالیٰ سے )۔[34] کسی نے سعید بن مسیب سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پ رہی ز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پ رہی ز گار نہیں پایا۔[35]طاؤس کہتے ہیں میں نے علی بن حسین کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ فرما رہے تھے :”عَبِیْدُکَ بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ بِفِنَائِکَ“طاوس کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو اللہ تعالیٰ نے میری مشکل کو آسان فرما دیا۔[36] ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول اللہ کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔[37] جعفر صادق کہتے ہیں کہ میرے والد ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ میں نے آپ کی طرح کسی کو اللہ کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک اللہ کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو چاہیں عذاب دیں گے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے۔[38] آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔۔[39] نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھا۔[40] علامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔[41]

انفاق فی سبیل اللہ ترميم زین العابدین بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے، حجاج بن ارطاة نے جعفر صادق سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا تھا۔[42] ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، [43] شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔[44] محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا، [45]جریر بن عبد الحمید نے عمروبن ثابت سے نقل کیا ہے کہ جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔[46]علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ میں ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔[47]

شادی اور اولاد ترميم

آپ کی شادی 57ھ میں آپ کے چچا حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے حضرت امام محمد باقر اور حضرت زید شہید مشہور ہیں۔

جلالت شان ترميم زین العابدین اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے تھے، لوگ ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے، کہ ہشام بن عبد الملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے گئے، بیت اللہ شریف کے طواف کے دوران میں حجر اسود کا استیلام کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اژدھام کی وجہ سے نہیں کر پائے۔ اتنے میں حضرت علی بن حسین تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان میں (پیشانی پر) سجدے کا نشان تھا، طواف شروع کیا او رجب حجر اسود کے قریب پہنچے تو لوگ ان کی ہیبت اور جلالت شان کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا، ہشام کو یہ بات اچھی نہیں لگی، اہل شام میں سے کسی نے کہا یہ کون ہے کہ جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟ ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں، کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟ مشہور شاعر فرزدق قریب ہی کھڑا تھا، اس نے کہا میں انھیں جانتا ہوں۔ اس پر اس شامی نے کہا اے ابو فراس! یہ کون ہیں؟ اس وقت فرزدق نے زین العابدین کی تعریف میں بہت سارے اشعار کہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔ هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ البَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ … وَالبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ هَذَا ابْنُ فَاطِمَةٍ إِنْ كُنْتَ جَاهِلَهُ … بِجَدِّهِ أَنْبِيَاءُ اللهِ قَدْ خُتِمُوا ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے کو بطحاء، بیت اللہ، حل اور حرم بھی جانتے ہیں، یہ حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں، اگرچہ تم تجاہل سے کام لے رہے ہو، انھیں کے دادا ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ انبیا کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔ ہشام بن عبد الملک کو غصہ آیا اس نے فرزدق کو قید کرنے کا حکم دیا، ان کو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ” عسفان“ نامی جگہ میں مقید کر دیا گیا، حضرت علی بن حسین کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس 12 ہزار دینار بھیجے او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی بھجوادیتے، فرزدق نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند!میں نے جو کہا اللہ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کہا ہے او رمیں اس پر کچھ کمانا نہیں چاہتا، حضرت زین العابدین نے یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ تمہارے اوپر جو میرا حق ہے، اس کا واسطہ ہے کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک اللہ تیرے دل کے حال او رنیت کو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے قبول کر لیا۔[48]

اقوال وخطبات ترميم

زین العابدین کے چندبیش بہا اقوال:

جسم اگر بیمار نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے جسم میں جو مست ومگن ہو۔[49] دوستوں کا نہ ہونا پردیسی ( اجنبیت) ہے۔[50] جو اللہ کے دیے ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی ہو گا۔[31] جو باتیں معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں، علم تو وہ ہے جو معروف ہو اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔[51] لوگوں میں سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے والی نہ سمجھے۔[51] کوئی کسی کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو، قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس کے علم میں نہیں [52] جن دو شخصوں کا ملاپ اللہ کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی بھی اسی پر ہو۔[52] اے بیٹے!مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے پسند نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے والے فائدے سے ۔[53] اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتے ہیں۔[54] آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ 'اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔ جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پر ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے۔۔ ۔' ۔ دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:

۔۔۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔۔ ۔۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔۔۔۔ ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔۔ ۔[55][56][57][58]

یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تو یزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں۔ اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین نے فرمایا کہ 'پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا'۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔[55] اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔

وصال ترميم

خانوادئہ نبوت کے اس چشم وچراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے ،،99,95, 94,93,92 اور100 ہجری کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔[59]

حوالہ جات ترميم

http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12282535z — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ ↑ The Complite Edition of the Treatise on Rights۔ Qum: Ansariyan Publications۔ 2001۔ صفحہ 16۔ ↑ Imam Ali ubnal Husain 2009، صفحات۔ 7–10 ↑ Sharif al-Qarashi 2000، صفحہ۔ 450 ↑ M. M. Dungersi Ph.D. (دسمبر 1, 2013)۔ A Brief Biography of Ali Bin Hussein (as)۔ CreateSpace Independent Publishing Platform۔ آئی ایس بی این 1-4943-2869-0۔ ↑ [2][3][4][5] ↑ (تہذیب الکمال في أسماء الرجال:جلد20صفحہ382،الناشر: مؤسسہ الرسالہ بيروت،سیر اعلام النبلا :جلد4 صفحہ386الناشر: مؤسسہ الرسالہ بيروت،حلیۃ الاولیا:133/3،تذکرة الحفاظ:74/1،تہذیب التہذیب:304/7،الثقات:159/5،الجرح والتعدیل:229/6،التاریخ الکبیر:266/6،تاریخ الاسلام:180/3،الکاشف:37/2) ↑ شرحِ شجرہ قادِریہ رضویہ عطّاریہ ناشر مکتبۃ المد ینہ باب المدینہ کراچی صفحہ52 ↑ تاریخ اسلام،181/3 ↑ سیر اَعلام النبلا،386/4 ↑ تہذیب الکمال ،402/20 ↑ سیر اَعلام النبلا:386/4،تہذیب الکمال:383/20 ↑ طبقات،211/5 ↑ سیراعلام النبلا:399/4 ↑ تاریخ الاسلام:181/3،الطبقات الکبری:211/5 ↑ معرکۂ کربلا میں شرکت ↑ الطبقات:212,211/5،تاریخ الاسلام:181/3،سیر اعلام النبلا:387,386/4 ↑ تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلا:395/4 ↑ حلیۃ الاولیاء:137,136/3،تہذیب الکمال:395,394/20،سیر اعلام النبلا:395/4 ↑ تہذیب الکمال: 394,393/20،سیر اعلام النبلا:395/4 ↑ الطبقات: 216/5،سیر اعلام النبلا:397/4 ↑ تہذیب الکمال:383/20،سیر اعلام النبلا:387/4ِِِِِِِِِِِ،تہذیب التہذیب:304/7،المراسیل:139 ↑ تاریخ ابن عساکر ،17/12ب ↑ طبقات،216/5 ↑ حلیۃ الاولیاء،138,137/3 ↑ طبقات،217,216/5 ↑ تہذیب الکمال: 384,383/20، سیر اَعلام النبلا:387/4،تہذیب التہذیب:304/7 ↑ الطبقات:218/5 ↑ الثقات:160,159/5 ↑ تہذیب الکمال:390/20،سیر اعلام النبلا:392/4،تہذیب التہذیب:306/7 ^ ا ب حلیۃ الاولیاء:135/3 ↑ حلیۃ الاولیاء:133/3 ↑ تہذیب الکمال: 386/20، سیر اَعلام النبلا:389/4 ↑ الطبقات:216/5،تہذیب الکمال:390/20،سیر اَعلام النبلا:392/4 ↑ حلیۃ الاولیاء:141/3،تہذیب الکمال: 389/20 ↑ تہذیب الکمال:391/20،سیر اَعلام النبلا:393/4 ↑ تاریخ ابن عساکر:19/12 ب، تہذیب الکمال: 390,389/20، سیر اعلام النبلا:392,391/4 ↑ تاریخ ابن عساکر: 20/12، سیراَعلام النبلا:392/4،تہذیب الکمال:391/20 ↑ مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی صفحہ 262 ↑ اعلام الوریٰ صفحہ 153 ↑ مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی ↑ حلیۃ الاولیاء:140/3، الطبقات: 219/5، تہذیب التہذیب:306/7 ↑ حلیۃ الاولیاء:136,135/3،تہذیب الکمال:396/20،سیر اعلام النبلا: 393/4 ↑ الطبقات:222/5،حلیۃالاولیاء:136/3،تہذیب الکمال:392/20 ↑ تاریخ ابن عساکر:21/12أ،حلیہ الاولیاء: 136/3، تہذیب الکمال :392/20،سیر اعلام النبلا:393/4 ↑ تاریخ ابن عساکر:21/12،حلیۃ الاولیاء:136/3، سیر اعلام النبلا:393/4،تہذیب الکمال:392/20 ↑ تاریخ ابن عساکر: 12/21ب، تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلا:394/4 ↑ سیر اَعلام النبلا: 399/4، تہذیب الکمال:402/20 ↑ حلیۃ الاولیاء:134/3،سیر اعلام النبلا:396/4 ↑ حلیۃ الاولیاء:134/3 ^ ا ب تہذیب الکمال:398/20،سیر اعلام النبلا:391/4 ^ ا ب تہذیب الکمال:398/20 ↑ تہذیب الکمال:399/20،حلیۃالاولیاء:138/3 ↑ حلیۃ الاولیاء :140/3، الطبقات: 219/5،تہذیب الکمال:391/20 ^ ا ب مقتل ابی مخنف صفحہ 135۔ 136 ↑ بحار الانوار جلد 10 ↑ ریاض القدس جلد 2 صفحہ 328 ↑ روضۃ الاحباب ↑ تہذیب الکمال: 404,403/20،سیر اعلام النبلا:400/4،الثقات:160/5،تہذیب التہذیب:307/7، تاریخ الاسلام:184/3،الطبقات:221/5،الکاشف:37/2